سحری اور بہن کا قتل
خبر ہے کہ راولپنڈی کے علاقے نیو ٹائون میں ایک بھائی نے سحری تیار کرنے میں تاخیر پر اپنی شادی شدہ بہن کو جو اس کے گھر مہمان آئی ہوئی تھی گولی مار کر قتل کر دیا۔ یہ افسوس ناک واقعہ چشتی آباد پنڈورہ میں پیش آیا۔خبر کے مطابق خرم پرویز نامی شخص نے جو مقتولہ کا شوہر ہے نیو ٹائون پولیس کو بتایا کہ اس کی بیوی شبانہ اپنی والدہ کے گھر گئی ہوئی تھی۔ صبح کے وقت جب وہ اپنی والدہ کے گھر سحری تیار کرنے لگی تو کھانا تیار کرتے ہوئے کچھ تاخیر ہوگئی جس پر اس کی اپنے بھائی ارشد محمودکے ساتھ تلخ کلامی ہوئی۔ شور کی آواز سن کر خرم پرویز اور ایک تاج نامی شخص جب وہاں گئے تو ارشد نے تکئے کے نیچے سے پستول نکال کر شبانہ پر فائر کردیا جس سے وہ زخمی ہوگئی اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑگئی۔ خبر یہاں ختم ہوجاتی ہے۔
اس سے آگے روایتاً بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ نیو ٹائون پولیس نے کیا کارروائی کی جو عموماً اس قسم کی خبروں کا لازمہ ہوتا ہے۔ یعنی پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے یا ملزم کو آلہ قتل سمیت موقع سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے یا پھر اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جس قسم کے حالات سے ہم گزر رہے ہیں اب اس نوعیت کی تفصیلات کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ پولیس نے کیا کرنا ہوتا ہے اور کیا کرتی ہے۔ پولیس سے کسی قسم کی بامعنی اور پُرمقصد توقعات کی امید رکھنا بھی ایک تکلیف دہ بات بن کے رہ گئی ہے۔ لہذا اس قسم کے تکلفات میں پڑنے کی بجائے ہم پستیوں کی اُن عمیق گہرائیوں پر بات کرنا چاہیں گے جن کے اندر ہم مسلسل دھنستے چلے جا رہے ہیں اور اب جس کی کوئی بھی قیمت نہیں رہ گئی وہ صرف اور صرف انسانی جان ہے باقی ہر چیز کی قیمت ہے جو بفضل خدا برکتوں والے ماہ رمضان میں پچھلے برکتوں والے ماہ رمضان کی نسبت بڑھ جاتی ہے۔ اسی تناسب سے پچھلے برکتوں والے ماہ رمضان کے مقابلے میں انسانی جان مزید ازراں اور بے وُقعت ہوجاتی ہے۔
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ گھر میں آئی ہوئی مہمان بہن جو سحری کا کھانا تیار کررہی ہے اور اس میں ذرا سی تاخیر ہو جاتی ہے جس کی سزا اُسے گولی کی صورت میں اپنا سگا بھائی دے دیتا ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا ہمیں خبر کے ذریعے قطاً پتہ نہیں چلا کہ مجرم نے اقبال جرم کرلیا ہے یا نہیں یا وہ گرفتار بھی ہوا کہ نہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس اندوہناک واقعے کے بعد مقتولہ کے شوہر یا گھر والوں پر کیا گذرتی ہے کیونکہ اس قسم کے حادثات کے بعد ہونے والی صورت حال یا لواحقین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی بھی قسم کی خبریں سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ بقول شاعر: ؎
حادثہ تھا گذر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
ہمیں صرف بیرونی دشمن، اندرونی تخریب کار اور دہشت گرد ہی تو نہیں مار رہے؟ ہم خود بھی تو ایک دوسرے کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ قتل کسی دہشت گرد نہیں بلکہ اپنے سگے بھائی نے کیا۔ جنھیں ہم دہشت گرد اور تخریب کار کہتے ہیں چاہے ہم ان کے خیالات یا نظریات سے جس قدر بھی اختلاف کریں ان کے ذہن میں یا ان کے نزدیک وہ کسی نظریاتی یا فکری بنیاد پر کسی کی جان کو نشانہ بناتے ہیں ،کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ مقتولہ کس نظریئے کے تحت قتل کی گئی؟
پھر کیا یہ میزبان بھائی کا اخلاقی فرض نہیں تھا کہ وہ مہمان بہن سے سحری کا کھانا تیار کرنے کی بجائے خود کسی اور ذریعے سے اس کا بندوبست کرتا۔ اگر شادی شدہ نہیں تھا والدہ ضعیف اور ناتواں تھی تو بازار سے کھانا آسکتا تھا۔ ایک تو وہ مہمان بہن سے سحری تیار کروا رہا تھا پھر اس میں تاخیر پر اسے جان ہی سے مارڈالا۔ گذشتہ آٹھ سحریوں سے اس نے کیا سیکھا تھا۔ برکتوں والے مہینے سے اس نے کیا سیکھا تھا۔ اس کے روزے یا اُس کی سحری خدا کے حضور اسے کہاں کھڑا کرے گی۔ یہ تو صرف خداوند تعالیٰ ہی کو پتہ ہوگا۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ دن رات رمضان المبارک کی برکتوں اور بخشیشوں کا ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں اگر ان تمام باتوں سے ہمارے اندر اس قدر برداشت بھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ ہم سحری کا کھانا پکنے میں ذار سی تاخیر ہی صبروشکر سے برداشت کرسکیں۔
یہ ساری عبادتیں، یہ ساری قرآن خوانیاں ، یہ ساری زکوٰتیں اور خیراتیں ، یہ ساری نیکیاں اور خوبیاں کس کام کی اگر یہ ایک بھائی کو اپنی سگی بہن کے قتل سے نہ روک سکیں۔ اس بہیمانہ قتل سے جو محض اس بات پر کردیا جائے کہ سحری کا کھانا وقت پر کیوں نہیں بن سکا۔ خبر میں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ اس وقت گھر میں بجلی تھی یا نہ تھی۔ گیس تھی یا نہ تھی۔ اشیائے ضروریہ تھیں یا نہ تھیں لیکن یہ باتیں تو ایک انسان سوچ سکتا ہے ایک درندہ نہیں، چاہے وہ بھائی ہی کیوں نہ ہو، ان بہنوں کا کیا حال رہ جائے گا جن کے لیے ان کے بھائی لوگ ہی جانور اور درندے بن جائیں۔ ایسی بہنوں کا کون رکھوالا ہوسکتا ہے جو اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ نہ ہوں۔چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا راگ تو باہر والوں کے لیے الاپا جاتا ہے جو ظلم بربریت اور دہشت گردی چادر اور چاردیواری کے اندر ہو اس کو کون دیکھے گا۔ اس سوال کا جواب ہم سب کو دینا ہے۔ اگر ہم اس کا جواب نہ دے سکے تو جس دہشت گردی کے خلاف ہم متحد ہونے کی کوششیں کررہے ہیں اس میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین
اس سے آگے روایتاً بھی اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ نیو ٹائون پولیس نے کیا کارروائی کی جو عموماً اس قسم کی خبروں کا لازمہ ہوتا ہے۔ یعنی پولیس نے مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کردی ہے یا ملزم کو آلہ قتل سمیت موقع سے ہی گرفتار کرلیا گیا ہے یا پھر اس کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
جس قسم کے حالات سے ہم گزر رہے ہیں اب اس نوعیت کی تفصیلات کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہی کیونکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ پولیس نے کیا کرنا ہوتا ہے اور کیا کرتی ہے۔ پولیس سے کسی قسم کی بامعنی اور پُرمقصد توقعات کی امید رکھنا بھی ایک تکلیف دہ بات بن کے رہ گئی ہے۔ لہذا اس قسم کے تکلفات میں پڑنے کی بجائے ہم پستیوں کی اُن عمیق گہرائیوں پر بات کرنا چاہیں گے جن کے اندر ہم مسلسل دھنستے چلے جا رہے ہیں اور اب جس کی کوئی بھی قیمت نہیں رہ گئی وہ صرف اور صرف انسانی جان ہے باقی ہر چیز کی قیمت ہے جو بفضل خدا برکتوں والے ماہ رمضان میں پچھلے برکتوں والے ماہ رمضان کی نسبت بڑھ جاتی ہے۔ اسی تناسب سے پچھلے برکتوں والے ماہ رمضان کے مقابلے میں انسانی جان مزید ازراں اور بے وُقعت ہوجاتی ہے۔
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ گھر میں آئی ہوئی مہمان بہن جو سحری کا کھانا تیار کررہی ہے اور اس میں ذرا سی تاخیر ہو جاتی ہے جس کی سزا اُسے گولی کی صورت میں اپنا سگا بھائی دے دیتا ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا ہمیں خبر کے ذریعے قطاً پتہ نہیں چلا کہ مجرم نے اقبال جرم کرلیا ہے یا نہیں یا وہ گرفتار بھی ہوا کہ نہیں۔ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ اس اندوہناک واقعے کے بعد مقتولہ کے شوہر یا گھر والوں پر کیا گذرتی ہے کیونکہ اس قسم کے حادثات کے بعد ہونے والی صورت حال یا لواحقین کے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی بھی قسم کی خبریں سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ بقول شاعر: ؎
حادثہ تھا گذر گیا ہوگا
کس کے جانے کی بات کرتے ہو
ہمیں صرف بیرونی دشمن، اندرونی تخریب کار اور دہشت گرد ہی تو نہیں مار رہے؟ ہم خود بھی تو ایک دوسرے کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ قتل کسی دہشت گرد نہیں بلکہ اپنے سگے بھائی نے کیا۔ جنھیں ہم دہشت گرد اور تخریب کار کہتے ہیں چاہے ہم ان کے خیالات یا نظریات سے جس قدر بھی اختلاف کریں ان کے ذہن میں یا ان کے نزدیک وہ کسی نظریاتی یا فکری بنیاد پر کسی کی جان کو نشانہ بناتے ہیں ،کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ مقتولہ کس نظریئے کے تحت قتل کی گئی؟
پھر کیا یہ میزبان بھائی کا اخلاقی فرض نہیں تھا کہ وہ مہمان بہن سے سحری کا کھانا تیار کرنے کی بجائے خود کسی اور ذریعے سے اس کا بندوبست کرتا۔ اگر شادی شدہ نہیں تھا والدہ ضعیف اور ناتواں تھی تو بازار سے کھانا آسکتا تھا۔ ایک تو وہ مہمان بہن سے سحری تیار کروا رہا تھا پھر اس میں تاخیر پر اسے جان ہی سے مارڈالا۔ گذشتہ آٹھ سحریوں سے اس نے کیا سیکھا تھا۔ برکتوں والے مہینے سے اس نے کیا سیکھا تھا۔ اس کے روزے یا اُس کی سحری خدا کے حضور اسے کہاں کھڑا کرے گی۔ یہ تو صرف خداوند تعالیٰ ہی کو پتہ ہوگا۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ دن رات رمضان المبارک کی برکتوں اور بخشیشوں کا ذکر کیوں کرتے رہتے ہیں اگر ان تمام باتوں سے ہمارے اندر اس قدر برداشت بھی پیدا نہیں ہوسکتی کہ ہم سحری کا کھانا پکنے میں ذار سی تاخیر ہی صبروشکر سے برداشت کرسکیں۔
یہ ساری عبادتیں، یہ ساری قرآن خوانیاں ، یہ ساری زکوٰتیں اور خیراتیں ، یہ ساری نیکیاں اور خوبیاں کس کام کی اگر یہ ایک بھائی کو اپنی سگی بہن کے قتل سے نہ روک سکیں۔ اس بہیمانہ قتل سے جو محض اس بات پر کردیا جائے کہ سحری کا کھانا وقت پر کیوں نہیں بن سکا۔ خبر میں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ اس وقت گھر میں بجلی تھی یا نہ تھی۔ گیس تھی یا نہ تھی۔ اشیائے ضروریہ تھیں یا نہ تھیں لیکن یہ باتیں تو ایک انسان سوچ سکتا ہے ایک درندہ نہیں، چاہے وہ بھائی ہی کیوں نہ ہو، ان بہنوں کا کیا حال رہ جائے گا جن کے لیے ان کے بھائی لوگ ہی جانور اور درندے بن جائیں۔ ایسی بہنوں کا کون رکھوالا ہوسکتا ہے جو اپنے گھر کے اندر بھی محفوظ نہ ہوں۔چادر اور چار دیواری کے تحفظ کا راگ تو باہر والوں کے لیے الاپا جاتا ہے جو ظلم بربریت اور دہشت گردی چادر اور چاردیواری کے اندر ہو اس کو کون دیکھے گا۔ اس سوال کا جواب ہم سب کو دینا ہے۔ اگر ہم اس کا جواب نہ دے سکے تو جس دہشت گردی کے خلاف ہم متحد ہونے کی کوششیں کررہے ہیں اس میں کبھی کامیاب نہ ہوسکیں گے۔ خدا ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین