فضائلِ صدقات و خیرات

قرآن حکیم میں صدقات و خیرات کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔

قرآن حکیم میں صدقات و خیرات کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔ فوٹو : فائل

صدقات و خیرات اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا نام ہے اور ان اعمال کی بڑی فضیلت ہے۔

ینفقون، عربی کا یہ ایک ایسا عام لفظ ہے جو صدقات واجب اور صدقات نفل دونوں ہی کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس کی تعریف میں مزید یہ کہ اہل ایمان حسب استطاعت دونوں ہی میں کوتاہی نہیں برتتے بل کہ ماں باپ اور اہل و عیال پر صحیح طریقے سے خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے اور باعث اجر و ثواب ہے۔

قرآن حکیم میں صدقات و خیرات کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے اور جہاں بھی زکوٰۃ صدقات اور خیرات کی آیات آئی ہیں وہاں اسلامی عقاید اور عبادات کا ذکر پہلے ہوا ہے۔ جس سے لازمی نتیجہ یہی اخذ ہوسکتا ہے کہ مسلمان کو پہلے اپنے عقاید مضبوط کرنا چاہییں پھر اس کے بعد عبادات کو اپنے اوپر لازم کرنا چاہیے، تاکہ اس کا کردار پاکیزہ ہوجائے اور پھر صدقات و خیرات کرنے سے اس کی زندگی میں مزید نکھار آجائے۔ اسلام کردار سازی کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور نیکی کا درس بعد میں۔

ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے : ''اصل نیکی اسی میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف بل کہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ایمان لائیں اور قیامت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں پر، اور تمام پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں مال دیں اپنے رشتہ داروں کو اور یتیموں کو اور غریبوں کو اور مسافروں کو اور سوال کرنے والوں کو (فقراء) اور گردن چھڑانے میں (قیدی اور غلام کو آزاد کرانا)۔'' (سورہ بقرہ)

ان آیات مبارکہ میں بھی پہلے عقاید پر جمے رہنے کا ذکر ہے اور پھر زکوٰۃ و صدقات کا۔ اللہ کے راستے میں جو کچھ بھی اور جتنا بھی خرچ کیا جائے اسے خوش دلی کے ساتھ خرچ کرنا چاہیے، کسی جبر یا دباؤ کے نتیجے میں نہیں بس اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے فراخ دلی سے خرچ کیا جانا چاہیے۔

قرآن حکیم میں اللہ تعالی کے فرمان کا مفہوم ہے: ''ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ جیسی ہے جو اونچی زمین پر ہو اور زور دار بارش اس پر برسے اور وہ اپنا پھل دگنا لائے اور اگر اس پر بارش نہ بھی برسے تو پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے ہر کام دیکھ رہا ہے۔'' (البقرہ)

اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا چوں کہ جنت کا مستحق ہوتا ہے یعنی جنت میں اس کا کوئی مکان یا محل تعمیر ہوتا ہے۔ ہم جتنا مال تھوڑا تھوڑا یا یک دم اللہ کی راہ میں دیں گے اس کی مثال ایک خام مال کی سی ہے، دنیاوی لفظوں میں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم جتنا سیمنٹ اور سریا، بجری یا اور کوئی تعمیری لوازمہ بھیجیں گے مکان یا محل اسی طرح تعمیر ہوتا رہے گا، جو ہماری نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے اور وہ روز محشر ہماری ملکیت میں دیا جائے گا۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوا، مفہوم: '' کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اس کو کئی گناہ زیادہ دے گا اور اللہ ہی روزی تنگ کرتا اور کشادہ کرتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔ '' (سورہ البقرہ)


اس آیۂ مبارکہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کو قرض سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ جیسے قرض کی ادائی اور واپسی اس دنیا میں لازمی ہوتی ہے اسی طرح آخرت میں اس قرض کا اجر و ثواب یا بدلہ ضرور ملتا ہے، اس لیے اسے قرض حسنہ سے تعبیر کیا ہے۔

ان لوگوں کے اس وسوسے کا ذکر بھی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال گھٹتا ہے اور یوں وہ اپنی دولت کو دل و جان سے عزیز رکھتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھا تا ہے۔'' کتب احادیث میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر بیشتر احادیث آئی ہیں، کہیں اس کی ترغیب دلائی گئی ہے تو کہیں اس کی اہمیت اور فضائل بیان ہوئے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہوتا تو مجھے اس بات سے مسرت ہوتی کہ میں اس کو تین دن ختم ہونے سے پہلے ہی ختم کردوں اور صرف اتنا روک لوں کہ جتنا مجھے ادائے قرض کے لیے درکار ہو۔'' (بخاری)

حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا، مفہوم: '' بے حساب خرچ کرو (اللہ کی راہ میں) اللہ تمہیں بے حساب دے گا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز مت کرو ورنہ اللہ تم پر (مال و دولت) روک دے گا، جہاں تک ممکن ہو خیرات کرو۔''

حضرت سلمان بن عامر ؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ''مسکین پر صدقہ کرنا ایک اجر ہے اور رشتے دار کو صدقہ دینا دہرے اجر کا سبب بنتا ہے، ایک صدقے کا ثواب اور دوسرا صلۂ رحمی کا۔'' (مسند احمد۔ ترمذی۔ دارمی۔ نسائی۔ ابن ماجہ)

وہ لوگ جو صدقہ و خیرات کو اہمیت نہیں دیتے یا بخل کرتے ہیں اور اگر دیتے ہیں تو پھر احسان جتاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے وعید آئی ہے۔

حضرت ابوبکر صدیق ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا، مفہوم: ''جنت میں مکّار، بخیل اور احسان جتلانے والے داخل نہیں ہوں گے۔'' (ترمذی ۔ مشکوٰۃ)

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات بالکل عیاں ہوگئی کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں صدق دل سے خرچ کرتے ہیں وہ مومن ہیں اور ان کا ٹھکانا جنّت ہے۔
Load Next Story