ہاکی فیڈریشن کی ناقص لیبارٹری میں ناکام تجربات جاری

ورلڈ کپ میں شرکت سے محرومی کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا


Abbas Raza July 20, 2013
ورلڈ کپ میں شرکت سے محرومی کا خطرہ سر پر منڈلانے لگا۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو 1971ء میں اولین ہاکی ورلڈ کپ کے بعد 1982,1978 اور 1994ء کے ٹائٹل بھی اپنے نام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ بارمیگاایونٹ جیتنے والی کسی ٹیم کی آئندہ ایڈیشن میں شرکت پر ہی سوالیہ نشان لگ جائے تو بڑا عجیب سا لگتا ہے لیکن کیا کریں گرین شرٹس کی کارکردگی ہی ایسی ہے کہ مایوس کن نتائج پر زیادہ حیرت نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کی ناقص لیبارٹری کے ناکام تجربات سے تشکیل پانے والی ٹیمیں عوام کے ارمانوں کا خون کر کے وطن واپس آ جاتی ہیں، قومی کھیل کا مقدر سنوارنے کے دعویدار ایک پریس کانفرنس میں خامیوں پر قابو پانے اور آئندہ ایونٹ میں بہتری کا یقین دلاتے ہیں، مینجمنٹ میں ایک دو قربانی کے بکرے تلاش کئے جاتے ہیں،

ٹیم سے چند سینئرز یا جو نیئرز کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے دوبارہ بھرپور انداز میں روایتی مشقوں کا آغاز کیا جاتا ہے لیکن ناکامیوں کی داستان کے نئے باب کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ورلڈ کپ 2010ء میں تاریخ کی بدترین کارکردگی کی ساتھ گرین شرٹس پر 12 ویں اور آخری پوزیشن کا داغ لگا، گزشتہ دو اولمپکس میں آٹھویں اور ساتویں نمبر کی شرمندگی اٹھائی، آئندہ ورلڈکپ میں وکٹری اسٹینڈ تک رسائی تو دور کی بات کوالیفائی کرنے کے لیے مہم بھی انتہائی کمزور ثابت ہوئی۔

سابق عالمی نمبرون ٹیم دوسرے درجے کے ٹورنامنٹ میں بھی ساتویں پوزیشن کی مستحق ٹھہرے تو مستقبل کے سہانے خواب کیسے دیکھے جا سکتے ہیں؟ پاکستان ورلڈ ہاکی لیگ کی ٹاپ تھری ٹیموں میں نام درج کروا کے میگاایونٹ کی تاریخ میں پہلی بار شرکت سے محرومی کا خطرہ ڈال سکتا تھا مگر ہماری عالمی نمبر5 ٹیم دوبار جنوبی افریقہ کو شکست دینے کے سوا ایک بھی کامیابی نہ حاصل کر سکی، کوارٹر فائنل میں جنوبی کوریا کے ہاتھوں 4-3 سے مات شائقین کی امیدوں پر پانی پھیر گئی، دوگول کی برتری حاصل ہونے کے باوجود خسارے میں چلے جانے والے گرین شرٹس بعدازاں مقابلہ برابر کرنے کے سنہری مواقع سے بھی فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے، سیمی فائنل اور ورلڈ کپ کھیلنے کا موقع گنوانے کے بعد دل شکستہ پاکستانی ٹیم ملائیشیا سے بھی ہار گئی۔

کپتان محمد عمران جنوبی کوریا سے مات کو مقدر کی ہار قرار دیتے رہے تو دوسری طرف ہیڈ کوچ اختر رسول ملنے والے مواقع کو گول میں تبدیل نہ کر پانے کی خامی کو ناکامی کی بڑی وجہ سمجھتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وسیم احمد جیسے سینئر کھلاڑی کی عدم موجودگی اور ٹیم کے ایک اہم رکن راشد محمود کے مکمل طور پر فٹ نہ ہونے سے بھی کارکردگی متاثر ہوئی۔ کپتان اور کوچ کو امید ہے کہ جو ٹیم ورلڈ ہاکی لیگ کی ٹاپ تھری میں جگہ نہ بنا سکی، ایشیا کپ ضرور جیت کر ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر جائے گی۔ اختر رسول کا کہنا ہے کہ اب ہمارے لیے فتح کے سوا کوئی راستہ نہیں، اس بار کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی ٹیم ہے جو جیت کا جذبہ لیے میدان میں نہیں اترتی،کیا یہی بات ہر ایونٹ سے قبل کھلاڑیوں اور میڈیا کو نہیں سنائی جاتی، ایشیائی مقابلوں کے لیے کون سا کشتہ خاص کھلاڑیوں کو دیا جائے گا کہ فتح کے جوش میں کئی گنا اضافہ ہونے کی امید کی جاسکے۔

ملائشیا کے شہر ایپوہ میں آئندہ ماہ کھیلے جانے والے ٹورنامنٹ گرین شرٹس کو اپنے گروپ میں ملائشیا، جاپان اور تائیوان کا سامنا کرنا ہوگا، دوسری طرف ورلڈ کپ میں شرکت کے لیے پاکستان جیسی صورتحال سے دوچار بھارتی ٹیم کو جنوبی کوریا، بنگلہ دیش اور عمان پر برتری ثابت کرتے ہوئے پیش قدمی جاری رکھنا ہوگی۔

موجودہ صورتحال میں گرین شرٹس کے لیے جنوبی کوریا، ملائشیا اور بھارت مشکلات پیدا کرسکتے ہیں، حکمت عملی کا ازسرنو جائزہ لینے کے لیے زیادہ وقت باقی نہیں لیکن ہنگامی دور میں بھی پاکستان ہاکی فیڈریشن روایت برقرار رکھتے ہوئے قربانی کا بکرا تلاش کرنا نہیں بھولی، قدرے پس منظر میں نظر آنے والے صدر پی ایچ ایف قاسم ضیاء اور انقلابی اعلانات میں پیش پیش سیکریٹری آصف باجوہ نے ماضی میں کئے گئے اپنے بہترین فیصلے کو خود ہی غلط قرار دیتے ہوئے ورلڈ ہاکی لیگ میں شکست کا سارا ملبہ کوچ حنیف خان پر گرادیا۔ حیرت کی بات ہے کہ سلیکشن کمیٹی ختم کرکے کوچ ہیڈ منیجر اختر رسول کے ساتھ کراچی سے تعلق رکھنے والے سابق اولمپئن کی خدمات حاصل کرتے وقت اسے بہترین فیصلہ قرار دیا گیا،

اب حنیف خان کی جگہ طاہر زمان کو ذمے داریاں سپرد کرنا بھی وقت کی ضرورت بتایا جارہا ہے۔ ورلڈ ہاکی لیگ سے قبل ہیڈکوچ/ منیجر، کوچ اور کنسلٹنٹ تینوں کھلاڑیوں کی صلاحیتیں نکھارنے کے دعویدار تھے، ناکامی کے بھی وہ مشترکہ طور پر ذمے دار ہوئے، اب یہ کہا جارہا ہے کہ اختر رسول کی رپورٹ کے مطابق حنیف خان اپنے کام سے انصاف نہیں کرپائے۔ اس صورتحال سے ظاہرہوتا ہے کہ تینوں آفیشلز ملائشین ایونٹ میں کوئی مشترکہ لائحہ عمل ہی تیار نہیں کرسکے اور وہاں سے صرف اپنے اختلافات کو ہوا دے کر گھروں کو لوٹ آئے۔ حنیف خان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ملک و قوم کی ''خدمت'' کا وقت ختم ہونے والا ہے۔ پریس کانفرنس میں کبھی مصلحت پسندانہ تو کبھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے انھوں نے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش بھی کی۔

اولمپکس 1984ء کی گولڈ میڈلسٹ ٹیم کے رکن سابق اسٹار کا کہنا ہے کہ 2 ماہ قبل ہی مجھے نکالنے کے منصوبے تیار کیے جارہے تھے، ہیڈکوچ کا کام تسلی بخش جبکہ میری محنت بیکار کیسے قرار دیدی گئی؟ انھوں نے کہا کہ اس فیڈریشن کی موجودگی میں ہاکی کی بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی، جہاں صرف زر کو اہمیت دی جاتی ہو وہاں حالات کیسے سدھر سکتے ہیں؟ حنیف خان کے شکوے اپنی جگہ درست ہوں گے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیٹ اپ میں یہ ساری خامیاں انھیں اس وقت کیوں نظر نہیں آئیں جب وہ فیڈریشن سے ساری مراعات حاصل کررہے تھے؟ موجودہ صورتحال میں بیان بازی کے شوقین سابق اولمپئن بھی بھر پور فارم میں آگئے ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ پی ایچ ایف کے عہدوں پر براجمان اصحاب اب تک کئے جانے والے سارے غلط فیصلوں کے ذمے دار ہیں، شاطر عوامی جذبات ٹھنڈے کرنے کے لئے مہرے تبدیل کرتے ہیں، لیکن ان کی بساط کوئی نہیں لپیٹتا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہر سابق کھلاڑی فیڈریشن پر تنقید کو اپنا حق سمجھتا ہے جب کوئی عہدہ مل جائے تو حنیف خان کی طرح سب اچھا ہے کا راگ الاپنے لگتا ہے، قومی کھیل کے حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے عملی کوششیں کہیں نظر نہیں آتیں، الفاظ کا گورکھ دھندا برسوں سے چل رہا ہے، غیر متحرک پاکستان ہاکی ایک ہی مقام پر کھڑی ہے۔

ٹیم کی کارکردگی اور نتائج جیسے بھی ہوں چند افراد نے فیڈریشن کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے جب تک مخلصانہ قیادت میسر نہیں آتی حالات میں بہتری کے خواب نہیں دیکھے جاسکتے، کتنے سابق اولمپئن ہوں گے جو بغیر مراعات حاصل کئے گراس روٹ لیول پر ہاکی کی بہتری کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں گے، دوسری طرف گنے چنے کھلاڑیوں کے ادل بدل سے تشکیل پانے والی قومی ہاکی ٹیم کی کمان اور فیڈریشن کے اعلیٰ عہدوں پر قبضہ جمانے کے لیے بیتاب درجنوں مل جائیں گے۔ ذاتی مفادات قومی ترجیحات پر غالب ہوں تو چند افراد کی زندگیوں میں آسانیاں اور ملک کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، ہاکی کو بھی اس وقت نام نہاد ہمدرد نہیں بلکہ قوم کا درد رکھنے والے رہنماؤں کی اشد ضرورت ہے، قومی کھیل کو مدت سے پھر کسی نور خان کا انتظار ہے۔
[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں