تاثرات
تقریباً تمام ہی اہم نیوز ٹی وی چینلز پر رات آٹھ سے نو اور 10سے 11 بجے کے دوران ٹاک شوز Talk Shows پر بہار کا۔۔۔
تقریباً تمام ہی اہم نیوز ٹی وی چینلز پر رات آٹھ سے نو اور 10سے 11 بجے کے دوران ٹاک شوز Talk Shows پر بہار کا موسم ہوتا ہے کہ ہر سیٹ پر ایک اینکر اور تین چار مہمان خواتین و حضرات سے دُودھ سے لسّی اور لسّی سے دُودھ بنانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں چونکہ یہ پروگرام یا اُن کے کچھ حصے پہلے سے ریکارڈڈ ہوتے ہیں اس لیے بعض اوقات آپ ایک ہی مبصّر کو بیک وقت دو اور کبھی کبھار تین شوز میں Live یعنی براہ راست دیکھتے اور سنتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل تک اس طرح کا چمتکار صرف پرانی داستانوں کے مافوق الفطرت کرداروں تک ہی محدود تھا اور بُھلا کرے جدید ٹیکنالوجی کا کہ اس نے پرانے انسان کے واہموں، خوابوں، خواہشوں اور اندیشوں کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس عمل میں '''حیرت '' اور ''عبرت'' نامی وہ دو شاندار عناصر ہماری زندگیوں سے خارج ہوتے چلے جا رہے ہیں جن کی طرف میر انیسؔــ نے کچھ یوں اشارہ کیا تھا کہ
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیران ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
سو ہُوا یُوں کہ گزشتہ شب مجھے متذکرہ بالا دو گھنٹوں کے دوران تقریباََ آٹھ نو ٹاک شوز کو جہاں جہاں سے سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر جگہ پر کم و بیش ایک ہی طرح کا رَولا تھا لیکن بعض شو ایسے تھے جن کے دوران میں نے ریموٹ کنڑول کو اُس وقت تک ہاتھ نہیں لگایا جب تک اینکرز نے اُس بریک کے لیے وقفہ نہیں لیا ۔ ایک جگہ تو وہی پرانا مسئلہ زیر بحث تھا کہ مسلم لیگ ن نے انتخابات سے پہلے انرجی سیکٹر میں فوری اور اِنقلابی تبدیلیاں لانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ کہاں گئے؟ کیا اُس وقت انھیں اندازہ نہیں تھا کہ گزشتہ دس بارہ برس سے بالعموم اور پی پی پی کی رخصت ہونے والی حکومت کے دور میں بالخصوص یہ مسئلہ اس قدر اُلجھ چکا ہے اور اِس سیکٹر میں بد عنوانی، لُوٹ مار اور مجرمانہ غفلت کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے جا چکے ہیں جن کی مثال افریقہ اور لاطینی امریکا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی بمشکل ہی مل سکے گی اور یہ کہ متعلقہ چیزوں کو کسی ترتیب میں لانے کے لیے تھوڑا نہیں بلکہ اچھا خاصا وقت درکار ہو گا اور صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم لوڈ شیڈنگ بیس سے گھٹا کر دس گھنٹوں تک لے آئے ہیں رمضان اور جولائی کے مہینے کی شدید گرمی اور حبس کے مارے ہوئے وہ لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے جن کے گھروں میں نہ تو بجلی کے متبادل ذرائع UPS اور جنریٹر کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی ان کی جیبوں میں مہنگائی کے اژدھے کی چیر پھاڑ کے بعد اتنے وسائل باقی بچے ہیں کہ وہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود نہ صرف پورے 24گھنٹوں میں استعمال ہو سکنے والی بجلی کا بِل دیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ ٹماٹروں کے ریٹ میں اضافے سے بھی زیادہ بُرا اور تیز رفتار ہے۔
بجلی کی مطلوبہ مقدار میں فراہمی اور لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے لیے موجودہ حکومت کے وزراء اور ذمے دار حضرات یہاں تک کہ خود وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کوئی حتمی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کی بنیادی وجوہات دو ہی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ گزشتہ حکومت کے نمائندوں کی طرح کوئی تاریخ دے کر شرمندہ نہیں ہونا چاہتے کہ اب میڈیا اور عوام پہلے سے بھی زیادہ شدید ردِّعمل کے لیے بپھرے بیٹھے ہیں اور دوسرا یہ کہ مستقبل قریب میں انھیں اس مسئلے کا مکمل تو کیا جزوی حل بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ سو انرجی سے متعلق تمام پروگراموں کا مجموعی تاثر ایک ہی ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دس پندرہ سال کی لیٹ (Late) چند ہفتوں میں نکالی نہیں جا سکتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مُتبادل پروگرام کہاں ہیں جن کے بارے میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ وہ تیار ہیں اور اِقتدار میں آتے ہی اُن پر اِس طرح سے عمل کیا جائے گا کہ لوگ لوڈ شیڈنگ کا مطلب اور اُس کے Spellings تک بھول جائیں گے۔
ایک پروگرام جس نے دل و دماغ پر اپنا واضح تاثر چھوڑا اُن کنٹینرز کی گمشدگی کے بارے میں ہے جن کی تعداد گیارہ سے تیس ہزار تک بتائی جاتی ہے اور جن کے چکر میں مبیّنہ طور پر پچاس اَرب سے زیادہ رُوپے خورد بُرد کر لیے گئے ہیں اور یہ سب کچھ آج سے تقریباً چھ برس پہلے ہُوا لیکن نیب اور سپریم کورٹ کی دَخل اندازی کے باوجود اس کیس کا کوئی باقاعدہ سِرا سامنے نہیں آ رہا۔ کئی انکوائری کمیٹیاں ہیں کسی نے کام کیا کسی نے نہیں کیا اور بعض صُورتوں میں ان ہی لوگوں کی تفتیش پر مقرر کیا گیا جن کے نام مبیّنہ ملزمان کی فہرست میں سب سے اُوپر درج تھے۔ سب سے دلچسپ بات ایک انکوائری افسر عاشر عظیم کی گفتگو تھی جس نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایسے ٹھوس ثبوت جمع کیے جن کی بنیاد پر اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے اور جن کی مدد سے اُس ہیرا پھیری کی اُن تفصیلات سے بھی آگا ہ ہوا جا سکتا ہے جن کی گُھمن گھیری نے چھ سات برس سے اس معاملے کو لٹکا رکھا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ عاشر عظیم کو اس کیس سے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ وہ گریڈ اُنیس کے افسر ہیں جب کہ یہ تفتیش بیس یا اس سے اوپر کے گریڈ کا افسر ہی کر سکتا ہے۔ اگر میرا اَندازہ صحیح ہے تو یہ اَفسر یعنی عاشر عظیم وہی نوجوان اور باصلاحیت ڈرامہ نگار ہے جس نے چند برس قبل کوئٹہ ٹی وی سے ''دُھواں'' نامی سیریل لکھ کر دُھومیں مچا دی تھیں۔ اس کی گفتگو میں بھی (اگرچہ اس نے زیادہ جُملے انگریزی میں ہی بولے) اسی پیشہ ورانہ قابلیت کی جھلک نمایاں تھی جس کا ایک اور انداز میں اس ڈرامہ سیریل میں اظہار ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کیس کو سمجھنے اور سُلجھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اس میں کچھ نہیں بلکہ ''بہت سے'' پردہ نشینوں کے نام موجود ہیں اور وہ لوگ اس قدر بااَثر ہیں کہ اُن پر ہاتھ ڈالنے کے لیے جس Political Will کی ضرورت ہے وہ کم از کم گزشتہ حکومتوں میں نہیں تھی۔ اُس رپورٹ میں اور لوگوں کے علاوہ ٹرکوں کے نمبر اور ڈرائیوروں کے نام اور بیانات بھی شامل ہیں۔
ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے
حیران ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
سو ہُوا یُوں کہ گزشتہ شب مجھے متذکرہ بالا دو گھنٹوں کے دوران تقریباََ آٹھ نو ٹاک شوز کو جہاں جہاں سے سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ ہر جگہ پر کم و بیش ایک ہی طرح کا رَولا تھا لیکن بعض شو ایسے تھے جن کے دوران میں نے ریموٹ کنڑول کو اُس وقت تک ہاتھ نہیں لگایا جب تک اینکرز نے اُس بریک کے لیے وقفہ نہیں لیا ۔ ایک جگہ تو وہی پرانا مسئلہ زیر بحث تھا کہ مسلم لیگ ن نے انتخابات سے پہلے انرجی سیکٹر میں فوری اور اِنقلابی تبدیلیاں لانے کے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے وہ کہاں گئے؟ کیا اُس وقت انھیں اندازہ نہیں تھا کہ گزشتہ دس بارہ برس سے بالعموم اور پی پی پی کی رخصت ہونے والی حکومت کے دور میں بالخصوص یہ مسئلہ اس قدر اُلجھ چکا ہے اور اِس سیکٹر میں بد عنوانی، لُوٹ مار اور مجرمانہ غفلت کے ایسے ایسے ریکارڈ قائم کیے جا چکے ہیں جن کی مثال افریقہ اور لاطینی امریکا کے چھوٹے چھوٹے ملکوں میں بھی بمشکل ہی مل سکے گی اور یہ کہ متعلقہ چیزوں کو کسی ترتیب میں لانے کے لیے تھوڑا نہیں بلکہ اچھا خاصا وقت درکار ہو گا اور صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم لوڈ شیڈنگ بیس سے گھٹا کر دس گھنٹوں تک لے آئے ہیں رمضان اور جولائی کے مہینے کی شدید گرمی اور حبس کے مارے ہوئے وہ لوگ مطمئن نہیں ہو سکتے جن کے گھروں میں نہ تو بجلی کے متبادل ذرائع UPS اور جنریٹر کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی ان کی جیبوں میں مہنگائی کے اژدھے کی چیر پھاڑ کے بعد اتنے وسائل باقی بچے ہیں کہ وہ بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کے باوجود نہ صرف پورے 24گھنٹوں میں استعمال ہو سکنے والی بجلی کا بِل دیں۔ بجلی کی قیمت میں اضافہ ٹماٹروں کے ریٹ میں اضافے سے بھی زیادہ بُرا اور تیز رفتار ہے۔
بجلی کی مطلوبہ مقدار میں فراہمی اور لوڈ شیڈنگ کے مکمل خاتمے کے لیے موجودہ حکومت کے وزراء اور ذمے دار حضرات یہاں تک کہ خود وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کوئی حتمی تاریخ دینے کے لیے تیار نہیں۔ اِس کی بنیادی وجوہات دو ہی ہیں، ایک تو یہ کہ وہ گزشتہ حکومت کے نمائندوں کی طرح کوئی تاریخ دے کر شرمندہ نہیں ہونا چاہتے کہ اب میڈیا اور عوام پہلے سے بھی زیادہ شدید ردِّعمل کے لیے بپھرے بیٹھے ہیں اور دوسرا یہ کہ مستقبل قریب میں انھیں اس مسئلے کا مکمل تو کیا جزوی حل بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ سو انرجی سے متعلق تمام پروگراموں کا مجموعی تاثر ایک ہی ہے کہ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ دس پندرہ سال کی لیٹ (Late) چند ہفتوں میں نکالی نہیں جا سکتی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مُتبادل پروگرام کہاں ہیں جن کے بارے میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ وہ تیار ہیں اور اِقتدار میں آتے ہی اُن پر اِس طرح سے عمل کیا جائے گا کہ لوگ لوڈ شیڈنگ کا مطلب اور اُس کے Spellings تک بھول جائیں گے۔
ایک پروگرام جس نے دل و دماغ پر اپنا واضح تاثر چھوڑا اُن کنٹینرز کی گمشدگی کے بارے میں ہے جن کی تعداد گیارہ سے تیس ہزار تک بتائی جاتی ہے اور جن کے چکر میں مبیّنہ طور پر پچاس اَرب سے زیادہ رُوپے خورد بُرد کر لیے گئے ہیں اور یہ سب کچھ آج سے تقریباً چھ برس پہلے ہُوا لیکن نیب اور سپریم کورٹ کی دَخل اندازی کے باوجود اس کیس کا کوئی باقاعدہ سِرا سامنے نہیں آ رہا۔ کئی انکوائری کمیٹیاں ہیں کسی نے کام کیا کسی نے نہیں کیا اور بعض صُورتوں میں ان ہی لوگوں کی تفتیش پر مقرر کیا گیا جن کے نام مبیّنہ ملزمان کی فہرست میں سب سے اُوپر درج تھے۔ سب سے دلچسپ بات ایک انکوائری افسر عاشر عظیم کی گفتگو تھی جس نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایسے ٹھوس ثبوت جمع کیے جن کی بنیاد پر اصل مجرموں پر ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے اور جن کی مدد سے اُس ہیرا پھیری کی اُن تفصیلات سے بھی آگا ہ ہوا جا سکتا ہے جن کی گُھمن گھیری نے چھ سات برس سے اس معاملے کو لٹکا رکھا ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ عاشر عظیم کو اس کیس سے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ وہ گریڈ اُنیس کے افسر ہیں جب کہ یہ تفتیش بیس یا اس سے اوپر کے گریڈ کا افسر ہی کر سکتا ہے۔ اگر میرا اَندازہ صحیح ہے تو یہ اَفسر یعنی عاشر عظیم وہی نوجوان اور باصلاحیت ڈرامہ نگار ہے جس نے چند برس قبل کوئٹہ ٹی وی سے ''دُھواں'' نامی سیریل لکھ کر دُھومیں مچا دی تھیں۔ اس کی گفتگو میں بھی (اگرچہ اس نے زیادہ جُملے انگریزی میں ہی بولے) اسی پیشہ ورانہ قابلیت کی جھلک نمایاں تھی جس کا ایک اور انداز میں اس ڈرامہ سیریل میں اظہار ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس کیس کو سمجھنے اور سُلجھانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن صاف دکھائی دے رہا تھا کہ اس میں کچھ نہیں بلکہ ''بہت سے'' پردہ نشینوں کے نام موجود ہیں اور وہ لوگ اس قدر بااَثر ہیں کہ اُن پر ہاتھ ڈالنے کے لیے جس Political Will کی ضرورت ہے وہ کم از کم گزشتہ حکومتوں میں نہیں تھی۔ اُس رپورٹ میں اور لوگوں کے علاوہ ٹرکوں کے نمبر اور ڈرائیوروں کے نام اور بیانات بھی شامل ہیں۔