ایک اور بجٹ
جہاں انسان تمام حوصلے ہار جاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی ختم کر دینے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا۔
گزشتہ کئی برسوں سے ہم سرابوں کے پیچھے بھٹک رہے ہیں ایک طرف اگرشاہانہ حکومتی اخراجات کا کوئی اندازہ نہیں تو دوسری طرف عوام کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ زندگی جیسی قیمتی چیز کو ختم کر دینا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ ہرروز اخبارات میں خود کشی کی خبر چھپتی ہے جس کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی اور افلاس کا وہ مقام ہوتا ہے۔
جہاں انسان تمام حوصلے ہار جاتا ہے اور اس کے سامنے زندگی ختم کر دینے کے سوا کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا۔ ان خبروں کو پڑھ کراپنے اوپر طاری کرب وبلا کی کسی کیفیت میں سوچتا ہوں کہ اگر میرے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہ ملتا ، بیماری میں ان کا علاج کرانے کی سکت نہ ہوتی ، شام کو جب گھر لوٹتا تو جیب خالی ہوتی اور میرے بچے اپنی ماں سمیت مجھے جن نظروں سے دیکھتے ان کو دوچار دن سے زیادہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے میںبچوں کی تفریح و تعلیم اور مناسب لباس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
ہمارے ہاں دولت کے انبار ہیں مگر وہ سب ایک مخصوص طبقہ تک محدود ، وہ طبقہ اسے اڑا رہا ہے اسے بیرونی ملکوں میں جمع کر رہا ہے اور زہریلا سانپ بن کر اس پر بیٹھا پھنکار بھی رہا ہے ۔ جو بھی حکمران آتا ہے وہ اسی طبقے کی خوشنودی کے لیے آتا ہے اور اپنے مفادات اس سے وابستہ کر لیتا ہے کیونکہ ان کے مفادات کی حفاظت وہی کر سکتا ہے جو اس ہنر کو جانتا ہو، غریب کے ساتھ ہاتھ ملائے گا تو پلے سے الٹا کچھ دینا پڑے گا ۔
حضور پاکﷺ نے فرمایا تھا کہ غربت کفر کے قریب لے جاتی ہے تواس ہادی برحقﷺکی طرف سے یہ ایک وارننگ تھی کہ غربت و افلاس کفر یعنی انکار کے قریب لے جاتا ہے اوراس کی دہلیز پر کھڑا کر دیتا ہے ۔ ڈرئیے اس وقت سے جب نادار، مفلس اور بے کس و بے بس طبقے میں جرات کفر و انکار پیدا ہو جائے ۔
تاریخ میں جب بھی انکار کی جرات پیدا ہوئی اس نے تاریخ ہی بدل ڈالی ۔ کچھ عرصہ پہلے ایرانیوں کے اندر انکار کی جرات پیدا ہوئی اورامریکا کا نمایندہ حکمران نہ صرف بے وطن ہوا بلکہ دنیا بھر میں قبر کی جگہ کی تلاش میں مارا مارا پھرا۔ مجھے ایک کارٹون یاد آرہا ہے، مصر کا حکمران شہنشاہ آریہ مہر کو ساتھ لیے مصر میں گھوم رہا ہے اور ایک اہرام کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ بس یہی جگہ اب دستیاب ہے۔ عراق میں امریکا جس کروفر کے ساتھ داخل ہوا دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ کس طرح وہاں سے جان بچا کر نکلا کیونکہ عراقیوں نے اس کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔
امریکا ظلم و ستم کے باوجود عراق پر اپنا تسلط مضبوط نہیں کرسکا ، کچھ ایسے ہی حالات افغانستان کے ہیں امریکی بالآخر یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ وہ افغانستان سے طالبان کو ختم نہیں کرسکتے اور اب وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کا سہار ا لینے پر مجبور ہیں اور یہ مذاکرات طالبان کی شرائط پر ہو رہے ہیں۔ یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہاں کے باشندوں میں جرات انکار پیدا ہو چکی ہے لیکن مسلمانوں کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔
یہاں امریکا کی مدد سے ایک ایسا معاشی نظام حکومت قائم کر دیا گیا جس میں عام انسانوں کی معاشی فلاح کا کوئی پروگرام نہیں کیونکہ امریکا کو پاکستانی عوام سے کوئی سروکار نہیں وہ صرف پاکستان کی اشرافیہ سے ہی معاملات کرنا چاہتا ہے ۔ترقی کے بلند و بانگ دعوے ہیں لیکن یہ صرف دعوے ہی رہے ہیں ان میںحقیقت کچھ نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو تو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں ۔ حکومت کے غلط نظام کی وجہ سے رشوت عروج پر ہے اور عام آدمی کے لیے انصاف ایک افسانوی چیز بن چکا ہے جس میں پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں۔
غربت برائیوں کی جڑ ہے اور آج کی سرمایہ دارانہ دنیا میں مساوات اور عدل و انصاف کا ایک ایسا نظام قائم کر دیا گیا ہے جو خوش حالی کی طرف بڑھتے قدموں کو واپس گھسیٹ لیتا ہے کیونکہ مغرب کو یہ منظور نہیں کہ کوئی اسلامی ملک اور اس میں اسلام کے نام کی معاشی حکومت کامیاب ہو جائے ۔ ہماری ششماہی حکومت نے معاشی اصلاحات کے نام سے منی بجٹ عوام کوپیش کیا ہے عوام کے لیے سہولتیں بڑھا دی گئی ہیں اور بڑے لوگوں کے لیے سہولتوں میں کمی کی گئی ہے بڑی گاڑیوں کی قیمتوں اور پر تعیش اشیا پر ڈیوٹی میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔
کسانوں کے لیے زرعی مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی کی گئی ہے ۔ مقامی صنعتوںپر ٹیکسوں کا بوجھ بھی کسی حد تک کم کیا گیا ہے ۔ اخبارات کے لیے نیوز پرنٹ پر ڈیوٹی کا مکمل خاتمہ کر کے حکومت نے میڈیا سے تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حکومت نے کسی حد تک عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ سے آزاد کرنے کی کوشش کی ہے۔
عوام جو کہ مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے جارہے تھے یہ منی بجٹ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا کہا جا سکتا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں میں جو بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے اس کی وجہ سے ملکی معیشت مسلسل دباؤ کی شکار ہے جس کے اثرات عوام پر پڑ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی معیشت میں بہتری کے لیے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی پڑیں گی جن سے ملک میں صنعتوں کا پہیہ چلنا شروع ہو جائے کیونکہ جب تک ملک میں صنعتوں کا پہیہ نہیں چلے گا عام آدمی کے حالات نہیں بدلیں گے ۔
مقامی صنعتوں سے ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کا کروڑوں نوکریوں کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو گا لیکن اس کے لیے حکومت کوصنعتکاروں کو اعتماد میں لینا ہو گا تا کہ وہ اپنے سرمائے کو پاکستان میں ہی گردش میں لائیں اور ملک میں مصنوعات کی تیاری شروع کریں، اب تو یہ عالم ہے کہ عام استعمال کی چھوٹی سے چھوٹی اشیاء بھی درآمد کی جارہی ہیں جس کی وجہ سے مقامی صنعتیں بند ہو گئی ہیں اور ان سے منسلک لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں ۔ معاشی نظام کو درست سمت میں نہ چلانے کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اور اب مزید سکت نہیں رہی کہ عوام حکومت کے مزیدظلم و ستم کا شکار رہیں ۔ منی بجٹ درست سمت میں ایک اچھی کوشش ہے اور حکومت کو ایسی کوششیں تسلسل کے ساتھ جاری رکھنی ہوں گی۔