انصاف و قانون انسانیت کا قتل
واقعی اگر زندگی میں اپنے چھوٹے سے منصب اوراختیارکو سب کچھ سمجھ کر لوگ بے قابو ہوجائیں تو ایسا ہی کچھ ہوتا ہے۔
NEWCASTLE:
٭ ... پہلا منظر
پہلا گھر میں ایک بڑی گہماگہمی کا عالم تھا، سب تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، بچوں کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے، یہ سب اس لیے تھا کیونکہ عزیزکی شادی میں شرکت کے لیے دوسرے شہر جو جانا تھا ، بچے سیر وتفریح اور نئی جگہ پر خوب مزے کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے، ایک دوسرے کو بتا رہے تھے تو بڑوں کے ذہنوں میں شادی کی تقاریب میں شرکت کے ساتھ ساتھ سخت سرد موسم ، لمبا سفر اور بچوں کی صحت کے معاملات بھی تھے ، اپنی چیزوں کو مد نظر رکھ کر جانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اورگھر میں اس طرح کی گفتگو ہو رہی تھی ۔
'' ارے بھئی! راستے کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لینا بچے مانگیں گے، بار بار گاڑی روکنا نہیں پڑے گی۔''
''سنیں ، بچوں کے اضافی گرم کپڑے رکھ لیتی ہوں، ضرورت پڑسکتی ہے۔''
'' کافی دنوں بعد سب سے ملاقات ہوگی، اچھا رہے گا۔''
'' بابا ! میں آپ کے ساتھ آگے بیٹھوںگی ۔''
'' مما ! میں کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھوں گا، ابھی بتارہا ہوں ۔''
'' کوشش کریں گے کہ شادی سے نمٹتے ہی گھر کے لیے روانہ ہوجائیں تاکہ وقت پر گھر پہنچ جائیں۔''
'' بیٹا ! خیر سے جاؤ خیر سے واپس آؤ، ہم لوگوں اور اپنے پوتے پوتیوں کے بغیر گھر بہت سونا سونا ہو جاتا ہے، تم سب کا بہت انتظار رہے گا۔''
٭... دوسرا منظر
سب کے چہرے پر خوشی ہے، آج ان کے بیٹوں نے پولیس میں ملازمت ملنے کی ''خوشخبری'' جو سنائی تھی ، سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ملازمت پانے والے نوجوان پر بہت خوش تھے ۔ وہ اپنے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں سے بڑے پرعزم لجھے میں کہہ رہے تھے کہ ''اللہ نے ہمیں ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیا ہے، اب ہم خوب محنت سے کام کریں گے، عوام کے خادم بن کر رہیں گے ۔''
مذکورہ بالا دونوں مناظر ہمارے معاشرے کی روز و شب کی کہانی ہے، کسی نہ کسی شہر ، قصبے یا گاؤں میں ایسی ہی کیفیت اور جذبات ہوتے ہیں جب کسی خوشی کے موقعے پر ہمیں دوسرے شہر جانا ہو یا اپنے گھرکے کسی نوجوان کو سرکاری یا غیرسرکاری اچھی ملازمت ملے۔
مگر ہفتہ 19جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب یہ دونوں مناظرکچھ اس طرح یکجا ہوئے کہ ایک تیسرا انتہائی دردناک، المناک ، افسوسناک اور قابل مذمت منظر سامنے آگیا ۔ دوپہر کے وقت پولیس کے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے لاہور سے آنے والی گاڑی کو ساہیوال کے قریب روکا ، انتہائی ''رحم دلی'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3 بچوں کوگاڑی سے اتار دیا اور پھر گاڑی میں سوار 2 مردوں ، خاتون اور 13سالہ بچی پر اس طرح گولیوں کی بارش کردی جیسے دنیا کے سب سے بڑے '' دہشت گرد '' اس کار میں سوار ہیں اور اگر انھیں زندہ چھوڑ دیا تو بہت نقصان ہوجائے گا۔
پھرالمیہ صرف یہ نہیں ہوا کہ صرف چار لوگ پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے بلکہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے خلیل اوراس کے پورے گھر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ جو چلے گئے وہ توچلے گئے اوران کا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا لیکن مقتول خلیل کے بیٹے،دوکمسن بیٹیوں کی زندگیاں اتنے بڑے امتحان میں ڈال دی گئی ہیں جو شاید دنیا کا سب سے مشکل امتحان کہا جاسکتا ہے۔ جن بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اوربہن کوظالمانہ طریقے سے قتل کردیا جائے تو ان کی زندگیوں میں کیا بچے گا؟
میں تو سمجھتا ہوں کہ ساہیوال کے قریب مرکزی شاہراہ پر دن کی روشنی میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں بلکہ انصاف وقانون، انسانیت، طرز حکومت اور اداروں کی بحالی کے دعوؤں کے جنازے اٹھ گئے ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوال میڈیا میں اٹھائے جا رہے ہیں، عوام کے ذہنوں میں ہیں، لوگ ایک دوسرے سے اس پر بات بھی کر رہے ہیں، اس کے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما بھی اپنی اپنی پالیسی کے تحت اس سانحے پر بیان بازی کرکے اپنا ''فرض'' ادا کر رہے ہیں اورخود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھرپورکوششیں بھی جاری ہیں لیکن اصل نقصان کو اس گھرکا ہوگیا ہے جو زندگی بھر نہ اس واقعے کے زخم لے کر چلیں گے، اٹھتے بیٹھتے انھیں اس واقعے کی دل سوز یادیں تنگ بھی کریںگی اور پریشان بھی ہر واقعے پر مذمتی بیانات ، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے نعرے، واقعے کے خلاف احتجاج ومظاہرے، سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پرالزامات اورپوائنٹ اسکورنگ ایک معمول کی شق نظرآنے لگی ہے، یہ سب کچھ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا سانحہ رونما نہ ہوجائے، نیا واقعہ سامنے آتے ہی پرانے واقعے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب کے خطبات، اقوال اورنصیحتوں سے بھرے مجموعے ''نہج البلاغہ'' میں ایسے ہی حالات کے حوالے سے حضرت علیؓ کا ایک قول رقم ہے کہ ''گناہ تیز رفتار سرکش گھوڑوں کی مانند ہوتے ہیں جن کی باگیں بھی سواروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔''
ایک اور موقعے پر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ '' دولت ، اقتدار اور اختیارملنے سے لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔''
واقعی اگر زندگی میں اپنے چھوٹے سے منصب اوراختیارکو سب کچھ سمجھ کر لوگ بے قابو ہوجائیں تو ایسا ہی کچھ ہوتا ہے جیسا سانحہ ساہیوال میں ہوا ، اگر پولیس اوردیگر اداروں کو بے لگام کرنا مقصود ہے تو پھر عام آدمی کا گھر سے نکلنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ یہ تو سانحہ ساہیوال چند روز قبل کی بات ہے، ہمارے ملک کی تاریخ کے صفحات تو ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ایسی ہی '' پولیس گردی '' کی بھیانک مثال ہے۔ کاش حکمراں ان واقعات کی مکمل روک تھام کے لیے ایسی قانون سازی کرلیں جن پر عمل بھی ہو اور جس کے بعد کسی کے گھر والے اپنے پیاروں کی راہ تکتے نہ رہ جائیں۔ آخر میں سانحہ ساہیوال میں '' دہشت گردوں '' کی گاڑی میں سے زندہ بچ جانے والی ''دہشت گرد بچی '' کا ''اقبالی بیان '' جو ہمارے دوست منصور ساحر نے پوری قوم کے جذبات و احساسات کو اسموکر قلمبند کیا۔اس منظوم احساسات کی چند سطریں نذر قارئین ہیں
ہے اقبالی بیاں میرا کہ دہشت گرد ہوں میں بھی
قبیلہ ہے جو مظلوموں کا ، اُس کی فرد ہوں میں بھی
بہت چھوٹی ہوں مت مارو، یہ دیکھو گڑگڑاتی ہوں
کیے ہیں جرم جو میں نے، پولیس کو سب بتاتی ہوں
گئی تھی باغ میں اک دن تو تتلی میں نے اغوا کی
وہ تتلی دو منٹ تک حبس بے جا میں بھی رکھی تھی
وہاں جب پھول توڑا تھا تو میں نے ڈانٹ کھائی تھی
گری تھی جیب سے بھائی کی جو ٹافی، چُھپائی تھی
بہن کی تھی جو گڑیا میں نے اُس کے بال کاٹے ہیں
پری جو لال تھی ناں ، میں نے اُس کے پر بھی نوچے ہیں
سہیلی تھی جو میری ، اُس کو پانی سے بھگویا تھا
تو اُس نے بھی مرا پہلے، کلرکا بکس کھویا تھا
میں چُٹیا کھینچ کے اپنی بہن کی بھاگ لیتی ہوں
جو فیڈر ہے مرا، اُس کا نپل بھی کاٹ لیتی ہوں
میری باتوں کو سن کو روپڑے ہیں کیوں پولیس انکل؟
لیں ! آنسو پونچھ لیں، ماما کا میرے پاس ہے آنچل
میں وعدہ کر رہی ہوں اب شرارت چھوڑ دوں گی میں
میں بچی ہوں مگر بچپن سے بھی منہ موڑلوں گی میں
مجھے مت ماریے گا جان سے ، میں پھول جیسی ہوں
میں بے بس قوم کی اجڑی ہوئی مظلوم بیٹی ہوں
٭ ... پہلا منظر
پہلا گھر میں ایک بڑی گہماگہمی کا عالم تھا، سب تیاریوں میں لگے ہوئے تھے، بچوں کے چہرے بھی خوشی سے دمک رہے تھے، یہ سب اس لیے تھا کیونکہ عزیزکی شادی میں شرکت کے لیے دوسرے شہر جو جانا تھا ، بچے سیر وتفریح اور نئی جگہ پر خوب مزے کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے، ایک دوسرے کو بتا رہے تھے تو بڑوں کے ذہنوں میں شادی کی تقاریب میں شرکت کے ساتھ ساتھ سخت سرد موسم ، لمبا سفر اور بچوں کی صحت کے معاملات بھی تھے ، اپنی چیزوں کو مد نظر رکھ کر جانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اورگھر میں اس طرح کی گفتگو ہو رہی تھی ۔
'' ارے بھئی! راستے کے لیے کچھ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ لینا بچے مانگیں گے، بار بار گاڑی روکنا نہیں پڑے گی۔''
''سنیں ، بچوں کے اضافی گرم کپڑے رکھ لیتی ہوں، ضرورت پڑسکتی ہے۔''
'' کافی دنوں بعد سب سے ملاقات ہوگی، اچھا رہے گا۔''
'' بابا ! میں آپ کے ساتھ آگے بیٹھوںگی ۔''
'' مما ! میں کھڑکی والی سائیڈ پر بیٹھوں گا، ابھی بتارہا ہوں ۔''
'' کوشش کریں گے کہ شادی سے نمٹتے ہی گھر کے لیے روانہ ہوجائیں تاکہ وقت پر گھر پہنچ جائیں۔''
'' بیٹا ! خیر سے جاؤ خیر سے واپس آؤ، ہم لوگوں اور اپنے پوتے پوتیوں کے بغیر گھر بہت سونا سونا ہو جاتا ہے، تم سب کا بہت انتظار رہے گا۔''
٭... دوسرا منظر
سب کے چہرے پر خوشی ہے، آج ان کے بیٹوں نے پولیس میں ملازمت ملنے کی ''خوشخبری'' جو سنائی تھی ، سب ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ ملازمت پانے والے نوجوان پر بہت خوش تھے ۔ وہ اپنے ماں باپ اور دیگر رشتے داروں سے بڑے پرعزم لجھے میں کہہ رہے تھے کہ ''اللہ نے ہمیں ملک و قوم کی خدمت کا موقع دیا ہے، اب ہم خوب محنت سے کام کریں گے، عوام کے خادم بن کر رہیں گے ۔''
مذکورہ بالا دونوں مناظر ہمارے معاشرے کی روز و شب کی کہانی ہے، کسی نہ کسی شہر ، قصبے یا گاؤں میں ایسی ہی کیفیت اور جذبات ہوتے ہیں جب کسی خوشی کے موقعے پر ہمیں دوسرے شہر جانا ہو یا اپنے گھرکے کسی نوجوان کو سرکاری یا غیرسرکاری اچھی ملازمت ملے۔
مگر ہفتہ 19جنوری 2019 کو ساہیوال کے قریب یہ دونوں مناظرکچھ اس طرح یکجا ہوئے کہ ایک تیسرا انتہائی دردناک، المناک ، افسوسناک اور قابل مذمت منظر سامنے آگیا ۔ دوپہر کے وقت پولیس کے کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں نے لاہور سے آنے والی گاڑی کو ساہیوال کے قریب روکا ، انتہائی ''رحم دلی'' کا مظاہرہ کرتے ہوئے 3 بچوں کوگاڑی سے اتار دیا اور پھر گاڑی میں سوار 2 مردوں ، خاتون اور 13سالہ بچی پر اس طرح گولیوں کی بارش کردی جیسے دنیا کے سب سے بڑے '' دہشت گرد '' اس کار میں سوار ہیں اور اگر انھیں زندہ چھوڑ دیا تو بہت نقصان ہوجائے گا۔
پھرالمیہ صرف یہ نہیں ہوا کہ صرف چار لوگ پولیس اہلکاروں کی گولیوں کا نشانہ بنے بلکہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے خلیل اوراس کے پورے گھر کو گولیوں سے چھلنی کر دیا ۔ جو چلے گئے وہ توچلے گئے اوران کا نقصان کبھی پورا نہیں ہوگا لیکن مقتول خلیل کے بیٹے،دوکمسن بیٹیوں کی زندگیاں اتنے بڑے امتحان میں ڈال دی گئی ہیں جو شاید دنیا کا سب سے مشکل امتحان کہا جاسکتا ہے۔ جن بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اوربہن کوظالمانہ طریقے سے قتل کردیا جائے تو ان کی زندگیوں میں کیا بچے گا؟
میں تو سمجھتا ہوں کہ ساہیوال کے قریب مرکزی شاہراہ پر دن کی روشنی میں پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں بلکہ انصاف وقانون، انسانیت، طرز حکومت اور اداروں کی بحالی کے دعوؤں کے جنازے اٹھ گئے ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے بہت سے سوال میڈیا میں اٹھائے جا رہے ہیں، عوام کے ذہنوں میں ہیں، لوگ ایک دوسرے سے اس پر بات بھی کر رہے ہیں، اس کے حکومت اور اپوزیشن کے رہنما بھی اپنی اپنی پالیسی کے تحت اس سانحے پر بیان بازی کرکے اپنا ''فرض'' ادا کر رہے ہیں اورخود کو بری الذمہ قرار دینے کی بھرپورکوششیں بھی جاری ہیں لیکن اصل نقصان کو اس گھرکا ہوگیا ہے جو زندگی بھر نہ اس واقعے کے زخم لے کر چلیں گے، اٹھتے بیٹھتے انھیں اس واقعے کی دل سوز یادیں تنگ بھی کریںگی اور پریشان بھی ہر واقعے پر مذمتی بیانات ، ذمے داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے نعرے، واقعے کے خلاف احتجاج ومظاہرے، سیاسی جماعتوں کے ایک دوسرے پرالزامات اورپوائنٹ اسکورنگ ایک معمول کی شق نظرآنے لگی ہے، یہ سب کچھ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی دوسرا سانحہ رونما نہ ہوجائے، نیا واقعہ سامنے آتے ہی پرانے واقعے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔
خلیفہ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب کے خطبات، اقوال اورنصیحتوں سے بھرے مجموعے ''نہج البلاغہ'' میں ایسے ہی حالات کے حوالے سے حضرت علیؓ کا ایک قول رقم ہے کہ ''گناہ تیز رفتار سرکش گھوڑوں کی مانند ہوتے ہیں جن کی باگیں بھی سواروں کے ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔''
ایک اور موقعے پر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ '' دولت ، اقتدار اور اختیارملنے سے لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔''
واقعی اگر زندگی میں اپنے چھوٹے سے منصب اوراختیارکو سب کچھ سمجھ کر لوگ بے قابو ہوجائیں تو ایسا ہی کچھ ہوتا ہے جیسا سانحہ ساہیوال میں ہوا ، اگر پولیس اوردیگر اداروں کو بے لگام کرنا مقصود ہے تو پھر عام آدمی کا گھر سے نکلنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔ یہ تو سانحہ ساہیوال چند روز قبل کی بات ہے، ہمارے ملک کی تاریخ کے صفحات تو ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں اور بے گناہوں کے خون سے رنگین ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن بھی ایسی ہی '' پولیس گردی '' کی بھیانک مثال ہے۔ کاش حکمراں ان واقعات کی مکمل روک تھام کے لیے ایسی قانون سازی کرلیں جن پر عمل بھی ہو اور جس کے بعد کسی کے گھر والے اپنے پیاروں کی راہ تکتے نہ رہ جائیں۔ آخر میں سانحہ ساہیوال میں '' دہشت گردوں '' کی گاڑی میں سے زندہ بچ جانے والی ''دہشت گرد بچی '' کا ''اقبالی بیان '' جو ہمارے دوست منصور ساحر نے پوری قوم کے جذبات و احساسات کو اسموکر قلمبند کیا۔اس منظوم احساسات کی چند سطریں نذر قارئین ہیں
ہے اقبالی بیاں میرا کہ دہشت گرد ہوں میں بھی
قبیلہ ہے جو مظلوموں کا ، اُس کی فرد ہوں میں بھی
بہت چھوٹی ہوں مت مارو، یہ دیکھو گڑگڑاتی ہوں
کیے ہیں جرم جو میں نے، پولیس کو سب بتاتی ہوں
گئی تھی باغ میں اک دن تو تتلی میں نے اغوا کی
وہ تتلی دو منٹ تک حبس بے جا میں بھی رکھی تھی
وہاں جب پھول توڑا تھا تو میں نے ڈانٹ کھائی تھی
گری تھی جیب سے بھائی کی جو ٹافی، چُھپائی تھی
بہن کی تھی جو گڑیا میں نے اُس کے بال کاٹے ہیں
پری جو لال تھی ناں ، میں نے اُس کے پر بھی نوچے ہیں
سہیلی تھی جو میری ، اُس کو پانی سے بھگویا تھا
تو اُس نے بھی مرا پہلے، کلرکا بکس کھویا تھا
میں چُٹیا کھینچ کے اپنی بہن کی بھاگ لیتی ہوں
جو فیڈر ہے مرا، اُس کا نپل بھی کاٹ لیتی ہوں
میری باتوں کو سن کو روپڑے ہیں کیوں پولیس انکل؟
لیں ! آنسو پونچھ لیں، ماما کا میرے پاس ہے آنچل
میں وعدہ کر رہی ہوں اب شرارت چھوڑ دوں گی میں
میں بچی ہوں مگر بچپن سے بھی منہ موڑلوں گی میں
مجھے مت ماریے گا جان سے ، میں پھول جیسی ہوں
میں بے بس قوم کی اجڑی ہوئی مظلوم بیٹی ہوں