کراچی میں اربوں روپے مالیت کے 930 رہائشی پلاٹس پر کمرشل سرگرمیاں رپورٹ تیار
رہائشی پلاٹس پر عمارتیں بن چکی ہیں جو کہ پانچ منزلہ سے بیس منزلہ تک ہیں
سپریم کورٹ کے حکم پر ایس بی سی اے نے رپورٹ تیار کرلی جس کے مطابق شہر میں اربوں روپے مالیت کے کم از کم 930 رہائشی پلاٹس پر کمرشل سرگرمیوں کا انکشاف ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر ایس بی سی اے (سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) نے کراچی کے رہائشی پلاٹس کو کمرشل کیے جانے سے متعلق رپورٹ تیار کرلی ہے جو کہ 22 صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ پڑھیں: کراچی کی کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی، سپریم کورٹ
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ان رہائشی پلاٹس پر عمارتیں بن چکی ہیں جو کہ پانچ منزلہ سے بیس منزلہ تک ہیں ان میں سے بعض عمارتوں کو رقم کے عوض باقاعدہ کمرشل کرایا گیا جس کی اجازت اس وقت باقاعدہ عدالت یا اداروں نے دی، اب جو سپریم کورٹ کا حکم آیا ہے اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت عدالت یا اداروں نے کسی بھی رہائشی پلاٹ کو کمرشل کرنی کی اجازت کس بنیاد پر دی تھی؟ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے رہائشی پلاٹس پر قائم کمرشل تعمیرات مسمار کرنے کے موجودہ احکامات کا اطلاق ایسے کیسز پر بھی ہوگا کہ نہیں؟
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بھر میں رہائشی پلاٹس پر قائم کمرشل تعمیرات مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کی زد میں کراچی میں قائم کم از کم 500 عمارتیں آرہی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا تو کراچی میں اس بار کیا جانے والا انہدامی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا 'انسداد تجاوزات آپریشن ہوگا جس میں 500 سے زائد عمارتیں، شادی ہال، ہوٹلز، کمرشل پلازے، سنیما، مارکیٹس اور دیگر کمرشل ادارے آجائیں گے۔
واضح رہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے افتخار قائم خانی نے سپریم کورٹ کے باہر کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے گا ٹاؤن وائس لسٹ مکمل ہونے کے بعد پلاٹس کو ان کی اصل حالت میں بحال کریں گے، فنڈز کی تشکیل کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے یہ کمیٹی یہ بھی جائزہ لے گی کہ بلڈنگ جب بن رہی تھی تو اس وقت کون کون افسران تعینات تھے؟ اور کیا بے ضابطگیاں ہوئیں؟ رہائشی پلاٹس پر کمرشل استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر ایس بی سی اے (سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) نے کراچی کے رہائشی پلاٹس کو کمرشل کیے جانے سے متعلق رپورٹ تیار کرلی ہے جو کہ 22 صفحات پر مشتمل ہے۔
یہ پڑھیں: کراچی کی کم از کم 500 عمارتیں گرانا ہوں گی، سپریم کورٹ
نمائندہ ایکسپریس کے مطابق ان رہائشی پلاٹس پر عمارتیں بن چکی ہیں جو کہ پانچ منزلہ سے بیس منزلہ تک ہیں ان میں سے بعض عمارتوں کو رقم کے عوض باقاعدہ کمرشل کرایا گیا جس کی اجازت اس وقت باقاعدہ عدالت یا اداروں نے دی، اب جو سپریم کورٹ کا حکم آیا ہے اس میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اس وقت عدالت یا اداروں نے کسی بھی رہائشی پلاٹ کو کمرشل کرنی کی اجازت کس بنیاد پر دی تھی؟ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے رہائشی پلاٹس پر قائم کمرشل تعمیرات مسمار کرنے کے موجودہ احکامات کا اطلاق ایسے کیسز پر بھی ہوگا کہ نہیں؟
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے کراچی بھر میں رہائشی پلاٹس پر قائم کمرشل تعمیرات مسمار کرنے کا حکم دے دیا ہے جس کی زد میں کراچی میں قائم کم از کم 500 عمارتیں آرہی ہیں۔ اگر سپریم کورٹ کے احکامات پر من و عن عمل درآمد کیا گیا تو کراچی میں اس بار کیا جانے والا انہدامی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا 'انسداد تجاوزات آپریشن ہوگا جس میں 500 سے زائد عمارتیں، شادی ہال، ہوٹلز، کمرشل پلازے، سنیما، مارکیٹس اور دیگر کمرشل ادارے آجائیں گے۔
واضح رہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے افتخار قائم خانی نے سپریم کورٹ کے باہر کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے احکامات پر مکمل طور پر عمل درآمد کیا جائے گا ٹاؤن وائس لسٹ مکمل ہونے کے بعد پلاٹس کو ان کی اصل حالت میں بحال کریں گے، فنڈز کی تشکیل کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے یہ کمیٹی یہ بھی جائزہ لے گی کہ بلڈنگ جب بن رہی تھی تو اس وقت کون کون افسران تعینات تھے؟ اور کیا بے ضابطگیاں ہوئیں؟ رہائشی پلاٹس پر کمرشل استعمال نہیں ہونے دیں گے۔