پولیس مقابلے لیاقت علی خان قتل کیس سے سانحہ ساہیوال تک

کیا ہم سب مل کر یہ عہد نہیں کرسکتے کہ آج کے بعد پولیس میں کوئی سیاسی یا ’غیرسیاسی‘ مداخلت نہیں ہوگی؟


سلمان نثار شیخ January 25, 2019
سانحہ ساہیوال کی جڑیں آپ کو لیاقت علی خان قتل کیس میں ملیں گی جب سید اکبر کو پولیس نے قتل کرکے یہ راز ہمیشہ کیلئے دفن کردیا۔ (فوٹو: فائل)

KARACHI: ''16 اکتوبر 1951 کے روز لیاقت علی خان کو لیاقت باغ جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔ میں سری نگر میں محمودہ احمد علی شاہ کے گھر میں لیاقت علی سے مل چکا تھا لہٰذا مجھے ان کی تقریر سننے کا شوق چرایا، میں صبح سویرے ہی گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ابھی کرسیاں لگائی جا رہی تھیں، شامیانے سیٹ کئے جا رہے تھے، میں جلسہ گاہ پہنچ گیا اور اسٹیج کے بالکل سامنے پہلی رو میں ایک کرسی پر قبضہ کرلیا۔ چند لمحے بعد میرے دائیں طرف ایک پٹھان آکر بیٹھ گیا، اس کے ساتھ اس کا چھوٹا سا بیٹا بھی تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا تو وہ سید اکبر تھا، میں اسے سری نگر سے جانتا تھا، یہ لوگ افغانستان سے ہجرت کرکے سری نگر آئے تھے، ڈل گیٹ میں رہتے تھے۔ میں ان کے خاندان کے اکثر بچوں کو جانتا تھا، میں نے سید اکبر کو سلام کیا اور سری نگر کا حوالہ دے کر گفتگو شروع کر دی۔ وہ مجھے پٹھانوں کے روایتی تپاک سے ملا اور اپنے بیٹے سے میرا تعارف کرایا۔ ہم نے سری نگر کی باتیں شروع کر دیں۔

''مجھے وہ گفتگو کا بڑا ماہر، متحمل مزاج اور پُرخلوص انسان لگا۔ ہم باتوں میں اس قدر محو تھے کہ لوگ کب آنا شروع ہوئے، پنڈال کب بھرا، اسٹیج پر مسلم لیگی رہنما کب تشریف لائے اور جلسہ کب شروع ہوا، کچھ پتا ہی نہ چلا۔ البتہ سید اکبر کبھی کبھی کنکھیوں سے اسٹیج کی طرف ضرور دیکھ لیتا تھا۔ پھر جلسہ شروع ہوگیا۔ اسٹیج سیکریٹری نے کارروائی شروع کی، ایک ایک مسلم لیگی رہنما تالیوں اور نعروں کے شور میں ڈائس پر آتا اور دھواں دھار تقریر جھاڑ کر واپس چلا جاتا، یہاں تک کہ وزیراعظم خان لیاقت علی خان کا نام پکارا گیا۔ وہ مسکراتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھے، ڈائس پر آئے، ہاتھ ہلا ہلا کر عوام کے نعروں کا جواب دیا۔ جب عوام کا شور تھما تو خان لیاقت علی خان نے کہا ''میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم'' اور ساتھ ہی میری بغل میں بیٹھا سید اکبر اٹھا اور ''ڈب'' سے ریوالور نکال کر لیاقت علی خان پر گولی چلا دی۔

''میری آنکھوں کے عین سامنے سید اکبر نے ریوالور کی چھ گولیاں وزیراعظم پاکستان کے سینے میں اتار دیں۔ لیاقت علی خان نے چیخ ماری اور خون میں لت پت ہو کر گر پڑے۔ جلسہ گاہ میں بھگدڑ مچ گئی، لوگ اٹھ کر بھاگنے لگے، اسی اثناء میں اسٹیج پر کھڑا پولیس افسر لوگوں کو پھلانگتا ہوا سید اکبر کے پاس پہنچا، سید اکبر نے بڑے تحمل سے اپنا خالی پستول اس کے ہاتھ میں دے دیا لیکن پولیس افسر نے اسے گولی مار دی۔ سید اکبر کے منہ سے بڑی کربناک چیخ نکلی اور وہ میرے قدموں میں گر کر تڑپنے لگا، اتنے میں وہاں برچھی بردار رضاکار پہنچ گئے۔ پولیس افسر نے انہیں دیکھ کر حکم دیا ''اس ذلیل انسان کے ٹوٹے ٹوٹے کر دو،'' اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے رضاکاروں نے اپنی برچھیوں سے سید اکبر کی لاش کا قیمہ بنا دیا۔

''چند لمحے بعد وہاں سید اکبر کی لاش کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے، دور تک پھیلی لہو کی لکیریں، الٹی سیدھی کرسیاں، شامیانوں کی ٹوٹی طنابیں، تاحد نظر بکھری ٹوپیاں اور جوتے پڑے تھے جبکہ سٹیج پر ''سابق'' وزیراعظم کی آڑی ترچھی لاش اور اس کے بالکل سامنے میں، سید اکبر کا بیٹا اور وارث خان کا ایک بے ڈھول قصاب ساکت کھڑے تھے۔ چیخ میرے ہونٹوں پر جمی تھی اور آنسو سید اکبر کے بیٹے کی پلکوں پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ پولیس آفیسر نے اس کی کھوپڑی کو ٹھوکر ماری اور میرے قریب آ کر ریوالور میری طرف لہرا کر کہا ''یہ لو پستول اور جب تم سے پوچھا جائے تو کہنا سید اکبر بھاگ رہا تھا لیکن میں نے اسے پکڑ لیا، تمہیں پیسے ملیں گے۔'' یہ لفظ میں نے سنے ضرور لیکن میرے ساکت جسم میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔ پولیس آفیسر میری آنکھوں میں سکتے کی کیفیت پڑھ کر آگے بڑھا اور اپنا پستول وارث خان کے قصاب کے ہاتھ میں پکڑا دیا... بعد ازاں اس قصاب کو اس بہادری پر 20 ہزار روپے انعام ملا لیکن میں ایک عرصے تک بستر پر پڑا رہا۔ موت کا یہ پہلا تجربہ تھا جو میرے شعور اور لاشعور پر بری طرح درج ہو گیا۔''

(اقتباس، انٹرویو: شمیم قریشی؛ کتاب: گئے دنوں کے سورج؛ مرتب کردہ: جاوید چودھری)


جو دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اگر شہدائے ماڈؒل ٹاؤن اور نقیب اللہ محسود کے قاتل پکڑے جاتے تو سانحہ ساہیوال نہ ہوتا، تو ان کی یاد دہانی کیلئے عرض ہے کہ وطن عزیز میں جعلی مقابلوں کی کہانی سانحہ ماڈل ٹاؤن سے نہیں، سانحہ راولپنڈی سے شروع ہوئی تھی۔ خان لیاقت علی خان سے نواب اکبر بگٹی تک اور بے نظیر بھٹو سے ماڈل ٹاؤن کے 14 شہیدوں تک اور وزیرستان کے انگنت گمنام شہداء سے بلوچستان کے بے شمار گمنام شہداء تک اور نقیب اللہ محسود سے مہر خلیل، اس کی بیوی، بیٹی اور ذیشان تک، اس ملک کا ہر کونا ریاست کے پالے ہوئے بے مہار ''اتھرے سانڈوں'' کے بہائے لہو سے سرخ ہو چکا ہے۔ لیکن ہم آج بھی محض اور محض اس بحث میں الجھے ہیں کہ انصاف یہاں سے شروع کریں یا وہاں سے۔

کسی کیلئے صرف بھٹو کا عدالتی قتل اور بے نظیر کا سرعام قتل اہم ہے تو کسی کو صرف 1992 کے آپریشن کا بسایا قبرستان عزیز ہے۔ کسی کو صرف لال مسجد کے شہید یاد ہیں تو کسی کو صرف ڈرون حملوں کا نام نہاد ''کولیٹرل ڈیمج'' اور کسی کو محض اپنا ''نکالا'' جانا!

خدارا اب بس کر دیجیے! اب ہی بس کر دیجیے! کم از کم یہ فیصلہ تو کر لیجیے کہ آج تک جو گناہ ہوتے رہے، اب ان میں کبھی کوئی نیا اضافہ نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کیا ہم جانور یا درندے یا گدھ یا دہشت گرد ہیں جو تیرا خون سستا میرا خون مہنگا، تیرا خون غیر اہم میرا خون اہم، تیرے خون کا حساب غیر ضروری میرے کا ضروری کی قابل نفرت بحث میں پڑے ہر روز مزید خون بہائے چلے جا رہے ہیں؟

کیا ہم سب مل کر یہ عہد نہیں کر سکتے کہ آج کے بعد پولیس میں کوئی سیاسی یا ''غیر سیاسی'' مداخلت نہیں ہو گی؟ اور یہ کہ آج کے بعد ہر بے وردی اور باوردی جان کی حرمت یکساں ہوگی؟ کیا ہم سزا کے سوا آموزش کا اور کوئی طریقہ نہیں سمجھتے؟ ہم سب اپنے ہر چوک چوراہے میں، ہر تھڑے پر اور ہر سوشل میڈیا پوسٹ میں ایک ہی جنگجویانہ نعرہ لگاتے رہتے ہیں کہ اگر فلاں مجرم کو، فلاں دہشت گرد کو پھانسی دے دی جاتی تو اس کے بعد کوئی اور جرم نہ ہوتا۔ ہم انسان ہیں یا جانور؟ زینب کے قاتل کو پھانسی دے دی گئی، فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر گزشتہ چند سال میں بیسیوں دہشت گردوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ ان کے علاوہ بھی بہرحال ہماری عدالتیں آئے روز تاخیر سے ہی سہی مگر مجرموں کو سزائیں سناتی تو رہتی ہیں۔ لیکن کیا سارے مجرم ختم ہوگئے؟

اگر نہیں ہوئے تو پھر ہم اپنی ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا کہ کسی ایک مجرم کو پس زنداں یا سرعام پھانسی دے کر ہم صرف اسے ہی انجام تک پہنچا سکتے ہیں، پورے معاشرے میں موجود مجرمانہ ذہنیت کے ہر شخص کو نہیں۔ اگر ہم مزید سانحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو احتساب اور انصاف کے ساتھ ساتھ نظام کی تطہیر، قوانین کی اصلاح، اور ادارہ جاتی ڈھانچوں کی بہتری اور شہریوں کی حفاظت کا حلف اٹھا کر بندوق پکڑنے والوں کو سیاسی و ''غیر سیاسی'' قوتوں کی کرائے کی بندوق بنانا بند کرنا ہوگا؛ کیونکہ آج اگر کوئی آپ کیلئے قتل کرے گا تو پھر وہ کل کسی اور کیلئے اور پرسوں کسی اور کیلئے بھی کرے گا۔

ہر جلسے، ہر محفل میں محض سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے پولیس ریفارمز کا رونا رونے کے بعد اقتدار میں آتے ہی پولیس میں سیاسی مداخلت کرکے ناصر درانی کو مستعفی ہونے پر مجبور کردینے والوں سے گزارش ہے کہ اگر ہم نے اپنے سپاہیوں کو قاتلوں کی بجائے محافظ بنانا ہے، سواتیوں، مانیکوں اور حکم نما ''انفارمیشن'' دینے والی ''غیر سیاسی قوتوں'' کی بجائے عوام کا خادم بنانا ہے، تو اس کا علاج صرف مقدمے، معطلیاں اور پھانسیاں نہیں بلکہ نظام کی درستی اور ہر قسم کی مداخلت کا خاتمہ ہے۔ ورنہ ایک کے بعد دوسرا سانحہ جنم لیتا رہے گا اور ہم ہمیشہ کی طرح چند دن شور مچا کر چپ ہوتے رہیں گے... یہاں تک کہ آخر کسی نہ کسی دن ہماری اپنی باری بھی آن پہنچے گی۔

اک ہو کا عالم طاری ہے
یہ شب بستی پہ بھاری ہے


گلیوں میں ڈائن پھرتی ہے
اب دیکھو کس کی باری ہے


جانے والے چلے گئے
اب اپنی بھی تیاری ہے


(اسلم شاہد)


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں