کچھ لوگ زمانے کے خداوند رہے ہیں

علی سفیان آفاقی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے شکست دینے کے بجائے جیت لینے کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیا۔


شاہد سردار January 27, 2019

کیا کبھی ہم نے غورکیا کہ کوئی نئی ٹیکنالوجی نئے علوم حاصل کرنے کا جذبہ ہم میں اب ختم کیوں ہوگیا ہے؟اچھی اور آزاد سوچ سے ہم کیوں بدگمان ہوگئے ہیں؟ ہم آج بد حالی یا تنزلی کی گہرائیوں تک کیوں اورکیسے پہنچے؟ ہم سے کیا غلطیاں ہوئیں کہ علم، عقل اور سائنس ہم سے روٹھ گئی؟

پاکستان کے اس نظریاتی فریم ورک کا نتیجہ تھا کہ اس کی تشکیل سے لے کر موجودہ دور تک ہم میں علم و ادب، شاعری، آرٹ، موسیقی، فن تعمیر اور سماجی و فطری علوم میں جواہر قابل خال خال ہی پائے گئے۔ جو باصلاحیت اس گھٹن کو برداشت نہیں کرسکے انھوں نے بیرون ملک جاکر پناہ لے لی اور جو یہاں رہ گئے یا تو انھوں نے حالات سے سمجھوتہ کرلیا یا پھر کنارہ کش ہوگئے۔ علی سفیان آفاقی صاحب کا شمار بھی ہم ایسے ہی قبیلے کے لوگوں میں کرسکتے ہیں۔

صحافت، ادب اور فلم کے دشت میں بے پناہ آبلاپائی کرکے دل برداشتہ ہوکر وہ طویل عرصہ کینیڈا میں ملازمت کرتے رہے۔ پھر پاکستان آئے اور ازسرِ نو انھوں نے ادب و صحافت سے رشتہ جوڑ لیا اور بڑھتی ہوئی عمر اور گرتی ہوئی صحت کے باوجود پوری توانائی کے ساتھ لفظوں کو کشید یا تخلیق کرنے سے کھیلتے رہے۔ 27 جنوری 2015 کو جب ان کا 82 برس میں انتقال ہوا تب بھی وہ مسلسل لکھ رہے تھے اورکبھی بھی کہیں بھی وہ ایسا کرکے حروفِ حرمت کو مجروح نہیں کر پائے۔ اس لیے بھی کہ وہ سچے، کھرے اور ستھرے قلم کار تھے اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ان کی سنگت اور صحبت میں مولانا مودودی، آغا شورش کاشمیری، سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، ریاض شاہد، جوش ملیح آبادی، حبیب جالب، استاد امن اور سیف الدین سیف جیسے جید لوگ شامل تھے۔

علی سفیان آفاقی نے 25 سے زائد کتابیں اور ان گنت سفرنامے تحریرکیے اور 20 برسوں سے مسلسل کراچی کے ایک ڈائجسٹ میں اپنی خود نوشت باقاعدگی سے تحریر کر رہے تھے اور اس میں وہ تسلسل اور خاصی طوالت کے ساتھ ماضی حال اور مستقبل کے حوالے سے ہالی وڈ، بھارت اور پاکستانی فلمی صنعت و تجارت سے وابستہ ہنرمندوں کی کارکردگی بہت ہی موثر اور دلچسپ انداز میں قلم بند کر رہے تھے۔ وہ اپنی ہر تحریر میں ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر سرپٹ دوڑنے اور حالات و واقعات کی دلکش، دلچسپ اور اس قدر موثر منظرکشی کرتے کہ پڑھنے والا خود کو ان واقعات یا منظرناموں کا حصہ سمجھ کر ان کی تحریروں میں گم اور محو ہوجاتا۔

بلاشبہ فن صحافت اور ادب میں یہ علم یہ عرفان، یہ خصوصیت یا یہ صلاحیت ان کے علاوہ شاید کسی دوسری ذات میں موجود ہو؟ اچھے چنیدہ ادبی الفاظ اور جملوں کا استعمال ان کی ہر تحریر کا خاصا رہا ہے۔ وہ دریائے صحافت کے بہت بڑے اور بہت اچھے پیراک رہے۔ فلم کی دنیا سے تو عرصہ دراز ہوا وہ کنارہ کش ہوچکے تھے لیکن ادبی اور صحافتی دنیا سے وہ تادم مرگ وابستہ رہے (ہفت روزہ ''فیملی میگزین'' کے ایڈیٹر کی حیثیت سے) واقعی صحافت ان کی پہلی محبت تھی اور باوفا لوگوں کے لیے ان کی پہلی محبت ہی ان کی آخری محبت ہوتی ہے یہی وجہ تھی کہ انھوں نے مرتے دم تک اس سے وفا کی۔

انھوں نے تاریخ میں بار بار اپنے لیے ایک مقام تلاش کیا جسے آسان لفظوں میں منفرد یا انفرادی کہا جاسکتا ہے۔ ان کی ذات کے حوالے سے یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ ان کے لیے لیجنڈ، ہشت پہلو یا تاریخ ساز جیسے الفاظ بہت چھوٹے ہیں۔ کتنے کرب اور افسوس کی بات ہے کہ ان جیسے جید ہنرمند کی تخلیقی صلاحیتوں کا سرکاری سطح پر کوئی اعتراف نہ ہوسکا۔ خواہ نیشنل ایوارڈ ہوں یا پرائیڈ آف پرفارمنس ہر دور میں انھیں نظر اندازکیا گیا۔ ہماری دانست میں انھیں کسی اعزاز یا ایوارڈ کی ضرورت بھی نہیں تھی کہ ایسی ہستیاں ایوارڈز کے مجسموں میں نہیں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتی ہیں۔

شاید سارے زمانے کا یہی دستور ہو لیکن ہمارے ہاں ایسا بہت زیادہ ہے کہ ہم اپنے نامور اور قابل فخر لوگوں کو بہت جلد بھول جاتے ہیں یا انھیں ان کے شایان شان مقام دینے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ تو ویسے بھی برسہا برس سے علم دشمن معاشرہ ہے جس میں بطور خاص لکھنے پڑھنے والے کو نکما یا فالتو آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پھر بھی یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ انھیں قابل قلم کار مرتے دم تک سمجھا جاتا رہا اور یہ اعتراف ان کی ذات کے لیے قابل فخر بھی تھا اور قابل رشک بھی۔ افسوس اس بات کا لیکن رہے گا کہ اتنے طویل برسوں میں ان کا نعم البدل دور دور تک کوئی اور نظر نہیں آیا۔

علی سفیان آفاقی کی قلمی صلاحیتوں کے اعتراف میں یہ شعر بڑا ہی موزوں لگتا ہے کہ:

ہر دور میں دیکھا ہے میری فکرِ رسا نے

کچھ لوگ زمانے کے خداوند رہے ہیں

علی سفیان آفاقی 22 اگست 1933 کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 1949 میں لاہور سے بی اے کیا اور 1950 میں فن صحافت سے باقاعدہ وابستہ ہوگئے۔ جماعت اسلامی کے اخبار '' تسنیم '' سے ابتدا کی۔ ان کی پہلی تصنیف ''مولانا مودودی'' کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ اس کے متعدد ایڈیشن شایع ہوئے اور آج یہ تاریخ ساز کتاب نایاب ہے۔ کسی رائٹر کی پہلی کتاب ہی کو ملکی اور غیر ملکی افق پر جب پذیرائی حاصل ہوجائے تو اس رائٹر کی تحریری اور تخلیقی صلاحیتوں کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔تسنیم کے بعد چٹان، اقدام، پاکستان ٹائمز، احسان، زمیندار، آفاق اور نوائے وقت سے بھی وابستگی رکھی بلکہ نوائے وقت گروپ سے وہ 1951 سے تادم انتقال وابستہ رہے۔ ان کی پوری زندگی جہد مسلسل پر یقین رکھنے والوں میں سے تھی۔ وہ ایک لمحے کے لیے کبھی نہیں لڑکھڑائے اور منزلوں پر منزلیں سر کرتے چلے گئے۔

صحافت، ادب، کہانی نویسی، مکالمہ نگاری، منظر نامہ نگاری (اسکرین پلے) فلم پروڈکشن اور فلم ڈائریکشن جیسے مشکل، کٹھن اور عرق ریزی کے کام انھوں نے بڑی چابک دستی سے کیے۔ علی سفیان آفاقی نے فلمی مصنف بننے کے بعد سب سے منفرد اور چونکا دینے والا کام یہ کیا کہ انھوں نے فلم کے مافوق الفطرت کرداروں کا سہارا لینے کے بجائے معاشرے کے حقیقی کرداروں کو ان کے حقیقی تناظر میں پیش کیا اور اس زمانے میں ہماری فلموں میں بہر طور یہ ایک نئی روایت تھی ایک ایسی روایت جو عام فلمی فارمولے سے یکسر مختلف تھی۔ ان کے کردار عام زندگی کے لوگوں کی نمایندگی کرتے تھے۔

علی سفیان آفاقی کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے شکست دینے کے بجائے جیت لینے کو اپنی زندگی کا مشن قرار دیا کیونکہ شکست دینا بہت آسان ہوتا ہے اور جیت لینا بہت مشکل۔ ان کا یہ کریڈٹ ہمیشہ انھیں ممتاز رکھے گا کہ آفاقی صاحب نے انسان فتح کیے۔ ان کے قلم میں اتنی طاقت تھی کہ وہ چاہتے تو اپنے مخالفین اور حاسدین کو پل بھر میں شکست دے سکتے تھے۔ انھوں نے مخالفین اور دلوں کو یکساں طور پر فتح کیا اور دلوں اور ذہنوں کو فتح کرنے والوں کو فاتح زمانہ کہا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں