کارکردگی میں تسلسل کا خواب ادھورا
گرین شرٹس کی جنوبی افریقہ میں مہم جوئی جاری
پاکستان کرکٹ ٹیم کا جنوبی افریقی دورہ اختتام کی جانب گامزن ہے، ٹیسٹ سیریز میں نتائج توقعات کے برعکس یوں رہے کہ گرین کیپس سے امید تھی کہ شاید کوئی ایک ٹیسٹ وہ ڈرا کرنے میں 'کامیاب' رہیں مگر وائٹ واش کی خفت سے دوچار ہونے کے بعد ٹیم کی توجہ ون ڈے سیریز کی جانب مبذول ہوگئی۔
محدود اوورز کے اسپیشلسٹس نے بھی ٹیم کو جوائن کیا جس کا نتیجہ پہلے میچ میں کامیابی کی صورت میں برآمد ہوا، جس میں بڑا ہاتھ کنڈیشنز کا بھی تھا جوکہ 'ہوم' جیسی ہی تھیں لیکن اس کے بعد دوسرے میچ میں میزبان پیسرز کی شارٹ پچ بالز کے سامنے ٹیم سرنگوں ہوگئیں اور جب تیسرے میچ میں کچھ بیٹنگ چلی بھی تو بارش نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے نتیجہ پروٹیز کی جھولی میں ڈال دیا جس سے ان کو سیریز میں برتری بھی حاصل ہوگئی۔
اب گرین شرٹس کو ایک روزہ ٹرافی اپنے ہاتھوں میں اٹھانے کیلئے باقی دونوں میچز جیتنا ہوں گے، یہ بات درست ہے کہ 'کرکٹ بائی چانس ہے' مگر معذرت کے ساتھ جس ٹیم کے کھلاڑی اپنے انفرادی کھیل پر زیادہ توجہ دے رہے ہوں اس کو بہت کم ہی 'چانس'ملتے ہیں، ایسے میں 'تکے' لگ جائیں تو اور بات ہے۔
پاکستان کی بیٹنگ کارکردگی میں عدم تسلسل کا شکار ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی اس کا یہی طور اور طریقہ ہے، جب محسوس ہوتا ہے کہ اب پاکستان کی بیٹنگ سنبھلنے لگی ہے تو اگلے ایک دو میچز میں توقعات کے غبارے سے یوں ہوا نکلتی ہے کہ شائقین کرکٹ بال نوچ کر رہ جاتے ہیں مگر ٹیم اور اس کی مینجمنٹ کے کانوں پر شاید جوں تک نہیں رینگتی، وہ آنے والے کسی ایونٹ کو اپنا ہدف قرار دے کر شائقین کو نئے 'سبزباغ' کی سیر کو بھیج دیتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کو اس کی ایک اچھی اننگز پر ہی درجنوں اننگز کھلا دی جاتیں اور امید یہ رکھی جاتی ہے کہ بس اب فارم جاگی کہ اب جاگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر سیریز میں صرف ایک آدھ ففٹی پلس اننگز کو فارم نہیں کہتے ، فارم کا مطلب ہے کہ مسلسل ففٹی پلس یا اس کے آس پاس کھیلنا، جیسا کہ نیوزی لینڈ کے سینئر ترین بیٹسمین روس ٹیلر کھیل رہے ہیں، جیسا کہ بھارت کے ویرات کوہلی اور دیگر سٹار کرکٹرز کھیلتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ہمارے سارے کھلاڑی 'نکمے' ہیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ 'ڈراپ' نہ ہونے کا اطمینان ہی دراصل ان کو سہل پسندی کا شکار کرتا ہے، اکثر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ کسی بھی پلیئر پر دباؤ جب زیادہ بڑھنے لگتا ہے تو وہ ایک اچھی اننگز کھیلتا اور مزید کچھ میچز کیلئے 'کمفرٹ زون' میں چلا جاتا ہے۔
جہاں تک ٹیم مینجمنٹ کی بات ہے تو اس میں 'خوف کا بت' توڑنے کی ہمت ہی نہیں، یہ خوف کئی طرح کا ہوسکتا ہے، کسی سینئر بیٹسمین کو کھلا کر جونئیر کو موقع دیا اور وہ نہ چل پایا تو پھر تنقید شروع ہوجائے گی، کسی کے 'رشتہ دار' کو ناقص کھیل پر باہر بٹھایا تو وہ آپ کے 'چہیتے' کو باہر بٹھاسکتا ہے اور بھی کئی چیزیں ہیں جوکہ خاص طور پر ہیڈ کوچ کے بھی ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اوپر سے ہمارے کھلاڑی خیر سے اتنے نازک مزاج ہیں کہ خراب کارکردگی پر تھوڑی سی ڈانٹ کیا پڑگئی کہ منہ ہی سجاکر بیٹھ گئے جبکہ ان کو تو آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر خود سے پوچھنا چاہیے کہ 'کیا یہ ہے وہ کارکردگی جس کی بنا پر 22 کروڑ عوام کی نمائندگی آپ کو سونپی گئی۔
ورلڈکپ سے قبل قومی ٹیم کو کئی مسائل پر قابو پانا اور کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا، گزشتہ میچ میں بیٹنگ نے 300سے زائد رنز کئے تو بولرز ریزا ہینڈرکس اور فاف ڈوپلیسی کے سامنے بے بس نظر آئے، اگر پہلی بار بارش کی وجہ سے کھیل کا تعطل ختم ہونے کے بعد ہی رن ریٹ قابو میں رکھا جاتا تو پاکستان میچ جیت بھی سکتا تھا، فخر زمان اس ٹور میں ٹیسٹ کے بعد ون ڈے میں بھی ابھی تک ناکام ثابت ہوئے ہیں، جارح مزاج بیٹسمینوں کے ساتھ دو بڑے مسائل ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ ان کا گیم جلد حریف سائیڈ کو سمجھ میں آجاتا اور وہ اس کا توڑ کرلیتے ہیں اور جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر پریشر میں آکر وہ سست روی سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مزاج اس طرف راغب نہ ہونے کے باعث زیادہ بالز کا سامنا کرنے کے باوجود کم اسکور پر آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ فخر کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ آگے پی ایس ایل آرہی، وہ اس میں ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوکر اپنا 'نیچرل' کھیل پیش کرتے ہوئے اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔
جہاں تک بات امام الحق کی ہے تو انھوں نے تیسرے ون ڈے میں سنچری کی تکمیل پر جو کام کیا ہے وہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں تھا، وہ چاہے مانیں یا نہ مانیں حقیقت یہی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے چچا کی وجہ سے ہی ٹیم میں آئے اور پورے کیریئر کے دوران یہ چھاپ ان پر موجود رہے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس تواتر کے ساتھ ان کو مواقع مل رہے ہیں اس میں ہر چار میچز میں ناکامی کے بعد ایک 'بڑی اننگز' کھیل بھی لی تو ایسی اننگز کا کیا فائدہ؟ امام کے لیے بہتر ہے کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ دیں۔
محدود اوورز کے اسپیشلسٹس نے بھی ٹیم کو جوائن کیا جس کا نتیجہ پہلے میچ میں کامیابی کی صورت میں برآمد ہوا، جس میں بڑا ہاتھ کنڈیشنز کا بھی تھا جوکہ 'ہوم' جیسی ہی تھیں لیکن اس کے بعد دوسرے میچ میں میزبان پیسرز کی شارٹ پچ بالز کے سامنے ٹیم سرنگوں ہوگئیں اور جب تیسرے میچ میں کچھ بیٹنگ چلی بھی تو بارش نے رنگ میں بھنگ ڈالتے ہوئے نتیجہ پروٹیز کی جھولی میں ڈال دیا جس سے ان کو سیریز میں برتری بھی حاصل ہوگئی۔
اب گرین شرٹس کو ایک روزہ ٹرافی اپنے ہاتھوں میں اٹھانے کیلئے باقی دونوں میچز جیتنا ہوں گے، یہ بات درست ہے کہ 'کرکٹ بائی چانس ہے' مگر معذرت کے ساتھ جس ٹیم کے کھلاڑی اپنے انفرادی کھیل پر زیادہ توجہ دے رہے ہوں اس کو بہت کم ہی 'چانس'ملتے ہیں، ایسے میں 'تکے' لگ جائیں تو اور بات ہے۔
پاکستان کی بیٹنگ کارکردگی میں عدم تسلسل کا شکار ہے اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ ہمیشہ سے ہی اس کا یہی طور اور طریقہ ہے، جب محسوس ہوتا ہے کہ اب پاکستان کی بیٹنگ سنبھلنے لگی ہے تو اگلے ایک دو میچز میں توقعات کے غبارے سے یوں ہوا نکلتی ہے کہ شائقین کرکٹ بال نوچ کر رہ جاتے ہیں مگر ٹیم اور اس کی مینجمنٹ کے کانوں پر شاید جوں تک نہیں رینگتی، وہ آنے والے کسی ایونٹ کو اپنا ہدف قرار دے کر شائقین کو نئے 'سبزباغ' کی سیر کو بھیج دیتے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی کھلاڑی کو اس کی ایک اچھی اننگز پر ہی درجنوں اننگز کھلا دی جاتیں اور امید یہ رکھی جاتی ہے کہ بس اب فارم جاگی کہ اب جاگی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر سیریز میں صرف ایک آدھ ففٹی پلس اننگز کو فارم نہیں کہتے ، فارم کا مطلب ہے کہ مسلسل ففٹی پلس یا اس کے آس پاس کھیلنا، جیسا کہ نیوزی لینڈ کے سینئر ترین بیٹسمین روس ٹیلر کھیل رہے ہیں، جیسا کہ بھارت کے ویرات کوہلی اور دیگر سٹار کرکٹرز کھیلتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ہمارے سارے کھلاڑی 'نکمے' ہیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ 'ڈراپ' نہ ہونے کا اطمینان ہی دراصل ان کو سہل پسندی کا شکار کرتا ہے، اکثر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ کسی بھی پلیئر پر دباؤ جب زیادہ بڑھنے لگتا ہے تو وہ ایک اچھی اننگز کھیلتا اور مزید کچھ میچز کیلئے 'کمفرٹ زون' میں چلا جاتا ہے۔
جہاں تک ٹیم مینجمنٹ کی بات ہے تو اس میں 'خوف کا بت' توڑنے کی ہمت ہی نہیں، یہ خوف کئی طرح کا ہوسکتا ہے، کسی سینئر بیٹسمین کو کھلا کر جونئیر کو موقع دیا اور وہ نہ چل پایا تو پھر تنقید شروع ہوجائے گی، کسی کے 'رشتہ دار' کو ناقص کھیل پر باہر بٹھایا تو وہ آپ کے 'چہیتے' کو باہر بٹھاسکتا ہے اور بھی کئی چیزیں ہیں جوکہ خاص طور پر ہیڈ کوچ کے بھی ہاتھ باندھے ہوئے ہیں۔ اوپر سے ہمارے کھلاڑی خیر سے اتنے نازک مزاج ہیں کہ خراب کارکردگی پر تھوڑی سی ڈانٹ کیا پڑگئی کہ منہ ہی سجاکر بیٹھ گئے جبکہ ان کو تو آئینے کے سامنے کھڑا ہوکر خود سے پوچھنا چاہیے کہ 'کیا یہ ہے وہ کارکردگی جس کی بنا پر 22 کروڑ عوام کی نمائندگی آپ کو سونپی گئی۔
ورلڈکپ سے قبل قومی ٹیم کو کئی مسائل پر قابو پانا اور کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا، گزشتہ میچ میں بیٹنگ نے 300سے زائد رنز کئے تو بولرز ریزا ہینڈرکس اور فاف ڈوپلیسی کے سامنے بے بس نظر آئے، اگر پہلی بار بارش کی وجہ سے کھیل کا تعطل ختم ہونے کے بعد ہی رن ریٹ قابو میں رکھا جاتا تو پاکستان میچ جیت بھی سکتا تھا، فخر زمان اس ٹور میں ٹیسٹ کے بعد ون ڈے میں بھی ابھی تک ناکام ثابت ہوئے ہیں، جارح مزاج بیٹسمینوں کے ساتھ دو بڑے مسائل ہوتے ہیں، ایک تو یہ کہ ان کا گیم جلد حریف سائیڈ کو سمجھ میں آجاتا اور وہ اس کا توڑ کرلیتے ہیں اور جب ایسا ہونے لگتا ہے تو پھر پریشر میں آکر وہ سست روی سے کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر مزاج اس طرف راغب نہ ہونے کے باعث زیادہ بالز کا سامنا کرنے کے باوجود کم اسکور پر آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ فخر کیلئے اچھی بات یہ ہے کہ آگے پی ایس ایل آرہی، وہ اس میں ہر قسم کے خوف سے آزاد ہوکر اپنا 'نیچرل' کھیل پیش کرتے ہوئے اعتماد بحال کرسکتے ہیں۔
جہاں تک بات امام الحق کی ہے تو انھوں نے تیسرے ون ڈے میں سنچری کی تکمیل پر جو کام کیا ہے وہ کسی طور پر بھی مناسب نہیں تھا، وہ چاہے مانیں یا نہ مانیں حقیقت یہی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے چچا کی وجہ سے ہی ٹیم میں آئے اور پورے کیریئر کے دوران یہ چھاپ ان پر موجود رہے گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس تواتر کے ساتھ ان کو مواقع مل رہے ہیں اس میں ہر چار میچز میں ناکامی کے بعد ایک 'بڑی اننگز' کھیل بھی لی تو ایسی اننگز کا کیا فائدہ؟ امام کے لیے بہتر ہے کہ وہ دوسروں کو نیچا دکھانے کے بجائے اپنے کھیل پر توجہ دیں۔