خط و خال
زیر نظر مجموعے میں شامل خاکے بڑی تحقیق اور محنت شاقہ کے بعد حاصل کیے گئے ہیں۔
کتاب ''خط و خال'' محمد فیصل کے منتخب کردہ نامور ادیبوں کے لکھے ہوئے شخصی خاکوں کا مجموعہ ہے۔ فیصل اس کے تعارف میں لکھتے ہیں ''خاکوں کے بہت سے انتخاب اور مجموعے کثیر تعداد میں دستیاب ہیں، تاہم زیر نظرکتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ مختلف اور منفرد خاکے پیش کیے جائیں۔ زیر نظر مجموعے میں شامل خاکے بڑی تحقیق اور محنت شاقہ کے بعد حاصل کیے گئے ہیں۔''
اس مجموعے میں شامل ''پورٹریٹ'' اطہر نفیس کا خاکہ ہے جو اسد محمد خاں نے لکھا ہے، ''خزاں کے رنگ'' سید رفیق حسین کا خط ہے جو الطاف فاطمہ نے تحریر کیا ہے۔ قیسی رامپوری نے خواجہ حسن نظامی کا خاکہ لکھا ہے اور صادقین کی تصویر کشی مجتبیٰ حسین نے کی ہے۔ کتاب میں جو اور خاکے ہیں ان میں عصمت چغتائی کا 'دوزخی'، احمد بشیر کا شعبدہ باز، شاہد احمد دہلوی کا ''سعادت حسن منٹو'' اور مختار مسعود کا لکھا ہوا مولانا حسرت موہانی کا خاکہ شامل ہے۔ کچھ خاکے منتخب شخصیت کی ہو بہو عکاسی کہے جاسکتے ہیں اور کچھ خاکہ لکھنے والے کی یادیں اور اپنا ذکر۔
خواجہ حسن نظامی کو سب سے زیادہ قریب سے دیکھنے کا موقع قیسی رامپوری کو ملا۔ وہ لکھتے ہیں ''اس کا ارادت و عقیدت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ ایک انسان کا مطالعہ ہے جو دوسرے انسان نے کیا ہے۔ خواجہ صاحب نے عجیب طبیعت پائی ہے۔ عجیب سے میری مراد نادر یا طرفہ نہیں بلکہ اس منحنی، لانبے جسم کے اندر میں نے ایسی قوی روح دیکھی جس کو ماحول، حالات حتیٰ کہ انحطاطِ عمر بھی نہ جھکا سکا اور جو داخل میں بھی اتنی ہی دہکتی رہتی ہے جتنی خارج میں شعلہ بجاں نظر آتی ہے۔''
مجتبیٰ حسین سے صادقین کی ملاقات دہلی میں اس وقت ہوئی جب وہ 1948 میں پاکستان آنے کے بعد ہندوستان گئے اور چودہ مہینے وہاں قیام کیا۔ وہ لکھتے ہیں ''ان چودہ مہینوں میں میری صادقین سے سیکڑوں بار ملاقات ہوئی۔ وہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ میں نے ان کو عالمِ سر خوشی میں بھی دیکھا اور عالم ہوش میں بھی۔ اور ہر دم انھیں ایک درویش اور قلندر کے روپ میں پایا۔ مال و متاع اور جاہ و حشمت سے بے نیاز اور اپنے فن کی دنیا میں گم، اپنے بل بوتے میں مگن۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے فن کی دولت لٹاتے ہوئے رنگ و نور کا عالم جگاتے ہوئے صادقین کبھی کبھی عجیب سے لگتے تھے۔ وہ گھنٹوں زمان و مکان سے بے نیاز ہوکر رنگوں اور خطوں میں کھوئے ہوئے رہتے تھے۔ صادقین کے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں لگاتار کام کرنے کی وجہ سے ٹیڑھی ہوگئی تھیں۔''
شاہد احمد دہلوی اور سعادت حسن منٹو کے درمیان ناشر اور رائٹر کا رشتہ ہی نہ تھا، باہمی احترام و قدر کا رشتہ بھی تھا۔ شاہد صاحب لکھتے ہیں ''منٹوکی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ انھیں ہمیشہ یہ احساس رہتا تھا کہ میں ہی سب سے اچھا لکھنے والا ہوں۔ اس لیے وہ اپنے آگے کسی کوگردانتے نہ تھے۔ ذرا کسی نے دون کی لی اور منٹو نے اڑنگا لگایا۔ خرابیٔ صحت کی وجہ سے منٹوکی طبیعت کچھ چڑچڑی ہوگئی تھی۔ مزاج میں سہار بالکل نہیں رہی تھی۔ بات بات پر اڑنے اور لڑنے لگتے تھے۔ منٹو بظاہر بڑا اکھڑ اور بدتمیز نظر آتا تھا مگر دراصل اس کے پہلو میں ایک بڑا حساس دل تھا۔ دنیا نے اسے بڑے دکھ پہنچائے تھے۔ امیر گھرانے کا لاڈلہ بچہ تھا بگڑگیا اور خوب پیٹ بھر کر بگڑا۔ دوست، احباب، رشتے دار سب سے اسے تکلیفیں پہنچیں۔ اسی لیے اس میں نفرت کا جذبہ بہت بڑھ گیا تھا مگر اس کی انسانیت مرتے دم تک قائم رہی۔''
مختار مسعود نے مولانا حسرت موہانی کا خاکہ لکھا ہے ''یہ شخص بھی عجیب ہے۔ چار بار جیل ہوئی، گیارہ حج کیے اور تیرہ دیوان شاعری کے مرتب کیے، سیاسی ہنگاموں اور عوامی تحریکوں کا شمار ناممکن ہے۔ ملک کے لیے آزادی مانگی تو کالج سے نکالے گئے اور حوالات میں داخل کیے گئے، کتب خانہ اردوئے معلی ضبط ہوا، نایاب قلمی نسخے پولیس ٹھیلوں میں لاد کر لے گئی۔ مسودات سامنے جلائے گئے۔ ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالی گئیں۔'' جب بلائیں تمام ہوگئیں تو حسرت نے کہا:
جو چاہو سزا دے لو' تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو' کی ہو جو شکایت بھی
مختار مسعود لکھتے ہیں ''ہم عصر زعما کے جمگھٹے میں حسرت سب سے الگ نظر آتے ہیں۔ وہ باہم رو، بے ہمہ شو کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ اس تصویر میں مصور نے ایسے رنگ بھرے ہیں جو آپس میں نہیں ملتے۔ ان کی تصویر بد رنگ تو نہیں، انوکھی ضرور بن گئی ہے۔'' وہ لکھتے ہیں کہ اردو میں شعر کہنا بہت سہل ہے، اچھا شعرکہنا بڑا کٹھن کام ہے۔ حسرت کا شعار یہ تھا کہ شعر برجستہ، بحر سادہ، موضوع روایتی، خیال اکثر شوخ، بیان گاہے رنگین۔ ان کے بیان کی دو خوبیاں ہیں: کھری برجستگی اور معصوم شوخی۔ وہ جو کچھ محسوس کرتے ہیں صاف صاف بیان کردیتے ہیں۔ ان کی داستان حسن و عشق ایک گھریلو داستان ہے۔
ابوالفضل صدیقی نے شاہد احمد دہلوی کا خاکہ لکھا ہے، عنوان رکھا ہے ''خوف''۔ لکھتے ہیں ''شاہد صاحب کے بظاہر خشک دل کے اندر ایک گوشہ بڑا ہی شاداب اور نرم تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ابھرتے وقت یا ابھرنے کے بعد بھی کسی کی کوئی بات خلاف مزاج یا ان کی مخصوص پالیسی کے منافی سرزد ہوجاتی تو وہ جھڑکنے کے ساتھ پھکڑ پن سے درشتی اور ہتک سے پیش آنے سے لے کر ہمیشہ کے لیے معتوب کرکے قطع تعلق کی حد تک پہنچ جایا کرتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی دامے، درمے، قدمے، سخنے انھوں نے اہل قلم کو نوازنے میں بھی سنگ میل قائم کیے۔'' شاہد احمد دہلوی کے ساتھ ان کا کیا تعلق تھا اس کے بارے ابوالفضل صدیقی کہتے ہیں کہ وہ اس کو خلوص تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس نے خوف اور جھجک کے پیٹ سے جنم لیا تھا لیکن ان کے اندر شاہد صاحب کا گہرا لحاظ پیدا ہوگیا تھا۔
خود ابوالفضل صدیقی کا خاکہ ان کے بھانجے ڈاکٹر خالد جاوید نے لکھا ہے جو خاکوں کے اس مجموعے میں شامل ہے۔
مشتاق احمد یوسفی نے ''ضمیر واحد متبسم'' کے عنوان سے سید ضمیر جعفری کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''شخصیت کے نمایاں Contours ہوں یا کسی سچویشن کے مضحک پہلو، فوجی یا دیہی زندگی کی عکاسی ہو یا بوالعجبیوں اور تضادات و ناہمواریوں کا ذکر، ضمیر جعفری چند لفظوں میں پوری تصویر کھینچنے اور سماں باندھنے پر حیرت انگیز قدرت رکھتے تھے۔ فضا بندی کے لیے وہ لمبے چوڑے میورل یا فیاسکو نہیں بناتے بلکہ کسی ترچھے اور تیکھے، چغل خور زاویے سے لیے گئے چند اسنیپ شاٹ سے صحبت یاراں کی گل فشانی، گفتار، اسلوب حیات اور زندگی کے مختلف قرینوں کا ہنستا بولتا مرقع پیش کردیتے ہیں۔''
''شعبدہ باز'' ظہیر کاشمیری کا خاکہ ہے، تحریر احمد بشر کی ہے۔ لکھتے ہیں ''اس کی وضع قطع اور شکل و صورت ایک سوچی سمجھی ہوئی کلر اسکیم کے مطابق ہے۔ جیتے جاگتے انسان سے کہیں زیادہ وہ ایک روغنی تصویر معلوم ہوتا ہے۔ اس کے خد و خال میں ایک گولائیوں بھرا نظام ہے۔ چہرہ چھلا ہوا، ناک مڑی ہوئی، دانت چوہے کی طرح کٹیلے، آنکھیں بھوری اور اندر کو بیٹھی ہوئیں، ہونٹ پتلے اور کمان کی طرح اندر کو جھکے ہوئے، رخساروں پر چیچک کے گھلے گھلے داغ جو دور سے دکھائی نہیں دیتے، لہریا بالوں اور مخروطی داڑھی کا رنگ میلے اور پرانے خون سے مشابہ۔ اس کی وضع قطع اور شکل و صورت کو خوبصورتی یا بدصورتی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے جب اسے پہلی بار دیکھا تو مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ ظہیر کاشمیری ہے۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ یہ شخص جادوگر ہے، ابھی کوئی شعبدہ دکھائے گا، زمین پھٹے گی اور یہ اس میں سما جائے گا۔''
زاہد شوکت علی مولانا محمد علی جوہر کے داماد اور مولانا شوکت علی کے فرزند تھے۔ ان دونوں نامور شخصیتوں سے بس ان کا یہی تعلق تھا۔ ان کا خاکہ جاوید صدیقی نے لکھا ہے، عنوان رکھا ہے ''ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی''۔