رشتہ ادب اور سیاست کا
ایسے اشعار نے عوام کو شعور کی دیگر راہیں دکھائیں اور سیاسی زندگی میں ایک ہلچل مچادی۔
NEWYORK:
ایک دور تھا جب تصویرکشی کے آلات موزوں نہ تھے اور نہ آواز کے ساتھ ان کا ملاپ، اس قدر موزوں جتنا کہ آج ہے تو پھر نوک قلم سے کلام کو نہ صرف محفوظ رکھا جاتا تھا بلکہ قلمکار خود اپنی کلا اور دیگر فنکاروں کے فن پاروں کو محفوظ کرلیتے تھے۔
قدیم دور میں مانا کہ کیمرے نہ تھے اور نہ ہی تصویرکشی کے آلات مگر تراشی اور اصنام گری کے فنکاروں کی کمی نہ تھی۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ ہر دور میں قلمکار اور فنکاروں کے بے مثال نمونے موجود ہیں۔ جوں جوں علوم و فنون نے ترقی کے مدارج طے کیے، یہاں تک کہ مغربی جمہوریت نے شہنشاہی کی ناک میں نکیل ڈال دی اور آج جہاں بھی بادشاہی موجود ہے یہ بھی مغربی ممالک کی نظر اندازی کے سبب کیونکہ آمروں کے گرد ان کا ایٹمی حصار ہے۔
خواہ یہ براہ راست ہو یا کوئی خفیہ واسطہ۔ بہرصورت اگر اردو شاعری میں نظم کے سفرکو دیکھیں تو ہم ہر دورکا جائزہ لے سکتے ہیں یعنی شاعرکس نظر سے سماج کو دیکھتا ہے یا اس کا عوام سے کیا رشتہ ہے۔ نظیرؔاکبر آبادی نے تقریباً 95 برس کی طویل عمر پائی وہ میرؔ سے چھوٹے اور غالبؔ سے بڑے تھے اور اسباب فکر وعمل میں قلندرانہ اوصاف رکھتے تھے۔
ان کو میرؔ اور غالبؔ کے کلام سے کوئی واسطہ نہ تھا بلکہ اگر ان کے کلام کا عمومی جائزہ لیں تو کہیں کہیں ان کے کلام میں بلھے شاہ کا انداز محسوس ہوتا ہے۔ اور انھی کی سی سماجی اصلاح کی لذت محسوس ہوتی ہے جو پنجابی زبان کے عارفانہ کلام کے بزرگ شاعر ہیں۔ نظیرؔ کے کلام میں زرکثیر رکھنے والوں کے لیے بڑے بڑے پیغامات ہیں۔ آئیے ان کے چند اشعار کا جائزہ لیں جو انسان کے انجام کار پر روشنی ڈالتے ہیں۔ نظم بنجارہ کے چند اشعار:
ٹک حرص و ہوس کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا
قذاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کے نقارہ
کیا بدھیا بھینسا بیل شترکیا گوئی پلا سر بھارا
کیا گیہوں،چانول،موٹھ مٹر ،کیا آگ دھواں،کیا انگارا
سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارا
بالکل وہی انداز جو بابا بلھے شاہ کا حق پرستی، سفر آخرت پھر دنیا کی رنگ رلیوں کا دور دورہ کیا معنی۔ درحقیقت نظیرؔ اکبر آبادی کی شاعری کا عوامی شعور 1955ء اور 1960ء کے لگ بھگ پیدا ہوا جب 1949ء میں جنوب مشرقی ایشیا میں آزادی چین اور کوریا کی جنگ اور کیوبا کی آزادی اور خود مختاری کے تصور نے اور ویتنام کی جنگ سے لوگوں میں آگہی پیدا ہوئی، یہ شعورکہیں جاکے ایک صدی بعد پیدا ہوا جب انسانی حقوق کا تصور آشکارا ہوا یا یوں کہیے کہ شاعری میں انسانی کے نئے پہلو بیدار ہوئے۔
یعنی انسان کیا ہے؟ اس کی ضروریات کیا ہیں؟ حقوق حکمرانی کس کو ہے۔ بادشاہت کیوں؟ انسان بہ حیثیت انسان برابر ہے صرف اللہ ہی اکبر ہے۔ خلافت انسان ہی کو حکمرانی بخشتی ہے پھر جمہوریت جس میں لامتناہی دولت کے انبار مگر انسان ہے کہ اپنا سفر طے کرتا ہی رہا۔ سلطانی جمہورکا دور بھی آیا یہ سفر قصیدے، منقبت کے سفر کے ساتھ جاری رہا۔ بعد میں 1930ء سے علامہ اقبال نے جدید دنیا کے سفرکو جاری رکھا۔ باقاعدہ طویل اور نظریاتی نظمیں جب کہ میرؔ، غالبؔ، ذوقؔ کے کلام میں روایتی عشق کا سفر جاری تھا، مگرگاہے بہ گاہے اس دورکے دریچے جب بھی کھلتے۔ روز و شب کے جلوؤں کے درمیان انسانی جدوجہد کا عکس نظر آتا رہا۔ مثلاً مشہور شعر:
سفر ہے شرط مسافر نواز بہترے
ہزارہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
(آتش)
جیساکہ بیان کیا گیا ہے کہ نظموں کا باقاعدہ دور کا آغاز علامہ اقبال کا عطیہ ہے۔ بعدازاں شاعر انقلاب جوشؔؔ ملیح آبادی نے اردو ادب میں طویل انقلابی نظموں کا آغاز کیا۔ اس کے بعد اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس نے نظموں میں نئے تجربات کا آغاز کیا اور ترقی پسند تحریک نے ادب برائے زندگی کے تصور سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ انسانی زندگی میں بھوک، افلاس، غربت کا وجود ایک نئے انداز میں ترقی پسند ادب نے پیش کیا۔ جیسے فیض احمد فیضؔ کا یہ شعر:
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ایسے اشعار نے عوام کو شعور کی دیگر راہیں دکھائیں اور سیاسی زندگی میں ایک ہلچل مچادی۔ افسانہ، ناول، نظم و نثر نے حکومتوں سے اختلاف رائے کے نئے دروازے کھول دیے جو صدیوں سے بند تھے۔ بلکہ تھیٹر، فلم اور گیت کی دنیا نے بھی انسانی ضروریات کو اپنے کلام کی شکل میں پیش کیا۔ ان میں ساحرؔ لدھیانوی، حسرتؔ جے پوری، مجنوںؔ گورکھپوری اور دیگر شعرا نے نہ صرف اپنی ضروریات زندگی کو گیتوں سے پورا کیا بلکہ عوام میں انقلابی شعورکے شعلے روشن کیے ہیں گوکہ انقلاب میں مایوسی کو بھی لے کے چلے ہیں کبھی کبھی ساحرؔ لدھیانوی بھی۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں:
تنگ آ چکے ہیں کشمکش زندگی سے ہم
ٹھکرا نہ دیں جہاں کو کہیں بے دلی سے ہم
مگر شاعر کو پھر بھی یہ احساس ہے کہ وہ دنیا سے بیزاری کو شعوری طور پر ٹھکرانا نہیں چاہتا، یہاں قاری کو وہ ہراساں کرنے سے گریزاں ہے۔ تاج محل پر ساحرؔ لدھیانوی کا یہ شعر گوکہ پیغام ضرور رکھتا ہے مگر متنازعہ ہے کیونکہ محبت غریب کی ہو یا امیر کی وہ ایک سچائی ہے ملاحظہ کیجیے:
یہ چمن زار یہ جمنا کا کنارا یہ محل
یہ منقش در و دیوار یہ محراب یہ طاق
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
گوکہ شاعر نے امارت ماند کرنے کے لیے اس کے خالق کا تمسخر اڑایا ہے مگر حسن کی مضبوطی نے پھر بھی محرابوں کے حسن کا تذکرہ پھر بھی نمایاں کیا۔ لیکن شاعر نے بادشاہ کی عشرت سے اسے تعبیر کیا ہے جو شاعر نے غریبوں کی تضحیک خیال کیا مگر اس خیال سے عام آدمی متفق نہیں۔ لیکن مجموعی طور پر ادب برائے زندگی کا تاثر عوام کو پرکشش لگتا رہا۔
یہاں تک کہ ایک زمانہ 1960ء اور آنے والے 15 برسوں تک نیشنل عوامی پارٹی کے شروع ہونے سے قبل حبیب جالبؔ ہی جلسوں کی ابتدا اپنی خوش لحن آواز اور پراثر کلام سے کیا کرتے تھے، جب تک ان کی حیات نے وفا کی وہ باضمیر شاعر عوام کا ترانہ سناتے رہے۔ عام طور پر 1970ء کے بعد جو جلسے ہوتے تھے ان میں دستور نظم عوام کے اصرار پر سناتے تھے کیا کلام اور کیا حسن آواز کا، جیسے کوئی دریا آبشارکی شکل میں آگے بڑھ رہا ہے۔ ابتدا میں کئی بار دیپ ایک لمبی تان میں ادا کرنے کے بعد فرماتے تھے دستور سنیے:
دیپ جن کے محلات ہی میں جلیں
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلیں
مجمع دم بخود رہ جاتا تھا، یہ تھا عوام اور شاعر کا رابطہ۔ ہر دور میں حکمران شعر و ادب کی اہمیت کو سمجھتے رہے ہیں یہ بہادر شاہ ظفر ہوں یا بینظیر بھٹو (اپریل1989ء سمجھتے رہیں) ان کو ادبا اور شعرا کی اہمیت کا علم تھا اور آج کی دنیا میں بھی ان کی اہمیت سے انکار مشکل مگر پاکستان میں شاعروں اور ادیبوں کو مقام ملنا مشکل نظر آتا ہے۔ آج کل میڈیا کانفرنسوں کا دور ہے مگر یہ ادب جیسی توانا حقیقت نہیں۔ عہد بہ عہد کسی حد تک ادب اور سیاست کے رشتے کی اہمیت اور انسانی شعور پر ادب کے اثرات سے انکار مشکل ہے۔