دنیا میں انقلاب لاتی دریافتیں
ان دریافتوں کی مفید داستان جو انسان کی زندگیاں آرام دہ اور سہل بنا رہی ہیں۔
پچھلے سال دنیا بھر میں طبی ماہرین نت نئی سائنس سے منسلک ایجادات سامنے لاتے رہے تاکہ انسان کو صحت وتندرستی کی دولت عطا کر سکیں۔
کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ طاقتور شخص وہ ہے جو مشکلات و مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی دوسروں کی مدد کرنے کے لیے وقت نکال لے۔ غرض انسان کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کرنے پر بڑا اجر ملتا ہے۔ ذیل میں گزشتہ برس کی منفرد اور انسان دوست طبی ایجادات کا تذکرہ پیش ہے۔
مفلوج لوگ چل پھر سکیں گے
امریکا کی یونیورسٹی آف لاؤزویل سے منسلک کنٹکی سپائنل کورڈ انجری ریسرچ سینٹر(Kentucky Spinal Cord Injury Research Center) کے ماہرین نے ایک منفرد آلہ ایجاد کیا ہے۔ یہ مفلوج مرد و زن کو حرکت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال کسی حادثے کا نشانہ بن کر ہزارہا انسان مفلوج ہوجاتے ہیں۔ حادثے میں عموماً ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ اپنے افعال انجام دینے کے قابل نہیں رہتی۔یاد رہے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی ہی انسانی اعصابی نظام کے بنیادی حصے ہیں۔ اس نظام میں نیورونز (خلیوں) کے ذریعے دماغ سبھی جسمانی اعضاء کو حرکت کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈی خراب ہوجائے تو بعض جسمانی اعضا مثلاً بازو یا ٹانگ تک دماغی احکامات نہیں پہنچ پاتے۔ لہٰذا وہ بے جان ہوجاتے ہیں۔
امریکی ماہرین کا ایجاد کردہ آلہ ریڑھ کی ہڈی میں اس جگہ کے قریب نصب کیا جاتا ہے جہاں اسے ضرب لگی ہو۔ آلے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اس جگہ کے بے جان اعصاب میں بجلی دوڑا کر انہیں متحرک کردیتا ہے۔ یوں وہ پھر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ دماغ سے آنے والے احکامات کو سمجھ کر ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکیں۔ یہ آلہ بیٹری سے چلتا ہے جو مریض کے پیٹ میں لگائی جاتی ہے۔
اسی انقلاب انگیز آلے کی بدولت امریکا میں بستر پر پڑے پانچ مفلوج مردوزن کو نئی زندگی مل گئی۔ اب وہ پھر چلنا پھرنا سیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کو یقین ہے کہ کئی ماہ کی مشق ریڑھ کی ہڈی کے متاثرہ اعصاب کو تندرست کرسکتی ہے۔ یوں پھر انہیں چلنے پھرنے کے لیے آلے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ آلہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے جو ریڑھ کی ہڈی خراب ہونے سے حرکت نہیں کرسکتے۔ گو آلہ تجرباتی مراحل میں ہے مگر اگلے برس تک مارکیٹ میں آسکتا ہے۔ تب آلے کے استعمال سے معذور بھی اس قابل ہوجائیں گے کہ چل پھر کر اپنے کام کاج تو کرسکیں۔
ماں بننے کی آرزو پوری
برازیل کی رہائشی ماریا جب چھوٹی تھی تو ایک مرض کے باعث اس کی بچہ دانی میں انفیکشن پیدا ہوگیا۔ اس کی جان بچانے کے لیے بچہ دانی نکالنا پڑی۔ یوں وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی۔ جب ماریا جوان ہوئی اور اسے حقیقت کا علم ہوا تو وہ اداس رہنے لگی۔ وہ اکثر اپنے رب سے پوچھتی کہ آپ نے مجھے ماں بننے کی ایک عظیم نعمت سے کیوں محروم کردیا؟ آخر رحمت خداوندی جوش میں آئی اورماریا کے بچہ پیدا ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی۔
2013ء میں سویڈن کے سائنس دانوں نے خواتین میں بچہ دانی ٹرانسپلانٹ کرنے کا طریق کار ایجاد کرلیا۔ اس طریق کار میں ایک خاتون سے بچہ دانی لے کر اس عورت کے شکم میں نصب کی جاتی ہے جس کی بچہ دانی نہ ہو یا خراب ہو۔ اس انقلابی کام کی بدولت اب تک 39 خواتین کے ہاں بچے پیدا ہوچکے۔ یوں بچہ دانی کی ٹرانسپلانٹیشن نے ماؤں کی سونی کوکھ ہری کردی۔
ماریا برازیلی شہر ساؤ پاؤلو کی رہائشی تھی۔ ستمبر 2016ء میں وہاں کے یونیورسٹی ہاسپٹل میں ایک چالیس سالہ خاتون چل بسی۔ اس نے اپنے تمام جسمانی اعضا دان کردیئے تھے۔ تبھی یونیورسٹی ہاسپٹل سے وابستہ ڈاکٹر ڈینی ایجزن برگ نے فیصلہ کیا کہ مردہ عورت کی بچہ دانی ماریا کے شکم میں لگادی جائے۔ ٹرانسپلانٹیشن کا یہ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہا۔اس آپریشن میں بچہ دانی کی تمام شریانیں، نسیں اور دیگر اشیا ماریا کے بدن سے منسلک کردی گئیں۔ پھر روزانہ ماریا کا طبی معائنہ ہونے لگا۔ خدا کی قدرت کہ 32 سالہ ماریا کے جسم نے یہ نیا جسمانی عضو قبول کرلیا۔ چھ ماہ بعد اسے پیریڈ آنے لگے۔ 2018ء کے اوائل میں وہ حاملہ ہوگئی۔
4 دسمبر 2018ء کو ماریا نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اسے دیکھ کر ماں خوشی سے نہال ہوگئی اور اپنے خدا کا شکر بجا لائی۔ یہ دنیا میں پہلا واقعہ ہے کہ ایک مردہ خاتون کی بچہ دانی کا زندہ عورت میں ٹرانسپلانٹیشن کا عمل کامیاب رہا اور نتیجے میں ایک صحت مند بچے نے جنم لیا۔اس وقت دنیا میں لاکھوں خواتین بچہ دانی کی کسی نہ کسی خرابی کے باعث ماں بننے کی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے امید کی نئی کرن جنم لے چکی۔وہ یہ کہ جو خواتین مرنے کے بعد بچہ دانی دان کرجائیں وہ پھر زندہ عورتوں کے لیے ماں بننے کا سپنا پورا کرسکیں گی۔
کینسر کا انقلابی علاج
سرطان یا کینسر ان گنے چنے موذی امراض میں سے ایک ہے جن کا علاج جدید طبی سائنس دریافت نہیں کرسکی۔ تاہم انسان اس بیماری کو قابو کرنے کی خاطر مسلسل تحقیق و تجربات میں مصروف ہے۔ اب امریکی ماہرین کی شبانہ روز محنت و ذہانت کے سبب امید کی ایک کرن جنم لے چکی۔
ہوا یہ کہ پچھلے سال انکشاف ہوا، اڑتالیس سالہ جوڈی پرکنز جگر کے کینسرمیں مبتلا ہے۔ یہ کینسر اس کے سینے تک بھی پھیل رہا ہے۔ جوڈی لاس اینجلس کی رہائشی تھی۔ وہ فوراً اپنا علاج کرانے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ (The National Cancer Institute)واقع ریاست میری لینڈ پہنچ گئی۔ یہ کینسر پر تحقیق و تجربے کرنے والا عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے۔
ادارے میں ڈاکٹر سٹیون نبرگ بحیثیت چیف سرجن کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا طریق علاج جوڈی پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس طریقے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کینسر کے ہر مریض پر انفرادی طور پر برتا جاتا ہے۔ یعنی مریض کے مرض کی ماہیت اور کیفیت جان کر پھر ایسا طریق علاج اختیار کیا جاتا ہے جو اسے تندرست کردے۔ اسی لیے ماہرین کے نزدیک یہ دنیا کا سب سے زیادہ ذاتی (پرسنلائز) طریق علاج ہے۔
اس طریق علاج کے آغاز میں طبی سائنس داں کینسر کی وجہ سے جسمانی مامون نظام (immune system) میں جنم لینے والی تبدیلیاں دریافت کرتے ہیں۔ جب جوڈی کے مامون نظام کا جائزہ لیا گیا، تو کل 62 جنیاتی تبدیلیاں افشا ہوئیں۔ ان میں سے چار تبدیلیاں مریضہ کے جسم میں کینسر پھیلا رہی تھیں۔
یاد رہے، انسان کا مامون نظام جسم میں داخل ہونے والے دشمن جراثیم، وائرسوں اور دیگر مضر صحت مادوں کو مار ڈالتا ہے۔اس نظام میں خون کے سفید خلیے (White blood cell)فوج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی بیماری کا جرثومہ یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہو، تو یہی فوج اس پر حملہ کرکے اسے مار ڈالتی ہے۔ مگر بعض بیماریوں کے جرثومے یا وائرس زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ چنانچہ سفید خلیے انہیں مارنے میں ناکام رہتے ہیں۔ انہی بیماریوں میں کینسر اور ایڈز نمایاں ہیں۔اب جوڈی پرکنز کا علاج کرتے ہوئے اگلے مرحلے میں ماہرین طب نے یہ جائزہ لیا کہ اس کے جسم میں کون سے سفید خلیے اتنے طاقتور ہیں کہ وہ پھیلتے کینسر کے مضر صحت خلیوں کو ختم کرسکیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے طاقتور سفید خلیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ماہرین نے پھر جوڈی کے جسم سے یہ طاقتور سفید خلیے نکال لیے اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کرنے لگے۔ جب سفید خلیوں کی تعداد نوے ارب تک پہنچ گئی تو انہیں جوڈی کے بدن میں داخل کردیا گیا۔ ساتھ ہی مریضہ کو ایسی ادویہ دی گئیں جن کے ذریعے جوڈی کا مامون نظام کھل کر کینسری خلیوں پر حملہ کر دے۔
جوڈی کے بدن میں طاقتور سفید خلیوں کی کثرت نے حیرت انگیز کام کر دکھایا۔ انہوں نے چند ہی دنوں میں تمام کینسری خلیے مار ڈالے۔ یوں کرشمہ ظہور پذیر ہوا اور موت کے منہ میں جاتی جوڈی کو نئی زندگی مل گئی۔ وہ اس پر اپنے رب اور ان سائنسدانوں کی شکر گزار ہے جن کے نئے طریق علاج کی بدولت اسے حیات نو مل گئی۔
ڈاکٹر سٹیون اور نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے دیگر طبی سائنس داں اب کینسر کا علاج کرنے والے اپنے نئے طریق کار کو تحقیق و تجربات سے مزید بہتر بنارہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اس طریقے سے کینسر کی تمام اقسام کا علاج ممکن ہے۔ تاہم دیگر مریضوں پر آزمانے سے قبل وہ اپنے ایجاد کردہ علاجی طریق کار کی مزید جانچ پرکھ چاہتے ہیں۔
یہ طریق کار اگر کینسر کی بیشتر اقسام میں بھی کارگر ثابت ہوا، تو یہ نیا انقلاب ہوگا۔ تب انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج کرسکے۔ ایک طبی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً پونے دو کروڑ مردوزن کینسر کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ہر سال یہ مرض تین لاکھ پاکستانیوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔
جین ایڈیٹنگ کا متنازع طریق کار
27 نومبر 2018ء کو ہانگ کانگ میں انسانی جینوم ایڈیٹنگ (Human Genome Editing)پر ایک بین الاقوامی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں چین کے سائنس داں اور پروفیسر، ہی جیان کوئی نے ایک انکشاف کرکے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ پروفیسر ہی نے بتایا کہ انہوں نے دو نوزائیدہ بچوں کی جین ایڈیٹنگ کی ہے۔ یعنی پروفیسر موصوف نے بچوں کے جین میں تبدیلی کر ڈالی۔ یہ دنیا کے پہلے بچے ہیں جنہیں جین ایڈیٹنگ کے متنازع عمل سے گزارا گیا۔
پروگرام کا آغاز 2017ء کے اواخر میں ہوا۔ تب پروفیسر ہی اپنی یونیورسٹی (ساؤتھرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، شینزین) عارضی طور پر چھوڑ کر شینزین ہارمونک کیئر وومنز اینڈ چلڈرنز نامی ہسپتال میں کام کررہے تھے۔ اسی ہسپتال میں ایک ایڈز زدہ مرد اور عورت پروفیسر سے ملے جو لاولد تھے۔ انہوں نے پروفیسر ہی سے درخواست کی کہ انہیں منصوعی طریقے سے بچہ پیدا کردیا جائے۔وہ اپنی اولاد پیدا کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ان کے اصرار پر یہ درخواست قبول کرلی گئی۔
پروفیسر ہی نے پھر دونوں سے تولیدی خلیے لیے اور انہیں لیبارٹری میں بارآور کیا۔ اس سے دو لاقحے (Zygote) تیار ہوگئے۔ پروفیسر نے پھر جین ایڈیٹنگ کی ایک جدید ترین ٹیکنالوجی''CRISPR-Cas9'' کے ذریعے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کر ڈالی۔ یاد رہے، ڈی این اے میں موجود ہزاہا جین ہی ساری وراثتی خصوصیات مثلاً بالوں کا رنگ،اعضا کی بناوٹ وغیرہ رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات ماں باپ سے بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔پروفیسر ہی نے جین ایڈیٹنگ کرتے ہوئے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے سے ''CCR5 '' نامی جین ختم کردیا۔ ماہرین طب تحقیق سے جان چکے ہیں کہ اسی سی سی آر فائیو جین کی مدد سے ایڈز مرض انسانی جسم کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ پروفیسر ہی نے یہ جین ایڈیٹنگ اسی لیے کی تاکہ جنم لینے والے دونوں بچے ایڈز جیسی موذی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔یہ بیماری انھیں باپ کی طرف سے منتقل ہو سکتی تھی۔دونوں لاقحے پھر ماں کی بچہ دانی میں رکھ دئیے گئے۔
27 نومبر 2018ء کو پروفیسر ہی نے اعلان کیا کہ دونوں بچیاں پیدا ہوچکیں اور وہ صحت مند ہیں۔ مگر بچیوں پر کی گئی جین ایڈیٹنگ نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کردیا۔ وجہ یہ کہ اس سائنسی طریق کار سے خطرات بھی وابستہ ہیں۔بظاہر یہ معاملہ عیاں کرتا ہے کہ پروفیسر ہی کی نیت نیک تھی۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ ایڈز زدہ باپ کی دونوں بچیاں ایک خطرناک مرض سے محفوظ رہیں۔ اسی لیے پروفیسر نے ایڈز پھلنے پھولنے میں مدد دینے والا جین ہی ان کے جسم سے ختم کردیا۔گویا چینی پروفیسر نے ایک مثبت کام انجام دیا
مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ممکن ہے''CCR5 '' نامی جین بڑھتے بچوں میں کسی جسمانی فعل میں مددگار بنتا ہو۔ گویا اس کی عدم موجودگی سے بھی دونوں بچیاں کسی عجیب و غریب عارضے یا معذوری کا شکار ہوسکتی ہیں۔ سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود انسانی جسم میں پائے جانے والے ہزارہا جین پر مکمل تحقیق نہیں کرسکی۔ اسی لیے امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بچوں پر جین ایڈیٹنگ کرنے پر پابندی عائد ہے۔
پروفیسر ہی کے تجربے سے عیاں ہے کہ انہیں چین میں دوران تجربہ کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔لیکن جب مغربی ماہرین نے پروفیسر ہی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، تو چینی حکومت نے انہیں نظر بند کردیا۔ شاید چینی حکومت یہ جائزہ لینے لگی کہ پروفیسر ہی کی تحقیق و تجربات کسی قسم کے مضر اثرات تو نہیں رکھتے۔
نظریاتی و اصولی طورپر یہ دلیل جین ایڈیٹنگ کے حق میں جاتی ہے کہ انسانی جسم میں جتنے بھی جین بیماریوں اور طبی خلل پیدا کرنے میں معاون بنتے ہیں، انہیں ختم کردینا چاہیے۔ اس طرح آنے والی انسانی نسلیں زیادہ صحت مند اور بیماریوں سے پاک ہوں گی۔ لیکن کوئی بھی جین ختم کرنے سے قبل اس کے پورے مکینزم کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ ممکن ہے کہ بہت سے جین انسانی جسم میں صحت افزا افعال پیدا کرنے میں حصہ ڈالتے ہوں۔ تب ان کی عدم موجودگی نئے مسائل کھڑے کردے گی۔ اسی لیے انسان کے بدن میں پائے جانے والے تمام جین پر پہلے گیرائی و گہرائی میں تحقیق ہونی چاہیے۔ ماہرین کے مطابق ان کی تعداد انیس بیس ہزار کے درمیان ہے۔ یہ تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی جین ایڈیٹنگ کی افادیت مسلمہ طور پر سامنے آئے گی۔ تب یہ دنیائے طب میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔
کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ طاقتور شخص وہ ہے جو مشکلات و مصائب میں گھرا ہونے کے باوجود بھی دوسروں کی مدد کرنے کے لیے وقت نکال لے۔ غرض انسان کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کرنے پر بڑا اجر ملتا ہے۔ ذیل میں گزشتہ برس کی منفرد اور انسان دوست طبی ایجادات کا تذکرہ پیش ہے۔
مفلوج لوگ چل پھر سکیں گے
امریکا کی یونیورسٹی آف لاؤزویل سے منسلک کنٹکی سپائنل کورڈ انجری ریسرچ سینٹر(Kentucky Spinal Cord Injury Research Center) کے ماہرین نے ایک منفرد آلہ ایجاد کیا ہے۔ یہ مفلوج مرد و زن کو حرکت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال کسی حادثے کا نشانہ بن کر ہزارہا انسان مفلوج ہوجاتے ہیں۔ حادثے میں عموماً ان کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ اپنے افعال انجام دینے کے قابل نہیں رہتی۔یاد رہے، دماغ اور ریڑھ کی ہڈی ہی انسانی اعصابی نظام کے بنیادی حصے ہیں۔ اس نظام میں نیورونز (خلیوں) کے ذریعے دماغ سبھی جسمانی اعضاء کو حرکت کرنے کے احکامات جاری کرتا ہے۔ جب ریڑھ کی ہڈی خراب ہوجائے تو بعض جسمانی اعضا مثلاً بازو یا ٹانگ تک دماغی احکامات نہیں پہنچ پاتے۔ لہٰذا وہ بے جان ہوجاتے ہیں۔
امریکی ماہرین کا ایجاد کردہ آلہ ریڑھ کی ہڈی میں اس جگہ کے قریب نصب کیا جاتا ہے جہاں اسے ضرب لگی ہو۔ آلے کی خاصیت یہ ہے کہ وہ اس جگہ کے بے جان اعصاب میں بجلی دوڑا کر انہیں متحرک کردیتا ہے۔ یوں وہ پھر اس قابل ہوجاتے ہیں کہ دماغ سے آنے والے احکامات کو سمجھ کر ہاتھ پاؤں کو حرکت دے سکیں۔ یہ آلہ بیٹری سے چلتا ہے جو مریض کے پیٹ میں لگائی جاتی ہے۔
اسی انقلاب انگیز آلے کی بدولت امریکا میں بستر پر پڑے پانچ مفلوج مردوزن کو نئی زندگی مل گئی۔ اب وہ پھر چلنا پھرنا سیکھ رہے ہیں۔ ماہرین کو یقین ہے کہ کئی ماہ کی مشق ریڑھ کی ہڈی کے متاثرہ اعصاب کو تندرست کرسکتی ہے۔ یوں پھر انہیں چلنے پھرنے کے لیے آلے کی ضرورت نہیں رہے گی۔یہ آلہ ان لاکھوں مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے جو ریڑھ کی ہڈی خراب ہونے سے حرکت نہیں کرسکتے۔ گو آلہ تجرباتی مراحل میں ہے مگر اگلے برس تک مارکیٹ میں آسکتا ہے۔ تب آلے کے استعمال سے معذور بھی اس قابل ہوجائیں گے کہ چل پھر کر اپنے کام کاج تو کرسکیں۔
ماں بننے کی آرزو پوری
برازیل کی رہائشی ماریا جب چھوٹی تھی تو ایک مرض کے باعث اس کی بچہ دانی میں انفیکشن پیدا ہوگیا۔ اس کی جان بچانے کے لیے بچہ دانی نکالنا پڑی۔ یوں وہ ماں بننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئی۔ جب ماریا جوان ہوئی اور اسے حقیقت کا علم ہوا تو وہ اداس رہنے لگی۔ وہ اکثر اپنے رب سے پوچھتی کہ آپ نے مجھے ماں بننے کی ایک عظیم نعمت سے کیوں محروم کردیا؟ آخر رحمت خداوندی جوش میں آئی اورماریا کے بچہ پیدا ہونے کی سبیل پیدا ہوگئی۔
2013ء میں سویڈن کے سائنس دانوں نے خواتین میں بچہ دانی ٹرانسپلانٹ کرنے کا طریق کار ایجاد کرلیا۔ اس طریق کار میں ایک خاتون سے بچہ دانی لے کر اس عورت کے شکم میں نصب کی جاتی ہے جس کی بچہ دانی نہ ہو یا خراب ہو۔ اس انقلابی کام کی بدولت اب تک 39 خواتین کے ہاں بچے پیدا ہوچکے۔ یوں بچہ دانی کی ٹرانسپلانٹیشن نے ماؤں کی سونی کوکھ ہری کردی۔
ماریا برازیلی شہر ساؤ پاؤلو کی رہائشی تھی۔ ستمبر 2016ء میں وہاں کے یونیورسٹی ہاسپٹل میں ایک چالیس سالہ خاتون چل بسی۔ اس نے اپنے تمام جسمانی اعضا دان کردیئے تھے۔ تبھی یونیورسٹی ہاسپٹل سے وابستہ ڈاکٹر ڈینی ایجزن برگ نے فیصلہ کیا کہ مردہ عورت کی بچہ دانی ماریا کے شکم میں لگادی جائے۔ ٹرانسپلانٹیشن کا یہ آپریشن کئی گھنٹے جاری رہا۔اس آپریشن میں بچہ دانی کی تمام شریانیں، نسیں اور دیگر اشیا ماریا کے بدن سے منسلک کردی گئیں۔ پھر روزانہ ماریا کا طبی معائنہ ہونے لگا۔ خدا کی قدرت کہ 32 سالہ ماریا کے جسم نے یہ نیا جسمانی عضو قبول کرلیا۔ چھ ماہ بعد اسے پیریڈ آنے لگے۔ 2018ء کے اوائل میں وہ حاملہ ہوگئی۔
4 دسمبر 2018ء کو ماریا نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اسے دیکھ کر ماں خوشی سے نہال ہوگئی اور اپنے خدا کا شکر بجا لائی۔ یہ دنیا میں پہلا واقعہ ہے کہ ایک مردہ خاتون کی بچہ دانی کا زندہ عورت میں ٹرانسپلانٹیشن کا عمل کامیاب رہا اور نتیجے میں ایک صحت مند بچے نے جنم لیا۔اس وقت دنیا میں لاکھوں خواتین بچہ دانی کی کسی نہ کسی خرابی کے باعث ماں بننے کی عظیم نعمت سے محروم ہیں۔ لیکن اب ان کے لیے امید کی نئی کرن جنم لے چکی۔وہ یہ کہ جو خواتین مرنے کے بعد بچہ دانی دان کرجائیں وہ پھر زندہ عورتوں کے لیے ماں بننے کا سپنا پورا کرسکیں گی۔
کینسر کا انقلابی علاج
سرطان یا کینسر ان گنے چنے موذی امراض میں سے ایک ہے جن کا علاج جدید طبی سائنس دریافت نہیں کرسکی۔ تاہم انسان اس بیماری کو قابو کرنے کی خاطر مسلسل تحقیق و تجربات میں مصروف ہے۔ اب امریکی ماہرین کی شبانہ روز محنت و ذہانت کے سبب امید کی ایک کرن جنم لے چکی۔
ہوا یہ کہ پچھلے سال انکشاف ہوا، اڑتالیس سالہ جوڈی پرکنز جگر کے کینسرمیں مبتلا ہے۔ یہ کینسر اس کے سینے تک بھی پھیل رہا ہے۔ جوڈی لاس اینجلس کی رہائشی تھی۔ وہ فوراً اپنا علاج کرانے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ (The National Cancer Institute)واقع ریاست میری لینڈ پہنچ گئی۔ یہ کینسر پر تحقیق و تجربے کرنے والا عالمی شہرت یافتہ ادارہ ہے۔
ادارے میں ڈاکٹر سٹیون نبرگ بحیثیت چیف سرجن کام کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیا طریق علاج جوڈی پر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس طریقے کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کینسر کے ہر مریض پر انفرادی طور پر برتا جاتا ہے۔ یعنی مریض کے مرض کی ماہیت اور کیفیت جان کر پھر ایسا طریق علاج اختیار کیا جاتا ہے جو اسے تندرست کردے۔ اسی لیے ماہرین کے نزدیک یہ دنیا کا سب سے زیادہ ذاتی (پرسنلائز) طریق علاج ہے۔
اس طریق علاج کے آغاز میں طبی سائنس داں کینسر کی وجہ سے جسمانی مامون نظام (immune system) میں جنم لینے والی تبدیلیاں دریافت کرتے ہیں۔ جب جوڈی کے مامون نظام کا جائزہ لیا گیا، تو کل 62 جنیاتی تبدیلیاں افشا ہوئیں۔ ان میں سے چار تبدیلیاں مریضہ کے جسم میں کینسر پھیلا رہی تھیں۔
یاد رہے، انسان کا مامون نظام جسم میں داخل ہونے والے دشمن جراثیم، وائرسوں اور دیگر مضر صحت مادوں کو مار ڈالتا ہے۔اس نظام میں خون کے سفید خلیے (White blood cell)فوج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بھی کسی بیماری کا جرثومہ یا وائرس انسانی بدن میں داخل ہو، تو یہی فوج اس پر حملہ کرکے اسے مار ڈالتی ہے۔ مگر بعض بیماریوں کے جرثومے یا وائرس زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ چنانچہ سفید خلیے انہیں مارنے میں ناکام رہتے ہیں۔ انہی بیماریوں میں کینسر اور ایڈز نمایاں ہیں۔اب جوڈی پرکنز کا علاج کرتے ہوئے اگلے مرحلے میں ماہرین طب نے یہ جائزہ لیا کہ اس کے جسم میں کون سے سفید خلیے اتنے طاقتور ہیں کہ وہ پھیلتے کینسر کے مضر صحت خلیوں کو ختم کرسکیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایسے طاقتور سفید خلیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ماہرین نے پھر جوڈی کے جسم سے یہ طاقتور سفید خلیے نکال لیے اور لیبارٹری میں ان کی افزائش کرنے لگے۔ جب سفید خلیوں کی تعداد نوے ارب تک پہنچ گئی تو انہیں جوڈی کے بدن میں داخل کردیا گیا۔ ساتھ ہی مریضہ کو ایسی ادویہ دی گئیں جن کے ذریعے جوڈی کا مامون نظام کھل کر کینسری خلیوں پر حملہ کر دے۔
جوڈی کے بدن میں طاقتور سفید خلیوں کی کثرت نے حیرت انگیز کام کر دکھایا۔ انہوں نے چند ہی دنوں میں تمام کینسری خلیے مار ڈالے۔ یوں کرشمہ ظہور پذیر ہوا اور موت کے منہ میں جاتی جوڈی کو نئی زندگی مل گئی۔ وہ اس پر اپنے رب اور ان سائنسدانوں کی شکر گزار ہے جن کے نئے طریق علاج کی بدولت اسے حیات نو مل گئی۔
ڈاکٹر سٹیون اور نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے دیگر طبی سائنس داں اب کینسر کا علاج کرنے والے اپنے نئے طریق کار کو تحقیق و تجربات سے مزید بہتر بنارہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ اس طریقے سے کینسر کی تمام اقسام کا علاج ممکن ہے۔ تاہم دیگر مریضوں پر آزمانے سے قبل وہ اپنے ایجاد کردہ علاجی طریق کار کی مزید جانچ پرکھ چاہتے ہیں۔
یہ طریق کار اگر کینسر کی بیشتر اقسام میں بھی کارگر ثابت ہوا، تو یہ نیا انقلاب ہوگا۔ تب انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا علاج کرسکے۔ ایک طبی رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباً پونے دو کروڑ مردوزن کینسر کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ہر سال یہ مرض تین لاکھ پاکستانیوں کو اپنا نشانہ بناتا ہے۔
جین ایڈیٹنگ کا متنازع طریق کار
27 نومبر 2018ء کو ہانگ کانگ میں انسانی جینوم ایڈیٹنگ (Human Genome Editing)پر ایک بین الاقوامی تقریب منعقد ہوئی۔ اس میں چین کے سائنس داں اور پروفیسر، ہی جیان کوئی نے ایک انکشاف کرکے پوری دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ پروفیسر ہی نے بتایا کہ انہوں نے دو نوزائیدہ بچوں کی جین ایڈیٹنگ کی ہے۔ یعنی پروفیسر موصوف نے بچوں کے جین میں تبدیلی کر ڈالی۔ یہ دنیا کے پہلے بچے ہیں جنہیں جین ایڈیٹنگ کے متنازع عمل سے گزارا گیا۔
پروگرام کا آغاز 2017ء کے اواخر میں ہوا۔ تب پروفیسر ہی اپنی یونیورسٹی (ساؤتھرن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، شینزین) عارضی طور پر چھوڑ کر شینزین ہارمونک کیئر وومنز اینڈ چلڈرنز نامی ہسپتال میں کام کررہے تھے۔ اسی ہسپتال میں ایک ایڈز زدہ مرد اور عورت پروفیسر سے ملے جو لاولد تھے۔ انہوں نے پروفیسر ہی سے درخواست کی کہ انہیں منصوعی طریقے سے بچہ پیدا کردیا جائے۔وہ اپنی اولاد پیدا کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ان کے اصرار پر یہ درخواست قبول کرلی گئی۔
پروفیسر ہی نے پھر دونوں سے تولیدی خلیے لیے اور انہیں لیبارٹری میں بارآور کیا۔ اس سے دو لاقحے (Zygote) تیار ہوگئے۔ پروفیسر نے پھر جین ایڈیٹنگ کی ایک جدید ترین ٹیکنالوجی''CRISPR-Cas9'' کے ذریعے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے میں تبدیلی کر ڈالی۔ یاد رہے، ڈی این اے میں موجود ہزاہا جین ہی ساری وراثتی خصوصیات مثلاً بالوں کا رنگ،اعضا کی بناوٹ وغیرہ رکھتے ہیں۔ یہ خصوصیات ماں باپ سے بچے کو منتقل ہوتی ہیں۔پروفیسر ہی نے جین ایڈیٹنگ کرتے ہوئے دونوں لاقحوں کے ڈی این اے سے ''CCR5 '' نامی جین ختم کردیا۔ ماہرین طب تحقیق سے جان چکے ہیں کہ اسی سی سی آر فائیو جین کی مدد سے ایڈز مرض انسانی جسم کے خلیوں میں داخل ہوتا ہے۔ پروفیسر ہی نے یہ جین ایڈیٹنگ اسی لیے کی تاکہ جنم لینے والے دونوں بچے ایڈز جیسی موذی بیماری سے محفوظ رہ سکیں۔یہ بیماری انھیں باپ کی طرف سے منتقل ہو سکتی تھی۔دونوں لاقحے پھر ماں کی بچہ دانی میں رکھ دئیے گئے۔
27 نومبر 2018ء کو پروفیسر ہی نے اعلان کیا کہ دونوں بچیاں پیدا ہوچکیں اور وہ صحت مند ہیں۔ مگر بچیوں پر کی گئی جین ایڈیٹنگ نے دنیا بھر میں ہنگامہ برپا کردیا۔ وجہ یہ کہ اس سائنسی طریق کار سے خطرات بھی وابستہ ہیں۔بظاہر یہ معاملہ عیاں کرتا ہے کہ پروفیسر ہی کی نیت نیک تھی۔ انہوں نے یہ کوشش کی کہ ایڈز زدہ باپ کی دونوں بچیاں ایک خطرناک مرض سے محفوظ رہیں۔ اسی لیے پروفیسر نے ایڈز پھلنے پھولنے میں مدد دینے والا جین ہی ان کے جسم سے ختم کردیا۔گویا چینی پروفیسر نے ایک مثبت کام انجام دیا
مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ممکن ہے''CCR5 '' نامی جین بڑھتے بچوں میں کسی جسمانی فعل میں مددگار بنتا ہو۔ گویا اس کی عدم موجودگی سے بھی دونوں بچیاں کسی عجیب و غریب عارضے یا معذوری کا شکار ہوسکتی ہیں۔ سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود انسانی جسم میں پائے جانے والے ہزارہا جین پر مکمل تحقیق نہیں کرسکی۔ اسی لیے امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں بچوں پر جین ایڈیٹنگ کرنے پر پابندی عائد ہے۔
پروفیسر ہی کے تجربے سے عیاں ہے کہ انہیں چین میں دوران تجربہ کسی پابندی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔لیکن جب مغربی ماہرین نے پروفیسر ہی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا، تو چینی حکومت نے انہیں نظر بند کردیا۔ شاید چینی حکومت یہ جائزہ لینے لگی کہ پروفیسر ہی کی تحقیق و تجربات کسی قسم کے مضر اثرات تو نہیں رکھتے۔
نظریاتی و اصولی طورپر یہ دلیل جین ایڈیٹنگ کے حق میں جاتی ہے کہ انسانی جسم میں جتنے بھی جین بیماریوں اور طبی خلل پیدا کرنے میں معاون بنتے ہیں، انہیں ختم کردینا چاہیے۔ اس طرح آنے والی انسانی نسلیں زیادہ صحت مند اور بیماریوں سے پاک ہوں گی۔ لیکن کوئی بھی جین ختم کرنے سے قبل اس کے پورے مکینزم کی جان کاری حاصل کرنا ضروری ہے۔
یہ ممکن ہے کہ بہت سے جین انسانی جسم میں صحت افزا افعال پیدا کرنے میں حصہ ڈالتے ہوں۔ تب ان کی عدم موجودگی نئے مسائل کھڑے کردے گی۔ اسی لیے انسان کے بدن میں پائے جانے والے تمام جین پر پہلے گیرائی و گہرائی میں تحقیق ہونی چاہیے۔ ماہرین کے مطابق ان کی تعداد انیس بیس ہزار کے درمیان ہے۔ یہ تحقیق مکمل ہونے کے بعد ہی جین ایڈیٹنگ کی افادیت مسلمہ طور پر سامنے آئے گی۔ تب یہ دنیائے طب میں انقلاب برپا کرسکتی ہے۔