پاکستان کرکٹ ٹیم میں اختتامی اوورز میں کمزور بولنگ دردِ سر بن گئی

غلط فیصلوں کو دہرانے سے ٹیم کے مسائل میں اضافہ ہوگا


Saleem Khaliq July 20, 2013
غلط فیصلوں کو دہرانے سے ٹیم کے مسائل میں اضافہ ہوگا فوٹو : فائل

'' جیکٹ والے کو کھلاؤ گے تو ایسا ہی ہو گا''

''چھوٹے پر بھی بڑے کا اثر آگیا''

'' میں نے توپہلے ہی کہا تھا کہ پاکستان نہیں جیتے گا، سب طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہوا''

''کرکٹ بائی چانس ضرور ہے مگر اتنا بھی نہیں''

یہ تبصرے میں نے سحری کے بعد قریبی سڑک پر نائٹ میچ کھیلنے والے چند لڑکوں سے سنے جو جیتے ہوئے میچ کے اچانک ٹائی ہونے کو ہضم نہیں کر پائے تھے۔ واقعی تیسرے ون ڈے میں جس طرح پاکستان یقینی فتح سے محروم ہوا اس نے شائقین کرکٹ کو خوب غمزدہ کر دیا، کرکٹنگ لحاظ سے دیکھا جائے تو اس میں مصباح الحق کے کئی غلط فیصلوں کا اہم کردار رہا،محمد عرفان نے پوری سیریزمیں ویسٹ انڈین ٹیم کو خوب پریشان کیا مگر45 اوورز تک وہ بولنگ کا کوٹہ مکمل کر چکے تھے، شاہدآفریدی نے ابتدائی دونوں میچز میں بہترین بولنگ کی مگر تیسرے میں صرف4 اوورز کرائے گئے، صرف 2.66 کی اوسط سے رنز دینے والے محمد حفیظ بھی کپتان کی نگاہوں سے اوجھل رہے، اوسط درجے کے بولر وہاب ریاض کو آخری اوور تھمانا، انتہائی حیران کن طور پر اختتامی اوورز میں باؤنڈری پر زیادہ فیلڈرز کو کھڑا نہ کرنا، یہ سب ایسی غلطیاں تھیں جن کا اب مداوا نہیں ہو سکتا۔

10 اوورز میں 85،5 میں52 اورآخری میں 15رنز کا ہدف ورلڈچیمپئن بھارت کے لئے بھی پانا آسان نہیں ہوتا، مگر ہم نے ویسٹ انڈیز کے اختتامی پلیئرز کو یہ کارنامہ انجام دینے کا موقع فراہم کر دیا، سعید اجمل دنیا کے نمبر ون بولر ہیں مگر اختتامی اوورز میں ان کی افادیت پر اکثر سوالیہ نشان لگا دکھائی دیتا ہے، ماضی میں وہ سینٹ لوشیا میں ہی آسٹریلوی بیٹسمین مائیک ہسی سے پٹائی کے بعد پاکستان کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے باہر کرا چکے، اب 48 ویں اوور میں انھوں نے سنیل نارائن کو چھکے،چوکے لگا کر خود پر حاوی ہونے کا موقع دیا، وہاب نے بھی نمبر گیارہ بیٹسمین کو ایسی گیندیں کیں جن پر ہٹس لگانا مشکل نہ تھا، آخری گیند پر بھی پاکستان میچ جیت سکتا تھا مگر نجانے وکٹ کیپرعمر اکمل کو کیا ہوا کہ آسان تھرو پر بال کو قابو کر کے بیلز نہ اڑا سکے، یوں دوسرا رن بن کر میچ ٹائی ہو گیا، اتنے سارے اتفاق اور غلط فیصلے ایک ہی میچ میں ہوں تو فتح کا کیسے سوچا جا سکتا ہے۔

حالیہ سیریز میں بھی اوپننگ کا مسئلہ جوں کا توں موجود ہے، ابتدائی تینوں میچز میں ٹیم کو 50رنز کا آغاز بھی نہ مل سکا، عمران فرحت کی جگہ احمد شہزاد کو کھلانے کا تاحال کوئی فائدہ نہیں ہوا، قذافی یا نیشنل اسٹیڈیم میں ڈومیسٹک میچز کے دوران وہ ایسے شاٹس کھیلتے ہیں کہ فیلڈر گیند کو روکنے کی جرات نہیں کر سکتا، مگر ویسٹ انڈیز میں خود ان کے ہاتھ بندھے نظر آئے، اتنا دفاعی انداز احمد شہزاد کا تو نہیں لگتا، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ٹیم مینجمنٹ نے انھیں احتیاط سے بیٹنگ کی ہدایت کر دی، اسی وجہ سے وہ کچھ زیادہ ہی دیکھ بھال کرکھیل رہے ہیں، انھیں اپنے قدرتی انداز سے بیٹنگ کرنے دینی چاہیے، اس سے40،50رنز تو بنا ہی لیں گے۔

اسی طرح ناصر جمشید کے بارے میں ایک بات طے ہو چکی کہ وہ ایشیائی وکٹوں کے چیمپئن ہیں، جہاں ذرا مختلف پچ ملے ان سے نہیں کھیلا جاتا، گوکہ دوسرے میچ میں انھوں نے نصف سنچری بنائی مگر4 چانسز اگر سعید اجمل کو ملیں تو شائد وہ بھی ایسا کر جاتے، ناصر کو اپنی تکنیک بہتر بنانی چاہیے کیونکہ پاکستان میں تو کرکٹ ہو نہیں رہی،ایسے میں تمام میچز یو اے ای، بھارت،بنگلہ دیش یا سری لنکا میں نہیں ہو سکتے، اگر بڑا بیٹسمین بننا ہے تو ہر قسم کی کنڈیشنز میں پرفارم کرنا ہو گا۔ محمد حفیظ کی فارم بھی ان سے کچھ اس طرح روٹھی کہ مان ہی نہیں رہی، حالیہ سیریز میں 1،20اور14کی اننگز سے کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ کسی نوجوان کھلاڑی کی حق تلفی کر رہے ہیں؟ اگر کوئی اور پلیئر ہوتا تو کب کا ٹیم سے باہر ہو چکا ہوتا مگر حفیظ چونکہ نائب کپتان ہیں اس لیے بغیر پرفارم کیے کھیل رہے ہیں، شائد انھیں بولنگ کا ایڈوانٹیج دیا جا رہا ہے۔

کپتان مصباح الحق ایک بار پھر پاکستانی بیٹنگ میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوئے ہیں، جس میچ میں وہ جلدی آؤٹ ہوں200رنز بھی نہیں بن پاتے، ابتدائی وکٹیں جلد گرنے کے سبب انھیں سست کھیلنا پڑتا ہے
جس کی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل نہیں ہوتی، البتہ اس وقت جو ٹیم کا حال ہے اس میں اگر مصباح محتاط انداز نہ اپنائیں تو 50 اوورز کھیلنا مشکل ہو جائے گا لیکن انھیں بھی اختتامی اوورز کے دوران مار دھاڑ
کر کے ساری کسر پوری کر دینی چاہیے۔

اسد شفیق کے پرستاروں کو شکوہ تھا کہ یونس خان کی موجودگی میں انھیں صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا، اب سابق کپتان ٹیم سے باہر اور اس کو خوب میچز کھلائے گئے تو وہ کچھ نہ کر پائے، کیریئر کے 43 میچز میں انھوں نے 27کی اوسط سے 1083رنز بنائے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خود اپنے ٹیلنٹ سے انصاف نہیں کر رہے، تیسرے ون ڈے میں نئے بیٹسمین حارث سہیل نے اعتماد سے بیٹنگ کی، اس سے اسد کے لئے مشکل ہو سکتی ہے، حالیہ سیریز کے لئے ٹیم میں واپس آنے والے عمر اکمل نے عمدہ بیٹنگ سے اپنا انتخاب درست ثابت کر دکھایا، ٹیم کو مثبت انداز سے کھیلنے والے ایک ایسے پلیئر کی اشد ضرورت تھی، حفیظ ان دنوں فارم میں نہیں ایسے میں نمبر تین پر عمر کو بھی آزما کر دیکھنا چاہیے اس سے ابتدائی اوورز میں ٹیسٹ کے انداز سے کھیلنے کے سبب پاکستان کا کم رن ریٹ بھی بہتر ہو جایا کرے گا، البتہ وکٹ کیپنگ میں ان کی کارکردگی اوسط درجے کی رہی، یہ کام ریگولر کا ہی ہے محمد رضوان کب تک پانی پلائیں گے، انھیں اب میدان میں اتار ہی دینا چاہیے، ورنہ جس طرح عمر نے تیسرے ون ڈے میں تھرو قابو نہ کر کے ٹیم کو جیت سے محروم کیا ایسے مزید مواقع بھی سامنے آ سکتے ہیں۔

شاہد آفریدی نے پہلے میچ میں 76رنز کی اننگز کھیلنے کے بعد 7 وکٹیں لے کر تن تنہا ٹیم کو کامیابی دلائی،اس کے بعد شائقین کو ہر میچ میں ان سے ایسی ہی کارکردگی کی توقع ہو گئی جس پر وہ پورا نہ اتر سکے، ہمیں آفریدی کو اب سمجھنا ہو گا، وہ ہر میچ میں 100 فیصد کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں مگر قسمت ہمیشہ ساتھ نہیں دیتی، جب گیند بیٹ پر آئی تو چھکا ورنہ پویلین واپسی، یہی ان کا انداز ہے مگر اس دوران وہ چند میچز جتوا بھی دیتے ہیں، ایسی صلاحیت موجودہ ٹیم کے کسی اور کھلاڑی میں موجود نہیں، آفریدی کو بولنگ کا بھی ایڈوانٹیج حاصل ہے، لہذا ان کی ٹیم میں جگہ بن جاتی ہے۔

البتہ ٹیم کو ایک اور معیاری آل راؤنڈر کی اشد ضرورت ہے، عبدالرزاق بہت اچھے پلیئر ہیں، انھوں نے ٹیم کو کئی میچز جتوائے، بعض سینئرز سے اختلافات کے سبب وہ باہر ہو گئے، اب انھیں کم بیک کا موقع دینا چاہیے، ایسے جارح مزاج بیٹسمین اور میڈیم پیسر کی موجودگی سے ٹیم میں نئی جان پڑ جائے گی، ان دنوں آل راؤنڈرز کے نام پر جن پلیئرز کو آزمایا جا رہا ہے عبدالرزاق ان سے لاکھ درجے بہتر ہیں، وہ نفیس انسان مگر خاصے حساس بھی ہیں، میری ان سے خاصی پرانی دوستی ہے مگر ان دنوں بعض تحریروں کی وجہ سے وہ کچھ ناراض سے ہیں، یہی ان کی سب سے بڑی خامی ہے، جلد روٹھ جاتے ہیں، دیرینہ دوست آفریدی جب کپتان بنے تو ان سے بھی خفا ہو گئے تھے، بہرحال عمدہ کھیل ان کی تمام خامیوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔

پاکستان نے حالیہ سیریز کے ابتدائی دونوں میچز میں جنید خان جیسے بولر کو باہر بٹھایا، لاہور میں ''ایکسپریس'' کے رپورٹر میاں اصغر سلیمی کا کہنا ہے کہ کپتان اور مینجمنٹ میں اختلافات اس کی وجہ بنے، اگر یہ حقیقت تھی تو ٹیم کے ساتھ ظلم کیا گیا، جنید نے تیسرے میچ میں بہتر بولنگ سے انتخاب درست ثابت کر دکھایا، البتہ انھیں اختتامی اوورز میں رن روکنے پر توجہ دینا ہو گی۔ اسد علی بھی یقینا اچھے بولر ہیں لیکن انھیں ابھی صلاحیتیں منوانے میں وقت لگے گا، حالیہ سیریز میں محمد عرفان کی بولنگ پہلے اسپیل میں تو تباہ کن البتہ دوسرے میں پہلے جیسی کاٹ دکھائی نہیں دیتی، تھکاوٹ سے بچنے کے لئے انھیں فٹنس میں بہتری لانا ہو گی۔

پی سی بی نے اقبال قاسم کی جگہ معین خان کو نیا چیف سلیکٹر مقرر کیا ہے، سابق چیئرمین ذکا اشرف نے بھی ایک سے زائد بار انھیں ٹیم منیجر و دیگر عہدوں کی پیشکش کی مگر وہ انکار کرتے رہے، اس کی وجہ کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں قائم ان کی اکیڈمی ہے، معین وہاں نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ کے فرائض انجام دیتے ہیں، اب جب میری ان سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ '' سلیکشن کمیٹی میں کوئی صبح 9 سے شام5 کی ملازمت نہیں ہے، یہاں جب کبھی کوئی ٹیم منتخب کرنا ہو تب ہی مصروفیات ہوں گی اور اس کے لئے وقت نکالنا کوئی مسئلہ نہیں''۔

اقبال قاسم کی طرح معین خان بھی اعزازی طور پر کام کریں گے، ان کی ڈومیسٹک کرکٹ پر بھی گہری نظر ہے، یقینا ً وہ نئے ٹیلنٹ کو بھی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع دیں گے، بعض مخالفین یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ معین کا نام جسٹس قیوم کی رپورٹ میں شامل تھا جس کی بورڈ تردید کرچکا، اسی طرح بعض افراد کا یہ کہنا ہے کہ انھوں نے باغی انڈین کرکٹ لیگ کا ایجنٹ بن کر پاکستان کرکٹ کو مشکلات کا شکار کیا تھا، یہ بات بھی اب اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ اس ایونٹ میں حصہ لینے والے بیشتر پلیئرز کی قومی ٹیم میں واپسی ہو چکی، ایسے میں صرف معین خان کو ہی قصور وار ٹھہرانا درست نہیں، ان کے لئے پہلا اہم ٹاسک کسی اچھے وکٹ کیپر بیٹسمین کی تلاش ہے، یقینا ً وہ اس میں کامیاب رہیں گے، معین خاصے متحرک شخصیت کے مالک ہیں، اس لیے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر اپنا کام نہیں کریں گے، ان کے گراؤنڈز میں جا کر نئے ٹیلنٹ کی صلاحیتوں کو جانچنے سے یقینا ً پاکستان کو فائدہ ہی ہو گا۔

چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی سے میرا زیادہ رابطہ نہیں ہوتا، ایک بار بات ہوئی تو انھوں نے چیف سلیکٹر کے حوالے سے مشورہ لیا جس پر میں نے انھیں اپنی رائے سے آگاہ کر دیا تھا، وہ ایک نجی ٹیلی ویژن کے لئے کام کرتے لہٰذا قدرتی طور پر ان کا جھکاؤ اسی کی جانب زیادہ ہے، البتہ اس دہری ذمے داری سے انھیں بعض چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، پاکستان کرکٹ کے نئے ٹیلی ویژن رائٹس کے ٹینڈرز جاری نہ کرنے کو بعض حلقے شکوک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، چند کا خیال ہے کہ وہ اپنے ہی چینل کو نوازنا چاہتے ہیں، اسی لیے کم وقت کا جواز بنا کر ایک یا دو سیریز کے لئے معاہدہ کر لیا جائے گا، ان چہ مگوئیوں کا خاتمہ اسی وقت ہو سکے گا جب نجم سیٹھی خود کو ٹیلی ویژن رائٹس کے پروسس سے الگ کر لیں، بصورت دیگر وہ بھی تنازعات کا شکار ہو جائیں گے۔

پی سی بی نے ٹیلی ویژن حقوق فروخت کرنے کے معاملے میں سابق آئی سی سی چیف احسان مانی کی خدمات حاصل کی ہیں، سابق ڈائریکٹر مارکیٹنگ اور سابقہ معاہدہ کرانے میں پیش پیش ڈاکٹر احسن حمید ملک واضح کر چکے کہ جب تک پاکستان بھارت کے ساتھ بعض سیریز شامل نہیں کرے گا اسے مناسب رقم نہیں مل سکتی، احسان مانی کو بھارت اپنا دشمن نمبر ون سمجھتا ہے، ان کی موجودگی میں کسی سیریز کی یقین دہانی حاصل کرنا بھی سخت مشکل ثابت ہو سکتا ہے، بی سی سی آئی نے گذشتہ کچھ عرصے میں آئی سی سی بورڈ میٹنگز کے دوران احسان مانی پر بعض الزامات لگا کرکیس ''ایتھکس کمیٹی'' کو بھی بھیجنے کے لئے آواز اٹھائی، یہ معاملات کس کروٹ بیٹھیں گے، اس کا علم آئندہ چند روز میں ہی ہو گا۔

ان دنوں کراچی میں پی سی بی کے تحت رمضان کرکٹ ٹورنامنٹ جاری ہے ، بورڈ نے دیگر نجی ایونٹس کا راستہ روکنے کے لئے جلد بازی میں اس ایونٹ کو پلان کیا جس کی وجہ سے یہ زبردست ناکامی کا شکار ہے، شائقین کی دلچسپی نہ ہونے کے برابر جبکہ میچز دیکھنے کے لئے جانے والے افراد کے مطابق انتظامات بھی انتہائی ناقص ہیں، براہ راست ٹیلی کاسٹ ہونے کے سبب امپائرنگ کی بعض سنگین غلطیاں بھی سامنے آئیں، اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ڈومیسٹک امپائرز کس معیار کی ہیں، رات ساڑھے دس بجے میچز شروع کرنے کے سبب اخبارات میں اگلے روز کوریج بھی ممکن نہیں، البتہ پی سی بی کی جانب سے ہر روز مین آف دی میچ ایوارڈ دیتے ہوئے ''مختلف شخصیات'' کی تصاویر شائع کرنے کے لئے ضرور ارسال کی جاتی ہے، اس ٹورنامنٹ کے انعقاد پر لاکھوں روپے ضائع کر دیے گئے اور ہاتھ کچھ نہ آیا، کراچی میں دیگر نجی ایونٹس بھی زور وشور سے جاری ہیں، بورڈ کی جانب سے اجازت نہ دینے کا کسی نے اثر نہ لیا۔

پی سی بی میں ان دنوں ڈائریکٹر جنرل جاوید میانداد کی پوزیشن خطرے میں نظر آ رہی ہے، میڈیا ڈپارٹمنٹ نے عدالت کے تفصیلی فیصلے کا صرف وہ حصہ صحافیوں کو بتایا جو اس کے حق میں جا رہا تھا، زیادہ زور ''بورڈ سے غیر ضروری افسران'' کی چھٹی پر رہا، ان میں یقینا ً ٹاپ پر سابق کپتان کا ہی نام آتا ہے، جس سے یہ لگتا ہے کہ کچھ عرصے میں عدالتی فیصلے کو جواز بنا کر میانداد کو فارغ کر دیا جائے گا، اس سے ایک نیا تنازع سامنے آ سکتا ہے۔

[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں