چین میں ملنے والی محبت زندگی کے قیمتی سرمائے کی طرح ہمیشہ ساتھ رہے گی
ہماری مساجد کے برعکس چین میں وضو اور طہارت کا انتظام مسجد کے احاطے سے باہر ہوتا ہے۔
(آخری قسط)
ہر سفر کو ختم ہونا ہوتا ہے۔ منزلیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اور مسافر آتے جاتے رہتے ہیں۔ سی آر آئی میں گزرے شب و روز کو بھی ایک روز ختم ہونا تھا اور وہ مرحلہ قریب آگیا تھا۔ چین میں قیام کا ہمارا تیسرا سال شروع ہوا تو ہر روز یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ اب واپسی کا مرحلہ قریب ہے۔
ہلکی ہلکی اداسی نے اثر دکھا نا شروع کر دیا۔ پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب پاکستان واپسی کے لیے ٹکٹ بک کرایا۔ اس کے بعد ہر گذرتے دن کے ساتھ ماضی کی یادوں کے نقوش زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرنے لگے۔ ابتدائی دنوں میں ہمارے سماج سے مختلف ہر مزاج اور روایت کی جانب کشش اور ہمارا چینی زبان سیکھنے کا نیا نیا شوق بھی عروج پر تھا۔ جب اپنے پیش رو احباب کو دکانداروں سے رواںچینی زبان میں گفتگوکرتے سنتے تو حیرت ہوتی۔ تین سال گزارنے کے بعد ہمیں بھی روزمرہ چینی کے کچھ الفاظ آ ہی گئے تھے اور ہم بھی کہیں آنے جانے یا خریداری کے لیے ضروری چینی بول ہی لیتے تھے۔
رفتہ رفتہ سی آر آئی میں کام کرنے والے غیر ملکی احباب سے تعارف وآشنائی کا سلسلہ شروع ہوا۔سب سے پہلے جنوبی ایشیائی فارن ایکسپرٹس سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ وجہ یہ تھی کہ ایک ہی فلور پر سب کے دفاتر تھے ۔ صبح صبح سی آرآئی جانا اور پھر تمام دفتری وقت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں گزار دینا اور شام کو واپس آکر کھانا تیارکرنے کے لوازمات میںمصروف ہو جانا۔ وہاں دورانِ کام غیر ضروری سرگرمیوں میں وقت گزاری کو معیوب اور ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ یادوں کے کیا کیا دریچے وا ہو رہے ہیں ۔
بیجنگ میںہماری پہلی سماجی مصروفیت پاکستان کے سفارت خانے میں یومِ آزادی کی تقریب میںشمولیت کل کی بات لگتی ہے ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ملک سے باہر یوم آزادی منا رہے تھے۔ اس روز وطن سے دوری کا احساس بہت شدت سے ہوا۔ پاکستان میں تو ہر جگہ سبز جھنڈیاں اور پرچم نظر آتے ہیں لیکن یہاں سڑکیں اور عمارات قومی پرچم سے خالی تھیں۔ صرف پاکستان کے سفارتخانے میں تقریب منعقد ہوئی اور وہاں بہت سے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ پاکستان ایمبیسی کالج کے طلباء و طالبات نے ملی نغمے گاکر وطن سے محبت کی یاد کو گرمایا۔ جشنِ آزادی کی تقریب کے بعد دوسری سماجی تقریب بیجنگ میں مسلم ایسوسی ایشن کی جانب سے عیدالاضحی کے موقع پر ایک دعوت میں شرکت تھی۔ اس دعوت میں ہمیں سی آر آئی کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔
اس روز سی آرآئی میں کام کرنے والے مسلم مرد و خواتین صحافیوں سے تعارف ہوا۔ بیجنگ میں مختلف شعبوں میں کام کرنیوالے مختلف مسلمان ممالک کے شہریوں سے بھی ملاقا ت ہوئی۔ یوں دیار غیر میں مذہب کی وجہ سے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ مذہب کاذکر آیا تو بیجنگ میں پہلی مرتبہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا منظر بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ پہلی مرتبہ جب ہم نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے لگے توہمارے پیش رو ساتھیوں عبدالمجید بلوچ اوررئیس سلیم نے بتایا کہ ہم بس میںجائیں گے ۔ ہم حیران ہوئے کہ بس میں۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد کافی فاصلے پر تھی ۔ بس میں جاتے ہوئے تقریباً پینتالیس منٹ لگ جاتے تھے۔ بہرحال ہم بس میں مسجد کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں مختلف مقاما ت سے گزرتے ہوئے ہم مسجد تک پہنچ گئے۔
ہم پاکستان میں موجود مساجد کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے تو جب ہم مسجد کے سٹاپ 'مُوشی کو نین لی' پر اترے تو ہمیں اطراف میں کسی مسجد کے آثار نظر نہ آئے ۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر ہمیں ہمارا مقصود دکھائی نہ دیا۔ ہم اپنے ساتھیوں کی معیت میں چل دیے۔ سٹاپ پر سے اتر کر چند قدم کے فاصلے پر ہمارے ساتھی ایک کمیونٹی (ہمارے ہاں کا محلہ سمجھ لیں)میں داخل ہوگئے۔ آگے چل کر ہم داہنی جانب مڑے اور گھروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک قدرے اونچائی کی جانب جاتی سڑک کی طرف ہو لیے۔ اسی اونچائی پر مسجد واقع تھی۔ تو یہ بیجنگ میں کسی بھی مسجد سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔
جمعہ کا دن تھا اور مسجد کے آس پاس مکمل خاموشی کا راج تھا۔ مسجد کے اطراف میں موجود کھلی جگہ سے گزرتے ہوئے مسجد کے مرکزی ہال کی جانب رخ کیا۔مرکزی ہال سے بائیں جانب وضو و طہارت کے لیے الگ سے انتظام موجود تھا۔ہمیں بیجنگ میں مختلف مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔تمام مساجد میں وضو و طہار ت کے لیے مرکزی ہال سے الگ انتطامات تھے۔ ہمارے ہاں مساجد میں عموماً وضو کی سہولت مرکزی ہال کے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے۔ وہاں وضو کرکے باقاعدہ چل کر مرکزی ہال میں آنا پڑتا ہے۔ بعض مساجد میں وضو والی جگہ پر نہانے کا بھی انتظام ہے۔ وہاں کئی بار مشاہدہ ہوا کہ مقامی چینی مسلمان جمعہ کے روز وہیں غسل کرتے ہیں۔
وضو کرکے مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو امام صاحب کی تقریر جاری تھی۔ ہمیں سمجھ نہ آئی کیونکہ یہ چینی زبان میں تھی۔اما م صاحب نے تقریر ختم کی اور خطبے کے لیے منبر پر تشریف لے گئے۔ ہماری طرح دو مختصر خطبے دیے درمیان میں وقفہ دیا۔ چینی لہجے میں عربی سن کر بہت اچھا لگا۔ نمازِ جمعہ کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ بعض افریقی مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس کے علاوہ وہاں مقامی چینی مسلمان بھی موجود تھے۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد جو سلسلہ وہاں شروع ہوا وہ ہمارے لیے نیا تھا۔ وہاں کچھ یوں ہوا کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دعا معمول کے مطابق ہوئی اور لوگ بقیہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ جب نماز مکمل ہو جاتی ہے تو پھر اما م صاحب بلند آواز میں کچھ ذکر اذکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرلیتے ہیں۔
وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نماز مکمل ہونے کے بعد امام صاحب نے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی ۔ ہم سمجھے کہ دعا کا وقت شروع ہو چکا۔ انہوں نے کچھ مختصر آیات پڑھیں ۔جونہی انہوں نے آیات پڑھنا بند کیں تو ساتھ ہی ایک اور شخص نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔اس کے بعد ایک اور اس کے بعد پھر ایک اور نے یہی کچھ کیا۔ہم نے دیکھا کہ وہاں چینی مقامی مسلمان باری باری قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے اجتماعی طور پر ۔ خیر تقریباً دس لوگوں نے تلاوت کی ہو گی ۔اس کے بعد امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ بلندکیے۔یوں ہمارا پہلا جمعہ باضابطہ طور پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ہمارے لیے یہ تجربہ نیا تھا۔ مگر 'مُوشی کو نین لی' کی مسجد میں یہ یقیناً معمول کی بات تھی۔ خیر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی لوگ نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر امام صاحب سے ملاقا ت کر رہے تھے۔
ہم نے بھی بڑے شوق سے امام صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کے ساتھ تصویر بنوائی۔ امام صاحب کو جب ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔امام صاحب نے پینٹ کے اوپر ایک لمبا سے کرتہ پہنا ہوا تھا اور سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ یوں دیار غیر میں پہلا جمعہ پڑھنے کا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ بس میں واپسی پر کچھ افریقی مسلمان بھی سوار تھے جو کہ سی آر آئی اترے یوں ان سے بھی تعارف ہوا۔ 'مُوشی کو نین لی' کی مسجد بیجنگ کے مضافات میں واقع ہے ۔ اس لیے وہاں خاموشی کا راج نظر آیا۔ مگر بیجنگ شہر میںواقع نیوجئے ، ہائیدیان، موشی ڈی ، چھاؤیانگ کی مساجد پر رونق اور کمرشل ایریاز کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ نیوجئے کی مسجد تو بیجنگ کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ وہاں نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے جانا ہوا تھا۔
نمازِ عید کی ادائیگی کے موقع پر وہاں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی عملہ تعینات ہوتا ہے۔ مسجد میں داخلے سے پہلے واک تھرو گیٹ نصب ہوتا ہے۔ نیو جئے کی مسجد میں نمازِ عید اور جمعہ کے اجتماعات بہت بڑے ہوتے ہیں بالخصوص نمازِ عید کااجتماع تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں نماز پڑھنے آتی ہیں۔ وہاں نہ صرف چینی مسلمان بلکہ بیجنگ میں مقیم غیر ملکی مسلمان بھی آتے ہیں۔ عید کی نماز کے بعد وہاں پاکستانی ، عرب، ملائیشین، انڈونیشین، افریقن، یورپین، ترکش اور دیگر قومیتوں کے مسلمان ملتے ہیں تو مذہب کی عالمگیریت کا احساس ہوتا ہے۔ عید کے موقع پر مسلمانو ں کی اکثریت ا پنے اپنے مخصوص علاقائی لباس میں ملبوس نظر آتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر جانور بھی وہیں مسجد کے احاطے میں ذبح کیے جاتے ہیں۔
نیوجئے کے علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں ہر طرف حلال فوڈ بآسانی دستیاب ہے۔ مسجد سے باہر نکلیں اور پہلے چوراہے سے دائیں ہاتھ مڑیں تو بائیں طرف تمام دکانیں مسلمان قصابوں کی ہیں جہاں سے تازہ گوشت ملتا ہے۔ وہیں پر ایک سٹور ہے جہاں سے قر آن پاک،جائے نماز، ٹوپیاں، خواتین کے سکارف اور عبایہ وغیرہ ملتے ہیں۔واپس چوراہے کی جانب آئیں تو یہاں سے بالکل سیدھا دونوں طرف دکانیں ہیں جہاں سے کھانے پینے کی مختلف اشیاء ملتی ہیں۔ چین میں ایک بات مشہور ہے کہ اگرگوشت کھانا ہے تو یہ صرف مسلم ہوٹل ہی سے اچھا ملے گا ۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق یہ بات درست بھی ہے۔نیو جئے مسجد کے پاس دکانوں سے گوشت کے تکے، گوشت سے بنی دیگر ڈشز بکثرت ملتی ہیں۔اس مخصوص دکان سے تلوں والے تکے سیخوں کے حساب سے نہیں بلکہ تول کر ملتے ہیں اور یہ بہت ہی لذیز ہوتے ہیں ۔بیکری آئٹمز ، دہی،نان اور دیگر اشیاء بھی وہاں دستیاب ہیں۔ وہیں ہیدیان کی اس مسجد کے علاوہ بھی سی آر آئی کے نزدیک ایک اور مسجد کی موجودگی کا بھی علم ہوا اور اس سے ہمیں ہمارے مصر سے تعلق رکھنے والے دوست صلاح نے متعارف کروایا۔ ایک روز ہم نے صلاح سے پوچھ لیا کہ آپ جمعہ کی نماز کے لیے کہاں جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی مُشی ڈی میں واقع ایک مسجد میں جاتے ہیں۔ تو ہم نے بھی ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اگلے جمعہ ہم ان کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ یہ مسجد سی آر آئی کے دفتر کے نزدیک ترین تھی۔
سب وے لائن نمبر ایک پر ہی اس کا اسٹیشن تھا اور اسٹیشن سے نکل کر دس پندرہ منٹ کی دوری پر مسجد تھی۔ یہ مسجد بھی بازار کے قریب مگر ایک گلی میں تھی۔ دور سے دیکھنے پر نہیں لگتا تھا کہ یہاں مسجد ہو گی۔ یہ بھی بہت پرانی مسجد ہے مگر یہاں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے سی آر آئی کے تمام عرب دوست یہیں نماز پڑھتے تھے۔اس کے بعد سے ہم نے بھی یہیں نماز پڑھنا شروع کر دی اور جب تک ہمارا قیام بیجنگ میں رہا جمعہ ہم نے یہیں پڑھا۔ عرب دوستوں کے ساتھ روانہ ہوتے اور انہی کے ساتھ واپس آتے۔ عرب دوستوں نے اپنی متعلقہ سروس سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے خصوصی اجازت لے رکھی تھی۔ اور وہ پوری دیانتداری سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے فوراً بعد دفتر کا رخ کیا کرتے تھے۔ عرب دوست ایک تو مہمان نواز بہت تھے اور دوسرا ان کی دین سے وابستگی بھی مثالی تھی۔ جب موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے عبدا لرحمن سے ہماری پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو ہمیں روایتی عرب مہمان نوازی کا صحیح اندازہ ہوا ۔
انہوں نے ہمیں کھانا کھائے بغیر جانے نہ دیا۔ عبدالرحمن نے فوری طور پر چکن والے چاول بنائے اوروہ اتنے لذیذ تھے کہ آج تک اس کاذائقہ یاد ہے۔اس کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے ملک کا روایتی قہوہ پلایا جوکہ چھوٹے چھوٹے پیالوں میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ وقتا فوقتا ہمیں قہوہ پلاتے رہتے تھے۔ دین سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز میں، بلال اور عبدالرحمن کھانا کھانے مسلم ہوٹل گئے۔ اس وقت سردی کاآغاز ہو چکا تھااورعصر کے بعد ہوا میں خنکی ہو جاتی تھی۔ مغرب کا وقت ہوا تو عبدالرحمن نے باہر فٹ پاتھ پر نماز مغرب پڑھی۔ جس کو دیکھ کر چینی لوگ بہت حیران ہوئے اسی طرح ایک روز بلا ل کے ساتھ بیجنگ کے ایک علاقے 'ووداخو' میں واقع مشہور پاکستانی ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے نماز مغرب کا وقت آن پہنچا۔ قریب کسی مسجد کے نہ ہونے کہ وجہ سے بلا ل نے وہیں سڑک کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ موجود گھاس پر نماز پڑھی۔ بلال کو اس جگہ پر نماز پڑھتا دیکھ کر بہت سے چینی حیران ہوئے ۔
سی آر آئی میں کام کرنے کے دوران کئی دوست بنے جن کا تعلق اردو سروس سے نہیں تھا۔ ان میں روسی سروس سے تعلق رکھنے والے لی بھی ہیں ۔ طویل قامت اور کم گو 'لی' بیڈ مینٹن کھیلنے کے شوقین تھے۔ ان کے ساتھ بیجنگ میں واقع مختلف بیڈمنٹن کلبز میں جا کر کھیلنے کا موقع ملا۔ وہاں اور چینی دوستوں سے ملاقات ہوئی جو سی آر آئی سے وابستہ نہیں تھے۔لی بعد میں صحت کے مسائل کی وجہ سے بیڈمنٹن نہ کھیل پائے مگر ہم ہر ویک اینڈ پر کھیلنے جاتے رہے۔وہیں بیڈمنٹن کھیلنے والے LiuHua سے بھی ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔
پیشے کے اعتبارسے انجنیئر LiuHua بہت ملنسار اورمتحرک تھے۔ وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے بیڈ منٹن کھیلنے آتے تھے اور پوری ذمہ داری سے بیڈ منٹن کورٹ پیشگی بک کرواتے تھے۔بیجنگ میں جگہ جگہ بیڈ منٹن کورٹس ہیں جہاں شہری رقم کی ادائیگی کے عوض اپنی سہولت کے مطابق ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے یا اس سے زائد کے لیے بھی بکنگ کرواتے ہیں۔ بعد میں LiuHua پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے ہر ہفتے کھیل جاری نہ رکھ سکے مگر ہم بیڈمنٹن کھیلنے جاتے رہے ۔ وہیں بیڈ منٹن کورٹ میں ہمارے کھیل کے ساتھی بنے Zhao Zentao ۔ یہ بھی انجینئر تھے اورانتہائی پرجوش انداز میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ ان کا چینی دوستوں پر مشتمل ایک اپنا گروپ تھا جو ہر ہفتے دو گھنٹوں کے لیے بیڈ منٹن کھیلتے تھے۔انہوں نے ہمیں اپنے گروپ میں شامل کیا یوں ہم واحد غیر ملکی بن گئے جو چینی شہریوں کے گروپ میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ رفتہ رفتہZhao Zentao سے ملاقاتیں بڑھتی رہیں اور کھیل کے علاوہ دیگر موضوعا ت پر بھی ہماری بات چیت ہوتی رہتی۔ Zhao Zentao کا گھر بھی سی آر آئی کے دفتر کے قریب ہی تھا۔ ایک روز وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور اپنے اہلِ خانہ سے ملوایا۔ ان کے والدین ، بیگم اور بچوںسے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے والد میں روایتی مشرقی والد والی شفقت موجود تھی۔
ان کی والدہ بھی بہت شفیق اور محبت کرنے والی تھیں ۔ جب ہم ان کے گھر گئے تو ان کے والد نے کھانا بنایا۔ ان کے گھر جا کر علم ہواکہ وہاں بھی والدین کی خواہش اورترجیح اپنی اولادکو ڈاکٹر یا انجئینر بنانا ہوتی ہے۔ اوران کے والد ہمارے ہاں موجود طور طریقوں کے مطابق اپنے پوتے اور پوتی کو سکول سے لاتے ،لے جاتے تھے۔ Zentao Zhao بذاتِ خود انجنیئر تھے اوران کے بڑے بھائی اسپشلسٹ ڈاکٹر تھے جو کہ جنوبی چین کے ایک ہسپتال میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ا ن کے والدین باری باری کبھی ایک بیٹے کے پاس ٹھہرتے تو کبھی دوسرے کے پاس۔ Zentao Zhao کوایک روز ہم پاکستانی کھانے سے روشناس کروانے کے لیے فیملی کے ہمراہ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ لے گئے۔
وہاں ا نہیں بریانی، چکن کڑاہی، کباب کھلائے۔ ساتھ میں لسی بھی پیش کی۔ تمام پاکستانی کھانے انہیں پسند آئے مگر لسی انہیں بہت بھائی۔ ہم نے انہیں لسی کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بتایا۔کھانا کھانے کے بعد Zhao Zentao ہمیں اپنے ایک چینی دوست کے گھر لے گئے ۔وہ دوست ریاضی کے پروفیسر تھے۔وہاں پر ان کے ساتھ بڑی گپ شپ رہی۔ ا ن کے گھر میں پھل اور چینی چائے سے تواضع کی گئی۔Zhao Zentao سے بڑی میل ملاقاتیں رہیں وہ توآخر ی دنوں میں ہمیں معلو م ہوا کہ موصوف پولیس آفیسر ہیں ۔ اتنا عرصہ ان سے تعلق رہا مگر انہوںنے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ Zhao Zentao کوجب ہم نے بتایا کہ ہم یہاں سے واپس جانے والے ہیں تو وہ ادا س ہوئے اور کہنے لگے کہ اب تو کھیل اور بات چیت میں لطف آنے لگا تھا کہ آپ کے کُوچ کا وقت آگیا۔بہر حال انہوں نے ہمارے لیے ایک الوداعی دعوت کا اہتمام بھی کیا۔ الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آرآئی کے دیگر دوستوں نے بھی شروع کیا۔ان میں پشتو سروس سے وابستہ افغانستان کے فارن ایکسپرٹ جان روان زازائی نے اپنے گھر میں کھانے کی دعوت کی۔انہوں نے روایتی پشتون مہمان نوازی سے کام لیتے ہوئے ہمارے لیے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔ جس میں کابلی پلاؤ بھی شامل تھا۔
اس الوداعی ملاقات کے علاوہ بھی وہاں قیام کے دوران جان روان زازائی نے کئی مرتبہ ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ جان روان زازائی کے علاوہ پشتو سروس کے افغان دوستوں نقیب اللہ مل اور خالد وردگ نے بھی مہمان نوازی کی روایت کو خوب نبھایا اور کئی بار ہمیں افغان ڈشز کھلائیں۔ افغانستان اور پاکستان کے پڑوسی ملک ایران سے تعلق رکھنے والے فارسی سروس میں کام کرنے والے مجتبیٰ پویا سے آشنائی لمحوں میں انسیت اور اپنائیت میں ڈھل گئی۔ وہ بہت صاحب مطالعہ، ادب سے لگاؤ رکھنے والے اور دانش ور تھے۔ان کے ساتھ بیجنگ کی شاہراہوں پر پیدل چلتے ہوئے مختلف بین الاقوامی نظریات،مذہبی تشریحات، سیاسی تحاریک کے پس منظر اور عالمی سیاست کے نشیب وفراز پر بات چیت رہی۔مجتبیٰ پویا اردو سے محبت کرنے والے شخص ہیںاور انہیںاردو رسم الخط بے حد پسند ہے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ اردو سکھیں اور اس کے لیے وہ انٹرنیٹ سے بھی مدد لیتے رہتے ہیں۔ان کے ساتھ بھی مختلف پاکستانی ہوٹلز پر جانے کاموقع ملا۔ ان دوستوں کے علاوہ عرب دوست کہاں اپنی فیاضی اور سخاوت پر حرف آنے دینا پسند کرتے ہیں۔ سوڈان سے تعلق رکھنے والے اُسامہ اور بلال، الجزائر کے لطفی، مصر کے صلاح ابوزید نے بھی خوب دستر خوان سجائے اورہمیں عرب ڈشز سے متعارف کروایا۔
اردو سروس کے ساتھ ہی واقع تامل سروس کا دفتر ہے ۔ وہاں کام کرنے والے تامل فارن ایکسپرٹ Pandarinathan کے ساتھ دفتر آتے جاتے گپ شپ رہتی۔ انہیں بھی ادب اور کتب کے مطالعے کا شوق تھا۔جو ہمارے درمیان وجہ دوستی رہا۔Pandarinathan یوگا کے ماہر تھے اور اکثر اپنے فلیٹ میں یا کسی پارک میں یوگا کے آسن کرتے رہتے۔ انہوں نے بھی اپنے فلیٹ پر ہمارے لیے ایک الوداعی چائے پارٹی کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آر آئی کی حدود سے باہر بھی شروع ہوا۔
کئی پاکستانی احبا ب نے دعوت کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے سفارت خانے کے آفیسر علی صابر کیانی نے بھی سفارتی علاقے میں واقع ایک معروف ہوٹل میں دعوت کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ ہماری پاکستان واپسی کی تیاریاں بھی جاری تھیں اور دفتر میں بھی اپنے کاموں کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ تین سال ایک جگہ گزارنے کی وجہ سے یہاں موجود ہر شے سے ایک اُنسیت سی ہو گئی تھی۔اب انہیں چھوڑتے ہوئے ایک غم کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ دفتر میں ہماری نشست کے برابر میں اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی بھی بیٹھا کرتے تھے۔ان سے تین سالوں کے دوران ایک خصوصی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ لیو صاحب انتہائی وضع دار اور نظم و ضبط کے پابند تھے۔ دیانتدار اور معاملات میں شفافیت کے قائل۔ حسا س دل کے مالک لیو صاحب مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت تھی ۔
لیو صاحب قیلولہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ جب ان کی ڈیوٹی بعداز دوپہر شفٹ میں ہوتی تو وہ ڈیوٹی پر آنے والے پاکستانی ایکسپرٹس کو ہدایت کیا کرتے کہ حاضری لگا کر چلے جائیں اور ٹھیک دو بجے تشریف لائیں۔ لیو شیاؤ ہوئی سنجیدہ مزاج کے مالک تھے اور انتہائی ذمہ داری سے کام کیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ فطرت سے بھی بے حد پیار کرتے تھے ۔ان کی نشست کی دا ہنی جانب کا منظر بہت دلفریب اور مسحور کن تھا۔ جب کبھی ان کا من کام سے آرام کرنے کو چاہتاتو وہ دائیں جانب نگاہ ڈالتے ، سامنے بلندو بالا پہاڑ اور تاحد نگاہ پھیلا سبزہ ان کی روح کو معطر اور دل کو شاد اور دماغ کو تروتازہ کر دیتا اور یہی ان کو کام کرنے کے لیے مہمیز دیتا۔ لیو صاحب بظاہر دیکھنے میں گردو پیش سے بے نیاز ، اپنے کام سے کام رکھنے والے اور زیادہ میل ملا پ والے نہیں لگتے مگر جوں جوں ان سے واسطہ پڑا تو ان کی شخصیت کھلتی چلی گئی۔ ان میں اپنائیت، انس ، محبت، ہمدردی ، ذمہ داری کے مسحور کن رنگ ابھرتے جواپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ لیو صاحب زندگی کو احتیاط اور اعتدال سے گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔
بدلتے موسم کا پتہ ان کے لباس اورسراپے سے عیاں ہوتا ہے۔ اگر لیو صاحب چھتری لے آئیں تو سمجھ لیں کہ آج بارش برسے گی اور بادل گرجیں گے۔ اگر ماسک پہن رکھا ہے تو پھر آلودگی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔لیو صاحب کے دفتری معمولات سے وقت کا تعین بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ صبح کی ڈیوٹی صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتی اور لیو صاحب ہمیشہ وقت سے پہلے موجود ہوتے اور صبح کی شفٹ میں آنے والے احباب کے لیے خبریں ایڈٹنگ کی منتظر ہوتیں۔ سہ پہر سوا چار بجے دفترسے اپنی چیزیں سمیٹنے کا عمل دفتر سے رخصت ہونے کا اشارہ ہوتا ۔اگر جناب لیو صاحب دوپہر کے وقت میں محو استراحت ہیں تو سمجھ لیںکہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں اور ان کے آرام میں مخل ہونے کی ضرورت نہیں۔دفتر میں ان کے معمولات کو گھڑی سے ملائیں تو وقت کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔وضع دار اور مادیت پرستی سے گریز پا لیو شیاؤ ہوئی کسی بودھ بھکشو کی مانند تیاگ لینے کے خواہشمند ہیں۔
اردو سروس کے دیگر ساتھی بھی انتہائی ذمہ دار، محنتی تھے اور پیشہ ورانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے تھے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملا۔ ہمارے بیجنگ میں قیام کا عرصہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ انہی دنوں سی آر آئی کی اردو سروس نے چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کے انتہائی قریبی ساتھی 'چھن یون' کی سوانح حیات کو چینی زبان سے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کے لئے چین میں پاکستانی کمیونٹی کے بے شمارلوگ موجود تھے۔ لیکن اس کام میں موجود ایک مشکل اسے تکینکی طور پیچیدہ کئے ہوئے تھی۔
سی آر آئی کو ایک ایسے ماہر کی تلاش تھی جو اس قابل ہو کہ کتاب کے چینی مسودے کو پڑھنے والے چینی ماہر کے زبانی بتائے گئے اردو مفہوم کو سیاق و سباق کے پس منظرمیں رہتے ہوئے کتابی شکل میں ڈھالے۔ ایک ایسا ماہر درکار تھا جو اردو زبان پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ انٹرویو کے فن میں بھی مہارت رکھتا ہو اور ضرورت کے مطابق زبانی طور پر مفہوم بیان کرنے والے چینی ماہر سے سوالات کر کے مزید معلومات حاصل کر سکے تاکہ کتاب کے لفظی ترجمہ کی بجائے مفہوم کا ترجمہ ہوسکے۔ یہ تکنیکی مشکل اس کام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ سی آر آئی اردو سروس کی انتظامیہ کی یہ تلاش بالٓاخر ہم پر ٹھہری۔ اور اللہ پاک نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ اپنے قیام کے آخری ایام میں یہ علمی کام سرانجام دے سکوں۔ اور یوں'' ایک چینی انقلابی کی کہانی'' کے عنوان سے ایک کتاب مرتب ہوکر مارکیٹ میں آگئی۔ اس علمی کام کی وجہ سے ہمار ا سی آر آئی انتظامیہ سے پیشہ ورانہ تعلق دوستانہ شکل اختیار کر گیا۔ جس کے اظہار کے طور پر سی آر آئی کی جانب سے باضابطہ طور پر ہمار ے لیے ایک پرتکلف الوداعی ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔
عام چینی شہریوں کو جب ہم پاکستان سے اپنے تعلق کا بتاتے تو وہ خوشی کا اظہار کرتے۔ بیجنگ میں قیام کے دوران ایک مرتبہ ہمیںدانتوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال جانا پڑا۔ چین میں طویل عرصے سے مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ہمیں اپنے چینی دوست ڈاکٹر کی جانب ریفر کردیا۔ انہوں نے بھی دوستی کی لاج رکھی اور ہمارا مکمل علاج بالکل مفت کیا۔ بلکہ جب ہم پہلی مرتبہ اس ہسپتال گئے تو متعلقہ سب وے اسٹیشن سے باہر نکل کر ہم نے ہسپتال کا پتہ ایک نوجوان سے معلوم کیا۔ جب اس نوجوان کو معلوم ہوا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو انہوں نے ایک آٹو رکشہ کو روکا اور ڈرائیور کو ہماری منزل کا پتہ بتایا اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس کو کرائے کی ادائیگی بھی کردی۔ یہ ان کی پاکستان سے محبت کا عملی اظہار تھا۔اس طرح کے کئی واقعات ہیں جہاں عام چینی شہریوں نے پاکستان سے اپنی اپنائیت کا اظہار کیا۔ چین سے رخصتی کا وقت قریب آرہا تھااور ہم دفتری و انتظامی معاملات میں دستاویزی لوازمات پورے کر رہے تھے۔
انہی انتظامات میں ہماری رہائش گاہ کے معاملات کی ذمہ دار Annie نے بھی کچھ ہدایات دیں۔ وہ بھی بہت ہنس مکھ اورتعاون کرنے والی تھیں۔انہوں نے بھی فلیٹ چھوڑنے اور اس عمل سے وابستہ دیگرضروری دستاویزی کارروائی میں بھر پور تعاون کیا۔ روزانگی کے دن صبح سویرے ہمارے سی آر آئی کے دوست ہمیں رخصت کرنے فلیٹ پرآئے۔اردو سروس کی ڈائریکٹر میڈم مہوش بنفس نفیس رخصت کرنے کے لیے تشریف لائیں۔ فلیٹ سے ائرپورٹ تک چھوڑنے کے لیے ہمیں سی آرآئی کی جانب سے گاڑی فراہم کی گئی۔ائرپورٹ پر چیک ان کیا ، بورڈنگ کارڈ لیا اور ویٹنگ لاؤنج کا رخ کیا۔ اس روز بیجنگ میں شدید بارش ہوئی اور موسم کی وجہ سے پرواز تاخیر کا بھی شکار ہوئی۔بالآخر ائرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے روانگی کا اعلان ہوا اور ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ واپسی کے اس سفر میں چین میں قیام کی یادیں بھی ہماری ہمسفر تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ ان تین برسوں میں نہ صرف پہناوے اور معمولاتِ خور و نوش میں تبدیلی اور بدلتے مزاجوں کا مشاہدہ کیا بلکہ قلب و روح میں آنے والے تغیرات چین میں قیام کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ
ہر سفر کو ختم ہونا ہوتا ہے۔ منزلیں اپنی جگہ پر رہتی ہیں اور مسافر آتے جاتے رہتے ہیں۔ سی آر آئی میں گزرے شب و روز کو بھی ایک روز ختم ہونا تھا اور وہ مرحلہ قریب آگیا تھا۔ چین میں قیام کا ہمارا تیسرا سال شروع ہوا تو ہر روز یہ احساس بڑھتا چلا گیا کہ اب واپسی کا مرحلہ قریب ہے۔
ہلکی ہلکی اداسی نے اثر دکھا نا شروع کر دیا۔ پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب پاکستان واپسی کے لیے ٹکٹ بک کرایا۔ اس کے بعد ہر گذرتے دن کے ساتھ ماضی کی یادوں کے نقوش زیادہ شدت کے ساتھ اُبھرنے لگے۔ ابتدائی دنوں میں ہمارے سماج سے مختلف ہر مزاج اور روایت کی جانب کشش اور ہمارا چینی زبان سیکھنے کا نیا نیا شوق بھی عروج پر تھا۔ جب اپنے پیش رو احباب کو دکانداروں سے رواںچینی زبان میں گفتگوکرتے سنتے تو حیرت ہوتی۔ تین سال گزارنے کے بعد ہمیں بھی روزمرہ چینی کے کچھ الفاظ آ ہی گئے تھے اور ہم بھی کہیں آنے جانے یا خریداری کے لیے ضروری چینی بول ہی لیتے تھے۔
رفتہ رفتہ سی آر آئی میں کام کرنے والے غیر ملکی احباب سے تعارف وآشنائی کا سلسلہ شروع ہوا۔سب سے پہلے جنوبی ایشیائی فارن ایکسپرٹس سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ وجہ یہ تھی کہ ایک ہی فلور پر سب کے دفاتر تھے ۔ صبح صبح سی آرآئی جانا اور پھر تمام دفتری وقت اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں گزار دینا اور شام کو واپس آکر کھانا تیارکرنے کے لوازمات میںمصروف ہو جانا۔ وہاں دورانِ کام غیر ضروری سرگرمیوں میں وقت گزاری کو معیوب اور ناپسندیدہ تصور کیا جاتا ہے۔ یادوں کے کیا کیا دریچے وا ہو رہے ہیں ۔
بیجنگ میںہماری پہلی سماجی مصروفیت پاکستان کے سفارت خانے میں یومِ آزادی کی تقریب میںشمولیت کل کی بات لگتی ہے ۔ زندگی میں پہلی مرتبہ ملک سے باہر یوم آزادی منا رہے تھے۔ اس روز وطن سے دوری کا احساس بہت شدت سے ہوا۔ پاکستان میں تو ہر جگہ سبز جھنڈیاں اور پرچم نظر آتے ہیں لیکن یہاں سڑکیں اور عمارات قومی پرچم سے خالی تھیں۔ صرف پاکستان کے سفارتخانے میں تقریب منعقد ہوئی اور وہاں بہت سے پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی۔ پاکستان ایمبیسی کالج کے طلباء و طالبات نے ملی نغمے گاکر وطن سے محبت کی یاد کو گرمایا۔ جشنِ آزادی کی تقریب کے بعد دوسری سماجی تقریب بیجنگ میں مسلم ایسوسی ایشن کی جانب سے عیدالاضحی کے موقع پر ایک دعوت میں شرکت تھی۔ اس دعوت میں ہمیں سی آر آئی کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔
اس روز سی آرآئی میں کام کرنے والے مسلم مرد و خواتین صحافیوں سے تعارف ہوا۔ بیجنگ میں مختلف شعبوں میں کام کرنیوالے مختلف مسلمان ممالک کے شہریوں سے بھی ملاقا ت ہوئی۔ یوں دیار غیر میں مذہب کی وجہ سے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے ملاقات ہوئی۔ مذہب کاذکر آیا تو بیجنگ میں پہلی مرتبہ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کا منظر بھی ہمیشہ یاد رہے گا۔ پہلی مرتبہ جب ہم نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانے لگے توہمارے پیش رو ساتھیوں عبدالمجید بلوچ اوررئیس سلیم نے بتایا کہ ہم بس میںجائیں گے ۔ ہم حیران ہوئے کہ بس میں۔ وہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ مسجد کافی فاصلے پر تھی ۔ بس میں جاتے ہوئے تقریباً پینتالیس منٹ لگ جاتے تھے۔ بہرحال ہم بس میں مسجد کی جانب روانہ ہوئے ۔ راستے میں مختلف مقاما ت سے گزرتے ہوئے ہم مسجد تک پہنچ گئے۔
ہم پاکستان میں موجود مساجد کو ذہن میں رکھے ہوئے تھے تو جب ہم مسجد کے سٹاپ 'مُوشی کو نین لی' پر اترے تو ہمیں اطراف میں کسی مسجد کے آثار نظر نہ آئے ۔ ہم نے چاروں طرف نظر دوڑائی مگر ہمیں ہمارا مقصود دکھائی نہ دیا۔ ہم اپنے ساتھیوں کی معیت میں چل دیے۔ سٹاپ پر سے اتر کر چند قدم کے فاصلے پر ہمارے ساتھی ایک کمیونٹی (ہمارے ہاں کا محلہ سمجھ لیں)میں داخل ہوگئے۔ آگے چل کر ہم داہنی جانب مڑے اور گھروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ایک قدرے اونچائی کی جانب جاتی سڑک کی طرف ہو لیے۔ اسی اونچائی پر مسجد واقع تھی۔ تو یہ بیجنگ میں کسی بھی مسجد سے ہمارا پہلا تعارف تھا۔
جمعہ کا دن تھا اور مسجد کے آس پاس مکمل خاموشی کا راج تھا۔ مسجد کے اطراف میں موجود کھلی جگہ سے گزرتے ہوئے مسجد کے مرکزی ہال کی جانب رخ کیا۔مرکزی ہال سے بائیں جانب وضو و طہارت کے لیے الگ سے انتظام موجود تھا۔ہمیں بیجنگ میں مختلف مساجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔تمام مساجد میں وضو و طہار ت کے لیے مرکزی ہال سے الگ انتطامات تھے۔ ہمارے ہاں مساجد میں عموماً وضو کی سہولت مرکزی ہال کے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ وہاں ایسا نہیں ہے۔ وہاں وضو کرکے باقاعدہ چل کر مرکزی ہال میں آنا پڑتا ہے۔ بعض مساجد میں وضو والی جگہ پر نہانے کا بھی انتظام ہے۔ وہاں کئی بار مشاہدہ ہوا کہ مقامی چینی مسلمان جمعہ کے روز وہیں غسل کرتے ہیں۔
وضو کرکے مرکزی ہال میں داخل ہوئے تو امام صاحب کی تقریر جاری تھی۔ ہمیں سمجھ نہ آئی کیونکہ یہ چینی زبان میں تھی۔اما م صاحب نے تقریر ختم کی اور خطبے کے لیے منبر پر تشریف لے گئے۔ ہماری طرح دو مختصر خطبے دیے درمیان میں وقفہ دیا۔ چینی لہجے میں عربی سن کر بہت اچھا لگا۔ نمازِ جمعہ کے موقع پر ہم نے دیکھا کہ بعض افریقی مسلمان بھی وہاں موجود تھے۔انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اس کے علاوہ وہاں مقامی چینی مسلمان بھی موجود تھے۔ نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد جو سلسلہ وہاں شروع ہوا وہ ہمارے لیے نیا تھا۔ وہاں کچھ یوں ہوا کہ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد دعا معمول کے مطابق ہوئی اور لوگ بقیہ نماز پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ ہمارے ہاں ایسا ہوتا ہے کہ جب نماز مکمل ہو جاتی ہے تو پھر اما م صاحب بلند آواز میں کچھ ذکر اذکار کرتے ہیں اور ساتھ ہی دعا کے لیے ہاتھ بلند کرلیتے ہیں۔
وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ نماز مکمل ہونے کے بعد امام صاحب نے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی ۔ ہم سمجھے کہ دعا کا وقت شروع ہو چکا۔ انہوں نے کچھ مختصر آیات پڑھیں ۔جونہی انہوں نے آیات پڑھنا بند کیں تو ساتھ ہی ایک اور شخص نے قرآن کی تلاوت شروع کر دی۔اس کے بعد ایک اور اس کے بعد پھر ایک اور نے یہی کچھ کیا۔ہم نے دیکھا کہ وہاں چینی مقامی مسلمان باری باری قرآن پاک کی تلاوت کر رہے تھے اجتماعی طور پر ۔ خیر تقریباً دس لوگوں نے تلاوت کی ہو گی ۔اس کے بعد امام صاحب نے دعا کے لیے ہاتھ بلندکیے۔یوں ہمارا پہلا جمعہ باضابطہ طور پر اپنے اختتام کو پہنچا۔ہمارے لیے یہ تجربہ نیا تھا۔ مگر 'مُوشی کو نین لی' کی مسجد میں یہ یقیناً معمول کی بات تھی۔ خیر ہم نے دیکھا کہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی لوگ نماز کی ادائیگی سے فارغ ہو کر امام صاحب سے ملاقا ت کر رہے تھے۔
ہم نے بھی بڑے شوق سے امام صاحب سے ہاتھ ملایا اور ان کے ساتھ تصویر بنوائی۔ امام صاحب کو جب ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو وہ بھی بہت خوش ہوئے۔امام صاحب نے پینٹ کے اوپر ایک لمبا سے کرتہ پہنا ہوا تھا اور سر پر پگڑی باندھی ہوئی تھی۔ یوں دیار غیر میں پہلا جمعہ پڑھنے کا تجربہ بہت دلچسپ رہا۔ بس میں واپسی پر کچھ افریقی مسلمان بھی سوار تھے جو کہ سی آر آئی اترے یوں ان سے بھی تعارف ہوا۔ 'مُوشی کو نین لی' کی مسجد بیجنگ کے مضافات میں واقع ہے ۔ اس لیے وہاں خاموشی کا راج نظر آیا۔ مگر بیجنگ شہر میںواقع نیوجئے ، ہائیدیان، موشی ڈی ، چھاؤیانگ کی مساجد پر رونق اور کمرشل ایریاز کے بیچوں بیچ واقع ہیں۔ نیوجئے کی مسجد تو بیجنگ کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ وہاں نمازِ عید کی ادائیگی کے لیے جانا ہوا تھا۔
نمازِ عید کی ادائیگی کے موقع پر وہاں خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ پولیس اور سیکورٹی عملہ تعینات ہوتا ہے۔ مسجد میں داخلے سے پہلے واک تھرو گیٹ نصب ہوتا ہے۔ نیو جئے کی مسجد میں نمازِ عید اور جمعہ کے اجتماعات بہت بڑے ہوتے ہیں بالخصوص نمازِ عید کااجتماع تو بہت بڑا ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی بڑی تعداد میں نماز پڑھنے آتی ہیں۔ وہاں نہ صرف چینی مسلمان بلکہ بیجنگ میں مقیم غیر ملکی مسلمان بھی آتے ہیں۔ عید کی نماز کے بعد وہاں پاکستانی ، عرب، ملائیشین، انڈونیشین، افریقن، یورپین، ترکش اور دیگر قومیتوں کے مسلمان ملتے ہیں تو مذہب کی عالمگیریت کا احساس ہوتا ہے۔ عید کے موقع پر مسلمانو ں کی اکثریت ا پنے اپنے مخصوص علاقائی لباس میں ملبوس نظر آتی ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر جانور بھی وہیں مسجد کے احاطے میں ذبح کیے جاتے ہیں۔
نیوجئے کے علاقے میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہاں ہر طرف حلال فوڈ بآسانی دستیاب ہے۔ مسجد سے باہر نکلیں اور پہلے چوراہے سے دائیں ہاتھ مڑیں تو بائیں طرف تمام دکانیں مسلمان قصابوں کی ہیں جہاں سے تازہ گوشت ملتا ہے۔ وہیں پر ایک سٹور ہے جہاں سے قر آن پاک،جائے نماز، ٹوپیاں، خواتین کے سکارف اور عبایہ وغیرہ ملتے ہیں۔واپس چوراہے کی جانب آئیں تو یہاں سے بالکل سیدھا دونوں طرف دکانیں ہیں جہاں سے کھانے پینے کی مختلف اشیاء ملتی ہیں۔ چین میں ایک بات مشہور ہے کہ اگرگوشت کھانا ہے تو یہ صرف مسلم ہوٹل ہی سے اچھا ملے گا ۔
ہمارے مشاہدے کے مطابق یہ بات درست بھی ہے۔نیو جئے مسجد کے پاس دکانوں سے گوشت کے تکے، گوشت سے بنی دیگر ڈشز بکثرت ملتی ہیں۔اس مخصوص دکان سے تلوں والے تکے سیخوں کے حساب سے نہیں بلکہ تول کر ملتے ہیں اور یہ بہت ہی لذیز ہوتے ہیں ۔بیکری آئٹمز ، دہی،نان اور دیگر اشیاء بھی وہاں دستیاب ہیں۔ وہیں ہیدیان کی اس مسجد کے علاوہ بھی سی آر آئی کے نزدیک ایک اور مسجد کی موجودگی کا بھی علم ہوا اور اس سے ہمیں ہمارے مصر سے تعلق رکھنے والے دوست صلاح نے متعارف کروایا۔ ایک روز ہم نے صلاح سے پوچھ لیا کہ آپ جمعہ کی نماز کے لیے کہاں جاتے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ قریب ہی مُشی ڈی میں واقع ایک مسجد میں جاتے ہیں۔ تو ہم نے بھی ان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ اگلے جمعہ ہم ان کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ یہ مسجد سی آر آئی کے دفتر کے نزدیک ترین تھی۔
سب وے لائن نمبر ایک پر ہی اس کا اسٹیشن تھا اور اسٹیشن سے نکل کر دس پندرہ منٹ کی دوری پر مسجد تھی۔ یہ مسجد بھی بازار کے قریب مگر ایک گلی میں تھی۔ دور سے دیکھنے پر نہیں لگتا تھا کہ یہاں مسجد ہو گی۔ یہ بھی بہت پرانی مسجد ہے مگر یہاں نمازیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے سی آر آئی کے تمام عرب دوست یہیں نماز پڑھتے تھے۔اس کے بعد سے ہم نے بھی یہیں نماز پڑھنا شروع کر دی اور جب تک ہمارا قیام بیجنگ میں رہا جمعہ ہم نے یہیں پڑھا۔ عرب دوستوں کے ساتھ روانہ ہوتے اور انہی کے ساتھ واپس آتے۔ عرب دوستوں نے اپنی متعلقہ سروس سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے خصوصی اجازت لے رکھی تھی۔ اور وہ پوری دیانتداری سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے فوراً بعد دفتر کا رخ کیا کرتے تھے۔ عرب دوست ایک تو مہمان نواز بہت تھے اور دوسرا ان کی دین سے وابستگی بھی مثالی تھی۔ جب موریطانیہ سے تعلق رکھنے والے عبدا لرحمن سے ہماری پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی تو ہمیں روایتی عرب مہمان نوازی کا صحیح اندازہ ہوا ۔
انہوں نے ہمیں کھانا کھائے بغیر جانے نہ دیا۔ عبدالرحمن نے فوری طور پر چکن والے چاول بنائے اوروہ اتنے لذیذ تھے کہ آج تک اس کاذائقہ یاد ہے۔اس کے بعد انہوں نے ہمیں اپنے ملک کا روایتی قہوہ پلایا جوکہ چھوٹے چھوٹے پیالوں میں پیش کیا گیا۔ اس کے بعد بھی وہ وقتا فوقتا ہمیں قہوہ پلاتے رہتے تھے۔ دین سے وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز میں، بلال اور عبدالرحمن کھانا کھانے مسلم ہوٹل گئے۔ اس وقت سردی کاآغاز ہو چکا تھااورعصر کے بعد ہوا میں خنکی ہو جاتی تھی۔ مغرب کا وقت ہوا تو عبدالرحمن نے باہر فٹ پاتھ پر نماز مغرب پڑھی۔ جس کو دیکھ کر چینی لوگ بہت حیران ہوئے اسی طرح ایک روز بلا ل کے ساتھ بیجنگ کے ایک علاقے 'ووداخو' میں واقع مشہور پاکستانی ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے نماز مغرب کا وقت آن پہنچا۔ قریب کسی مسجد کے نہ ہونے کہ وجہ سے بلا ل نے وہیں سڑک کنارے فٹ پاتھ کے ساتھ موجود گھاس پر نماز پڑھی۔ بلال کو اس جگہ پر نماز پڑھتا دیکھ کر بہت سے چینی حیران ہوئے ۔
سی آر آئی میں کام کرنے کے دوران کئی دوست بنے جن کا تعلق اردو سروس سے نہیں تھا۔ ان میں روسی سروس سے تعلق رکھنے والے لی بھی ہیں ۔ طویل قامت اور کم گو 'لی' بیڈ مینٹن کھیلنے کے شوقین تھے۔ ان کے ساتھ بیجنگ میں واقع مختلف بیڈمنٹن کلبز میں جا کر کھیلنے کا موقع ملا۔ وہاں اور چینی دوستوں سے ملاقات ہوئی جو سی آر آئی سے وابستہ نہیں تھے۔لی بعد میں صحت کے مسائل کی وجہ سے بیڈمنٹن نہ کھیل پائے مگر ہم ہر ویک اینڈ پر کھیلنے جاتے رہے۔وہیں بیڈمنٹن کھیلنے والے LiuHua سے بھی ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔
پیشے کے اعتبارسے انجنیئر LiuHua بہت ملنسار اورمتحرک تھے۔ وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے بیڈ منٹن کھیلنے آتے تھے اور پوری ذمہ داری سے بیڈ منٹن کورٹ پیشگی بک کرواتے تھے۔بیجنگ میں جگہ جگہ بیڈ منٹن کورٹس ہیں جہاں شہری رقم کی ادائیگی کے عوض اپنی سہولت کے مطابق ایک گھنٹہ یا دو گھنٹے یا اس سے زائد کے لیے بھی بکنگ کرواتے ہیں۔ بعد میں LiuHua پیشہ ورانہ مصروفیت کی وجہ سے ہر ہفتے کھیل جاری نہ رکھ سکے مگر ہم بیڈمنٹن کھیلنے جاتے رہے ۔ وہیں بیڈ منٹن کورٹ میں ہمارے کھیل کے ساتھی بنے Zhao Zentao ۔ یہ بھی انجینئر تھے اورانتہائی پرجوش انداز میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ ان کا چینی دوستوں پر مشتمل ایک اپنا گروپ تھا جو ہر ہفتے دو گھنٹوں کے لیے بیڈ منٹن کھیلتے تھے۔انہوں نے ہمیں اپنے گروپ میں شامل کیا یوں ہم واحد غیر ملکی بن گئے جو چینی شہریوں کے گروپ میں بیڈمنٹن کھیلتے تھے۔ رفتہ رفتہZhao Zentao سے ملاقاتیں بڑھتی رہیں اور کھیل کے علاوہ دیگر موضوعا ت پر بھی ہماری بات چیت ہوتی رہتی۔ Zhao Zentao کا گھر بھی سی آر آئی کے دفتر کے قریب ہی تھا۔ ایک روز وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور اپنے اہلِ خانہ سے ملوایا۔ ان کے والدین ، بیگم اور بچوںسے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کے والد میں روایتی مشرقی والد والی شفقت موجود تھی۔
ان کی والدہ بھی بہت شفیق اور محبت کرنے والی تھیں ۔ جب ہم ان کے گھر گئے تو ان کے والد نے کھانا بنایا۔ ان کے گھر جا کر علم ہواکہ وہاں بھی والدین کی خواہش اورترجیح اپنی اولادکو ڈاکٹر یا انجئینر بنانا ہوتی ہے۔ اوران کے والد ہمارے ہاں موجود طور طریقوں کے مطابق اپنے پوتے اور پوتی کو سکول سے لاتے ،لے جاتے تھے۔ Zentao Zhao بذاتِ خود انجنیئر تھے اوران کے بڑے بھائی اسپشلسٹ ڈاکٹر تھے جو کہ جنوبی چین کے ایک ہسپتال میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ا ن کے والدین باری باری کبھی ایک بیٹے کے پاس ٹھہرتے تو کبھی دوسرے کے پاس۔ Zentao Zhao کوایک روز ہم پاکستانی کھانے سے روشناس کروانے کے لیے فیملی کے ہمراہ ایک پاکستانی ریسٹورنٹ لے گئے۔
وہاں ا نہیں بریانی، چکن کڑاہی، کباب کھلائے۔ ساتھ میں لسی بھی پیش کی۔ تمام پاکستانی کھانے انہیں پسند آئے مگر لسی انہیں بہت بھائی۔ ہم نے انہیں لسی کے اجزائے ترکیبی کے بارے میں بتایا۔کھانا کھانے کے بعد Zhao Zentao ہمیں اپنے ایک چینی دوست کے گھر لے گئے ۔وہ دوست ریاضی کے پروفیسر تھے۔وہاں پر ان کے ساتھ بڑی گپ شپ رہی۔ ا ن کے گھر میں پھل اور چینی چائے سے تواضع کی گئی۔Zhao Zentao سے بڑی میل ملاقاتیں رہیں وہ توآخر ی دنوں میں ہمیں معلو م ہوا کہ موصوف پولیس آفیسر ہیں ۔ اتنا عرصہ ان سے تعلق رہا مگر انہوںنے کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ Zhao Zentao کوجب ہم نے بتایا کہ ہم یہاں سے واپس جانے والے ہیں تو وہ ادا س ہوئے اور کہنے لگے کہ اب تو کھیل اور بات چیت میں لطف آنے لگا تھا کہ آپ کے کُوچ کا وقت آگیا۔بہر حال انہوں نے ہمارے لیے ایک الوداعی دعوت کا اہتمام بھی کیا۔ الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آرآئی کے دیگر دوستوں نے بھی شروع کیا۔ان میں پشتو سروس سے وابستہ افغانستان کے فارن ایکسپرٹ جان روان زازائی نے اپنے گھر میں کھانے کی دعوت کی۔انہوں نے روایتی پشتون مہمان نوازی سے کام لیتے ہوئے ہمارے لیے پُرتکلف کھانے کا اہتمام کیا۔ جس میں کابلی پلاؤ بھی شامل تھا۔
اس الوداعی ملاقات کے علاوہ بھی وہاں قیام کے دوران جان روان زازائی نے کئی مرتبہ ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ جان روان زازائی کے علاوہ پشتو سروس کے افغان دوستوں نقیب اللہ مل اور خالد وردگ نے بھی مہمان نوازی کی روایت کو خوب نبھایا اور کئی بار ہمیں افغان ڈشز کھلائیں۔ افغانستان اور پاکستان کے پڑوسی ملک ایران سے تعلق رکھنے والے فارسی سروس میں کام کرنے والے مجتبیٰ پویا سے آشنائی لمحوں میں انسیت اور اپنائیت میں ڈھل گئی۔ وہ بہت صاحب مطالعہ، ادب سے لگاؤ رکھنے والے اور دانش ور تھے۔ان کے ساتھ بیجنگ کی شاہراہوں پر پیدل چلتے ہوئے مختلف بین الاقوامی نظریات،مذہبی تشریحات، سیاسی تحاریک کے پس منظر اور عالمی سیاست کے نشیب وفراز پر بات چیت رہی۔مجتبیٰ پویا اردو سے محبت کرنے والے شخص ہیںاور انہیںاردو رسم الخط بے حد پسند ہے۔ان کی خواہش تھی کہ وہ اردو سکھیں اور اس کے لیے وہ انٹرنیٹ سے بھی مدد لیتے رہتے ہیں۔ان کے ساتھ بھی مختلف پاکستانی ہوٹلز پر جانے کاموقع ملا۔ ان دوستوں کے علاوہ عرب دوست کہاں اپنی فیاضی اور سخاوت پر حرف آنے دینا پسند کرتے ہیں۔ سوڈان سے تعلق رکھنے والے اُسامہ اور بلال، الجزائر کے لطفی، مصر کے صلاح ابوزید نے بھی خوب دستر خوان سجائے اورہمیں عرب ڈشز سے متعارف کروایا۔
اردو سروس کے ساتھ ہی واقع تامل سروس کا دفتر ہے ۔ وہاں کام کرنے والے تامل فارن ایکسپرٹ Pandarinathan کے ساتھ دفتر آتے جاتے گپ شپ رہتی۔ انہیں بھی ادب اور کتب کے مطالعے کا شوق تھا۔جو ہمارے درمیان وجہ دوستی رہا۔Pandarinathan یوگا کے ماہر تھے اور اکثر اپنے فلیٹ میں یا کسی پارک میں یوگا کے آسن کرتے رہتے۔ انہوں نے بھی اپنے فلیٹ پر ہمارے لیے ایک الوداعی چائے پارٹی کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کا سلسلہ سی آر آئی کی حدود سے باہر بھی شروع ہوا۔
کئی پاکستانی احبا ب نے دعوت کا اہتمام کیا۔ پاکستان کے سفارت خانے کے آفیسر علی صابر کیانی نے بھی سفارتی علاقے میں واقع ایک معروف ہوٹل میں دعوت کا اہتمام کیا۔الوداعی ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ ہماری پاکستان واپسی کی تیاریاں بھی جاری تھیں اور دفتر میں بھی اپنے کاموں کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔ تین سال ایک جگہ گزارنے کی وجہ سے یہاں موجود ہر شے سے ایک اُنسیت سی ہو گئی تھی۔اب انہیں چھوڑتے ہوئے ایک غم کا احساس بھی ہو رہا تھا۔ دفتر میں ہماری نشست کے برابر میں اردو سروس کے ساتھی لیو شیاؤ ہوئی بھی بیٹھا کرتے تھے۔ان سے تین سالوں کے دوران ایک خصوصی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ لیو صاحب انتہائی وضع دار اور نظم و ضبط کے پابند تھے۔ دیانتدار اور معاملات میں شفافیت کے قائل۔ حسا س دل کے مالک لیو صاحب مرنجاں مرنج قسم کی شخصیت تھی ۔
لیو صاحب قیلولہ پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔ جب ان کی ڈیوٹی بعداز دوپہر شفٹ میں ہوتی تو وہ ڈیوٹی پر آنے والے پاکستانی ایکسپرٹس کو ہدایت کیا کرتے کہ حاضری لگا کر چلے جائیں اور ٹھیک دو بجے تشریف لائیں۔ لیو شیاؤ ہوئی سنجیدہ مزاج کے مالک تھے اور انتہائی ذمہ داری سے کام کیا کرتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ فطرت سے بھی بے حد پیار کرتے تھے ۔ان کی نشست کی دا ہنی جانب کا منظر بہت دلفریب اور مسحور کن تھا۔ جب کبھی ان کا من کام سے آرام کرنے کو چاہتاتو وہ دائیں جانب نگاہ ڈالتے ، سامنے بلندو بالا پہاڑ اور تاحد نگاہ پھیلا سبزہ ان کی روح کو معطر اور دل کو شاد اور دماغ کو تروتازہ کر دیتا اور یہی ان کو کام کرنے کے لیے مہمیز دیتا۔ لیو صاحب بظاہر دیکھنے میں گردو پیش سے بے نیاز ، اپنے کام سے کام رکھنے والے اور زیادہ میل ملا پ والے نہیں لگتے مگر جوں جوں ان سے واسطہ پڑا تو ان کی شخصیت کھلتی چلی گئی۔ ان میں اپنائیت، انس ، محبت، ہمدردی ، ذمہ داری کے مسحور کن رنگ ابھرتے جواپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔ لیو صاحب زندگی کو احتیاط اور اعتدال سے گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔
بدلتے موسم کا پتہ ان کے لباس اورسراپے سے عیاں ہوتا ہے۔ اگر لیو صاحب چھتری لے آئیں تو سمجھ لیں کہ آج بارش برسے گی اور بادل گرجیں گے۔ اگر ماسک پہن رکھا ہے تو پھر آلودگی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔لیو صاحب کے دفتری معمولات سے وقت کا تعین بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ صبح کی ڈیوٹی صبح ساڑھے آٹھ بجے شروع ہوتی اور لیو صاحب ہمیشہ وقت سے پہلے موجود ہوتے اور صبح کی شفٹ میں آنے والے احباب کے لیے خبریں ایڈٹنگ کی منتظر ہوتیں۔ سہ پہر سوا چار بجے دفترسے اپنی چیزیں سمیٹنے کا عمل دفتر سے رخصت ہونے کا اشارہ ہوتا ۔اگر جناب لیو صاحب دوپہر کے وقت میں محو استراحت ہیں تو سمجھ لیںکہ وہ قیلولہ فرما رہے ہیں اور ان کے آرام میں مخل ہونے کی ضرورت نہیں۔دفتر میں ان کے معمولات کو گھڑی سے ملائیں تو وقت کا تعین باآسانی کیا جا سکتا ہے۔وضع دار اور مادیت پرستی سے گریز پا لیو شیاؤ ہوئی کسی بودھ بھکشو کی مانند تیاگ لینے کے خواہشمند ہیں۔
اردو سروس کے دیگر ساتھی بھی انتہائی ذمہ دار، محنتی تھے اور پیشہ ورانہ طرزعمل کا مظاہرہ کرتے تھے جن سے بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملا۔ ہمارے بیجنگ میں قیام کا عرصہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا کہ انہی دنوں سی آر آئی کی اردو سروس نے چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کے انتہائی قریبی ساتھی 'چھن یون' کی سوانح حیات کو چینی زبان سے اردو میں ترجمہ کر کے شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کے لئے چین میں پاکستانی کمیونٹی کے بے شمارلوگ موجود تھے۔ لیکن اس کام میں موجود ایک مشکل اسے تکینکی طور پیچیدہ کئے ہوئے تھی۔
سی آر آئی کو ایک ایسے ماہر کی تلاش تھی جو اس قابل ہو کہ کتاب کے چینی مسودے کو پڑھنے والے چینی ماہر کے زبانی بتائے گئے اردو مفہوم کو سیاق و سباق کے پس منظرمیں رہتے ہوئے کتابی شکل میں ڈھالے۔ ایک ایسا ماہر درکار تھا جو اردو زبان پر دسترس رکھنے کے ساتھ ساتھ انٹرویو کے فن میں بھی مہارت رکھتا ہو اور ضرورت کے مطابق زبانی طور پر مفہوم بیان کرنے والے چینی ماہر سے سوالات کر کے مزید معلومات حاصل کر سکے تاکہ کتاب کے لفظی ترجمہ کی بجائے مفہوم کا ترجمہ ہوسکے۔ یہ تکنیکی مشکل اس کام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ سی آر آئی اردو سروس کی انتظامیہ کی یہ تلاش بالٓاخر ہم پر ٹھہری۔ اور اللہ پاک نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ اپنے قیام کے آخری ایام میں یہ علمی کام سرانجام دے سکوں۔ اور یوں'' ایک چینی انقلابی کی کہانی'' کے عنوان سے ایک کتاب مرتب ہوکر مارکیٹ میں آگئی۔ اس علمی کام کی وجہ سے ہمار ا سی آر آئی انتظامیہ سے پیشہ ورانہ تعلق دوستانہ شکل اختیار کر گیا۔ جس کے اظہار کے طور پر سی آر آئی کی جانب سے باضابطہ طور پر ہمار ے لیے ایک پرتکلف الوداعی ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔
عام چینی شہریوں کو جب ہم پاکستان سے اپنے تعلق کا بتاتے تو وہ خوشی کا اظہار کرتے۔ بیجنگ میں قیام کے دوران ایک مرتبہ ہمیںدانتوں کے علاج کے لیے ایک ہسپتال جانا پڑا۔ چین میں طویل عرصے سے مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر نے ہمیں اپنے چینی دوست ڈاکٹر کی جانب ریفر کردیا۔ انہوں نے بھی دوستی کی لاج رکھی اور ہمارا مکمل علاج بالکل مفت کیا۔ بلکہ جب ہم پہلی مرتبہ اس ہسپتال گئے تو متعلقہ سب وے اسٹیشن سے باہر نکل کر ہم نے ہسپتال کا پتہ ایک نوجوان سے معلوم کیا۔ جب اس نوجوان کو معلوم ہوا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو انہوں نے ایک آٹو رکشہ کو روکا اور ڈرائیور کو ہماری منزل کا پتہ بتایا اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس کو کرائے کی ادائیگی بھی کردی۔ یہ ان کی پاکستان سے محبت کا عملی اظہار تھا۔اس طرح کے کئی واقعات ہیں جہاں عام چینی شہریوں نے پاکستان سے اپنی اپنائیت کا اظہار کیا۔ چین سے رخصتی کا وقت قریب آرہا تھااور ہم دفتری و انتظامی معاملات میں دستاویزی لوازمات پورے کر رہے تھے۔
انہی انتظامات میں ہماری رہائش گاہ کے معاملات کی ذمہ دار Annie نے بھی کچھ ہدایات دیں۔ وہ بھی بہت ہنس مکھ اورتعاون کرنے والی تھیں۔انہوں نے بھی فلیٹ چھوڑنے اور اس عمل سے وابستہ دیگرضروری دستاویزی کارروائی میں بھر پور تعاون کیا۔ روزانگی کے دن صبح سویرے ہمارے سی آر آئی کے دوست ہمیں رخصت کرنے فلیٹ پرآئے۔اردو سروس کی ڈائریکٹر میڈم مہوش بنفس نفیس رخصت کرنے کے لیے تشریف لائیں۔ فلیٹ سے ائرپورٹ تک چھوڑنے کے لیے ہمیں سی آرآئی کی جانب سے گاڑی فراہم کی گئی۔ائرپورٹ پر چیک ان کیا ، بورڈنگ کارڈ لیا اور ویٹنگ لاؤنج کا رخ کیا۔ اس روز بیجنگ میں شدید بارش ہوئی اور موسم کی وجہ سے پرواز تاخیر کا بھی شکار ہوئی۔بالآخر ائرپورٹ انتظامیہ کی جانب سے روانگی کا اعلان ہوا اور ہم جہاز میں بیٹھ گئے۔ واپسی کے اس سفر میں چین میں قیام کی یادیں بھی ہماری ہمسفر تھیں۔ ہم نے یہ جانا کہ ان تین برسوں میں نہ صرف پہناوے اور معمولاتِ خور و نوش میں تبدیلی اور بدلتے مزاجوں کا مشاہدہ کیا بلکہ قلب و روح میں آنے والے تغیرات چین میں قیام کا سب سے قیمتی اثاثہ ہیں۔
محمد کریم احمد
سابق فارن ایکسپرٹ، چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل، اردو سروس، بیجنگ