پان کلچر فیشن اور عذاب
خاص طور پر جب عید کے دن آتے تھے تو بچے بھی میٹھے پان کا استعمال کرنے لگے۔
آزادی کے بعد جب ہمارے مسلمان دوست انڈیا سے پاکستان آئے تو ان میں سے کافی تعداد میں لاڑکانہ شہر میں بھی آباد ہوئے۔ لاڑکانہ میں دڑی محلہ ایک ایسا تھا جہاں پر ہندوستان سے آنے والے اردو بولنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی۔ ہم لوگ جب اس محلے میں آئے تو اس وقت میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔
ظاہر ہے محلے میں رہنے سے اردو بولنے والوں سے کافی محبت اور دوستی رہی، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا۔ اردو بولنے والوں کے گھر میں اکثر پان کھانے والے افراد ہوتے تھے۔ وہ لوگ زیادہ تر بازار سے پان خرید کر لاتے تھے، پھر اسے گیلے کپڑے میں رکھا جاتا تھا، جس کے لیے ان کے پاس ایک پاندان ہوتا تھا جس میں دوسری چیزوں کے ساتھ کتھا، چونا، سپاری، سروتا پڑے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ جو لوگ تمباکو استعمال کرتے تھے وہ بھی ڈبیا میں یا پھر پاندان کے اندر پڑا رہتا تھا۔ اس وقت آنے والے مہمانوں کو کھانے کے ساتھ پان ضرور کھلایا جاتا تھا کیونکہ یہ ایک کلچر تھا۔ پھر مہمانوں کو پان دینے کا انداز بھی بڑا اچھا اور مختصر سا ہوتا تھا جس سے لگتا تھا کہ اس مہمان نواز میں کتنا خلوص، پیار اور ادب شامل ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہر گھر میں اگلدان بھی ہوتا تھا اور پان کھانے کے بعد اس کا تھوک واش روم، دیوار یا پھر گلی میں نہیں پھینکی جاتی تھی بلکہ اگلدان استعمال کیا جاتا تھا۔
اب پان کھانے کا یہ انداز دیکھ کر شہر میں رہنے والی سندھی آبادی کو یہ بڑا اچھا لگا کہ شادی کی تقریب ہو یا پھر مشاعرہ ہو، کوئی اور ذاتی پروگرام ہو، اس میں پان پیش کیا جاتا تھا۔ نئے پان کھانے والوں کی دلچسپی کے لیے اس مں میٹھے انداز کی اشیا کا استعمال ہوتا تھا۔ جس میں گلقند، چھوٹی الائچی، دانتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اس میں لونگ کا بھی استعمال ہوتا تھا اس کے علاوہ اور کئی چیزیں ڈالی جاتی تھیں جس سے کڑواہٹ میٹھے پن میں تبدیل ہوجاتی تھی۔ اب دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے ہر چوک پر اور سینما گھروں کے باہر پان کی دکانیں کھلنا شروع ہوگئیں۔
خاص طور پر جب عید کے دن آتے تھے تو بچے بھی میٹھے پان کا استعمال کرنے لگے۔ اب جب کبھی گاؤں سے لوگ شہر آتے تھے تو ان کو بھی میٹھا پان کھلایا جاتا۔ یہ اچھی بات تھی کہ سینما گھروں میں، پارکوں میں اور دوسری پبلک والی جگہوں پر اگلدان رکھے گئے جس میں پان کھاکر اس کی پیک اس میں پھینکی جاتی تھی۔
وقت گزرتا گیا اور پان کھانا ایک فیشن بن گیا، اس دوران جب دوسری نسل بڑی ہوئی تو ان میں سادہ پان کھانے کی عادت شروع کردی، چلتے چلتے پھر اس میں تمباکو استعمال کرنے لگے جس سے انھیں نشہ ہوتا تھا اور وہ انجوائے کرتے تھے۔ اس دور میں جب زیادہ لوگ پان کھانے لگے تو یہ فیشن تو ضرور ہوگیا مگر اس کے ادب و آداب ختم ہوگئے، پان کھانے والے جہاں چاہے رستہ ہو، گھر یا کسی عمارت کی دیوار ہو چلتی بس ہو پان کی پیک پھینک دیتے ہیں جس سے کافی بدمزگی ہوتی ہے، خوبصورت دیواریں پان کی پیک سے گندی ہوجاتیں، اس کے علاوہ دفتر میں جاتے ہوئے اس کی سیڑھیوں کو پان کی پیک سے رنگین بنادیتے ہیں۔ جب لوگ پان کھاتے ہیں تو یوں لگتاہے جیسے کوئی بھینس چارہ کھارہی ہو۔
پان کھانے والے دفتر میں ملازم ہوں یا پھر ریڑھی پر کوئی چیز بیچنے والے یا پھر رکشہ چلاتے ہوں جب آپ ان سے بات کرو تو وہ پانچ منٹ میں بات کرتے ہیں کیونکہ جب وہ ڈسٹ بن میں یا پھر واش روم میں جاکر تھوک پھینک آئیں گے پھر بات کا جواب دیں گے، مگر ان میں تو بہت سارے ایسے ہیں کہ وہ پان کی پیک منہ میں رکھ کر بات کرتے ہیں جس کے لفظ آپ سمجھ نہیں پائیں گے، یہ ایک اب مصیبت ہوگئی ہے۔ جو پان کھانے والے لوگ زیادہ چونا استعمال کرتے ہیں اس کے ساتھ تمباکو کے چار چار نمونے ڈال کر پان کھاتے ہیں اور اس کی پیک منہ میں رکھے رہتے ہیں، ان سے ان کے منہ میں گندی بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جب کسی سے بات کرتے ہیں تو سامنے والے دل میں نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اس کے علاوہ کئی لوگوں کو اس سے کینسر ہوگیا ہے اور ان کے دانت میں بھی درد رہتا ہے۔ ایک آدمی جس کو میں جانتا تھا وہ بھی ایسا کیا کرتا تھا، اسے بھی منہ کا کینسر ہوگیا تھا اور وہ اﷲ کو پیارا ہوگیا۔ اب تو بات پان سے بڑھ کر گٹکے تک پہنچی ہے جس سے کینسر تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق گٹکے کے عادی چھوٹے بچے زیادہ ہیں کیونکہ پان کی قیمت زیادہ ہے اسی لیے وہ گٹکے کا استعمال کرتے ہیں۔
آپ کو یاد ہوگا کہ 1970 کی جنگ کے بعد پان کا پتہ پاکستان میں آنا بند ہوگیا تھا اور لوگ پالک کے پتے کا پان بناکر کھاتے تھے۔ پان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ دراصل سندھ کے شہر ٹھٹھہ سے باقی شہروں میں چل پڑا تھا۔ ٹھٹھہ میں ہر آدمی پان کھاتا ہے جس میں عورتیں، مرد اور بچے بھی شامل ہیں ان لوگوں کا رنگ پہلے ہی کالا ہے اور پھر پان سے منہ اور دانت رنگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اور غربت چھلکتی نظر آتی ہے، پان کی پیداوار ٹھٹھہ اور کراچی میں کافی ہونے لگی تھی مگر پتہ نہیں کیوں کم ہوگئی ہے، لگتاہے اس میں کوئی خاص منافع نہیں ہے یا پھر یہاں پیدا ہونے والے پان کا میعار بہتر نہیں ہے۔ آپ کئی لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ اچھے کپڑے پہنے ہوئے مگر جب پان کھاتے نظر آتے ہیں تو ان کی شخصیت ایک دم گری ہوئی لگتی ہے کیونکہ پان کھانے سے بولنے کا انداز بدل جاتاہے جس سے نہیں لگتا کہ وہ پڑھا لکھا ہے۔ ہاں پان کھانے والوں میں سب سے زیادہ شاعروں کو جچتاہے کیونکہ اب بھی ان کا پان کھانے، کھلانے اور سجانے کا انداز پہلے جیسا منفرد اور شائستہ ہے۔
ایک پرانے پان بیچنے والے کا کہنا تھا کہ پان تو گٹکے سے کئی گنا اچھا ہے لیکن کھانے والے وہ لوگ نہیں ہیں جنھیں پتہ تھا کہ پان کو کس انداز سے کھایا جاتا ہے۔ گٹکا ذائقے میں تیز ہے اس میں جو چیزیں ہیں وہ غیر معیاری ڈالی جاتی ہیں جب کہ پان کو کئی پانی سے نکال کر صاف کیا جاتا ہے، اس میں چونا جو استعمال ہوتا ہے وہ چونا فروش سے لیا جاتا ہے جسے وہ خاص طور پر صاف ستھرے طریقے سے بناتے ہیں، کتھا بنانے کے لیے اسے چائے کی طرح پکایا جاتا ہے اور اس میں چھوٹی الائچی اور لونگ ڈالتے ہیں، پان میں جو تمباکو کی پتی استعمال ہوتی ہے وہ حکومت سے رجسٹرڈ ہیں، اور پاکستان میں صحت کے اصولوں کے مطابق بنتی ہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس کا حد سے زیادہ استعمال انسان کی صحت کے لیے نہ صرف خراب بلکہ مضر ہے، آج کل لوگ پان کو پان کھانے کے اصولوں کے مطابق نہیں استعمال کرتے ہیں اور حد سے زیادہ استعمال نقصان دیتا ہے اگر پان میں بھی زیادہ چونا استعمال کریں گے، پتی بھی زیادہ کھائیں گے تو خراب اثر تو ہوگا اس کے علاوہ پان کھانے کے بعد مسلسل پان کی پیک منہ میں رکھنا غیر صحت مند ہے اور اسے ہر جگہ پھینکنا بھی غیر اخلاقی ہے، گٹکے کو زیادہ دیر رکھنے سے اس میں کیڑے پڑجاتے ہیں اور زیادہ چونا ڈالنے سے دانت کے قریبی گوشت کو نقصان پہنچتا ہے۔
بہر حال پان جس کا ایک کلچر تھا اب وہ ایک ایسے مقام پر آگیا ہے کہ اسے کھانے والے کے منہ میں دیکھ کر عجیب سا لگتا ہے۔پان آدمی کو گونگا رکھتا ہے، پان پسند نوجوان اشاروں میں بات کرتے ہیں جب تک کہ پیک تھوک نہ دیں۔ پان کا استعمال مخصوص گھرانے سے نکل کر عام لوگوں تک پہنچ کر اس کی اہمیت اور خاصیت کو بڑا نقصان ملا ہے کیونکہ جس طرف بھی نظر ڈالو پان کے دھبے نظر آتے ہیں، چاہے وہ موٹر سائیکل والا ہو یا پھر پیدل جب پان کی پیک باہر پھینکتے ہیں تو فضا میں ایک عجیب آلودگی اور گندگی پھیل جاتی ہے، خوبصورت ماحول پان کی پیک اور اس کے دھبوں سے خراب ہوجاتا ہے، ان باتوں کو دیکھ کر پان سے ایک عجیب دوری ہوجاتی ہے اور ایک وقت تھا پان کھانا نہ صرف اچھا لگتا تھا بلکہ اسے محفلوں میں رکھ کر لوگوں میں اہمیت کو بڑھایا جاتا تھا۔ پان کھانے والے حضرات کو چاہیے کہ پان کھانے کے پرانے انداز کو اپنانا چاہیے جس میں ایک تہذیب نظر آتی تھی تاکہ شہر کی گلی، کوچوں اور عمارتوں کی خوبصورتی برقرار رہ سکے۔