شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری

حیدرآباد میں قائم شان دار کُتب خانہ، جہاں روز ایک ہزارہ طلبہ علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں۔

حیدرآباد میں قائم شان دار کُتب خانہ، جہاں روز ایک ہزارہ طلبہ علم کی پیاس بجھانے آتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کتاب بہترین دوست اور تنہائی کی ساتھی ہے۔ انسان اور کتاب کا رشتہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی تہذیب و تمدن کا سفر ہے۔

کتاب ایک ایسی حقیقت ہے جسے ہر زمانے میں ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ کسی مفکر کا قول ہے کہ اگر دو دن تک کسی کتاب کا مطالعہ نہ کیا جائے تو تیسرے دن گفتگو میں وہ شیرینی نہیں رہتی یعنی اندازتکلم تبدیل ہوجاتا ہے۔

ایک فلسفی کا کہنا ہے کہ: ''اچھی کتاب مثالی دوست اور سچا ساتھی ہے جو ہمیشہ سیدھے راستے پر چلنے کی صلاح دیتا ہے۔'' ایک عالم کے مطابق کتابوں کا پیار ہی انسانوں کو اپنے خالق کے پاس پہنچانے والا جہاز ہے۔ مشہور فلسفی سقراط کہتا ہے: ''جس گھر میں اچھی کتابیں نہیں ہیں وہ گھر حقیقتاً گھر کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔ وہ تو زندہ مردوں کا قبرستان ہے۔'' کتابوں کے مطالعے سے ہمیں ٹھوس دلائل دینے اور بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ کسی بھی ملک کے عروج اور زوال کے اسباب اس ملک کے نوجوان ہوتے ہیں، نوجوانوں کا تعلیم یافتہ اور باشعور ہونا، اس ملک کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے۔ کتابوں کا نوجوانوں اور طلبا سے گہرا تعلق ہے۔ کتاب اور طالب علم جیسے روح اور جسم ہوتے ہیں۔ کتاب منبع علم اور مصور علم ہے۔ کتاب غور و فکر کو پروان چڑھاتی ہے۔

غوروفکر انسان کو حکمت و دانائی اور معرفت کی طرف لے جاتا ہے۔ کتاب انسان کو طمانیت، شعور و آگہی اور وجدان کے خزینے عطا کرتی ہے۔ کتاب انسانی سوچوں کو گہرائی اور وسعت سے نوازتی ہے۔ کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے ابتدا میں ہی اپنا تعارف ''الکتاب'' کے طور پر کروایا۔ ہمارا تو پہلا استعارہ ہی ''اقراء'' ہے۔ بے شمار حکمتوں کے ساتھ ساتھ اس میں یہ حکمت ہے کہ کتاب سے تعلق اور ربط پیدا کرنے کے لیے اللہ نے اپنے کلام کا نام ''الکتاب'' رکھا۔ کتاب کا اس سے بڑا مرتبہ اور کیا ہوسکتا ہے۔

سائنسی انقلاب برپا ہوچکا ہے اور انٹرنیٹ کی تیزرفتار نے فاصلے سمیٹ دیے ہیں۔ پوری دنیا اب انگلیوں کے اشاروں پر ہوتی ہے اور ہر طرح کی معلومات کا خزانہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے مگر یہ کہنا غلط نہیں کہ کتابوں کی دائمی اہمیت و افادیت اپنی جگہ قائم و دائم ہے اور اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ کتاب کے ساتھ ساتھ لائبریری (کتب خانہ) کی بھی اہمیت مسلمہ ہے۔ زندہ قوموں کا شعار، بلکہ فطرت ثانیہ ہوتی ہے کہ وہ کتب خانوں کو بڑی قدرومنزلت دیتی ہیں۔ آج کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں امریکا میں لائبریری آف کانگریس اور برطانیہ میں برٹش میوزیم لائبریری دو قوموں کے واسطے فکری اساس یا شہ رگ بنی ہوئی ہیں۔ یہی علم پرور ادارے ان کو خیالات کی نئی وسعتوں میں محو پرواز رکھتے ہیں، قوم و ملت کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں منزل مقصود تک پہنچانے کے ضمن میں ان لائبریریوں کی کروڑوں کتابیں خاموشی سے راہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہیں۔ ان قوموں کے باشعور عوام میں لائبریری تحریک کا ایک منظم سلسلہ بھی موجود ہے۔ لائبریری کا ہونا ایک لازمی فطری امر ہے۔

اس کے بغیر تعلیم کا مقصد اور تدریس کا نظام ادھورا اور نامکمل رہتا ہے۔ کتب خانے اساتذہ اور نوجوان طلبا کے لیے اہم اور ناگزیر ہیں، یہاں اساتذہ علم میں نئی نئی تحقیقات سے بہرہ ور ہوتے ہیں اور طلبا بھی اپنی نصابی اور ہم نصابی معلومات میں اضافہ کرتے ہیں۔ اہل علم کسی بھی ملک میں پائے جانے والے کتب خانوں کو اس ملک کی ثقافتی، تعلیمی اور صنعتی ترقی کا پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ کتب خانوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی قدیم انسان کی تہذیب ہے۔ تہذیب کے آغاز سے ہی انسان نے ہر دور میں حاصل ہونے والے علم کا ریکارڈ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ کتب خانوں کی تاریخ کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب انسان کے پاس لکھنے کے لیے کاغذ قلم نہ تھا اور وہ مٹی کی تختیوں، چمڑے اور ہڈیوں پر تحریر کو محفوظ کرتا تھا۔ جب انسان نے لکھنا پڑھنا شروع کیا تو لکھنے پڑھنے کی چیزوں کو بھی اس نے حفاظت سے رکھنے کی کوشش کی۔ انسان کی اسی کوشش نے کتب خانوں کو جنم دیا۔ کتاب اور کتب خانے کی مدد سے ہم ان عظیم شخصیات سے رابطہ قائم کیے ہوئے ہیں جن کے اقوال زریں ہماری زندگی کی قیادت کرتے ہیں۔

لائبریری وہ عمارت ہے جس میں قارئین کے لیے کتابی و غیرکتابی مواد منظم طور پر مہیا کیا جائے۔ چوںکہ اس کا مقصد محفوظ شدہ معلومات کی تحصیل، حفاظت، ترتیب، تنظیم اور اسے جویان علم کی رسائل کے قابل بنانا ہے۔ لائبریری میں عام کتابوں کے علاوہ اخبار اور رسائل و جرائد بھی رکھے جاتے ہیں تاکہ اساتذہ اور نوجوان طلبا تازہ ترین معلومات حاصل کرسکیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ لائبریری علم کے فروغ میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔

سرمئی شاموں اور ٹھنڈی ہواؤں کے شہر حیدرآباد کے پرفضا مقام پر قائم ''شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری'' کا کلیدی کردار ہے، نوجوان طلبا اور طالبات دور دراز سے صبح سے ہی علم کے حصول کے لیے یہاں اپنی علمی پیاس بجھانے آتے ہیں۔ یہ طلبا اور طالبات بڑی تعداد میں ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے قطار میں لگ کر اندر داخل ہوتے ہیں اور اپنی نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ لائبریری رانی باغ اور سندھ میوزیم کے قریب واقع ہے، بالمقابل قاسم آباد حیدرآباد۔ اس لائبریری کا تاریخی پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ سندھ اسمبلی نے 30-01-1951 کو ایک قرارداد پاس کی کہ صوبائی پبلک لائبریری حیدرآباد میں قائم کی جائے۔

اس وقت جگہ کی دقت کی وجہ سے اس پبلک لائبریری کو این جے وی (NJV) ہائی اسکول کراچی میں اکتوبر 1961 میں قائم کیا گیا۔ ایک سال کے وقفے کے بعد 1962 میں اس لائبریری کو گورنمنٹ مسلم کالج حیدرآباد کے ہال میں منتقل کردیا گیا۔ 1965 میں سندھ میوزیم حیدرآباد کے احاطے میں اس لائبریری کی اپنی بلڈنگ تعمیر ہوئی اور اس وقت کی سندھ صوبائی لائبریری کو یہاں منتقل کردیا گیا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ مرحوم کی زوجہ خدیجہ صاحبہ نے جولائی 1971 میں ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کی تمام کتابیں، فرنیچر اور ذاتی استعمال کی اشیا اس وقت کی صوبائی پبلک لائبریری کے لیے محکمہ تعلیم حکومت سندھ کو بطور عطیہ دے دیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ فخر سندھ ماہر تعلیم، ماہر سندھیات، ماہرلسانیات، محقق، معلم اور بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے۔


آپ کی علمی و ادبی خدمات اور کاوشوں کے صلے میں برطانوی حکومت ہند نے آپ کو شمس العلما کے خطاب سے نوازا تھا۔ وہ برصغیر کی آخری علمی شخصیت تھے جنھیں یہ خطاب عطا ہوا تھا۔ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کا سب سے بڑا کارنامہ سندھ کی دو مشہور فارسی تواریخ چچ نامہ اور تاریخ معصومی کی ترتیب ہے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور انگریزی میں 28 کتابیں یادگار چھوڑیں۔ وہ آخری عمر تک علم و ادب کی خدمت کرتے رہے۔ مئی 1986 میں محکمۂ تعلیم سندھ کی تقسیم کے بعد تمام عوامی لائبریریاں نیا معرض وجود ہونے والے محکمہ ثقافت سندھ میں منتقل ہوگئیں۔ جب سے یہ لائبریری محکمۂ ثقافت حکومت سندھ کے تحت کام کر رہی ہے۔ اس وقت کے محکمہ ثقافت حکومت سندھ کے بانی سیکریٹری عبدالحمید آخوند کی ذاتی کاوشوں سے سندھ گورنمنٹ صوبائی پبلک لائبریری کا نام تبدیل کرکے شمس العلما ڈاکٹر محمد عمر بن داؤد پوتہ لائبریری رکھ دیا گیا۔

عبدالحمید آخوند سیکریٹری محکمۂ ثقافت سندھ ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کے نواسے تھے۔ آپ کی محکمہ ثقافت کے لیے کی جانے والی خدمات قابل تحسین ہیں۔ یہ لائبریری کافی عرصہ سندھ میوزیم حیدرآباد کی بلڈنگ میں قائم رہی۔ موجودہ نئی عمارت کا افتتاح سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ نے 17 مئی 1996 کو کیا۔ موجودہ شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری نہایت دل کش اور خوب صورت ہے۔ اس کے مین داخلی دروازہ کے باہر خوب صورت سندھی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے اجرک جیسے ٹائلز لگائے گئے ہیں۔ یہ ٹائلز اور ڈیزائن سندھ کی عکاسی ظاہر کرتے ہیں۔

لائبریری کے چاروں طرف سبزہ زار ہے اور ایک بڑا باغ ہے یہاں طلبا کی بڑی تعداد لائبریری کے اندر نشست نہ ملنے کی صورت میں اپنی پڑھائی میں مشغول نظر آتے ہیں۔ تعلیم کے حصول کا جنون ان نوجوانوں کو سندھ کے دوردراز کے علاقوں دیہات سے علم کی پیاس بجھانے کے لیے لے کر آتا ہے۔ اندرون سندھ سے بہت بڑی تعداد میں نوجوان طلبا اور طالبات صبح ہی صبح اپنی نشست کے حصول کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ جب لائبریری کا دروازہ کھلتا ہے تو طلبا بہت تیزرفتار میں اپنی نشست حاصل کرنے کے لیے دوڑتے ہیں اور جو طالب علم کام یاب ہوجائے وہ لائبریری کے اندر اپنی نشست پر براجمان ہوجاتا ہے اور باقی بچ جانے والے طلبا پارک اور لائبریری کی لابی میں بیٹھ کر اپنے مستقبل کو روشن کرنے اور کام یاب ہونے کے لیے اپنی کتابوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔

اس لائبریری کے اوقات صبح 9 سے رات9 بجے تک ہیں۔ یہ سندھ کی تیسری سب سے بڑی لائبریری ہے۔ شمس العلما عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری حیدرآباد کے ایڈمنسٹریٹر سجاد مرزا نے بتایا کہ یہاں کتابوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے، تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی کتابیں یہاں موجود ہیں۔ اورینٹل سیکشن میں عربی، فارسی، اردو اور انگریزی زبانوں میں کتب موجود ہیں۔ یہاں روزانہ تقریباً ایک ہزار کے قریب طلبا اور طالبات مطالعہ کرنے آتے ہیں۔ یہ لائبریری کئی مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔ داخلی راستے سے داخل ہوتے ہی سب سے پہلے بائیں ہاتھ پر چلڈرن سیکشن ہے، جہاں بچوں سے متعلق مختلف رنگ برنگی کتابیں موجود ہیں۔ بچوں کے ساتھ خواتین بھی یہاں مطالعہ کرتی ہیں۔ چلڈرن سیکشن بنانے کا مقصد بچوں میں کتابوں سے رغبت پیدا کرنا اور علمی صلاحیتوں کو ابھارنا ہے۔ دائیں ہاتھ پر شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ کے نام سے منسوب سیکشن ہے۔ یہاں ان کی کتابیں، فرنیچر اور دیگر سندھی ادب اور شاعری پر مبنی کتابیں موجود ہیں۔ اندر داخل ہوتے ہی بالکل سامنے لنکن کارنر سیکشن ہے۔ اس لنکن کارنر کا افتتاح امریکا کے سفیر ڈوڈمین Michale Dodman اور وزیراعلیٰ سندھ سابقہ معاون خصوصی برائے کلچر اور ٹورازم محترمہ شرمیلا فاروقی نے کیا۔

یہ سیکشن امریکا کے سابق صدر ابراہم لنکن جوکہ امریکا کے 16ویں صدر تھے، سے موسوم ہے۔ لنکن کارنر پاکستانیوں کا امریکا سے رابطے کا ذریعہ ہے۔ لنکن کارنر امریکی سفارتخانہ اور منتخب پاکستانی اداروں کے درمیان شراکت دار ہے۔ جامعات، پبلک لائبریریز اور ثقافتی سینٹرز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں لوگ انٹرنیٹ، انگریزی زبان کی پریکٹس اور مختلف طریقوں سے امریکا کے متعلق جان سکتے ہیں۔ لنکن کارنر کتابوں، رسائل اور مختلف ذرائع سے امریکا کے متعلق تازہ اور موجودہ معلومات تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ یہ سیکھنے اور علمی مباحثے کے لیے آرام دہ ماحول فراہم کرتا ہے۔ امریکا سے متعلق معلوماتی ویب سائٹس، ای لائبریری امریکا تک مفت وائی فائی انٹرنیٹ کے ذریعے رسائی ممکن بناتا ہے۔

لنکن کارنر میں ایک لنکن کارنر کوآرڈی نیٹر موجود ہوتا ہے، دونوں زبانوں کا ماہر یہ کوآرڈی نیٹر آنے والے افراد کو امریکی معلومات سے متعلق دل چسپی پر ان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ امریکن حکومت نے ڈیجیٹل اور کتابیں لائبریری کو عطیہ دیا۔ لنکن کارنر سیکشن کے ساتھ ہی اندر کی جانب گرلز سیکشن ہے، یہاں پر صرف خواتین اور طالبات مطالعہ کرتی ہیں۔ تقریباً 50 سے 60 خواتین کے بیٹھنے کی نشست موجود ہیں۔ خواتین کے پردے کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ چند قدموں کے فاصلے پر CSS سیکشن ہے، یہاں مستقبل کے بیوروکریٹس تعلیم میں مشغول نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کا یہ جوش اور ولولہ دیدنی ہے۔ وفاقی پبلک سروس کمیشن اسلام آباد CSS کمیشن کے ذریعے سرکاری ملازمین کی میرٹ پر بھرتی کرتا ہے، اس کمیشن کا کام ایک مخصوص اہلیت کے نوجوانوں کی چھانٹی کرنا ہے تاکہ حکومت پاکستان کو اچھے سرکاری ملازم مل سکیں۔ CSS کمیشن پاس کرنے کے بعد مختلف سرکاری محکموں میں کم ازکم سترہ 17 گریڈ کی نوکری ملتی ہے۔ یہ لائبریری نہ جانے کتنے بیورو کریٹس بنا چکی ہے۔

شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری سے دانشور، مدبر، سیاست داں، اسکالرز اور سرکاری محکموں کے اعلیٰ افسران اسی لائبریری کی کتابوں سے مستفید ہوتے رہے اور آج معاشرے میں ان کا اعلیٰ مقام ہے جن میں قابل ذکر نام رسول بخش پلیجو، ایاز پلیجو، تاج جویو، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، حسین بخش تھیبو، ڈی آئی جی خادم رند، آئی جی سندھ آفتاب پٹھان، ممتاز مرزا، اسماعیل شیخ، ادریس جتوئی اور ایسے بے شمار ناموں کی طویل فہرست ہے۔ آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں عام قاری سے لے کر اسکالرز، ادیب، دانشور، ریسرچر آتے ہیں اور کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں۔

یہاں اسٹیک سیکشن (Book Bank) Stack Section موجود ہے، یہاں سائنس، فکشن، معلومات عامہ، تاریخ، اسلامی تاریخ اور آئی ٹی وغیرہ تمام موضوعات پر کتابیں موجود ہیں۔ کتاب طالب علم کو جاری کرنے کے لیے قومی شناختی کارڈ لازمی ہے۔ دو ریڈنگ ہال ہیں۔ ریڈنگ ہال نمبر 1 اور ریڈنگ ہال نمبر 2۔ ان دونوں ہالوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ طلبا کا یہاں انداز مطالعہ زندگی کا احساس دلاتا ہے۔ نوجوانوں کی یہ دنیا عام دنیا سے بالکل مختلف ہے، انھیں صرف اور صرف اپنے مستقبل کی فکر ہے اور اپنے خوابوں کی تکمیل حاصل کرنے کے لیے اپنی نفسانی خواہشوں کو مار کر کتابوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوتے ہیں۔ ریڈنگ ہال میں کیٹلاگ موجود ہے، اس کی مدد سے کتابیں ڈھونڈنے میں آسانی ہوتی ہے۔

کیٹلاگ کتب خانہ کی کلیدی حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے استعمال ہی سے کتب خانہ کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ کیٹلاگ سے مراد لائبریری میں موجود ہر قسم کی ایسی باقاعدہ فہرست جس میں مواد کے کوائف، مندرجات کو ایک مخصوص نظام کے تحت ترتیب سے بیان اور مرتب کیا جائے جس کی مدد سے قارئین مواد کو دیکھے بغیر کیٹلاگ کارڈ کو دیکھ کر ہی اپنے مطلوبہ مواد کے بارے میں جان سکیں۔ ریڈنگ ہال سے چند قدموں کے فاصلے پر انٹرنیٹ کیفے ہے، یہاں دس کمپیوٹر انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ موجود ہیں۔ طلبا انٹرنیٹ کی مدد سے اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کرتے ہیں۔ بالائی منزل پر نیوز پیپر سیکشن ہے یہاں ایک وقت میں تمام اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات اور رسائل دستیاب ہوتے ہیں۔ نوجوان حالات حاضرہ سے باخبر رہنے کے لیے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں اور روزگار کے لیے اسامیوں کے اشتہارات دیکھتے ہیں۔

قارئین محترم! یہ ہے شمس العلما ڈاکٹر عمر بن محمد داؤد پوتہ لائبریری کا آنکھوں دیکھا احوال، لائبریری کو مزید بہتر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ لائبریری میں فرنیچر، کتب کی تعداد میں مزید اضافہ لازمی ہے۔ صاف پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔ بجلی کے نظام کو درست کیا جائے اور لائبریری کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کیا جائے۔ لائبریری کا ماحول خوش گوار ہونا چاہیے تاکہ طلبا سکون سے اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دے سکیں۔
Load Next Story