قرضے معاف کرانے والے آزاد کیوں

حکومت نے موجودہ بجٹ میں معیشت کے حوالے سے جن نقائص کی نشاندہی کی ہے، انھیں دور کرنا ہو گا۔


علی احمد ڈھلوں January 25, 2019
[email protected]

کسی ملک کو لاغر،کمزور، بے بس،لاچارومجبور کرنے کی سزا کیا ہونی چاہیے، اس پر ہم نے شاید ابھی تک سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک وقوم کو لوٹنے والے آج بھی مزے سے سینہ تان کے گھوم پھر رہے ہیں اور انھیں کوئی چھونے والا بھی نہیں ہے۔ اس روئے زمین پر شاید ہی کوئی دوسرا ایسا ملک ہوگا جسے اس بے دردی سے لوٹا گیا ہے ۔ اس کی کوئی مثال ہمیں دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ملک دولخت ہونے کے بعد 1971ء سے 1991ء تک 2.3 ارب روپے معاف کرائے گئے۔

1991ء سے 2009ء تک84.6 ارب روپے معاف کرائے گئے اور 2009ء سے 2015ء تک345.4 ارب روپے معاف کرائے گے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں سابق حکومت نے قرض معاف کرانے والوں کی فہرست سینیٹ میں پیش کی تو معلوم ہوا کہ پچھلے 25 سال میں 988 سے زائد کمپنیوں اور شخصیات نے 4 کھرب، 30 ارب 6 کروڑ روپے کے قرضے معاف کرائے۔ ان میں 19 کمپنیاں یا افراد ایسے ہیں جنہوں نے ایک ارب روپے سے زیادہ کا قرضہ معاف کرایا۔قرضے معاف کرانے والوں میں سیاستدان، کاروباری افراد اور ریٹائرڈ سرکاری لوگ تک شامل رہے۔

قرض معاف کرانے والے ان بابوؤں کی یاد اُس وقت آگئی جب گزشتہ روز وزیر خزانہ اسد عمر نے ''اصلاحاتی بجٹ'' پیش کرتے ہوئے سابقہ حکومتوں کے معاشی کردار پر روشنی ڈالی کہ میرے دائیں جانب والوں کے پاس پچھلے دس اور پانچ سال حکومت تھی، یہ عوام کے لیے کیا چھوڑ کر گئے؟ خود قرضے لے کر معاف کراتے رہے اور ملک کو کنگال کر دیا۔ آج سے دو سال پہلے معاشی ماہرین نے خطرے کی نشاندہی کی، حکومت کو آگے الیکشن نظر آ رہا تھا اس لیے انھوں نے بجائے اصلاح کے الیکشن خریدنے کی کوشش کی۔

انھوں نے اپنا بنایا بجٹ خسارہ ہی 900 ارب سے زیادہ بڑھا دیا، اب وہ پیسہ کہاں سے آئے گا؟ کیا سوئس بینک سے آئے گا؟ اب وہ قرضہ عوام نے ادا کرنا ہے۔ بجلی کے نظام میں ایسی تباہی لائے کہ ملکی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوئی، ایک سال میں ساڑھے 400 ارب کا خسارہ ہوا، گیس کے نظام میں کبھی خسارہ نہیں ہوا انھوں نے وہ بڑھا کر ڈیڑھ سو ارب تک پہنچا دیا، اسٹیل مل، پی آئی اے، ریلوے سب کا خسارہ اپنی جگہ ہے، یہ قوم کو ڈھائی سے تین ہزار ارب کا مقروض کر گئے، اس صورتحال پر شرمندہ ہونے کے بجائے اپوزیشن ڈیسک بجاتے اور شور مچاتے رہے ،بقول شاعر

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا

یہ بات تو طے ہے کہ قرضے معاف کرانے والوں اور کرنے والوں میں سب سے اہم کردار ہمارے سیاستدانوں کا ہے جو کہ جمہوریت کے نام پر نہ صرف ہمارے اوپر خاندانی آمریت مسلط کیے ہوئے ہیں، بلکہ بیوروکریسی اور کاروباری افراد کے کچھ لوگوں کے اکٹھ سے ہمارے خون پسینے اور محنت کی کمائی پر آئے روز شب خون بھی مارتے رہتے ہیں اور اس تمام تر استحصال کے باوجود ہر بار برسر اقتدار بھی آتے رہے اور ابھی بھی اقتدار میں آنے کے لیے کئی قسم کے نام نہاد ''الائنس'' بنا رہے ہیں۔

کیوں کہ بقول شخصے کرسی کی یاد، کرپشن کی عادت اور پروٹوکول کی تڑپ انسان کو جینے نہیں دیتی۔بہرحال قرضے معاف کرانے والوں کی لسٹ دیکھ کر انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ایک ایسا ملک جو ہرسال اپنی ضرورت کے لیے عالمی اداروں کے سامنے دامن پھیلائے نظر آتا ہے اور مہنگے ترین قرضے حاصل کرنے کی تگ و دو کرتا رہتا ہے، وہی ملک اپنے ان امیروں کو کس قدر فیاضی سے اتنے بڑے حجم کے قرضے بیک جنبش قلم معاف کرنے کے حکم صادر فرما دیتا ہے۔ عام طور پر بینک چند ہزارروپے کا قرض معاف کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ جو لوگ قرض پر گاڑیاں لیتے ہیں، وہ اگر ایک دو قسطیں ڈیفالٹ کر جائیں تو بینکوں سے وابستہ لوگ اِن کی گاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف یہ دریا دلی کہ کھربوں روپے کے قرض ڈکارنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

رہی بات موجودہ ''اصلاحاتی بجٹ'' کی تو مجھے اسد عمر سے یا موجودہ حکومت سے غرض نہیں، غرض اس سے ہے کہ عوام کو ریلیف ملنا چاہیے، اس ملک کو گھمبیر معاشی حالات سے باہر نکلنا چاہیے، اس ملک کے عوام کو خوشحال ہونا چاہیے۔ اس لیے موجودہ حکومت نے اس مذکورہ منی بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی حقیر سی کوشش کی ہے کہ انھوں نے قرضہ حسنہ اسکیم میں گھروں کے لیے قرضوں کی اسکیم کا اعلان کیا ہے اور ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کردیاہے،حکومت نے نان فائلر پر 1300 سی سی تک گاڑیاں خریدنے کی بندش ختم کر دی ہے۔

شادی ہالوں پر بھی ٹیکس میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے، نیوز پرنٹ کی امپورٹ کو ڈیوٹی فری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ کسان اور تاجر وں کو مراعات دی ہیں۔ آٹو کی وینڈر انڈسٹری کو مراعات دے کر بجلی کے بحران پا قابو پانے کی کوشش کی ہے یا گاڑیاں مہنگی کرکے امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکمران جانتے ہیں کہ یہ عوام کے لیے کافی نہیں ہے، مگر دیر آئد درست آئد کے مصداق حکومت نے قرض حسنہ کے حوالے سے جو اعلان کیا ہے اُس پر شرح سود نہ ہونے کے برابر رکھ کر چھوٹے کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ میرے خیال میں حکومت نے اس حوالے سے بنگلہ دیش اور ملائشیا ماڈل کو ذہن میں رکھا ہوگا کیوں کہ وہاں بھی بہت سے قرض حسنہ کی اسکیمیں متعارف کرائی جاتی ہیں جس سے مڈل مین فائدہ اُٹھاتا ہے۔ لیکن بینکوں کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں کی شرح سود ابھی زیادہ ہونے کی وجہ سے کاروباری حضرات پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

حالانکہ بھارت میں شرح سود 11 فیصد اور بنگلہ دیش و سری لنکا میں یہ شرح 9 اور ساڑھے 9 فیصد سے بھی کم ہے کہ لیکن پاکستان میں یہ شرح 20 فیصد کے قریب ہے۔ اس لیے کاروباری حضرات پاکستان میں کاروبار کا آغاز کرنے کے بجائے بنگلہ دیش کو ترجیح دے رہے ہیں۔ خیر آنے والے دنوں میں حکومت کو اس جانب بھی توجہ دینا پڑے گی اور بالواسطہ ٹیکسوں کو کم کرنا پڑے گا کہ عام آدمی کی زندگی خوشحال ہو سکے۔ آپ پاکستان میں ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں موٹر سائیکل خریدنے کی سکت نہیں رکھتے امریکا یورپ یا عرب ممالک میں جا کر فوراََ گاڑی خرید لیتے ہیں۔ وہاں گھر کے قرض آسان شرائط پر مل جاتا ہے۔

بہرکیف حکومت نے موجودہ بجٹ میں معیشت کے حوالے سے جن نقائص کی نشاندہی کی ہے، انھیں دور کرنا ہو گا، اور قرض معاف کرانے والوں کے خلاف بھی اس ملک میں کوئی قانون بننا چاہیے، کیوں کہ انھی کرپٹ افراد کی وجہ سے آج ملک مشکل حالات میں ہے، آج ہم ہم قرضوں کا سود اتارنے کے قابل بھی نہیں، ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو کہ جب روزانہ منی لانڈرنگ ہو رہی ہو، روزانہ ایک مافیا مارکیٹ سے ڈالر خرید کر باہر بھجوائے اور باہر سے واپس منگوا کر منافع کمائے، ڈالر مہنگا کیوں نہ ہو جب حکمران اتنے سخی کہ ڈیلیں ڈالروں میں، اپنی کمیشن سمیت سب ادائیگیاں ڈالروں میں، ڈالر کیوں مہنگا نہ ہو جب اپنے مگرمچھوں کے 2 سو ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوں اور جب 10 ارب ڈالر کی دبئی میں جائیدادو ں کے علاوہ صرف دو سال مید 4 ہزار دو سو 48 ارب کی متحدہ عرب امارات میں پاکستانی مزید سرمایہ کاری کر لیں۔

ان کے ادوار میں تو یقین مانیں حکمران جائیدادیں بنا تے رہے، عوام بھنگڑے ڈالتے رہے، ملک تباہ ہوتا رہا، اورصورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ 5 فیصد طبقہ اشرافیہ بن گیا اور 95 فیصد کو ناکوں، فاقوں، دھماکوں سے ہی فرصت نہیں ملتی رہی، 5 فیصد کی روز عیدیں، شبراتیں، 95 فیصد مخلوق مسکرانا بھول گئی، 5 فیصد سوئس بینکوں، سرے محلوں اور ایون فیلڈ ہاؤسز کی مالک، 95 فیصد بھوکے ننگے چھت کو ترس ترس کر قبروں میں اترے رہے اور بظاہر ایک دوسرے کے مخالف 5 فیصد اندر سے یوں سیانے کہ ذرا سا کٹھن لمحہ، تھوڑا سا مشکل وقت آئے یا بات اولادوں، جائیدادوں کی طرف جانے لگے تو جمہوریت، سویلین بالادستی کی بکل مار کر سب ایک ہوجاتے رہے جب کہ 95 فیصد جہالت ایسی منقسم کہ بھائی بھائی کا گلا کاٹ رہا، باپ بیٹے کا نہیں اوربیٹا باپ کو نہ پہچانے، یہ 5 فیصد کی خوش بختی کہ انھیں مفت میں 95 فیصد کمی کمین، مزارع ملے رہے اور اب جب کہ ان پر گرفت مضبوط ہو رہی ہے تو یہ شوشے بازیاں کرکے ایک بار پھر قوم کا دھیان بٹانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ دیکھو ''تبدیلی'' نے ملک برباد کر دیا۔ دیکھو ملکی معیشت کا ان پانچ مہینوں میں کچومر نکال دیا وغیر ہ وغیرہ ۔ لہٰذاوزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ جیسے تیسے کرکے ان لوگوں سے پیسے نکلوائیں جنہوں نے ملکی معیشت پر شب خون مارا ہے۔ ان سے سود سمیت رقوم واپس لی جائیں ورنہ ان پر پاکستان میں ہر قسم کی سرگرمیوں کو معطل کرکے ان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کر لی جائیں تاکہ اس ملک کے عوام کو کچھ تو ریلیف مل سکے!!!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں