سرفراز کو اب معاف کر دیں

اب سرفراز سے غلطی ہو گئی اور وہ واضح طور پر اس پر نادم بھی ہیں، لہذا انھیں معاف کر دیں


Saleem Khaliq January 26, 2019
ان کو ہرگز یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے تھا، فوٹو: فائل

''ابے کالے، تیری امی کہاں بیٹھی ہوئی ہیں، کیا پڑھوا کر آیا ہے آج''

جب جنوبی افریقا سے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل کے دوران سرفراز احمد نے یہ جملے کہے تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اب طوفان برپا ہونے والا ہے، گوکہ لوگ کمنٹیٹر رمیز راجا کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں مگر اپنی دانست میں انھوں نے بہتر فیصلہ کرتے ہوئے اس کا انگریزی میں ترجمہ کرنے سے گریز کیا۔

اگر وہ ایسا کر دیتے تو اسی وقت بڑا تنازع کھڑا ہوجاتا، مگر ساری زندگی ''اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والے بے داغ کیریئر کے مالک''شعیب اختر سے یہ برداشت نہ ہوا، آپ یہ نہ کہیے گا کہ وہ تو ساتھی کھلاڑیوں پر بیٹ لے کر چڑھ دوڑتے تھے، حریفوں کو گالیاں دیتے تھے، ڈوپنگ اور دیگر کئی تنازعات کا بھی شکار ہوئے، یہ سب ماضی کی باتیں ہیں اب وہ انضمام الحق کی طرح بہت سیدھے ہو گئے ہیں، ان سے کپتان کے نسلی تعصب پر مبنی جملے برداشت نہ ہوئے انہوں نے فوراً سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام جاری کر کے بھارتی میڈیا کو متوجہ کیا۔

یوں سرفراز زیادہ مشکل میں پڑگئے، ان کو ہرگز یہ جملہ نہیں کہنا چاہیے تھا، اس کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا، گلی محلے کی کرکٹ میں آپ کسی کو کالا، موٹا، ٹھگنا کہہ دیں تو کچھ نہیں ہوتا مگر انٹرنیشنل مقابلوں میں یہ رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں، آپ کو ہر حال میں اسپورٹس مین اسپرٹ برقرار رکھنی چاہیے۔

گوکہ سرفراز کا مقصد فیلکوایو کی تضحیک نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو وہ انگریزی میں یہ بات کرتے، چونکہ پاکستانی ٹیم کے ہاتھ سے بازی نکل رہی تھی اس لیے انھوں نے فرسٹریشن میں بیٹسمین کی جانب دیکھے بغیر ایسا کہا، فیلکوایو کو تو پتا ہی نہیں ہوگا کہ انھیں نسلی تعصب کا نشانہ بنایا گیا ہے، اسی لیے انھوں نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

میچ کے بعد پروٹیز کپتان نے شکایت کی نہ امپائرز اور ریفری نے اس واقعے پر کوئی ایکشن لیا، مگر سوشل میڈیا پر ہنگامہ مچنے کے بعد آئی سی سی متوجہ ہوئی، اس نے ریفری سے رپورٹ طلب کی اور اب لیگل ٹیم جائزہ لے رہی ہے کہ کیا ایکشن لیا جائے۔

اس معاملے میں جنوبی افریقا کا کردار بہت اچھا رہا، ان کے میڈیا نے اسے تنازع بنانے سے گریز کیا جبکہ بھارت ایسے شور مچاتا رہا جسے اس کے کسی کرکٹر پر جملہ کسا گیا، پی سی بی نے بروقت اقدامات کیے، پس پردہ ہونے والی کوششوں کی وجہ سے جنوبی افریقہ نے آفیشل شکایت سے گریز کیا، سرفراز نے ٹویٹس کے ذریعے معافی بھی مانگ لی، ڈوپلیسی نے اپنی پریس کانفرنس میں انھیں معاف کرنے کا اعلان کیا، پھر فیلکوایو نے بھی پاکستانی کپتان سے ملاقات میں معذرت قبول کرلی۔

البتہ سوشل میڈیا پر آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی، بعض حلقے چاہتے ہیں کہ پاکستانی کپتان پر ہر صورت پابندی لگائی جائے، بدقسمتی سے سرفراز کے لیے حالیہ کچھ عرصہ اتنا اچھا نہیں رہا، انفرادی کارکردگی میں تسلسل کا فقدان آیا جبکہ ٹیم بھی فتوحات کی راہ سے ہٹ گئی، ایسے میں حالیہ تنازع نے ان کی مشکلات مزید بڑھا دی ہیں۔

اس واقعے کی آڑ میں ان کا مخالف نیٹ ورک فعال ہوچکا اور اس کا بس چلے تو تاحیات پابندی لگوا دے، میں ایک بار پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ کپتان کا رویہ کسی صورت قابل قبول نہ تھا مگر غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں، ہم تو میچ فکسرز کو بھی سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور ملک کو بیچنے والے کئی کردار اب بھی ہیرو بنے گھوم رہے ہیں، خود ہم اپنے گریبان میں جھانکیں تو کیا کچھ نہیں کرتے، ہم سے بھی بہت غلطیاں سرزد ہوتی ہیں، اصل بات انھیں قبول کرکے آئندہ نہ دہرانا ہے، سرفراز نے ایسا ہی کیا، آئی سی سی انھیں جو چاہے سزا دے وہ تو ماننا ہی پڑے گی، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیرارادی طور پر ادا ہونے والے متنازع الفاظ فراموش کر دیے جائیں۔

ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے،ایک غلطی ہوگئی معافی مانگ لی اب بات ختم کریں، کب تک انھیں لعن طعن کرتے رہیں گے، ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ واقعہ ہمارے سسٹم کی خرابی کا عکاس ہے، مجھے ایک فیصد بھی یقین نہیں کہ دورے پر جانے سے پہلے پی سی بی نے کھلاڑیوں کو بریفنگ دے کر جنوبی افریقہ کے پس منظر سے آگاہ کیا ہوگا، اگر ٹیم کو بتایا جاتا کہ وہاں رنگ کی بنیاد پر کیا کچھ ہو چکا اور ایسے الفاظ بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں تو یقیناً پلیئرز احتیاط کرتے، اسی کے ساتھ کھلاڑی بھی بچے نہیں ہیں انھیں بھی ٹور سے پہلے اس ملک کے بارے میں بنیادی باتیں معلوم ہونی چاہئیں، جس طرح فکسنگ، ڈوپنگ وغیرہ کے خلاف آئی سی سی کے سخت قوانین ہیں ویسے ہی نسل پرستانہ جملوں پر بھی کڑی سزائیں موجود ہیں۔

2008ء میں بھارتی کرکٹر ہربھجن سنگھ نے سڈنی ٹیسٹ کے دوران آسٹریلوی آل راؤنڈر اینڈریو سائمنڈز کو منکی (بندر) کہا تو طوفان مچ گیا اور میچ ریفری مائیک پراکٹر نے ان پر تین ٹیسٹ میچز کی پابندی عائد کردی تھی، بھارتی ٹیم امپائرنگ کے معیار سے پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی، اس واقعے کے بعد وہ اپنے ساتھی کی حمایت میں اٹھ کھڑی ہوئی اور دورہ ادھورا چھوڑ کر وطن واپسی کی دھمکی دے دی، یوں آئی سی سی کو دباؤ میں آکر پابندی ختم کرنا پڑی۔

اس واقعے سے ہی دیگر ممالک کو سبق لینا چاہیے تھا مگر ایسا ہوا نہیں، ٹورکے اختتام پر اب پی سی بی کو کھلاڑیوں کو اس حوالے سے بھی تعلیم دینا چاہیے، اب ایسا دور ہے کہ آپ کسی کو ایک لفظ بھی کہیں گے تو اسٹمپ مائیکرو فون سے وہ دنیا بھر میں کروڑوں لوگ سن لیں گے، اس لیے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط برتنی چاہیے، میچ دیکھنے والے شائقین میں بچوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔

کرکٹرز ان کیلیے رول ماڈل ہیں، وہ ایک غلط جملہ کہیں گے تو اس کی تقلید شروع ہو جائے گی، کھلاڑی ملک کے سفیر ہیں انھیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے لیکن اب سرفراز سے غلطی ہو گئی اور وہ واضح طور پر اس پر نادم بھی ہیں، لہذا انھیں معاف کر دیں، اپنے اسکور سیٹل کرنے کے اور بھی موقع ملیں گے مخالفین ان کاانتظارکریں۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں