اللہ کے گھر میں اللہ کے نام پر
بہتر ہے کہ گداگری کو مستقل پیشے کے طور پر ان کے، شناختی کارڈ میں پیشے کے خانے کے طور پر شامل کردے۔
'' السلام علیکم جناب!'' بھائی صاحب کے پاس بیٹھ کر اس نے خلوص سے سلام کیا۔
'' وعلیکم السلام!'' کہہ کربھائی صاحب نے مصافحہ بھی کیا۔ دیار غیر میں تو یوں کسی ہم زبان کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا۔ یہ سلام کرنے والا تو یوں بھی اللہ کے گھر میں مخاطب ہوا تھا
'' پاکستان سے آئے ہیں جناب؟'' سوال کیا گیا۔
'' جی میں پاکستان سے آیا ہوں! '' بھائی صاحب نے جواب دیا۔ '' ماشاء اللہ چہرے مہرے سے ہی پتا چل رہا ہے!''
'' سر، میں بھی چند دن پہلے اپنی فیملی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ پہلے کچھ دن تو اللہ کے فضل سے اچھے گزر گئے مگر میری بد قسمتی کہ کل حجر اسودکو بوسہ دینے کی لگن دل میں سما گئی اور کسی چیز کا ہوش رہا نہ کسی خطرے کا احساس۔ گھنٹوں کی کاوش کے بعد مجھے حجر اسود کو بوسہ دے کر، تسکین دل و جان تو حاصل ہو گئی مگر کسی ظالم نے میری جیب سے بٹوہ نکالتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہ کہاں کھڑا ہے، کس کے گھر پر اور کس کے در پر۔ اسے ایک لمحے کو بھی سوچ نہیں آئی کہ اپنے کسی بھائی کی جیب کاٹ کر وہ اسے کس قدر مجبور کر دے گا اور اس سے کتنی بد دعائیں لے گا!'' اس نے اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔ '' میرا سال مال متاع اسی بٹوے میں تھا جناب، آپ کا بھائی دیار غیر میں لٹ گیا ہے!''
'' اوہو، بہت دکھ ہوا یہ سن کر!'' بھائی صاحب نے تاسف سے کہا۔
'' ایک بھائی کا دکھ دوسرا بھائی ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن خالی اس دکھ کو سمجھنے کی بجائے آپ کو میری مدد کرنا ہو گی۔ سفری اخراجات اور ہوٹل کا بل تو پہلے سے ادا شدہ ہوتا ہے، اس کی اللہ کے فضل سے کوئی فکر نہیں مگر جیب سے بٹوہ نکال کرظالم نے مجھے پائی پائی کا محتاج کر دیا ہے اور مجھ جیسے شریف آدمی کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں آپ کو اپنا پاکستانی بھائی سمجھ کر، بڑی امید سے آپ کے پاس آیا ہوں، امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے؟'' اس کی التجا پر بھائی صاحب کا دل تو بہت پسیجا مگر اس وقت ان کے پاس اسے دینے کے لیے صرف تسلی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اگلی بار جب صاحب بھی بھائی صاحب کے ہمراہ تھے، ایک اور '' مجبور اور ضرورت مند'' انھیں تاڑ کر ان کے پاس آن بیٹھا اور اسی طرح کی داستان مجبوری کی سنائی۔ اس کے بقول اس کے پاس روٹی کھانے کو بھی پیسے نہ تھے اور وہ کئی دن کا بھوکا تھا۔ اس کا لٹکا ہوا چہرہ اس کے الفاظ کی تصدیق کر رہا تھا۔ بھائی صاحب کو یقین واثق تھا کہ بندہ جتنا بھی مکار، بے دید، بے شرم اور جھوٹا ہو... اللہ کا گھر، یعنی خانہ کعبہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر وہ کوئی مکاری کرے گا نہ جھوٹ بولے گا۔ وہاں جا کر انسان کو علم ہو جاتا ہے کہ اس کی بساط کیا ہے، اس گھر کی اپنی ایک ہیبت ہے۔ ہماری حقیقت وہاں ایک کیڑے سے بھی کمتر ہے۔ وہاں وجود آئینے بن جاتے ہیں، وہاں کوئی کیا جھوٹ بولے گا۔
بھائی صاحب نے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے چند ریال نکال کر اسے دیے، اتنے کہ جس سے وہ ایک نہیں بلکہ دو وقت کا کھانا کھا سکتا تھا۔ اس کی نظر اس وقت بھائی صاحب کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹوں کی بجائے، ان نوٹوں پر تھی جو ان کے بٹوے میں تھے۔ '' ان کے ساتھ ایک بڑا نوٹ بھی دے دیں جناب، اللہ کے نام پر!'' اس نے بٹوے کے اندر نظریں گھسیڑ کر کہا۔
'' جو دے دیا ہے وہ کافی ہے!'' بھائی صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اس کی بہترین اداکاری سے دھوکہ کھا گئے تھے۔اگلے دن ہم طواف سے فارغ ہو کر حرم سے نکل رہے تھے کہ ہمیں کم از کم پانچویں '' ضرورت مند'' سے واسطہ پڑا۔ صاحب ذرا غصے میں آگئے، میں نے فورا مداخلت کی کہ اللہ کا گھر ہے، غصہ نہ کریں، کسی کی درخواست کو یوں رد نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ واقعی ضرورت مند ہو۔
'' اسی ایک شخص سے کل سے آج تک میرا یہ تیسری چوتھی بار سامنا ہو رہا ہے۔ یہ قطعی ضرورت مند نہیں ہے، عادی بھکاری ہے۔ کبھی کہتاہے کہ جیب کٹ گئی ہے، کبھی کہتا ہے مدینہ جانے کے لیے رقم نہیں ہے، کبھی کہتا ہے چار بچوں کا ساتھ ہے جو کہ بھوک سے بلک رہے ہیں۔ صرف یہی ایک نہیں، بلکہ وہ جسے کل وقارنے کچھ رقم دی تھی، اس سے بھی میرا اس کے بعد دو دفعہ سامنا ہو چکا ہے اور وہ بھی ہر بار ایک نئی کہانی سناتا ہے!'' صاحب نے وضاحت کی۔
''اگر یہ لوگ ہمارے ملک کے پیشہ ور گداگروں جیسے ہیں تو پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچ گئے ہیں؟ جس لعنت کو ہم اپنے ملک میں نہیں ختم کر سکے، اس کے اثرات یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ ''
'' ہاں، لگتا ہے کہ یہ ہمارے ملک سے سعودی حکومت کو خاص طور پر تحفے میں دیے گئے ہیں!''
نہ صرف مکہ میں، بلکہ مدینہ میں بھی اور سفر کے دوران جہاں راستے میں نماز یا کھانے کے لیے قیام کیا، وہاں بھی یہ جنس وافر تعداد میں نظر آئی۔ مسجد نبوی سے باہر کسی بھی دروازے سے باہر نکلیں، نہ صرف مرد بلکہ پاکستانی عورتیں بھی ان کی شریک اور شانہ بشانہ نظر آئیں۔ ہماری قومی زبان میں، اسی قومی انداز میں، ہمارے سامنے ہاتھ باندھ کر بے چارگی کا نمونہ بنے، دامن پھیلا کر، ہمارے سامنے ہاتھ باندھ کر، گڑگڑا کر آنسوؤں بھری آنکھوں سے۔ دکھ سب سے بڑھ کر اس بات کا ہوتا تھا کہ ہم سے بڑھ کر غریب ممالک بھی ہیں،ہندوستان اور بنگلہ دیش سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھی حج اور عمرے پر جاتے ہوں گے، تو کیا ان کے ملکوں کے شہری جو وہاں گداگری کرتے ہوں گے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ملکوں کے لوگوں سے بھیک مانگتے ہوں گے یا یہ لعنت صرف ہمارے ملک سے ہی وہاں تک پہنچی ہے؟ دل میں ان کے لیے غصے کے ساتھ شرمندگی کے احساس کے ابال اٹھتے۔
حیرت تو یہ ہوتی رہی کہ یہ لوگ وہاں تک پہنچے کیسے، کیا انھیں وہاں تک پہنچانے والے ایجنٹ بھکاریوں کے ویزے پر لے کر جاتے ہیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک سے عمرے کی نیت سے جاتے ہیں اور ان کا واپس آنے کو جی نہیں چاہتا یا ایجنٹوں نے یہ طریقہ اختراع کیا ہے کہ انھیں یہاں سے عمرہ زائرین بنا کر لے جاتے ہیں اور یہ لوگ وہاں بھیڑ میں غائب ہو جاتے ہیں۔ سال ہا سال تک وہیں رہ کر کسی نہ کسی طریقے سے سیٹل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، اتنا عرصہ وہ حرمین میں ہی چھپے رہتے ہیں کہ وہاں کون سا کوئی پاسپورٹ یا آپ کی قانونی حیثیت چیک کر رہا ہے۔ وہیں بھیک مانگ کر نکل کر کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیا اور رات حرم میں پڑ کر سو رہے۔ اللہ کون سا انھیں اپنے گھر سے نکالے گا۔ انھیں وہاں اس طرح کے مظاہرے کرتے ہوئے یہ سوچ کر بھی شرم نہیں آتی کہ وہ اپنے ملک کو کیسی ''نیک نامی'' دے رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر حیرت یہ ہوتی ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار کا ملک اور بیرون ملک ان مسائل سے واسطہ نہیں پڑتا یا وہ دیکھ کر اپنی نظر چرا لیتے ہیں۔ کون سا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی نیت ہو تو اس کا کوئی ممکنہ حل نہیں ہو گا؟ ہمارے ملک میں اس مسئلے سے انتہائی سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
یہ طبقہ جو ماضی میں شاید کبھی واقعی مجبور اور ضرورت مند طبقہ ہوتا تھا، مجھے اپنے بچپن سے بھی اگر یاد آتا ہے تو وہ فقیر تھے جو گلیوں محلوں میں صدائیں لگاتے تھے، '' جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے ،اس کا بھی بھلا!'' اب بھکاری پیشہ ور بن چکا ہے۔ آپ کسی کو دس روپے دیں تو آواز آتی ہے، '' اللہ باجی، اتنی کنجوسی اچھی نہیں... اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر صرف پچاس کا نوٹ ؟ صاحب، اتنی پیاری بیگم کے ساتھ بیٹھے ہیں، میں آپ کی جگہ ہوتی تو پانچ سو سے کم کبھی نہ دیتی! رکھیں اپنے بیس روپے اپنے پاس، شرم بھی نہیں آتی غریب کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے!! '' بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے ہر روز ایجاد ہوتے ہیں، سال ہا سال تک گداگری ان کا پیشہ بن جاتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اگر ان کی بیخ کنی کے لیے کوئی اقدام نہیں کر سکتی تو اس ناکامی کو قبول کرتے ہوئے ، تسلیم کر لے کہ جس طرح آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے آج تک ہر حکومت ناکام رہی ہے، یہ بھی ایک ایسا ہی بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جسے آج تک کوئی حل کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔ بہتر ہے کہ گداگری کو مستقل پیشے کے طور پر ان کے، شناختی کارڈ میں پیشے کے خانے کے طور پر شامل کردے۔ اناڑی بھکاریوں کی تربیت کے لیے ماہر گداگروں کی طرف سے تربیت کا بندوبست کریں، بلکہ ان کے ٹریننگ کے ادارے بنا دیں۔ جس طرح ان کی ترسیل سعودی عرب تک کی گئی ہے اسی طرح اور ممالک میں بھی انھیں بھجوایا جا سکتا ہے۔ یہ ملک سے ایکسپورٹ کا ایک باقاعدہ آئٹم بن سکتا ہے۔
بیرون ممالک جا کر وہ ہمارا نام مزید روشن کریں۔ انھیں اچھے طریقے سے مانگنے کی تربیت دیں تا کہ وہ ہر ایک سے اپنا تعارف بطور پاکستانی کروائیں، نت نئے طریقوں سے مانگیں ، اپنا گیٹ اپ وغیرہ بھی تبدیل کر سکیں تاکہ بار بار انھی چہروں اور انھی داستانوں کے ساتھ کسی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ مانگیں اور فخر سے بتائیں کہ ہم پاکستانی ہیں اوربھیک ما نگنا ہمارا قومی شعار ہے۔
'' وعلیکم السلام!'' کہہ کربھائی صاحب نے مصافحہ بھی کیا۔ دیار غیر میں تو یوں کسی ہم زبان کا مل جانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہوتا۔ یہ سلام کرنے والا تو یوں بھی اللہ کے گھر میں مخاطب ہوا تھا
'' پاکستان سے آئے ہیں جناب؟'' سوال کیا گیا۔
'' جی میں پاکستان سے آیا ہوں! '' بھائی صاحب نے جواب دیا۔ '' ماشاء اللہ چہرے مہرے سے ہی پتا چل رہا ہے!''
'' سر، میں بھی چند دن پہلے اپنی فیملی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے آیا ہوں۔ پہلے کچھ دن تو اللہ کے فضل سے اچھے گزر گئے مگر میری بد قسمتی کہ کل حجر اسودکو بوسہ دینے کی لگن دل میں سما گئی اور کسی چیز کا ہوش رہا نہ کسی خطرے کا احساس۔ گھنٹوں کی کاوش کے بعد مجھے حجر اسود کو بوسہ دے کر، تسکین دل و جان تو حاصل ہو گئی مگر کسی ظالم نے میری جیب سے بٹوہ نکالتے ہوئے اتنا بھی نہیں سوچا کہ وہ کہاں کھڑا ہے، کس کے گھر پر اور کس کے در پر۔ اسے ایک لمحے کو بھی سوچ نہیں آئی کہ اپنے کسی بھائی کی جیب کاٹ کر وہ اسے کس قدر مجبور کر دے گا اور اس سے کتنی بد دعائیں لے گا!'' اس نے اپنی دکھ بھری داستان سنائی۔ '' میرا سال مال متاع اسی بٹوے میں تھا جناب، آپ کا بھائی دیار غیر میں لٹ گیا ہے!''
'' اوہو، بہت دکھ ہوا یہ سن کر!'' بھائی صاحب نے تاسف سے کہا۔
'' ایک بھائی کا دکھ دوسرا بھائی ہی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن خالی اس دکھ کو سمجھنے کی بجائے آپ کو میری مدد کرنا ہو گی۔ سفری اخراجات اور ہوٹل کا بل تو پہلے سے ادا شدہ ہوتا ہے، اس کی اللہ کے فضل سے کوئی فکر نہیں مگر جیب سے بٹوہ نکال کرظالم نے مجھے پائی پائی کا محتاج کر دیا ہے اور مجھ جیسے شریف آدمی کو ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ میں آپ کو اپنا پاکستانی بھائی سمجھ کر، بڑی امید سے آپ کے پاس آیا ہوں، امید ہے کہ آپ مجھے مایوس نہیں کریں گے؟'' اس کی التجا پر بھائی صاحب کا دل تو بہت پسیجا مگر اس وقت ان کے پاس اسے دینے کے لیے صرف تسلی کے سوا کچھ نہ تھا۔
اگلی بار جب صاحب بھی بھائی صاحب کے ہمراہ تھے، ایک اور '' مجبور اور ضرورت مند'' انھیں تاڑ کر ان کے پاس آن بیٹھا اور اسی طرح کی داستان مجبوری کی سنائی۔ اس کے بقول اس کے پاس روٹی کھانے کو بھی پیسے نہ تھے اور وہ کئی دن کا بھوکا تھا۔ اس کا لٹکا ہوا چہرہ اس کے الفاظ کی تصدیق کر رہا تھا۔ بھائی صاحب کو یقین واثق تھا کہ بندہ جتنا بھی مکار، بے دید، بے شرم اور جھوٹا ہو... اللہ کا گھر، یعنی خانہ کعبہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر وہ کوئی مکاری کرے گا نہ جھوٹ بولے گا۔ وہاں جا کر انسان کو علم ہو جاتا ہے کہ اس کی بساط کیا ہے، اس گھر کی اپنی ایک ہیبت ہے۔ ہماری حقیقت وہاں ایک کیڑے سے بھی کمتر ہے۔ وہاں وجود آئینے بن جاتے ہیں، وہاں کوئی کیا جھوٹ بولے گا۔
بھائی صاحب نے اپنا بٹوہ نکالا اور اس میں سے چند ریال نکال کر اسے دیے، اتنے کہ جس سے وہ ایک نہیں بلکہ دو وقت کا کھانا کھا سکتا تھا۔ اس کی نظر اس وقت بھائی صاحب کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے نوٹوں کی بجائے، ان نوٹوں پر تھی جو ان کے بٹوے میں تھے۔ '' ان کے ساتھ ایک بڑا نوٹ بھی دے دیں جناب، اللہ کے نام پر!'' اس نے بٹوے کے اندر نظریں گھسیڑ کر کہا۔
'' جو دے دیا ہے وہ کافی ہے!'' بھائی صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اس کی بہترین اداکاری سے دھوکہ کھا گئے تھے۔اگلے دن ہم طواف سے فارغ ہو کر حرم سے نکل رہے تھے کہ ہمیں کم از کم پانچویں '' ضرورت مند'' سے واسطہ پڑا۔ صاحب ذرا غصے میں آگئے، میں نے فورا مداخلت کی کہ اللہ کا گھر ہے، غصہ نہ کریں، کسی کی درخواست کو یوں رد نہ کریں۔ ہو سکتا ہے کہ واقعی ضرورت مند ہو۔
'' اسی ایک شخص سے کل سے آج تک میرا یہ تیسری چوتھی بار سامنا ہو رہا ہے۔ یہ قطعی ضرورت مند نہیں ہے، عادی بھکاری ہے۔ کبھی کہتاہے کہ جیب کٹ گئی ہے، کبھی کہتا ہے مدینہ جانے کے لیے رقم نہیں ہے، کبھی کہتا ہے چار بچوں کا ساتھ ہے جو کہ بھوک سے بلک رہے ہیں۔ صرف یہی ایک نہیں، بلکہ وہ جسے کل وقارنے کچھ رقم دی تھی، اس سے بھی میرا اس کے بعد دو دفعہ سامنا ہو چکا ہے اور وہ بھی ہر بار ایک نئی کہانی سناتا ہے!'' صاحب نے وضاحت کی۔
''اگر یہ لوگ ہمارے ملک کے پیشہ ور گداگروں جیسے ہیں تو پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ یہاں تک کیسے پہنچ گئے ہیں؟ جس لعنت کو ہم اپنے ملک میں نہیں ختم کر سکے، اس کے اثرات یہاں تک پہنچ گئے ہیں۔ ''
'' ہاں، لگتا ہے کہ یہ ہمارے ملک سے سعودی حکومت کو خاص طور پر تحفے میں دیے گئے ہیں!''
نہ صرف مکہ میں، بلکہ مدینہ میں بھی اور سفر کے دوران جہاں راستے میں نماز یا کھانے کے لیے قیام کیا، وہاں بھی یہ جنس وافر تعداد میں نظر آئی۔ مسجد نبوی سے باہر کسی بھی دروازے سے باہر نکلیں، نہ صرف مرد بلکہ پاکستانی عورتیں بھی ان کی شریک اور شانہ بشانہ نظر آئیں۔ ہماری قومی زبان میں، اسی قومی انداز میں، ہمارے سامنے ہاتھ باندھ کر بے چارگی کا نمونہ بنے، دامن پھیلا کر، ہمارے سامنے ہاتھ باندھ کر، گڑگڑا کر آنسوؤں بھری آنکھوں سے۔ دکھ سب سے بڑھ کر اس بات کا ہوتا تھا کہ ہم سے بڑھ کر غریب ممالک بھی ہیں،ہندوستان اور بنگلہ دیش سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ بھی حج اور عمرے پر جاتے ہوں گے، تو کیا ان کے ملکوں کے شہری جو وہاں گداگری کرتے ہوں گے، وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے ملکوں کے لوگوں سے بھیک مانگتے ہوں گے یا یہ لعنت صرف ہمارے ملک سے ہی وہاں تک پہنچی ہے؟ دل میں ان کے لیے غصے کے ساتھ شرمندگی کے احساس کے ابال اٹھتے۔
حیرت تو یہ ہوتی رہی کہ یہ لوگ وہاں تک پہنچے کیسے، کیا انھیں وہاں تک پہنچانے والے ایجنٹ بھکاریوں کے ویزے پر لے کر جاتے ہیں؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک سے عمرے کی نیت سے جاتے ہیں اور ان کا واپس آنے کو جی نہیں چاہتا یا ایجنٹوں نے یہ طریقہ اختراع کیا ہے کہ انھیں یہاں سے عمرہ زائرین بنا کر لے جاتے ہیں اور یہ لوگ وہاں بھیڑ میں غائب ہو جاتے ہیں۔ سال ہا سال تک وہیں رہ کر کسی نہ کسی طریقے سے سیٹل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ، اتنا عرصہ وہ حرمین میں ہی چھپے رہتے ہیں کہ وہاں کون سا کوئی پاسپورٹ یا آپ کی قانونی حیثیت چیک کر رہا ہے۔ وہیں بھیک مانگ کر نکل کر کسی ہوٹل سے کھانا کھا لیا اور رات حرم میں پڑ کر سو رہے۔ اللہ کون سا انھیں اپنے گھر سے نکالے گا۔ انھیں وہاں اس طرح کے مظاہرے کرتے ہوئے یہ سوچ کر بھی شرم نہیں آتی کہ وہ اپنے ملک کو کیسی ''نیک نامی'' دے رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر حیرت یہ ہوتی ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار کا ملک اور بیرون ملک ان مسائل سے واسطہ نہیں پڑتا یا وہ دیکھ کر اپنی نظر چرا لیتے ہیں۔ کون سا مسئلہ ہے جسے حل کرنے کی نیت ہو تو اس کا کوئی ممکنہ حل نہیں ہو گا؟ ہمارے ملک میں اس مسئلے سے انتہائی سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
یہ طبقہ جو ماضی میں شاید کبھی واقعی مجبور اور ضرورت مند طبقہ ہوتا تھا، مجھے اپنے بچپن سے بھی اگر یاد آتا ہے تو وہ فقیر تھے جو گلیوں محلوں میں صدائیں لگاتے تھے، '' جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے ،اس کا بھی بھلا!'' اب بھکاری پیشہ ور بن چکا ہے۔ آپ کسی کو دس روپے دیں تو آواز آتی ہے، '' اللہ باجی، اتنی کنجوسی اچھی نہیں... اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھ کر صرف پچاس کا نوٹ ؟ صاحب، اتنی پیاری بیگم کے ساتھ بیٹھے ہیں، میں آپ کی جگہ ہوتی تو پانچ سو سے کم کبھی نہ دیتی! رکھیں اپنے بیس روپے اپنے پاس، شرم بھی نہیں آتی غریب کی غربت کا مذاق اڑاتے ہوئے!! '' بھیک مانگنے کے نت نئے طریقے ہر روز ایجاد ہوتے ہیں، سال ہا سال تک گداگری ان کا پیشہ بن جاتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ اگر ان کی بیخ کنی کے لیے کوئی اقدام نہیں کر سکتی تو اس ناکامی کو قبول کرتے ہوئے ، تسلیم کر لے کہ جس طرح آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے آج تک ہر حکومت ناکام رہی ہے، یہ بھی ایک ایسا ہی بڑھتا ہوا مسئلہ ہے جسے آج تک کوئی حل کر سکا ہے نہ کر سکے گا۔ بہتر ہے کہ گداگری کو مستقل پیشے کے طور پر ان کے، شناختی کارڈ میں پیشے کے خانے کے طور پر شامل کردے۔ اناڑی بھکاریوں کی تربیت کے لیے ماہر گداگروں کی طرف سے تربیت کا بندوبست کریں، بلکہ ان کے ٹریننگ کے ادارے بنا دیں۔ جس طرح ان کی ترسیل سعودی عرب تک کی گئی ہے اسی طرح اور ممالک میں بھی انھیں بھجوایا جا سکتا ہے۔ یہ ملک سے ایکسپورٹ کا ایک باقاعدہ آئٹم بن سکتا ہے۔
بیرون ممالک جا کر وہ ہمارا نام مزید روشن کریں۔ انھیں اچھے طریقے سے مانگنے کی تربیت دیں تا کہ وہ ہر ایک سے اپنا تعارف بطور پاکستانی کروائیں، نت نئے طریقوں سے مانگیں ، اپنا گیٹ اپ وغیرہ بھی تبدیل کر سکیں تاکہ بار بار انھی چہروں اور انھی داستانوں کے ساتھ کسی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا۔ مانگیں اور فخر سے بتائیں کہ ہم پاکستانی ہیں اوربھیک ما نگنا ہمارا قومی شعار ہے۔