نوحۂ غم

وہ دور بھی تھا جب ملک میں کافی حد تک قانون کی حکمرانی تھی۔


Hameed Ahmed Sethi January 27, 2019
[email protected]

گزشتہ ایک ہفتے سے ملک کے میڈیا پر حکمران طبقے اور اور ان کے مخالفین کی زبانی جو دیکھنے سننے کو مل رہا ہے، اس پر ڈاکٹر یونس جاوید نے دکھی آواز میں ٹیلیفون پر ایک شعر پڑھا ہے:

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھرکی رونق

نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

یوں تو ایک بے قصور کا قتل اور وہ بھی قانون اور عوام کے محافظوں کے ہاتھوں قابل معافی نہیں لیکن لاہور سے کار میں جاتی ساہیوال کے قریب ایک فیملی کے تین اور ایک مشکوک ڈرائیور کا بہیمانہ قتل تو حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

اگرچہ صدر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سبھی نے گہرے دکھ کے اظہار کے علاوہ ملزموں کو قرار واقعی سزا دینے کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن عوام کو ایسے وعدوں سے حکمرانوں کی روگردانی کا خوب علم ہے، کیونکہ ایک ڈیڑھ سال قبل کراچی کا ایک خوبصورت نوجوان پولیس افسر کے ہاتھوں بے گناہ مارا گیا لیکن مقتول نقیب اللہ محسود کے والدین کو ابھی تک انصاف نہیں ملا اور 17 جون 2014ء کو لاہور ماڈل ٹائون میں پولیس کی کئی تھانوں کی مسلح نفری نے 14 مردوں عورتوں اور بچو کو نزدیک سے گولیاں مار کر قتل اور 80 سے زیادہ افراد کو مضروب کیا تو اسوقت جو چیف منسٹر وزیر اور CM کے سیکریٹری تھا،انھوں نے بھی اس سانحہ کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔

قتل و غارت کے اس واقعے کی بیسیوں ویڈیو فلمز موجود ہیں جن میں قاتلوں، مقتولوں کی اسلحے سمیت یہ Live Films ساری دنیا کے کروڑوں لرگوں نے بارہا دیکھی ہیں۔اگر نقیب اور ماڈل ٹائون کے مقتولوں کے باوردی قاتلوں اور ان پولیس افسروں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بروقت یا بدیر بھی سزا مل جاتی تو گزشتہ ہفتے بچوں اور ان کے والدین کا باوردیوں کے ہاتھوں قتل کا سانحہ نہ ہوتا۔

بھلے وقتوں میں یہاں دہشت گردی کا وجود نہ تھا۔ جرائم کی ماں قتل کا ذکر بھی کبھی کبھار سنتے تھے۔ ہمارے بچپن میں تو کبھی سرخ آندھی اٹھتی تو لوگ پریشان ہوکر کہتے یہ سرخ آندھی کسی جگہ قتل کی واردات کی خبر دے رہی ہے لیکن اگر یہ بات سچی نشانی ہوتی تو آج کا آسمان ہر وقت خون آلود نظر آتا۔ وقت گزرنے اور انسانی عقل کے پردے کھلنے پر قانون سازی نے انسانوں کو مہذب اور Law Abiding بنا دیا اور خدائی منشا کے مطابق جزا اور سزا کا نظام دنیا میں رائج ہو گیا۔

لاء انفورسمنٹ ایجنسیز معرض وجود میں آنے کے ساتھ عدالتوں کا قیام بھی عمل میں آ گیا لیکن عوام اور امن و انصاف پسند انسان ہی نہیں انصاف دینے والے محترم جج اور ہمارے ملک کے چیف جسٹس بھی بول اٹھے ہیں کہ جج وکیل اورموکل ہرسہ نے نظام عدل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے اور ان تینوں میں سب سے زیادہ قصور وار عدلیہ بذات خود ہے۔ اگر کسی کو اس پر شک ہے تو کسی بھی جج کی ماہانہ کارکردگی کا جائزہ لے دیکھے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کی ماہانہ کارکردگی رپورٹ مہینے کے آخری دن متعلقہ جج صاحب اپنی ہی عدالت کے باہر لگی، Cause List کے برابر بورڈ پر چسپاں کر دیا کریں۔ عین ممکن ہے چیف صاحب ہی اس تجویز کا نوٹس لے لیں جس میں مقصد شفافیت ہے۔

ایک وقت تھا جب پورے ضلع کی عدلیہ اور انتظامیہ میں صرف دو کالی بھیڑوں کی نشاندہی ناممکن ہوتی تھی۔ دودھ کے دھلے تب بھی سب کے سب نہیں ہوتے تھے لیکن آج اگر پورے ضلع میں دو نیک پاک افسروں کی تلاش کرنا پڑے تو بے حد محنت درکار ہو گی۔ بھلے وقتوں میں دہشتگردی نہ تھی، اغوا برائے تاوان مفقود تھا۔ بیوروکریسی نیک نام تھی۔ پولیس مقابلے نہیں ہوتے تھے۔ کافی حد تک قانون کی حکمرانی تھی، مذہبی جماعتیں نیکی کا درس دیتی تھیں۔ نہ کہ پیسے اور طاقت کے لیے مذہب کو استعمال کرتیں۔

پولیس کا کام امن عامہ قائم رکھنا، شہریوں کی حفاظت اور جرائم پیشہ افراد کی سرکوبی تھا نہ کہ جرائم پیشہ افراد کی پرورش اور بھتہ خوری اور معصوموں کی خواری، حکمران الیکشن پر ہونے والے اخراجات کی Recovery کرتے تھے لیکن طریقے اور سلیقے سے نہ کہ لوٹ مار سے جس کے نتیجے میں وہ کرپشن میں لتھڑے ہر کسی کو نظر آئیں۔ ملک میں صحت اور تعلیم کا نظام بھی بہتر تھا۔ اگرچہ روزگار کے لیے نقل مکانی بھی کافی تھی جس کا نتیجہ ترسیل زر تھا نہ کہ دولت کا فرار۔ ایک محکمہ فیملی پلاننگ تھا جس کا مقصد بے کار اور بیمار آبادی پر کنٹرول تھا تاکہ پاکستان دنیا کا انسانی آبادی کے حوالے سے پانچواں بڑا اور گدھوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرا ملک نہ بن جائے۔

لاہور سے ساہیوال کی طرف جانے والی موٹر کار جس میں ڈرائیور کے علاوہ ایک شادی میں شرکت کے لیے جانے والی فیملی کے چھ افراد سوار تھے۔ Couner Terrorism Department (CTD) کی پارٹی کی نظروں میں آگئی کہ اس میں دہشتگرد سوار ہیں۔ اس میں کوئی جرح نہیں جو CTD کے افراد نے ان کا پیچھا کیا ان کا فرض تھا کہ انھیں روک کر ایکشن لیتے۔ ہر طرح اپنی تسلی کرتے اور حسب ضرورت گرفتار بھی کر لیتے۔

تفتیش کے بعد مناسب اقدام کرتے اور مشکوک شخص کی وساطت سے مزید دہشتگردوں تک رسائی پاتے۔ لیکن CTD والوں نے کار میں سوار اپنی اطلاع پر ایک مشکوک کار ڈرائیور کو حراست میں لے کر تفتیش کرنے کی بجائے اس سمیت تین سواریوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے قتل کر دیا۔ یہ اقدام بعید از فہم تو ہے لیکن قتل عمد بنتا ہے۔ اگر یہ اقدام فاتر العقل CTD اہلکاروں نے اٹھایا تو الگ بات لیکن صریحاً نالائقی اور دہشتگردی بنتا ہے اور اس کی وجہ اسی قسم کی دہشتگردی پر سخت اقدام کا ماضی میں گریز ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بلاتاخیر شفاف تفتیش اور دکھائی دینے والا انصاف ہو۔

وہ دور بھی تھا جب ملک میں کافی حد تک قانون کی حکمرانی تھی۔ لاء اینڈ آرڈر قائم کرنے والی اتھارٹی صرف EqualEqiova فورس استعمال کرسکتی تھی۔ پتھر کا جواب گولی سے نہیں دیا جا سکتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ لاٹھی چارج سے دیا جاتا تھا۔ جلسے جلوس ہنگامے کے وقت ڈیوٹی مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر لاٹھی چارج کی اجازت بھی نہ تھی۔ پرانی بات ہے وہاں میں بھی موجود تھا جب لیاقت باغ راولپنڈی کے سامنے ایک ہنگامہ ہو رہا تھا کہ ڈیوٹی مجسٹریٹ نے پولیس کو فائر کھولنے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں ایک شخص مارا گیا۔ وہ سینئر مجسٹریٹ گرفتار کر لیا گیا تھا۔

(نوٹ) میریے گزشتہ اتوار والے کالم میں ملک کے دس نشان حیدر کا اعزاز پانے والے شہدا کا ذکر مقصود تھا لیکن آٹھ بہادروں کا ذکر ہو سکا جن دو شہیدوں کے کارناموں کی اشاعت نہ ہوئی وہ درج ذیل ہے۔

سیکنڈ لیفٹیننٹ کیپٹن کرنل شیر خاں لائن آف کنٹرول پر کارگل کی Conflict کے دوران منظر عام پر آئے جب انھوں نے دشمن کی صفوں میں تباہی مچا دی۔ انھوں نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پانچ اہم پوائنٹس کا مضبوط دفاع کیا جن کی بلندی 17000 فٹ تھی اور کئی حملوں کو پسپا کیا۔ کئی ناکام حملوں کے بعد دشمن نے دو بٹالین فوج اور گولے بارود کے ساتھ پوسٹ کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا لیکن کیپٹن شیرخان نے جوابی حملہ کر کے کارگل کی پوسٹ دوبارہ حاصل کر لی۔ صوبہ سرحد کے واحد نشان حیدر پانے والے شیر خان کو حملے کے دوران مشین گن کا فائر لگا جو جان لیوا ثابت ہوا۔

حوالدار لالک جان وہ جونیئر جنگ جُو تھا جو Forefrout پر آکر انڈین حملوں کو پسپا کرتا تھا۔ وہ خود کو اگلی صفوں سے لڑ کر دشمن کی صفوں کو روندنے کی شہرت رکھتا تھا اور مخالفوں کو شدید نقصان پہنچانے کی حکمت عملی اپناتا تھا۔ لالک جان 7 جولائی کو ایک Mortar شیل لگنے سے شدید زخمی ہو گیا۔ لیکن اپنی پوزیشن برقرار رکھ کر دشمن کے حملوں کو ناکام بناتا رہا۔ لیکن اپنی پوسٹ کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں