ایکسپریس نیوز پر سحری کی نشریات نوجوانوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں امجد صابری
اپنے بزرگوں اور نصرت فتح علی خان کی وفات کے بعد قوالی کو زندہ رکھنا بڑا چیلنج تھا، امجد صابری کی ایکسپریس سے گفتگو
فن قوالی میں پاکستان کو پوری دنیا میں منفرد پہچان حاصل ہے۔
ہمارے ملک کے معروف قوالوں نے جس طرح اپنے فن گائیکی سے پوری دنیا میں سبزحلالی پرچم بلند کرنے کے ساتھ امن، دوستی، بھائی چارے کا پیغام پہنچایا ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ایک دورتھا جب فن قوالی درگاہوں تک ہی محدود تھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز اورحضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی درگاہیں اس حوالے سے خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔
سلسلہ چشتیہ اورصابری سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند قوالیوں کی محافل سجاتے اورپھران میں حاضری کیلئے بہترین قوالوںکو مدعوکیا جاتا۔ یہ سماع بہت ہی منفرد اورنرالہ ہوتا تھا۔ قوالی کے سجے بڑے بڑے پنڈالوں میں لوگوں کی کثیرتعداد شریک ہوتی اور پھر ساری رات قوالی کی محفل گرم رہتی۔ انہی معروف قوالوں میں ایک جوڑی کراچی سے تعلق رکھنے والے حاجی غلام فرید اورمقبول فرید صابری کی تھی۔ جنہوں نے فن قوالی کودرگاہوں سے نکال کرپوری دنیا تک پہنچایا۔ یہی وہ پاکستان کے پہلے قوال تھے جن کو بین الاقوامی سطح پرشناخت ملی۔ ان کی گائی قوالیاں آج بھی لوگوں میں بے حد مقبول ہیں۔
صابری برادران اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن حاجی غلام فرید صابری کے صاحبزادے امجد صابری فن قوالی کے ذریعے اپنی ایک الگ شناخت بناچکے ہیں۔ وہ قوالی پیش کرنے کیلئے جب کسی پنڈال یا ٹی وی پروگرام میں دکھائی دیتے ہیں تولوگ ان کی آواز سن کراور اندازدیکھ کریہی محسوس کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ حاجی غلام فرید صابری مرحوم سامنے موجود ہیں۔ وہ جب اپنی بلند آواز میں مختلف راگوں کے ساتھ کلام پیش کرتے ہیں تو لوگوں پروجد طاری ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے فنی سفرکے دوران امجد صابری نے ناصرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں اپنے چاہنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیزاضافہ کرلیا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، یورپ، مڈل ایسٹ اوربھارت میں امجدصابری یادگارمحافل کرچکے ہیں۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں امجد صابری اپنے والد اورچچا کی گائی مقبول زمانہ قوالیاں سنا کرلوگوں کوسحر وافطارکی خصوصی ٹرانسمیشن کا مزہ دوبالا کرنے مصروف ہیں۔ ''ایکسپریس نیوز اورایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' سے پیش کی جانیوالی خصوصی نشریات میں بھی امجد صابری حصہ لے رہے ہیں اوران کے چاہنے والے فون کالز پرفرمائش کرتے ہوئے قوالیاں سنتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں امجد صابری نے '' نمائندہ ایکسپریس '' کوخصوصی انٹرویودیتے ہوئے بتایا کہ قوالی کا فن انہیں ورثے میں ملا ہے۔ میں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اوران کے ساتھ ہی بچپن سے ہی درگاہوں پرحاضری دینے لگا۔ میرے والد اورچچاملک بھر میں ہونے والی محافل میں شرکت کرتے تھے اوران کو ملنے والا پیاردیدنی تھا۔ لوگ ان سے ملاقات کیلئے اس طرح اردگرد جمع ہوجاتے کہ ان مناظرکوکبھی نہیں بھلاسکتا۔
پھرحضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اورحضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒکی درگاہوں پرہونے والی حاضریوں میں بھی اسی طرح ہوتا۔ لوگ ان کوسننے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ترستے تھے۔ ایک طرف توان کی گائیکی تھی تودوسری جانب ان کا انداز بھی سب سے الگ تھلگ تھا جومجھے بھی بہت متاثرکرتاتھا۔ جب میں نے قوال پارٹی کی کمانڈ سنبھالی تومیرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی کیونکہ مجھے اپنے والد کے نام اوران کی مقبولیت کو سامنے رکھتے ہوئے فن قوالی میں جگہ بنانا تھی۔ ایک طرف تومیرے والد کے بعد استاد نصرت فتح علی خاں مرحوم نے دنیا بھر میں قوالی کوپہنچا دیا تھا لیکن دوسری جانب ان کی وفات کے بعد فن قوالی کا ذوال بھی شروع ہوچکا تھا۔ قوالی کی وہ اننگز جو میرے والد اورچچانے بین الاقوامی سطح پرشروع کی تھی وہ استاد نصرت فتح علی خاں کی وفات کے بعد ختم ہونے لگی تھی۔
ایک طرف پھر قوالی پرذوال آتا دکھائی دے رہا تھا۔ میرے لئے اپنی باری پربہترکام کرنے کا ٹاسک خاصا مشکل ہوچکا تھا۔ لیکن میں نے درگاہوں پرحاضری کے ساتھ ساتھ ریاضت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہت سے مخالفین نے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ جب کوئی کام نیک نیت اور ایمانداری کے ساتھ کیا جائے تواس میں رب کی رحمت اوربرکت شامل ہوجاتی ہے۔ میں نے نیک نیت اورایمانداری کے ساتھ فن قوالی کوجاری رکھااورآج اللہ پاک کاخاص کرم ہے۔اس وقت پاکستان کا نام فن قوالی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھرجانا جارہا ہے۔ دنیا کے بیشترممالک میں ہونے والے میوزک کنسرٹس میں فن قوالی کوبھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے ۔
ہمارے ملک میں جب سے پرائیویٹ چینلز نے کام کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے عید سمیت دیگراہم تہواروں کے موقع پرقوالی کوبھی پروگراموں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بیرون ممالک میں پرفارمنس کے ساتھ ساتھ بالی وڈ فلم کیلئے بھی قوالی گا چکاہوں جس کومیرے پرفلمبند بھی کیا گیاتھا۔ ایک سوال کے جواب میں امجد صابری نے بتایاکہ ماہ رمضان میں پیش کی جانیوالی خصوصی نشریات دیکھ کر نوجوان نسل کو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہاہے۔
''ایکسپریس نیوز اورایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' سے پیش کی جانیوالی براہ راست نشریات میں ایک طرف دین اسلام کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی جاتی ہے اوردوسری جانب ایسے مسائل کے بارے میں علماء کرام مذہب کی روشنی میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں جن کو جاننا ہرمسلمان کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے توایکسپریس گروپ کی خصوصی نشریات ناظرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک بات میری ہے تو مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت پرزبردست رسپانس مل رہاہے۔
ملک کے کونے کونے سے فون کالز توموصول ہوتی ہیں لیکن دیارغیر میں بسنے والے بھی اس پروگرام کودیکھتے ہیں اوراس کی پسندیدگی کے حوالے سے ایس ایم ایس اورای میلز کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کی مناسبت سے خصوصی نشریات کا اہتمام بہت اچھا فیصلہ ہے لیکن میں چاہتاہوں کہ دوسرے پروگراموں کی طرح ہفتہ وار قوالی کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئے ہیں۔ فن قوالی ہماری پہنچان ہے اوراس کے ذریعے ہم پوری دنیا میں سافٹ امیج پہنچا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان کا امیج پوری دنیا میں منفی بن چکا ہے۔
لیکن یہاں آنیوالے لوگ جانتے ہیں کہ ہم کتنے ملنساراورمہمان نواز ہیں۔ اس لئے میں سمجھتاہوںکہ ہمیں اپنے ملک کاامیج بہتر کرنے کیلئے بزرگان دین اورصوفیاء کرام کے کلام پرمبنی قوالیوں کے ذریعے پاکستان کے حوالے سے منفی سوچ رکھنے والوں کو پیغام دینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ''ایکسپریس میڈیا گروپ''سمیت دیگرچینلز کوخصوصی توجہ دیناہوگی جوموجودہ حالات میں بہت ضروری ہے۔
ہمارے ملک کے معروف قوالوں نے جس طرح اپنے فن گائیکی سے پوری دنیا میں سبزحلالی پرچم بلند کرنے کے ساتھ امن، دوستی، بھائی چارے کا پیغام پہنچایا ہے اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ایک دورتھا جب فن قوالی درگاہوں تک ہی محدود تھا۔ حضرت خواجہ غریب نواز اورحضرت بابا فریدالدین گنج شکرؒ کی درگاہیں اس حوالے سے خاصی اہمیت کی حامل ہیں۔
سلسلہ چشتیہ اورصابری سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند قوالیوں کی محافل سجاتے اورپھران میں حاضری کیلئے بہترین قوالوںکو مدعوکیا جاتا۔ یہ سماع بہت ہی منفرد اورنرالہ ہوتا تھا۔ قوالی کے سجے بڑے بڑے پنڈالوں میں لوگوں کی کثیرتعداد شریک ہوتی اور پھر ساری رات قوالی کی محفل گرم رہتی۔ انہی معروف قوالوں میں ایک جوڑی کراچی سے تعلق رکھنے والے حاجی غلام فرید اورمقبول فرید صابری کی تھی۔ جنہوں نے فن قوالی کودرگاہوں سے نکال کرپوری دنیا تک پہنچایا۔ یہی وہ پاکستان کے پہلے قوال تھے جن کو بین الاقوامی سطح پرشناخت ملی۔ ان کی گائی قوالیاں آج بھی لوگوں میں بے حد مقبول ہیں۔
صابری برادران اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن حاجی غلام فرید صابری کے صاحبزادے امجد صابری فن قوالی کے ذریعے اپنی ایک الگ شناخت بناچکے ہیں۔ وہ قوالی پیش کرنے کیلئے جب کسی پنڈال یا ٹی وی پروگرام میں دکھائی دیتے ہیں تولوگ ان کی آواز سن کراور اندازدیکھ کریہی محسوس کرنے پرمجبورہوجاتے ہیں کہ حاجی غلام فرید صابری مرحوم سامنے موجود ہیں۔ وہ جب اپنی بلند آواز میں مختلف راگوں کے ساتھ کلام پیش کرتے ہیں تو لوگوں پروجد طاری ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے فنی سفرکے دوران امجد صابری نے ناصرف پاکستان بلکہ بھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک میں اپنے چاہنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیزاضافہ کرلیا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، یورپ، مڈل ایسٹ اوربھارت میں امجدصابری یادگارمحافل کرچکے ہیں۔
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں امجد صابری اپنے والد اورچچا کی گائی مقبول زمانہ قوالیاں سنا کرلوگوں کوسحر وافطارکی خصوصی ٹرانسمیشن کا مزہ دوبالا کرنے مصروف ہیں۔ ''ایکسپریس نیوز اورایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' سے پیش کی جانیوالی خصوصی نشریات میں بھی امجد صابری حصہ لے رہے ہیں اوران کے چاہنے والے فون کالز پرفرمائش کرتے ہوئے قوالیاں سنتے رہتے ہیں۔
اس سلسلہ میں امجد صابری نے '' نمائندہ ایکسپریس '' کوخصوصی انٹرویودیتے ہوئے بتایا کہ قوالی کا فن انہیں ورثے میں ملا ہے۔ میں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی اوران کے ساتھ ہی بچپن سے ہی درگاہوں پرحاضری دینے لگا۔ میرے والد اورچچاملک بھر میں ہونے والی محافل میں شرکت کرتے تھے اوران کو ملنے والا پیاردیدنی تھا۔ لوگ ان سے ملاقات کیلئے اس طرح اردگرد جمع ہوجاتے کہ ان مناظرکوکبھی نہیں بھلاسکتا۔
پھرحضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ اورحضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒکی درگاہوں پرہونے والی حاضریوں میں بھی اسی طرح ہوتا۔ لوگ ان کوسننے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ترستے تھے۔ ایک طرف توان کی گائیکی تھی تودوسری جانب ان کا انداز بھی سب سے الگ تھلگ تھا جومجھے بھی بہت متاثرکرتاتھا۔ جب میں نے قوال پارٹی کی کمانڈ سنبھالی تومیرے کندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی کیونکہ مجھے اپنے والد کے نام اوران کی مقبولیت کو سامنے رکھتے ہوئے فن قوالی میں جگہ بنانا تھی۔ ایک طرف تومیرے والد کے بعد استاد نصرت فتح علی خاں مرحوم نے دنیا بھر میں قوالی کوپہنچا دیا تھا لیکن دوسری جانب ان کی وفات کے بعد فن قوالی کا ذوال بھی شروع ہوچکا تھا۔ قوالی کی وہ اننگز جو میرے والد اورچچانے بین الاقوامی سطح پرشروع کی تھی وہ استاد نصرت فتح علی خاں کی وفات کے بعد ختم ہونے لگی تھی۔
ایک طرف پھر قوالی پرذوال آتا دکھائی دے رہا تھا۔ میرے لئے اپنی باری پربہترکام کرنے کا ٹاسک خاصا مشکل ہوچکا تھا۔ لیکن میں نے درگاہوں پرحاضری کے ساتھ ساتھ ریاضت کا سلسلہ جاری رکھا۔ بہت سے مخالفین نے رکاوٹیں بھی کھڑی کیں لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ جب کوئی کام نیک نیت اور ایمانداری کے ساتھ کیا جائے تواس میں رب کی رحمت اوربرکت شامل ہوجاتی ہے۔ میں نے نیک نیت اورایمانداری کے ساتھ فن قوالی کوجاری رکھااورآج اللہ پاک کاخاص کرم ہے۔اس وقت پاکستان کا نام فن قوالی کے حوالے سے ایک مرتبہ پھرجانا جارہا ہے۔ دنیا کے بیشترممالک میں ہونے والے میوزک کنسرٹس میں فن قوالی کوبھی خاصی اہمیت دی جاتی ہے ۔
ہمارے ملک میں جب سے پرائیویٹ چینلز نے کام کرنا شروع کیا ہے اس وقت سے عید سمیت دیگراہم تہواروں کے موقع پرقوالی کوبھی پروگراموں کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں بیرون ممالک میں پرفارمنس کے ساتھ ساتھ بالی وڈ فلم کیلئے بھی قوالی گا چکاہوں جس کومیرے پرفلمبند بھی کیا گیاتھا۔ ایک سوال کے جواب میں امجد صابری نے بتایاکہ ماہ رمضان میں پیش کی جانیوالی خصوصی نشریات دیکھ کر نوجوان نسل کو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہاہے۔
''ایکسپریس نیوز اورایکسپریس انٹرٹینمنٹ'' سے پیش کی جانیوالی براہ راست نشریات میں ایک طرف دین اسلام کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی جاتی ہے اوردوسری جانب ایسے مسائل کے بارے میں علماء کرام مذہب کی روشنی میں لوگوں کے سوالوں کے جواب دیتے ہیں جن کو جاننا ہرمسلمان کیلئے بہت ضروری ہے۔ اس اعتبارسے دیکھا جائے توایکسپریس گروپ کی خصوصی نشریات ناظرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک بات میری ہے تو مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت پرزبردست رسپانس مل رہاہے۔
ملک کے کونے کونے سے فون کالز توموصول ہوتی ہیں لیکن دیارغیر میں بسنے والے بھی اس پروگرام کودیکھتے ہیں اوراس کی پسندیدگی کے حوالے سے ایس ایم ایس اورای میلز کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کی مناسبت سے خصوصی نشریات کا اہتمام بہت اچھا فیصلہ ہے لیکن میں چاہتاہوں کہ دوسرے پروگراموں کی طرح ہفتہ وار قوالی کے پروگرام بھی پیش کرنے چاہئے ہیں۔ فن قوالی ہماری پہنچان ہے اوراس کے ذریعے ہم پوری دنیا میں سافٹ امیج پہنچا سکتے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے پاکستان کا امیج پوری دنیا میں منفی بن چکا ہے۔
لیکن یہاں آنیوالے لوگ جانتے ہیں کہ ہم کتنے ملنساراورمہمان نواز ہیں۔ اس لئے میں سمجھتاہوںکہ ہمیں اپنے ملک کاامیج بہتر کرنے کیلئے بزرگان دین اورصوفیاء کرام کے کلام پرمبنی قوالیوں کے ذریعے پاکستان کے حوالے سے منفی سوچ رکھنے والوں کو پیغام دینا چاہئے۔ اس سلسلہ میں ''ایکسپریس میڈیا گروپ''سمیت دیگرچینلز کوخصوصی توجہ دیناہوگی جوموجودہ حالات میں بہت ضروری ہے۔