احوال ایک ادبی تقریب کا

زندہ قومیں کتاب سے رشتہ قائم رکھتی ہیں بصورت دیگر زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔


ایم اسلم کھوکھر January 25, 2019

کوئی زیادہ وقت نہیں گزرا جب کتب بینی کا رواج عام تھا، بلکہ ایسے لوگ بھی اکثریت میں تھے جوکہ پڑھنے کا گویا جنون کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے یہ کوئی زیادہ دورکی بات نہیں کہ لوگ اپنے پیاروں کو ان کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انھیں کتب تحفے میں دیا کرتے تھے پھر معلومات کے دیگر ذرایع جب انسان کی دسترس میں آنے کے باعث کتب بینی ناقدری کا شکار ہوتی چلی گئی ۔

حد تو یہ ہے کہ عصر حاضر میں جب کہ ملک کی آبادی 22 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے مگر جو کتاب چھاپی جاتی ہے اس کتاب کی کاپیوں کی تعداد ہوتی ہے پانچ سو، جن میں ڈیڑھ سوکاپیاں مفت میں تقسیم ہوجاتی ہیں جب کہ دیگر تین سو پچاس کاپیاں بھی چند ماہ بعد فٹ پاتھوں پر ردی کی قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں ،البتہ یہ ضرور تھا کہ 1970 سے قبل جب موجودہ پاکستان کی آبادی فقط ساڑھے پانچ کروڑ تھی تو اس وقت چھاپی جانے والی کتاب کی جو کاپیاں مارکیٹ میں آتیں ان کی تعداد ہوتی گیارہ سو جب کہ اخبارات و جرائد کے ساتھ بھی پڑھنے کے معاملے میں کوئی قابل ستائش رویہ نہیں رہا ۔

بہرکیف ان تمام تر حقائق کے باوجود چند لوگ ایسے بھی ہیں جوکہ ادیب تخلیق کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں میں ذوق مطالعہ پھر سے بیدار کیا جائے، ایسے ہی ادبا میں ایک نوجوان و باصلاحیت نام سامنے آیا ہے وہ نام ہے راحت عائشہ صاحبہ کا جن کی ادبی خدمات کے صلے میں اس برس صدر مملکت عارف علوی نے انھیں صدارتی ایوارڈ اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا۔ یہ ایوارڈ 12 ربیع الاول کے مبارک دن راحت عائشہ کو عطا کیا گیا۔ قابل فخر امر ہے یہ ایوارڈ راحت عائشہ کو نوجوانی میں عطا ہوا۔

راحت عائشہ جوکہ پیشے کے اعتبار سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں یہی باعث ہے کہ انھوں نے اب تک جتنا ادب تخلیق کیا ہے وہ بچوں کا ادب ہے۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں وہ اپنی تحریروں سے بھی نئی نسل کی تربیت کر رہی ہیں یوں اکثر بچوں کے رسائل میں ان کی تحریریں چھپتی ہیں مگر زیادہ تر وہ نونہال و بچوں کی دنیا کے لیے خصوصیت سے لکھتی ہیں جب کہ اب تک دو کتب پیٹر کا بھوت و گمشدہ چابی بھی تحریر کرچکی ہیں۔ آخرالذکر وہ کتاب ہے جس پر انھیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ چنانچہ اسی سلسلے میں ایک تقریب کا اہتمام کے ایم سی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے کیا گیا۔ نظامت کے فرائض علی حسن ساجد صاحب نے ادا کیے۔

دعوت خطاب کے سلسلے کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے سلیم فاروقی صاحب نے اظہار خیال فرمایا کہ بچوں کے لیے ادب لکھنا بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ یہ مشکل ترین امر ہے کہانی و انسان کا گہرا تعلق ہے اچھی کہانیاں اذہان پر گہرے نقوش چھوڑتی ہیں اور انسان کی عمر کے ساتھ کہانیاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔ راحت عائشہ کو لکھنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ متنجن کے نام پر منجن نہیں بیچتیں چنانچہ خوش قسمت ہیں وہ نونہال جن کی وہ استانی ہیں، جب کہ دوسرے مقرر تھے شنگھائی سے تشریف لانے والے زبیر صدیقی جنھوں نے اپنی خوبصورت گفتگو کا آغاز یوں کیا کہ اپنی زبان سے پیارکرنا چاہیے۔

اس سلسلے میں انھوں نے اپنی مثال دی اور اپنی دو کمسن صاحبزادیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے خاندان کے ساتھ چین میں مقیم ہوں، اس کے باوجود اپنی بچیوں کو میں اردو لکھنا پڑھنا سکھا رہا ہوں میری کوشش ہے کہ اپنی بچیوں میں ادبی لگاؤ پیدا کروں جب کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ زبیر صدیقی پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور چین کے شہر شنگھائی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔انھوں نے خوب صورت انداز گفتگو میں راحت عائشہ کو خراج تحسین پیش کیا۔ ممتاز صحافی حمیرا اطہر نے انھیں یوں خراج تحسین پیش کیا کہ وہ تمام موضوعات پر لکھتی ہیں اور خوب لکھتی ہیں۔ انھوں نے کتاب پیٹر کا بھوت کا خصوصیت سے تذکرہ کیا۔ مزید یہ کہ خوش قسمت ہیں راحت عائشہ کہ انھیں اپنے والدین و قریبی عزیزوں کی معاونت حاصل ہے۔

آصف علی بیگ نے اپنے خیالات کا یوں اظہار فرمایا کہ بلاشبہ بچوں کے لیے لکھنا ایک تو مشکل امر ہے دوم یہ کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنے پر پذیرائی بھی نہیں حاصل ہوتی البتہ ان تمام حقائق کے باوجود راحت عائشہ جیسے لوگوں کا بچوں کا ادب لکھنا بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ عقیل عباس جعفری نے فرمایا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ادب کو محفوظ کیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں بھی موجودہ وسابقہ ادوار میں لکھے گئے ادب سے استفادہ حاصل کرسکیں۔ شکیل الرحمن نے ایک نظم کے ذریعے راحت عائشہ صاحبہ کی ستائش کی اور اس امر پر زور دیا کہ محض تعلیم معصوم نونہالوں کی تربیت کے لیے کافی نہیں بلکہ بچوں کی تربیت کے لیے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت بچوں کی کتب کے ذریعے بھی پوری کی جاسکتی ہے۔

انھوں نے موجودہ نصاب تعلیم پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ اشد ضرورت ہے کہ موجودہ تعلیمی نصاب میں ادب کو شامل کرنا ضروری ہے تاکہ نئی نسل کو خواجہ میر درد، اسد اللہ غالب کے بارے میں بھی معلومات حاصل ہوسکیں۔ علی حسن ساجد نے اپنے خیالات کو خوبصورتی سے یوں پیش کیا کہ عصر حاضر میں ادیب بے قدری کا شکار ہے یہی باعث ہے کہ جو بھی ادیب اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے اس ادیب کے ادبی ورثے کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے کہ وہ ورثہ گلی میں پھیری والے ردی فروش کے سپرد کردیا جاتا ہے۔پھر وہی ورثہ شاہراہوں کی فٹ پاتھوں پر زمین پر رکھ کر فروخت ہو رہا ہوتا ہے۔

چنانچہ نہایت ضرورت اس امر کی ہے کہ کم سے کم نامور ادبا کا ادبی ورثہ محفوظ کیا جائے ضروری ہے خصوصی لائبریریاں قائم کی جائیں جہاں یہ ادبی ورثہ محفوظ طریقے سے رکھا جاسکے تاکہ لوگ اس سے استفادہ کرسکیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عجب اتفاق ہے کہ جب بھی ماہ دسمبر آتا ہے ہمیں کوئی نہ کوئی بچوں کا ادیب داغ مفارقت دے جاتا ہے۔ اس برس افق دہلوی ، ابصار عبدالعلی، گزشتہ برس مسعود احمد برکاتی و دو برس قبل کمال احمد رضوی کا انتقال اسی برس ہوا جب کہ قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری جنھوں نے بچوں کے لیے 11 کتب تخلیق کیں ان کا انتقال بھی ماہ دسمبر میں ہوا۔ علی حسن ساجد نے عصر حاضر کے ادبا کو دعوت دی کہ وہ بچوں کے لیے ادب تخلیق کرکے بچوں کی تربیت میں اپنا کردار ادا کریں۔ انھوں نے مزید کہا کہ آخر فیض احمد فیض نے بھی تو بچوں کے لیے لکھا۔

آخر میں راحت عائشہ نے تمام حاضرین کا ان کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور نئے عزم کے ساتھ لکھنے کا عہد کیا پروگرام کے آخر میں میئر کراچی وسیم اختر کی جانب سے راحت عائشہ کو علی حسن ساجد نے شیلڈ پیش کی۔ آخر میں ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ادب سے ناتا قائم رکھیں، زندہ قومیں کتاب سے رشتہ قائم رکھتی ہیں بصورت دیگر زوال ان کا مقدر بن جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں