وی آئی پی کلچر برقرار کیوں
وزیر اعظم کی تقلید کی بجائے اکثر وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی اپنے سربراہ کی طرح نظر نہیں آرہے۔
نئے پاکستان کے حکمرانوں نے وی آئی پی کلچر ملک سے ختم کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے مگر عمل دکھاؤے کا کچھ دنوں ہوا جو اب اپنی پرانی ڈگر پر آتا جا رہا ہے، جس کا ثبوت گورنر سندھ کا 21 گاڑیوں کے ساتھ سکھر کا دورہ ہے اور وفاقی وزرا میں وزیر اعظم کے برعکس وی آئی پی کلچر کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے ۔
وزیر اعظم کی تقلید کی بجائے اکثر وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی اپنے سربراہ کی طرح نظر نہیں آرہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا تو ان کے دورہ ترکی کے دوران وہاں کے صدر نے بھی اعتراف کیا ہے جو خود سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں۔ نئے پاکستان کے دعویدار عمران خان کا ایک نعرہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور سادگی کا فروغ تھا جس پر وہ اکثر عمل بھی کر رہے ہیں۔
انھیں کسی غیر ملکی سرکاری دورے میں بھی سوٹ میں ملبوس نہیں دیکھا گیا جس کا عوام پر اچھا تاثر قائم ہو رہا ہے اور ان کے مخالفین بھی وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا اعتراف کر رہے ہیں مگر ان کی کابینہ کے ارکان اپنے وزیر اعظم کی سادگی سے متاثر ہوتے نظر آتے ہیں اور نہ ان کی تقلید کر رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے سوٹ پہننا ہی اقتدار میں آنے کا واحد مقصد رہ گیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوٹ میں نظر آنے کی انفرادیت ان کی شناخت ہے اور شاید ان کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے جب کہ وزیراعظم کی ذاتی حیثیت دنیا مانتی ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں مسافر شالیمار ٹرین پٹری پر اور ایک سرکاری کار پلیٹ فارم پر موجود تھی جو جنرل منیجر ریلوے کے لیے پلیٹ فارم پر لائی گئی تھی جو شاید جسمانی طور پر معذور تھے یا اپنی وی آئی پی حیثیت دکھانا چاہتے ہوں جب کہ ان کی وجہ سے شالیمار ٹرین لیٹ اور مسافر پریشان ہوئے مگر جنرل منیجر ریلوے کا وی آئی پی پروٹوکول ختم ہوا، نہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے اور عوامی کہلانے والے وزیر ریلوے نے جنرل منیجر کے وی آئی پی بننے کا کوئی نوٹس لیا۔
پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان اور انتظامی صوبے گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ قومی لباس کو اہمیت دے کر وزیر اعظم عمران خان کی پیروی کر رہے ہیں۔ انھیں قومی لباس میں ان کے افسران، صوبوں کے معززین اور ملک بھر کے عوام پہچانتے ہیں کہ وہ وزرائے اعلیٰ ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ سوٹ میں ہی وزیر اعلیٰ کا دبدبہ نظر آئیں، صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہی سوٹ کے شوقین نظر آتے ہیں اور انھیں محسوس ہوتا ہو گا کہ شلوار قمیض میں وہ سندھ کے وزیراعلیٰ نہیں لگیں گے۔
2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دور میں صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان نئے نئے اور مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ رہتا تھا اور پاکستانی حکمران بیرون ملک کی ایک مشہور کمپنی سے 5 لاکھ روپے مالیت تک کا مہنگا سوٹ بنوا کر پہننا اپنی شان سمجھتے تھے اور کمپنی کا کہنا تھا کہ دنیا میں قیمتی سوٹوں کا آرڈر انھیں پاکستان سے زیادہ ملتا ہے۔
چوہدری سرور میڈیا رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے دور میں پنجاب کی گورنری چھوڑ کر تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور سیاست شروع کی تھی تو انھوں نے قومی لباس پہننا شروع کر دیا تھا اور موصوف اپنے دوسرے گھر برطانیہ جاکر ہی سوٹ کا شوق پورا کرتے ہوں گے کیونکہ شاید سوٹ گنجے پن کی خامی چھپا دیتا ہے۔ موصوف گورنر پنجاب بننے کے بعد واحد گورنر ہیں جودو گورنر ہاؤس استعمال کر رہے ہیں اور ان کے وی آئی پی طرز زندگی کو نمایاں کرنے کے لیے 111سرکاری اہلکار متعین ہیں جو سب گورنروں سے زیادہ اور تبدیلی حکومت کی سادگی کا واضح ثبوت ہے اور شاید چوہدری سرور اپنا یہی شوق پورا کرنے کے لیے دوبارہ گورنر بنے ہیں۔
صدر مملکت عارف علوی سابق صدر ممنون حسین سے عمر میں کم ہیں مگر سابق صدر کی طرح سوٹ پہننے کے شوقین ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ وہ پہلے صدور سے مختلف نظر آئیں گے مگر وہ بھی اپنے وزیر اعظم عمران خان کی طرح سادگی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کوئی سابق صدور جنرل ضیا اور غلام اسحق نہیں بن رہا۔ وزیر اعظم عمران خان تو وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہ رہے جب کہ ان کے صدر مملکت اور تمام گورنر حسب معمول ایوان صدر اور گورنر ہاؤس ہی میں رہ رہے ہیں۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ایوان صدر اور گورنر ہاؤسز ہفتے میں مخصوص وقت کے لیے عوام پر کھولے جاتے ہیں کہ اب وہ قریب آکر اپنے حکمرانوں کی رہائش گاہیں دیکھ لیں مگر باہر سے کیونکہ اندر کی شاندار رہائش، دفاتر اور وی آئی پی رہن سہن دیکھنے پر اب بھی پابندی ہے وہ باہرکا ہی نظارہ کر سکتے ہیں اور کڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کو لوگوں نے سائیکل پر اپنے آفس آتے دیکھا اور ان کی سادگی، قومی لباس اور انھیں شیروانی یا فوجی وردی میں ملبوس شخصیت دیکھی اور بعد میں جونیجو حکومت میں کچھ عرصہ بڑے افسروں کو چھوٹی کاروں میں سفر کرتے دیکھا مگر اب وزیر تو کیا ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی ایک گاڑی میں سفر نہیں کرتے۔
ملک بھر میں وی آئی پی کلچر مسلسل فروغ پا رہا ہے اور وزرا اور اعلیٰ افسران میڈیا پر قومی لباس میں آنا پسند نہیں کر رہے جس سے وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی اور اب تو وزیر ریلوے وی آئی پی ٹرین چلانے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ سفری امتیاز اور زیادہ نمایاں ہو سکے۔
وزیر اعظم کو اب اپنے وزرا کو سختی سے ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ سوٹ پہننے کا وی آئی پی کلچر چھوڑ کر سادگی اختیارکریں اور عوامی نظر آئیں تو شاید افسروں پر بھی کچھ اثر ہو سکے۔
وزیر اعظم کی تقلید کی بجائے اکثر وزیر، مشیر اور معاونین خصوصی اپنے سربراہ کی طرح نظر نہیں آرہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا تو ان کے دورہ ترکی کے دوران وہاں کے صدر نے بھی اعتراف کیا ہے جو خود سوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں۔ نئے پاکستان کے دعویدار عمران خان کا ایک نعرہ وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور سادگی کا فروغ تھا جس پر وہ اکثر عمل بھی کر رہے ہیں۔
انھیں کسی غیر ملکی سرکاری دورے میں بھی سوٹ میں ملبوس نہیں دیکھا گیا جس کا عوام پر اچھا تاثر قائم ہو رہا ہے اور ان کے مخالفین بھی وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کا اعتراف کر رہے ہیں مگر ان کی کابینہ کے ارکان اپنے وزیر اعظم کی سادگی سے متاثر ہوتے نظر آتے ہیں اور نہ ان کی تقلید کر رہے ہیں کیونکہ ان کے لیے سوٹ پہننا ہی اقتدار میں آنے کا واحد مقصد رہ گیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوٹ میں نظر آنے کی انفرادیت ان کی شناخت ہے اور شاید ان کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں ہے جب کہ وزیراعظم کی ذاتی حیثیت دنیا مانتی ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی کینٹ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں مسافر شالیمار ٹرین پٹری پر اور ایک سرکاری کار پلیٹ فارم پر موجود تھی جو جنرل منیجر ریلوے کے لیے پلیٹ فارم پر لائی گئی تھی جو شاید جسمانی طور پر معذور تھے یا اپنی وی آئی پی حیثیت دکھانا چاہتے ہوں جب کہ ان کی وجہ سے شالیمار ٹرین لیٹ اور مسافر پریشان ہوئے مگر جنرل منیجر ریلوے کا وی آئی پی پروٹوکول ختم ہوا، نہ بڑے بڑے دعوے کرنے والے اور عوامی کہلانے والے وزیر ریلوے نے جنرل منیجر کے وی آئی پی بننے کا کوئی نوٹس لیا۔
پنجاب، کے پی کے ، بلوچستان اور انتظامی صوبے گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ کو یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ وہ قومی لباس کو اہمیت دے کر وزیر اعظم عمران خان کی پیروی کر رہے ہیں۔ انھیں قومی لباس میں ان کے افسران، صوبوں کے معززین اور ملک بھر کے عوام پہچانتے ہیں کہ وہ وزرائے اعلیٰ ہیں اور ضروری نہیں کہ وہ سوٹ میں ہی وزیر اعلیٰ کا دبدبہ نظر آئیں، صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہی سوٹ کے شوقین نظر آتے ہیں اور انھیں محسوس ہوتا ہو گا کہ شلوار قمیض میں وہ سندھ کے وزیراعلیٰ نہیں لگیں گے۔
2008ء سے 2013ء تک پیپلز پارٹی کے دور میں صدر آصف زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے درمیان نئے نئے اور مہنگے سوٹ پہننے کا مقابلہ رہتا تھا اور پاکستانی حکمران بیرون ملک کی ایک مشہور کمپنی سے 5 لاکھ روپے مالیت تک کا مہنگا سوٹ بنوا کر پہننا اپنی شان سمجھتے تھے اور کمپنی کا کہنا تھا کہ دنیا میں قیمتی سوٹوں کا آرڈر انھیں پاکستان سے زیادہ ملتا ہے۔
چوہدری سرور میڈیا رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے دور میں پنجاب کی گورنری چھوڑ کر تبدیلی کی دعویدار تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے اور سیاست شروع کی تھی تو انھوں نے قومی لباس پہننا شروع کر دیا تھا اور موصوف اپنے دوسرے گھر برطانیہ جاکر ہی سوٹ کا شوق پورا کرتے ہوں گے کیونکہ شاید سوٹ گنجے پن کی خامی چھپا دیتا ہے۔ موصوف گورنر پنجاب بننے کے بعد واحد گورنر ہیں جودو گورنر ہاؤس استعمال کر رہے ہیں اور ان کے وی آئی پی طرز زندگی کو نمایاں کرنے کے لیے 111سرکاری اہلکار متعین ہیں جو سب گورنروں سے زیادہ اور تبدیلی حکومت کی سادگی کا واضح ثبوت ہے اور شاید چوہدری سرور اپنا یہی شوق پورا کرنے کے لیے دوبارہ گورنر بنے ہیں۔
صدر مملکت عارف علوی سابق صدر ممنون حسین سے عمر میں کم ہیں مگر سابق صدر کی طرح سوٹ پہننے کے شوقین ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ وہ پہلے صدور سے مختلف نظر آئیں گے مگر وہ بھی اپنے وزیر اعظم عمران خان کی طرح سادگی اختیار کرنے کو تیار نہیں ہیں اور کوئی سابق صدور جنرل ضیا اور غلام اسحق نہیں بن رہا۔ وزیر اعظم عمران خان تو وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہ رہے جب کہ ان کے صدر مملکت اور تمام گورنر حسب معمول ایوان صدر اور گورنر ہاؤس ہی میں رہ رہے ہیں۔
فرق صرف یہ پڑا ہے کہ ایوان صدر اور گورنر ہاؤسز ہفتے میں مخصوص وقت کے لیے عوام پر کھولے جاتے ہیں کہ اب وہ قریب آکر اپنے حکمرانوں کی رہائش گاہیں دیکھ لیں مگر باہر سے کیونکہ اندر کی شاندار رہائش، دفاتر اور وی آئی پی رہن سہن دیکھنے پر اب بھی پابندی ہے وہ باہرکا ہی نظارہ کر سکتے ہیں اور کڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں سابق فوجی صدر جنرل ضیا الحق کو لوگوں نے سائیکل پر اپنے آفس آتے دیکھا اور ان کی سادگی، قومی لباس اور انھیں شیروانی یا فوجی وردی میں ملبوس شخصیت دیکھی اور بعد میں جونیجو حکومت میں کچھ عرصہ بڑے افسروں کو چھوٹی کاروں میں سفر کرتے دیکھا مگر اب وزیر تو کیا ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی ایک گاڑی میں سفر نہیں کرتے۔
ملک بھر میں وی آئی پی کلچر مسلسل فروغ پا رہا ہے اور وزرا اور اعلیٰ افسران میڈیا پر قومی لباس میں آنا پسند نہیں کر رہے جس سے وزیر اعظم عمران خان کی سادگی کی پالیسی کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی اور اب تو وزیر ریلوے وی آئی پی ٹرین چلانے کا اعلان کر چکے ہیں تاکہ سفری امتیاز اور زیادہ نمایاں ہو سکے۔
وزیر اعظم کو اب اپنے وزرا کو سختی سے ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ سوٹ پہننے کا وی آئی پی کلچر چھوڑ کر سادگی اختیارکریں اور عوامی نظر آئیں تو شاید افسروں پر بھی کچھ اثر ہو سکے۔