نسخہ

ترقیاتی پیکیج تو خیر اپنی جگہ ہے اصل مسئلہ کراچی میں عوامی بے چینی کا ہے۔


عثمان دموہی January 27, 2019
[email protected]

رؤف صدیقی ایم کیو ایم پاکستان کے ایک اہم رہنما مانے جاتے ہیں۔ وہ ایک سیاسی رہنما ہونے کے ساتھ ادیب اور شاعر ہونے کی حیثیت سے بھی اچھی شہرت رکھتے ہیں ، مگر بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کے معاملے نے ان کی شہرت کو ضرور نقصان پہنچایا ہے۔ اس سلسلے میں ان پر مقدمہ چل رہا ہے تاہم وہ مطمئن ہیں کہ ان کا اس معاملے میں کوئی کردار نہیں تھا۔

اب تک ایم کیو ایم پاکستان کوکئی لوگ چھوڑ چکے ہیں مگر وہ اب بھی ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم پر ہی موجود ہیں اور ایم کیو ایم چھوڑنے والوں کو اس سے پھر جڑنے کی تبلیغ کرتے رہتے ہیں۔ وہ فاروق ستار کو بھی پھر سے ایم کیو ایم میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ فاروق ستار نے کئی ماہ قبل ایم کیو ایم سے اپنا مکمل ناتا توڑ لیا تھا۔رؤف صدیقی نے انھیں نہ صرف ایم کیو ایم میں واپس آنے کا مشورہ دیا ہے بلکہ کہا ہے کہ ان کا متحدہ قومی کونسل کے قیام کا فیصلہ درست نہیں ہے۔

کیا فاروق ستار رؤف صدیقی کے اس مشورے کو مان لیں گے اور نئی پارٹی تشکیل دینے کے کام کو چھوڑ کر پھر سے ایم کیو ایم سے جڑ جائیں گے؟ اب ایسا ممکن نظر نہیں آتا اس لیے کہ فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں پر مسلسل اس طرح تنقید کر رہے ہیں کہ ان کی پارٹی میں واپسی ممکن نظر نہیں آتی پھر دوسری جانب بہادر آباد والوں نے بھی ان پر ایسے ایسے الزامات لگائے ہیں کہ اب اگر وہ پارٹی میں واپس آ بھی گئے تو وہاں ان کا نباہ مشکل ہے۔ چنانچہ لگتا ہے ان کے دوستوں نے انھیں اب ایم کیو ایم سے دور رہنے اور نئی پارٹی کے قیام کے کام کو تیز کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔

بات دراصل یہ ہے کہ علی رضا عابدی کی شہادت کے بعد انھوں نے واضح اشارہ دیا تھا کہ وہ ان کا متحدہ کے تمام دھڑوں کو یکجا کرنے کا مشن اب خود انجام دیں گے۔ شاید وہ جب سے ہی ان کے مشن کو آگے بڑھانے میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ٹکڑوں میں بٹنے کے بعد سندھ میں یقینی طور پر سیاسی خلا پیدا ہوچکا ہے اور اس سیاسی خلا کو پورا کرنے کے لیے ایک نئی پارٹی کے قیام کی شدت سے کمی محسوس کی جا رہی ہے۔

واضح ہو کہ یہ سیاسی خلا اب شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے اس کا بہت پہلے مصطفیٰ کمال کو احساس ہوچکا تھا۔ یہ بات اب بھی لوگوں کو یاد ہوگی کہ انھوں نے فاروق ستار کو ایک نئی سیاسی پارٹی تشکیل دینے کی دعوت دی تھی۔ ان دنوں فاروق ستار ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کر رہے تھے۔ فاروق ستار ایک زیرک سیاستدان ہیں وہ مصطفیٰ کمال کی بات کو فوراً سمجھ گئے تھے اور انھوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی کی تشکیل کے لیے مصطفیٰ کمال کے ساتھ کئی میٹنگیں کی تھیں۔ وہ دونوں نئی پارٹی کی تشکیل کے بہت قریب پہنچ گئے تھے مگر پھر ایم کیو ایم کے کچھ رہنماؤں کے دباؤ کی وجہ سے فاروق ستار پیچھے ہٹ گئے تھے۔

کاش کہ اس وقت ایم کیو ایم کی جگہ ایک نئی پارٹی کی تشکیل کا کام تکمیل کو پہنچ جاتا تو آج کراچی والوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم موجود ہوتا اور کراچی میں نہ سیاسی خلا پیدا ہوتا نہ پی ٹی آئی کو اس کی سوچ سے زیادہ کراچی سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستیں مل پاتیں۔ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ فاروق ستار آج جو کام کرنے جا رہے ہیں وہ دراصل مصطفیٰ کمال کی سوچ تھی اور اگر فاروق ستار اپنے سابقہ دوستوں کے دباؤ میں نہ آتے تو ایک نئی پارٹی کبھی کی مورد وجود میں آچکی ہوتی اور اس کے ثمرات سے کراچی کے عوام مستفید ہو رہے ہوتے۔

بہرحال ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے مگر یہ کام فاروق ستار تن تنہا انجام نہیں دے سکتے اس لیے کہ کراچی کے عوام ان سے دور ہوچکے ہیں جس کا ثبوت عام انتخابات میں ان کا اپنی سیٹ بھی نہ بچا پانا تھا اور ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص الیکشن جیت گیا جو کسی طرح بھی ان کا ہم پلہ نہ تھا۔ فاروق ستار پر بہادر آباد والے کئی الزامات لگا کر ان کی شہرت کو داغدار کرچکے ہیں پھر ان کے دوست کامران ٹیسوری نے تو ان کی شہرت کو اس طرح تار تار کردیا ہے کہ اب وہ جلد حقیقی عوامی توجہ حاصل کرتے نظر نہیں آتے۔ چنانچہ انھیں اس کام کو جسے انھوں نے اب اپنی زندگی کا مشن بنا لیا ہے انجام دینے کے لیے کسی مخلص مقامی سیاسی رہنما کے ساتھ مل کر اسے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے اس مشن کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اب پھر ماضی کی طرف لوٹنا ہوگا اور مصطفیٰ کمال کا تعاون حاصل کرنا ہوگا اور اب انھیں پھر وہیں سے گاڑی کو آگے بڑھانا ہوگا جہاں اسے ان کے سابقہ ساتھیوں نے روک دیا تھا۔ اب نئی پارٹی کے نام کے ساتھ متحدہ کا لاحقہ لگانا بھی درست نہیں کیونکہ یہ اب اپنی وقعت کھو چکا ہے۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاک سرزمین پارٹی عام انتخابات میں ناکام ضرور ہوئی ہے مگر مصطفیٰ کمال کی شہرت کو کوئی زک نہیں پہنچ سکی ہے وہ آج بھی عوام میں پہلے کی طرح مقبول ہیں جس کی وجہ ان کے وہ کام ہیں جو انھوں نے کراچی کو پاکستان کا ایک قابل دید شہر بنانے کے لیے انجام دیے تھے۔ اس وقت کراچی کو جس طرح اجاڑا جا رہا ہے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ پہلے تیس سال تک کراچی کو امن و امان کے مسئلے سے دوچار کیا جاتا رہا اور اب کاروبار کو تباہ کرکے لوگوں کو بھوکوں مارنے کا سلسلہ جاری ہے۔

شہر کی بربادی سے متاثر ہوکر فاروق ستار کہہ چکے ہیں کہ میئر کراچی نے عوام کی خدمت کرنے کے بجائے انھیں سخت زحمت اور آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے چیلنج کیا ہے کہ میئر کراچی آیندہ الیکشن لڑ کر دیکھیں پھر انھیں پتا چل جائے گا کہ لوگ ان سے کتنا پیار کرتے ہیں؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ میئر نے شہر کے مسائل حل کرنے میں اتنی دلچسپی نہیں دکھائی جتنی انھوں نے شہر کو اجاڑنے میں دکھائی ہے۔

شاہد وہ توڑ پھوڑ کی آڑ میں شہر کے مسائل سے عوامی توجہ ہٹانے کوشش کر رہے ہیں کاش کہ انھیں جتنا بھی اختیار حاصل ہے اس کو وہ بھرپور طریقے سے بروئے کار لے آتے تو شاید شہر کی حالت کچھ سدھر جاتی۔ اب اس وقت سب کی نظریں نئی حکومت کی جانب سے کراچی کو دیے جانے والے ترقیاتی پیکیج پر لگی ہوئی ہیں۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر یہ خوشخبری سناکر گئے ہیں کہ کراچی پیکیج ایک بہت بڑا پیکیج ہوگا جس سے کراچی کے عوام پر تحفوں کی برسات کردی جائے گی گوکہ نئی حکومت کے وعدوں پر اب عوام کو اعتبار تو نہیں رہا ہے مگر مایوسی کفر ہے کے مترادف ہے۔

ترقیاتی پیکیج تو خیر اپنی جگہ ہے اصل مسئلہ کراچی میں عوامی بے چینی کا ہے اور اس بے چینی کو دور کرنے کے لیے سیاسی خلا کا پُر ہونا ضروری ہے۔ جس کے لیے فاروق ستار نے کمر کس لی ہے۔ رؤف صدیقی کو ان کے اس مشن کو ضرور سراہنا چاہیے تھا یہ دراصل ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ سے ہی پیدا ہوا ہے۔ گزشتہ دنوں انھوں نے کراچی کے عوام کو سر کے بالوں کو کالا رکھنے کا نسخہ بتایا تھا کاش کہ وہ ایم کیو ایم کو مزید ٹوٹ پھوٹ سے محفوظ بنانے کے لیے بھی کوئی نسخہ تجویز کردیتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں