مٹی
جھوٹ کی وادی میں،حقیقت اورسچ کے پیڑ لگانا بہت مہنگا پڑتا ہے
عرصے کے بعدتاندلیانوالہ جانے کااتفاق ہوا۔ شاید چارسال سے زیادہ یااس سے بھی طویل وقت گزرنے کے بعد۔ویسے وقت کی سب سے ظالم بات یہ ہے کہ گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ڈھلتی ہوئی عمرمیں تودن،لمحوں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔مہینے چندگھنٹے بن جاتے ہیں اورسال بس پل جھپکتے ہی بسرہوجاتے ہیں۔وقت گزرنے کے آثار انسانی چہروں پرجھریوں کی شکل میں نظرآتے ہیں۔ذہن میں خوشی اورغمی کی خندقیں بناکرخاموش ہوجاتے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ فیصل آبادنام کا کوئی شہرہی نہیں تھا۔
لائل پورشہرانگریزوں نے آباد کیاتھا۔آبادکاروں کا شہر۔ پھر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کے شہیدہونے کے بعد شہرکوانھی کے نام سے منسوب کردیاگیا۔ویسے یہ عجیب وغریب سرکاری حرکت صرف ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ہوسکتی ہے۔
درست ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے اَزحد بہتر تعلقات ہیں۔مگرمجھے یادنہیں پڑتاکہ دنیا کے کسی ملک نے کسی پاکستانی لیڈرکے مرنے کے بعد اپنے کسی شہرکانام اس کے نام سے تبدیل کیا ہو۔ کیا بھٹوصاحب اورجنرل ضیاء کے دنیا سے گزرجانے کے بعدہمارے بہترین دوست ممالک نے اپنے شہروں کانام تبدیل کیاتھا۔خیر،اب اس بحث کا کوئی جواز نہیں۔ ذاتی طورپرمیں فیصل آبادکا نہیں بلکہ لائل پورکے نام میں زیادہ اُنسیت محسوس کرتاہوں۔ممکن ہے کہ فیصل آباد کے نئے باسیوں کویہ جذباتی وابستگی درست نہ لگے لیکن شہروں اورملکوں پران کے ناموں کی حددرجہ تاثیرہوتی ہے۔ یہ تاثیرانسانوں پر بھی ہوتی ہے۔لائل پور،فیصل آباد بن گیا۔اب کچھ نہیں ہوسکتا۔شایدہونابھی نہیں چاہیے۔
گزشتہ دن محسوس ہواکہ وسطی پنجاب میں اب روایتی قصبے ختم ہوچکے ہیں۔اب چھوٹے چھوٹے شہروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ایسے شہرجنکی آبادی یورپ کے درمیانے درجے کے شہروں سے بھی حد درجہ زیادہ ہے۔گمان ہے کہ تاندلیانوالہ کی آبادی اب چارپانچ لاکھ ہوگی یاشایداس سے بھی زیادہ۔ مگرنصف صدی قبل،یہ ایک چھوٹاساقصبہ تھا۔ اختصارکے ساتھ تاندلہ منڈی کہاجاتاتھا۔شہرکے عین درمیان میں غلے کی ایک وسیع وعریض منڈی تھی۔ اردگرد پکی دیوارتھی اوراس میں لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔
کناروں پرآڑتھیوں کی دکانیں موجودتھیں۔دکانوں کے سامنے پختہ فرش پر غلہ اور بوریاں موجودہوتی تھیں۔ شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوکہ بچپن میں اس قصبے میں رہا ہوں۔ بالکل نہیں۔میں لائل پورمیں پیداہوا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدکیڈٹ کالج حسن ابدال چلا گیا۔ تاندلیاوالہ سال میں صرف دویاتین بارآنے کا اتفاق ہوتا تھا۔وہ بھی چنددنوں کے لیے۔تقسیم کے بعدمیرے دادا، راؤ اختر پاکستان آئے تو خاندان سمیت تاندلہ منتقل ہوگئے۔ راؤ اختر، حد درجہ سخت گیرانسان تھے۔اس طرح کے لوگ اب کم نظرآتے ہیں۔ ویسے اُس وقت بھی بہت کم تھے۔ ان کومقامی زبان میں ''راٹھ راجپوت''یاراٹھ رانگڑ کہا جاتا ہے۔ راؤ اختر کی ذہن میں مکمل تصویر موجود ہے۔ انتہائی بارعب شخصیت، درمیانے درجے کی داڑھی اور لمبی لمبی مونچھیں۔ہاتھ میں اکثرایک عصاہوتا تھا۔
کُرتے پاجامہ میں زیب تن،یہ انسان رعب اور دبدبے کی ایک اچھی مثال تھا۔ مالی حالات مہاجرین کے کیا ہونگے۔جوزرعی زمین ملی،اس پر محنت کی اور خدا نے راستے آسان کردیے۔جب بھی عید پر جانے کا اتفاق ہوتاتھا تو داداجی،ہمیشہ اپنے بڑے سے مکان کی بیٹھک میں لوگوں سے گھرے ہوتے تھے۔ان کی حیثیت ایک سرپنچ کی تھی۔عام لوگوں کے مسائل حل کرنا، مسافروں کے لیے گھرسے باہر رہنے کامناسب انتظام کرنا اور مقامی سیاست میں عمل دخل ہمیشہ سے انکاوطیرہ رہا تھا۔ یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں بی ڈی کا نظام شروع ہوا تھا۔ راؤ اختر بی ڈی ممبرتھے۔اَنااوردبدبے کا یہ عالم تھاکہ لائل پور کے ڈپٹی کمشنر، تاندلہ کی میونسپل کمیٹی کے دورے پر آیا،وہاں آکر کہاکہ شہرکے بی ڈی ممبران کو بلایا جائے۔کمیٹی کے عملہ نے مشورہ کیاکہ راؤاخترنہیں آئینگے۔
کیونکہ اکثرافسران ملاقات کے لیے ان کے گھرجاتے ہیں اور انھیں ایک دودن پہلے بتانا پڑتا ہے۔ڈپٹی کمشنرنیاتھا۔یقین ہی نہ آیاکہ ضلع میں ایک ایسا معتبرشخص بھی ہے جواس کے بلانے پربھی نہیں آتا اور اسے پہلے بتانا پڑتا ہے۔خیرکمیٹی سے ہر کارہ ڈرتے ڈرتے ہمارے آبائی مکان پرآیا۔ راؤ اختر دوپہرکوآرام کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ ڈپٹی کمشنرصاحب ملاقات کے لیے بلارہے ہیں۔ دادانے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ یہ میرے آرام کرنے کاوقت ہے۔ اگر صاحب ملناچاہتے ہیں تو دوپہرکے بعدگھرتشریف لے آئیں۔جب یہ جواب ڈی سی کو پہنچاتووہ اَزحدحیران ہوا۔ ملنے کے لیے خود آیا اور اس کے بعدیہ ملاقات،ذاتی تعلق میں بدل گئی۔ دراصل روایتی بزرگ تقریباًایک جیسے ہوتے تھے۔
اولادکے ساتھ سختی کارویہ روا رکھناعام تھا۔میرے والدیعنی راؤ حیات سب سے بڑے تھے۔وہ بھی دادامرحوم کے سامنے انتہائی احتیاط سے گفتگو کرتے تھے۔ چچا سلیمان، چچا عبدالرحیم، چچا اسلم اور چچا اکرم تو باقاعدہ داداسے گھبراتے تھے۔ ویسے چچا سلیمان انتہائی مدہم اورشائستہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہرایک سے بڑی محبت اورخلوص سے پیش آتے تھے۔چچااسلم،فیصل آبادکے نامور وکیل بنے۔جوانی میں انتقال ہوگیا۔جب تک زندہ رہے پنجاب بار کونسل کے ممبررہے۔اس الیکشن میں انھیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔ چچا عبدالرحیم جوانی میں سیلانی طبیعت کے مالک تھے۔بچوں سے خوب شرارتیں کرتے تھے۔ تاندلیا نوالہ سے سمندری منتقل ہوگئے اوروہاں بہت اچھی وکالت کی۔ اب پیرانہ سالی کا شکار ہے اوراکثربیماررہتے ہیں۔چچااکرم ماشاء اللہ صحت مند ہیں۔ کل کی تقریب انھی کے ایک بیٹے کا ولیمہ تھااورسب سے چھوٹی بیٹی کی بارات تھی۔
تاندلیانوالہ جاکرترقی کاایک بھرپوراحساس ہوا۔ ستیانہ روڈسے آئیںتوخوشگوارحیرت ہوتی ہے۔انتہائی خوبصورت سڑکیں اورہرطرف دکانیں ہی دکانیں۔تحصیل کے سرکاری اسپتال کے سامنے سے گزراتومعلوم ہواکہ یہ بھی کافی حد تک بہترطریقے سے کام کررہاہے۔سرکاری ایمبولینس بھی موجود تھی اورایمرجنسی وارڈمیں ڈاکٹربھی۔یہ کہنا تومبالغہ آرائی ہوگی کہ وہ ایک بہت اچھااسپتال ہے۔ مگر موجودہ حالات میں ابتدائی طبی امدادکے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔نہرکے ساتھ ساتھ زندگی کے بھرپورآثارتھے۔جب شادی گھر پہنچا تو جدیدطرزکی ایک عمارت سامنے موجودتھی۔
وسیع وعریض ہال اور بہت اعلیٰ فرنیچردیکھ کراحساس ہواکہ اب شادیوں کی تقاریب منعقد کرنا کتناآسان اور بہتر ہوچکا ہے۔ ہاں، نہر کے ساتھ اسکولوں سے چھٹی کاوقت تھا۔ درجنوں کی تعدادمیں طلباء اورطالبات گھر جارہے تھے۔اسکولوں کی چھٹی کے وقت ہرطرف بچے ہی بچے تھے۔ویسے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ہرطرف انسانی سرہی سر نظر آتے ہیں۔نوجوان نسل کے لیے روزگارکیسے مہیا کرینگے۔ اس جہت پر سوائے خاموشی کے اورکچھ نہیں ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اتنی کثیرآبادی کوباعزت روزگار دیناتقریباًناممکن ہے۔مگریہ سچ تسلیم کرنابے حدمشکل کام ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں سچ بولناویسے ہی ایک مشکل عمل ہے۔یہاں سچ بولنے والے، اکثرمشکلات کا شکار نظرآتے ہیں۔جھوٹ کی وادی میں،حقیقت اورسچ کے پیڑ لگانا بہت مہنگاپڑتاہے۔
شادیوں کاایک خوبصورت پہلویہ بھی ہے کہ خاندان کے ہرفردسے ملاقات ہوجاتی ہے۔چچا اکرم کابڑا بیٹا شہزاد، امریکا سے آیا ہواتھا۔حددرجہ انکساری سے بات کرتا ہے۔ امریکا کی شائستگی اس کی شخصیت میں جھلکنے لگی ہے۔ ہاں، پھوپھامجاہدسے بھی نشست رہی۔انھیں مجاہد بھائی کہتا ہوں۔ اسکول میں مجھ سے تین سال سینئر تھے۔ اس لیے رشتے داری سے زیادہ دوستی ہے۔بھائی مجاہدایک وجیہہ انسان ہیں۔ سمندری میں ایسے بسے کہ پھرباہرنکل کرنہیں دیکھا۔ ان کے ساتھ دوستی اوربے تکلفی کانایاب رشتہ ہے۔ انکابیٹااب میونسپل کمیٹی کا چیئرمین ہے۔بھائی مجاہدکی اولادانکاروایتی اندازمیں دلی ادب کرتی ہے۔ ویسے شایدابھی ہم ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہیں،جن میں چھوٹے اپنے بڑوں کی بھرپور عزت کرتے ہیں۔یہ روایت اب کافی حد تک ختم ہوتی جارہی ہے۔
بھائی مجاہدنے بھی اپنی طرزکی شاہانہ زندگی گزاری ہے۔بچپن سے لے کرآج تک،ایک ملازم ہروقت ان کی اردل میں موجود ہوتاہے۔وہ روبوٹ کی طرح مجاہدبھائی پر نظر رکھتا ہے۔پانی کاگلاس پکڑاناہو،کھانے کی پلیٹ پہنچانی ہو، طعام کے بعدبرتن اُٹھانے ہوں۔یہ سب کام ان کا ملازم احسن طریقے سے سرانجام دیتاہے۔کل بھی، نیلی ٹوپی پہنے ہوئے ایک خدمت گارموجودتھا۔گاڑی میں بھی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتاہے۔بھائی مجاہد ایک بڑے زمیندارہیں۔ویسے بھٹوکی ریفارمزمیں ان کے والدکی کافی زمین،سرکارنے ضبط کرلی تھی۔مگر آج بھی بھائی مجاہدکے پاس کافی آبائی رقبہ ہے۔ تیس برس پہلے وہ بھی سمندری کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔مگرکل کی بات لگتی ہے۔
قاسم،ہشام،طاہر،عمران،سب سے ملاقات رہی۔ چچا عبدالرحیم کابڑابیٹا،آصف،امریکا سے صرف اورصرف کاشف کی سیاست کوسہارادینے کے لیے نوسال پہلے سمندری آگیا۔جب میںسیکرامینٹو (Sacramanto) گیا تو آصف کافی بہترزندگی گزاررہاتھا۔سیکرامینٹوسے سمندری آنابے حد دشوارفیصلہ تھا۔ مگر راؤ کاشف ایم پی اے بن چکا تھا۔اس کی مصروفیت کے پیش نظر، مقامی سطح پرایک منجھے ہوئے فردکی ضرورت تھی جوشہرمیں لوگوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہے۔آصف نے جس محنت سے کام کیا، وہ کم ازکم میرے لیے باعث حیرت بھی تھی اورباعث تسکین بھی۔ میرے چچا ذاد بھائی راؤکاشف،دس سال مسلسل سمندری سے ایم پی اے رہا۔جتنی ترقی اس نے اپنے حلقے میں کروائی، وہ پورے صوبے کے لیے مثالی ہے۔
سڑکوں کا جال، اسٹیڈیم، اسپتال کی ترقی اور دیگر معاملات حددرجہ ایماندارانہ طریقے سے انجام دیے۔وہ چند سیاستدانوں میں سے ہے۔جنکی ایمانداری ضرب المثل ہے۔ جب میں واپس آرہا تھا تو فضا میں اپنے دادا، والد اور چچا کی اَن دیکھی تصویر ڈھونڈ رہا تھا۔ اس مٹی میں میرے عزیز ترین رشتے مٹی اوڑھے سورہے ہیں۔اس مٹی سے کم ازکم میں تو ناتا نہیں توڑ سکتا۔ شایدعمرگزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی بے حد اہم ہوجاتی ہے!
لائل پورشہرانگریزوں نے آباد کیاتھا۔آبادکاروں کا شہر۔ پھر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل کے شہیدہونے کے بعد شہرکوانھی کے نام سے منسوب کردیاگیا۔ویسے یہ عجیب وغریب سرکاری حرکت صرف ہمارے جیسے ملکوں میں ہی ہوسکتی ہے۔
درست ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے اَزحد بہتر تعلقات ہیں۔مگرمجھے یادنہیں پڑتاکہ دنیا کے کسی ملک نے کسی پاکستانی لیڈرکے مرنے کے بعد اپنے کسی شہرکانام اس کے نام سے تبدیل کیا ہو۔ کیا بھٹوصاحب اورجنرل ضیاء کے دنیا سے گزرجانے کے بعدہمارے بہترین دوست ممالک نے اپنے شہروں کانام تبدیل کیاتھا۔خیر،اب اس بحث کا کوئی جواز نہیں۔ ذاتی طورپرمیں فیصل آبادکا نہیں بلکہ لائل پورکے نام میں زیادہ اُنسیت محسوس کرتاہوں۔ممکن ہے کہ فیصل آباد کے نئے باسیوں کویہ جذباتی وابستگی درست نہ لگے لیکن شہروں اورملکوں پران کے ناموں کی حددرجہ تاثیرہوتی ہے۔ یہ تاثیرانسانوں پر بھی ہوتی ہے۔لائل پور،فیصل آباد بن گیا۔اب کچھ نہیں ہوسکتا۔شایدہونابھی نہیں چاہیے۔
گزشتہ دن محسوس ہواکہ وسطی پنجاب میں اب روایتی قصبے ختم ہوچکے ہیں۔اب چھوٹے چھوٹے شہروں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ایسے شہرجنکی آبادی یورپ کے درمیانے درجے کے شہروں سے بھی حد درجہ زیادہ ہے۔گمان ہے کہ تاندلیانوالہ کی آبادی اب چارپانچ لاکھ ہوگی یاشایداس سے بھی زیادہ۔ مگرنصف صدی قبل،یہ ایک چھوٹاساقصبہ تھا۔ اختصارکے ساتھ تاندلہ منڈی کہاجاتاتھا۔شہرکے عین درمیان میں غلے کی ایک وسیع وعریض منڈی تھی۔ اردگرد پکی دیوارتھی اوراس میں لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔
کناروں پرآڑتھیوں کی دکانیں موجودتھیں۔دکانوں کے سامنے پختہ فرش پر غلہ اور بوریاں موجودہوتی تھیں۔ شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال ہوکہ بچپن میں اس قصبے میں رہا ہوں۔ بالکل نہیں۔میں لائل پورمیں پیداہوا۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعدکیڈٹ کالج حسن ابدال چلا گیا۔ تاندلیاوالہ سال میں صرف دویاتین بارآنے کا اتفاق ہوتا تھا۔وہ بھی چنددنوں کے لیے۔تقسیم کے بعدمیرے دادا، راؤ اختر پاکستان آئے تو خاندان سمیت تاندلہ منتقل ہوگئے۔ راؤ اختر، حد درجہ سخت گیرانسان تھے۔اس طرح کے لوگ اب کم نظرآتے ہیں۔ ویسے اُس وقت بھی بہت کم تھے۔ ان کومقامی زبان میں ''راٹھ راجپوت''یاراٹھ رانگڑ کہا جاتا ہے۔ راؤ اختر کی ذہن میں مکمل تصویر موجود ہے۔ انتہائی بارعب شخصیت، درمیانے درجے کی داڑھی اور لمبی لمبی مونچھیں۔ہاتھ میں اکثرایک عصاہوتا تھا۔
کُرتے پاجامہ میں زیب تن،یہ انسان رعب اور دبدبے کی ایک اچھی مثال تھا۔ مالی حالات مہاجرین کے کیا ہونگے۔جوزرعی زمین ملی،اس پر محنت کی اور خدا نے راستے آسان کردیے۔جب بھی عید پر جانے کا اتفاق ہوتاتھا تو داداجی،ہمیشہ اپنے بڑے سے مکان کی بیٹھک میں لوگوں سے گھرے ہوتے تھے۔ان کی حیثیت ایک سرپنچ کی تھی۔عام لوگوں کے مسائل حل کرنا، مسافروں کے لیے گھرسے باہر رہنے کامناسب انتظام کرنا اور مقامی سیاست میں عمل دخل ہمیشہ سے انکاوطیرہ رہا تھا۔ یاد ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں بی ڈی کا نظام شروع ہوا تھا۔ راؤ اختر بی ڈی ممبرتھے۔اَنااوردبدبے کا یہ عالم تھاکہ لائل پور کے ڈپٹی کمشنر، تاندلہ کی میونسپل کمیٹی کے دورے پر آیا،وہاں آکر کہاکہ شہرکے بی ڈی ممبران کو بلایا جائے۔کمیٹی کے عملہ نے مشورہ کیاکہ راؤاخترنہیں آئینگے۔
کیونکہ اکثرافسران ملاقات کے لیے ان کے گھرجاتے ہیں اور انھیں ایک دودن پہلے بتانا پڑتا ہے۔ڈپٹی کمشنرنیاتھا۔یقین ہی نہ آیاکہ ضلع میں ایک ایسا معتبرشخص بھی ہے جواس کے بلانے پربھی نہیں آتا اور اسے پہلے بتانا پڑتا ہے۔خیرکمیٹی سے ہر کارہ ڈرتے ڈرتے ہمارے آبائی مکان پرآیا۔ راؤ اختر دوپہرکوآرام کررہے تھے۔ بڑی مشکل سے بتایا کہ ڈپٹی کمشنرصاحب ملاقات کے لیے بلارہے ہیں۔ دادانے یہ کہہ کرانکارکردیاکہ یہ میرے آرام کرنے کاوقت ہے۔ اگر صاحب ملناچاہتے ہیں تو دوپہرکے بعدگھرتشریف لے آئیں۔جب یہ جواب ڈی سی کو پہنچاتووہ اَزحدحیران ہوا۔ ملنے کے لیے خود آیا اور اس کے بعدیہ ملاقات،ذاتی تعلق میں بدل گئی۔ دراصل روایتی بزرگ تقریباًایک جیسے ہوتے تھے۔
اولادکے ساتھ سختی کارویہ روا رکھناعام تھا۔میرے والدیعنی راؤ حیات سب سے بڑے تھے۔وہ بھی دادامرحوم کے سامنے انتہائی احتیاط سے گفتگو کرتے تھے۔ چچا سلیمان، چچا عبدالرحیم، چچا اسلم اور چچا اکرم تو باقاعدہ داداسے گھبراتے تھے۔ ویسے چچا سلیمان انتہائی مدہم اورشائستہ طبیعت کے مالک تھے۔ ہرایک سے بڑی محبت اورخلوص سے پیش آتے تھے۔چچااسلم،فیصل آبادکے نامور وکیل بنے۔جوانی میں انتقال ہوگیا۔جب تک زندہ رہے پنجاب بار کونسل کے ممبررہے۔اس الیکشن میں انھیں کبھی شکست نہیں ہوئی۔ چچا عبدالرحیم جوانی میں سیلانی طبیعت کے مالک تھے۔بچوں سے خوب شرارتیں کرتے تھے۔ تاندلیا نوالہ سے سمندری منتقل ہوگئے اوروہاں بہت اچھی وکالت کی۔ اب پیرانہ سالی کا شکار ہے اوراکثربیماررہتے ہیں۔چچااکرم ماشاء اللہ صحت مند ہیں۔ کل کی تقریب انھی کے ایک بیٹے کا ولیمہ تھااورسب سے چھوٹی بیٹی کی بارات تھی۔
تاندلیانوالہ جاکرترقی کاایک بھرپوراحساس ہوا۔ ستیانہ روڈسے آئیںتوخوشگوارحیرت ہوتی ہے۔انتہائی خوبصورت سڑکیں اورہرطرف دکانیں ہی دکانیں۔تحصیل کے سرکاری اسپتال کے سامنے سے گزراتومعلوم ہواکہ یہ بھی کافی حد تک بہترطریقے سے کام کررہاہے۔سرکاری ایمبولینس بھی موجود تھی اورایمرجنسی وارڈمیں ڈاکٹربھی۔یہ کہنا تومبالغہ آرائی ہوگی کہ وہ ایک بہت اچھااسپتال ہے۔ مگر موجودہ حالات میں ابتدائی طبی امدادکے لیے ایک اچھی کوشش ہے۔نہرکے ساتھ ساتھ زندگی کے بھرپورآثارتھے۔جب شادی گھر پہنچا تو جدیدطرزکی ایک عمارت سامنے موجودتھی۔
وسیع وعریض ہال اور بہت اعلیٰ فرنیچردیکھ کراحساس ہواکہ اب شادیوں کی تقاریب منعقد کرنا کتناآسان اور بہتر ہوچکا ہے۔ ہاں، نہر کے ساتھ اسکولوں سے چھٹی کاوقت تھا۔ درجنوں کی تعدادمیں طلباء اورطالبات گھر جارہے تھے۔اسکولوں کی چھٹی کے وقت ہرطرف بچے ہی بچے تھے۔ویسے بڑھتی ہوئی آبادی ہمارا ایک بہت بڑامسئلہ ہے۔ہرطرف انسانی سرہی سر نظر آتے ہیں۔نوجوان نسل کے لیے روزگارکیسے مہیا کرینگے۔ اس جہت پر سوائے خاموشی کے اورکچھ نہیں ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ اتنی کثیرآبادی کوباعزت روزگار دیناتقریباًناممکن ہے۔مگریہ سچ تسلیم کرنابے حدمشکل کام ہے۔ ہمارے جیسے معاشروں میں سچ بولناویسے ہی ایک مشکل عمل ہے۔یہاں سچ بولنے والے، اکثرمشکلات کا شکار نظرآتے ہیں۔جھوٹ کی وادی میں،حقیقت اورسچ کے پیڑ لگانا بہت مہنگاپڑتاہے۔
شادیوں کاایک خوبصورت پہلویہ بھی ہے کہ خاندان کے ہرفردسے ملاقات ہوجاتی ہے۔چچا اکرم کابڑا بیٹا شہزاد، امریکا سے آیا ہواتھا۔حددرجہ انکساری سے بات کرتا ہے۔ امریکا کی شائستگی اس کی شخصیت میں جھلکنے لگی ہے۔ ہاں، پھوپھامجاہدسے بھی نشست رہی۔انھیں مجاہد بھائی کہتا ہوں۔ اسکول میں مجھ سے تین سال سینئر تھے۔ اس لیے رشتے داری سے زیادہ دوستی ہے۔بھائی مجاہدایک وجیہہ انسان ہیں۔ سمندری میں ایسے بسے کہ پھرباہرنکل کرنہیں دیکھا۔ ان کے ساتھ دوستی اوربے تکلفی کانایاب رشتہ ہے۔ انکابیٹااب میونسپل کمیٹی کا چیئرمین ہے۔بھائی مجاہدکی اولادانکاروایتی اندازمیں دلی ادب کرتی ہے۔ ویسے شایدابھی ہم ان خوش قسمت خاندانوں میں سے ہیں،جن میں چھوٹے اپنے بڑوں کی بھرپور عزت کرتے ہیں۔یہ روایت اب کافی حد تک ختم ہوتی جارہی ہے۔
بھائی مجاہدنے بھی اپنی طرزکی شاہانہ زندگی گزاری ہے۔بچپن سے لے کرآج تک،ایک ملازم ہروقت ان کی اردل میں موجود ہوتاہے۔وہ روبوٹ کی طرح مجاہدبھائی پر نظر رکھتا ہے۔پانی کاگلاس پکڑاناہو،کھانے کی پلیٹ پہنچانی ہو، طعام کے بعدبرتن اُٹھانے ہوں۔یہ سب کام ان کا ملازم احسن طریقے سے سرانجام دیتاہے۔کل بھی، نیلی ٹوپی پہنے ہوئے ایک خدمت گارموجودتھا۔گاڑی میں بھی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتاہے۔بھائی مجاہد ایک بڑے زمیندارہیں۔ویسے بھٹوکی ریفارمزمیں ان کے والدکی کافی زمین،سرکارنے ضبط کرلی تھی۔مگر آج بھی بھائی مجاہدکے پاس کافی آبائی رقبہ ہے۔ تیس برس پہلے وہ بھی سمندری کی میونسپل کمیٹی کے چیئرمین رہے ہیں۔مگرکل کی بات لگتی ہے۔
قاسم،ہشام،طاہر،عمران،سب سے ملاقات رہی۔ چچا عبدالرحیم کابڑابیٹا،آصف،امریکا سے صرف اورصرف کاشف کی سیاست کوسہارادینے کے لیے نوسال پہلے سمندری آگیا۔جب میںسیکرامینٹو (Sacramanto) گیا تو آصف کافی بہترزندگی گزاررہاتھا۔سیکرامینٹوسے سمندری آنابے حد دشوارفیصلہ تھا۔ مگر راؤ کاشف ایم پی اے بن چکا تھا۔اس کی مصروفیت کے پیش نظر، مقامی سطح پرایک منجھے ہوئے فردکی ضرورت تھی جوشہرمیں لوگوں کے ساتھ ہر وقت رابطے میں رہے۔آصف نے جس محنت سے کام کیا، وہ کم ازکم میرے لیے باعث حیرت بھی تھی اورباعث تسکین بھی۔ میرے چچا ذاد بھائی راؤکاشف،دس سال مسلسل سمندری سے ایم پی اے رہا۔جتنی ترقی اس نے اپنے حلقے میں کروائی، وہ پورے صوبے کے لیے مثالی ہے۔
سڑکوں کا جال، اسٹیڈیم، اسپتال کی ترقی اور دیگر معاملات حددرجہ ایماندارانہ طریقے سے انجام دیے۔وہ چند سیاستدانوں میں سے ہے۔جنکی ایمانداری ضرب المثل ہے۔ جب میں واپس آرہا تھا تو فضا میں اپنے دادا، والد اور چچا کی اَن دیکھی تصویر ڈھونڈ رہا تھا۔ اس مٹی میں میرے عزیز ترین رشتے مٹی اوڑھے سورہے ہیں۔اس مٹی سے کم ازکم میں تو ناتا نہیں توڑ سکتا۔ شایدعمرگزرنے کے ساتھ ساتھ مٹی بے حد اہم ہوجاتی ہے!