گلاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ
فوٹو بِل گیٹس اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ چھپی ہے
جناب عمران خان وزیر اعظم منتخب ہونے سے قبل اپنے اعلانات اور بیانات کے سبب عوامی توقعات بہت بلند سطح پر لے گئے تھے ۔ مبالغے کی حد تک بلند ۔ وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی انھیں اور اُن کے ساتھیوں کو ادراک و احساس ہُوا کہ ملک کی حقیقی اقتصادی صورتحال کی موجودگی میں وہ اُن عوامی توقعات کو پورا نہیں کر سکتے جو اُن کے اپنے اعلانات کی اساس پر پیدا ہو گئے تھے ۔
یہ ادراک و احساس اگر حکومت سنبھالنے سے قبل پیدا ہوتا تو زیادہ مناسب ہوتا ۔ اِسے غفلت بھی کہا جا سکتا ہے، عدم واقفیت بھی اور لاعلمی بھی۔ وطنِ عزیز میں فوری طور پر جو شدید مالی و معاشی بحران پیدا ہُوا ، اِس نے خان صاحب کے اوسان تو خطا نہیں کیے لیکن انھیں ہیجانی و پریشانی کی کیفیت میں ضرور مبتلا کیا ۔ عوامی اور دانشوروں کی سطح پر بھی مایوسی نے پنجے گاڑ دیے۔کچھ عالمی میڈیا نے بھی مایوسی اور پژمردگی پھیلانے میںیورشیں اور یلغاریں کی ہیں ۔
مثال کے طور پر برطانیہ سے شایع ہونے والے ''دی اکانو مسٹ'' کی تازہ ترین رپورٹ۔ سراسر منفی اور لایعنی رپورٹ۔ وزارتِ اطلاعات نے درست اقدام کیا ہے کہ اس رپورٹ کے جملہ مندرجات کو فی الفور مسترد کر دیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ مذکورہ برطانوی جریدہ وقیع اور معتبر کہلاتا ہے لیکن اتنا بھی با اعتبار نہیں ۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وطنِ عزیز میں وزیر اعظم عمران خان کو بوجوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی طرف سے وہ محبت اور تعاون نہیں مل رہا جس کی نئے حکمران توقع کررہے تھے ۔ شیخ رشید احمد اور اسد عمر نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ تو میڈیا کی آنکھ کا تارہ اور ڈارلنگ تھے ۔ یہ حالات کیوں اور کیونکر پیدا ہُوئے ہیں ، حکومت کو یقینا اس کا علم ہے ۔ یہ علیحدہ امر ہے کہ وہ تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرے ۔
ملک کی اقتصادی صورتحال، اپوزیشن کے مسلسل حملے اور میڈیا کے عدم تعاون نے جو فضا پیدا کی، عمران خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ڈھیری ڈھا کر بیٹھ جاتا ۔ انھوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ سعودی عرب،چین، ملائشیا، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات کے طوفانی اور ہنگامی دَورے کیے ہیں۔ اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں ۔کہیں سے تیز تر اور کہیں سے رفتہ رفتہ ۔ دو مسلمان برادر ممالک نے تو فوری طور پر خاناحب اور پاکستان کی نقد دستگیری فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس مالی اعانت پر بھی پوری پاکستانی قوم کو سُود ادا کرنا پڑے گا لیکن اس کے باوصف ہم سب ان مسلمان حکمرانوں کے شکر گزار ہیں ۔ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست۔ خزانے کا بیٹھا ہُوا سینہ کچھ اوپر اُٹھا ہے ۔
نئی مالی اعانتوں کے اثرات ابھی عوام تک منتقل تو نہیں ہُوئے ہیں لیکن خان صاحب کو نیا اعتماد ضرور ملا ہے ۔اس کا کچھ اظہار حالیہ مِنی بجٹ میں بھی ہُوا ہے ۔ عالمی سطح پر بھی عمران خان کو مثبت توجہ ملی ہے ۔ مثلًا امریکی جریدے'' فارن پالیسی'' کے تازہ شمارے (22جنوری)کے ٹائٹل پراُنکی تصویر اور نام۔ مذکورہ میگزین نے ''گلوبل تھنکرز لسٹ 2019ء'' کے زیر عنوان عالمی سیاسی، مذہبی، معاشی، سماجی مفکرین کی فہرست شایع کر دی ہے ۔ اس میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے نام کے بھی چرچے ہو رہے ہیں ۔
جریدے کے سرورق پر خان صاحب کی فوٹو بِل گیٹس اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ چھپی ہے۔ ''فارن پالیسی'' میگزین پچھلے ایک عشرے سے ایسی فہرست شایع کرتا آرہا ہے جو کسی بھی شخصیت کو دُنیا بھرکی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس فہرست میں عمران خان کے نام آنے سے پاکستانیوں کے معاشی دکھ تو ختم نہیں ہوں گے لیکن پاکستانی عوام کو یک گونہ مسرت ضرور ہُوئی ہے ۔ بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہُوئے بجا ہی لکھا ہے :''پاکستان کے لیے فارن پالیسی کی یہ فہرست اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سال اس میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں ۔''فارن پالیسی میگزین نے جناب عمران خان کے بارے میں جو الفاظ رقم کیے ہیں ۔ وہ بھی قابلِ توجہ ہیں:A former cricket star , finaly got the job he had long coveted - Prime Minister....His reward was an incredibly difficult to do - list , starting with Pakistan,s looming fiscal and debt crises . ابتدا میں عمران خان کو جن اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ، یہ بحران آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں ۔
ساتھ ہی خان صاحب کو یہ بھی احساس ہو رہا ہوگا کہ ساحل پرکھڑے ہو کر طوفانی لہروں سے نبرد آزما کشتی بان پر تنقید کرنا تو آسان ہے لیکن خود آبی موجوں سے لڑنا کارِ دیگر و دشوار است ۔ پنجابی شاعری کے شیکسپئر، وارث شاہ، نے(رانجھے کی زبانی ہیر سیال سے مخاطب کرتے ہُوئے)سچ ہی تو کہا تھا : گلّاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ یعنی باتیں کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اپنے قول اور کیے گئے وعدے نبھانے مشکل۔ نواز شریف پر کڑی تنقیدیں کرنا تو نہائت آسان تھا لیکن اب خان صاحب کو خود بھی حکمران بن کر حالات کی سختیوں اور سنگینیوں کا یقینی احساس ہو رہا ہوگا۔عمران خان صاحب کو آج ویسے ہی حالات اور تنقیدات کا سامنا ہے جیسے حالات پر خان صاحب اپنے سیاسی حریف، نواز شریف ، کو ہدفِ تنقید بنایا کرتے تھے ۔
وہ نواز شریف کو امریکی صدر ( بارک اوباما) سے ملاقات کے دوران پرچی کے ذریعے بات چیت کرتے ہُوئے طنز و تعریض کرتے تھے لیکن پچھلے ہفتے جب وہ قطرکے حاکم،شیخ تمیم بن حماد الثانی، سے ملاقات کرنے اُن کے محل (دیوانِ امیری) پہنچے تو ویسی ہی پرچی ہمارے وزیر اعظم صاحب کے ہاتھ میں بھی تھی ۔ ماڈل ٹاؤن کے خونی سانحہ کی اساس پرعمران خان شدت سے نواز شریف اور شہباز شریف پر یلغار کرتے رہے ہیں اور اب ویسا ہی حادثہ پنجاب کے علاقے ساہیوال میں ہُوا ہے تو قومی اسمبلی کے فلور پر شہباز شریف اُن سے ویسے ہی مطالبے کرتے سنائی دے رہے ہیں جیسے مطالبات وہ شریف برادران سے کیا کرتے تھے۔
نواز شریف بطورِ وزیر اعظم بھارت سے دوستی چاہتے تھے تو عمران خان اور پی ٹی آئی اُن پر پِل پڑتے تھے اور آج عمران خان بھی بھارت سے دوستی کی خاطر ویسے ہی اقدامات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتیوں کو مدعو کرتے ہیں اور کبھی بھارت سے دوستی کے لیے کرتار پور کوریڈور کھولتے دیکھے جا رہے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کی ایک ہائی پروفائل تقریب میں بھی بھارتی جج مدعو تھے ۔ یہ مناسب اور مستحسن مظاہر ہیں۔ بھارت ایسے بڑے اور طاقتور ہمسائے کو نظر انداز کرنا اور اُس سے دُوری رکھنا اچھا عمل نہیں کہا جا سکتا ۔
سوال مگر یہ ہے کہ جب نواز شریف اس دُوری کو قربت اور نزدیکی میں بدلنے کے لیے کوشاں تھے تو خان صاحب اور اُن کے سنگی ساتھی کیوںانھیں ہدفِ طعن بناتے تھے؟ اب منظر کھلا ہے تو خان صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو بھارتی ہمسائیگی کی اہمیت کا احساس بھی ہونے لگا ہے ۔ یہ احساس پہلے ہوجاتا تو پاکستانی عوام کا وقت اور پیسہ، دونوں بچ سکتے تھے۔ اب خان صاحب یہ اقدامات کررہے ہیں تو اُن کے نام اور کام کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مثلاً:وطنِ عزیز میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے معروف ادارے '' گیلپ اینڈ گیلانی'' نے 26جنوری 2019ء کے تازہ ترین جائزے میں کہا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی (51فیصد) وزیر اعظم عمران خان سے خوش ہے۔ اِس خوشی میں شاید ہم بھی شامل ہیں۔ ہماری طرف سے خان صاحب کو مبارکباد ۔
یہ ادراک و احساس اگر حکومت سنبھالنے سے قبل پیدا ہوتا تو زیادہ مناسب ہوتا ۔ اِسے غفلت بھی کہا جا سکتا ہے، عدم واقفیت بھی اور لاعلمی بھی۔ وطنِ عزیز میں فوری طور پر جو شدید مالی و معاشی بحران پیدا ہُوا ، اِس نے خان صاحب کے اوسان تو خطا نہیں کیے لیکن انھیں ہیجانی و پریشانی کی کیفیت میں ضرور مبتلا کیا ۔ عوامی اور دانشوروں کی سطح پر بھی مایوسی نے پنجے گاڑ دیے۔کچھ عالمی میڈیا نے بھی مایوسی اور پژمردگی پھیلانے میںیورشیں اور یلغاریں کی ہیں ۔
مثال کے طور پر برطانیہ سے شایع ہونے والے ''دی اکانو مسٹ'' کی تازہ ترین رپورٹ۔ سراسر منفی اور لایعنی رپورٹ۔ وزارتِ اطلاعات نے درست اقدام کیا ہے کہ اس رپورٹ کے جملہ مندرجات کو فی الفور مسترد کر دیا ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ مذکورہ برطانوی جریدہ وقیع اور معتبر کہلاتا ہے لیکن اتنا بھی با اعتبار نہیں ۔یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ وطنِ عزیز میں وزیر اعظم عمران خان کو بوجوہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی طرف سے وہ محبت اور تعاون نہیں مل رہا جس کی نئے حکمران توقع کررہے تھے ۔ شیخ رشید احمد اور اسد عمر نے اس کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ تو میڈیا کی آنکھ کا تارہ اور ڈارلنگ تھے ۔ یہ حالات کیوں اور کیونکر پیدا ہُوئے ہیں ، حکومت کو یقینا اس کا علم ہے ۔ یہ علیحدہ امر ہے کہ وہ تجاہلِ عارفانہ کا مظاہرہ کرے ۔
ملک کی اقتصادی صورتحال، اپوزیشن کے مسلسل حملے اور میڈیا کے عدم تعاون نے جو فضا پیدا کی، عمران خان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید ڈھیری ڈھا کر بیٹھ جاتا ۔ انھوں نے مگر ہمت نہیں ہاری۔ سعودی عرب،چین، ملائشیا، ترکی، قطر اور متحدہ عرب امارات کے طوفانی اور ہنگامی دَورے کیے ہیں۔ اس کے مثبت اثرات بھی سامنے آرہے ہیں ۔کہیں سے تیز تر اور کہیں سے رفتہ رفتہ ۔ دو مسلمان برادر ممالک نے تو فوری طور پر خاناحب اور پاکستان کی نقد دستگیری فرمائی ہے ۔ اگرچہ اس مالی اعانت پر بھی پوری پاکستانی قوم کو سُود ادا کرنا پڑے گا لیکن اس کے باوصف ہم سب ان مسلمان حکمرانوں کے شکر گزار ہیں ۔ دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست۔ خزانے کا بیٹھا ہُوا سینہ کچھ اوپر اُٹھا ہے ۔
نئی مالی اعانتوں کے اثرات ابھی عوام تک منتقل تو نہیں ہُوئے ہیں لیکن خان صاحب کو نیا اعتماد ضرور ملا ہے ۔اس کا کچھ اظہار حالیہ مِنی بجٹ میں بھی ہُوا ہے ۔ عالمی سطح پر بھی عمران خان کو مثبت توجہ ملی ہے ۔ مثلًا امریکی جریدے'' فارن پالیسی'' کے تازہ شمارے (22جنوری)کے ٹائٹل پراُنکی تصویر اور نام۔ مذکورہ میگزین نے ''گلوبل تھنکرز لسٹ 2019ء'' کے زیر عنوان عالمی سیاسی، مذہبی، معاشی، سماجی مفکرین کی فہرست شایع کر دی ہے ۔ اس میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان کے نام کے بھی چرچے ہو رہے ہیں ۔
جریدے کے سرورق پر خان صاحب کی فوٹو بِل گیٹس اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ چھپی ہے۔ ''فارن پالیسی'' میگزین پچھلے ایک عشرے سے ایسی فہرست شایع کرتا آرہا ہے جو کسی بھی شخصیت کو دُنیا بھرکی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس فہرست میں عمران خان کے نام آنے سے پاکستانیوں کے معاشی دکھ تو ختم نہیں ہوں گے لیکن پاکستانی عوام کو یک گونہ مسرت ضرور ہُوئی ہے ۔ بی بی سی نے اس پر تبصرہ کرتے ہُوئے بجا ہی لکھا ہے :''پاکستان کے لیے فارن پالیسی کی یہ فہرست اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس سال اس میں پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی شامل ہیں ۔''فارن پالیسی میگزین نے جناب عمران خان کے بارے میں جو الفاظ رقم کیے ہیں ۔ وہ بھی قابلِ توجہ ہیں:A former cricket star , finaly got the job he had long coveted - Prime Minister....His reward was an incredibly difficult to do - list , starting with Pakistan,s looming fiscal and debt crises . ابتدا میں عمران خان کو جن اقتصادی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا ، یہ بحران آہستہ آہستہ کم ہو رہے ہیں ۔
ساتھ ہی خان صاحب کو یہ بھی احساس ہو رہا ہوگا کہ ساحل پرکھڑے ہو کر طوفانی لہروں سے نبرد آزما کشتی بان پر تنقید کرنا تو آسان ہے لیکن خود آبی موجوں سے لڑنا کارِ دیگر و دشوار است ۔ پنجابی شاعری کے شیکسپئر، وارث شاہ، نے(رانجھے کی زبانی ہیر سیال سے مخاطب کرتے ہُوئے)سچ ہی تو کہا تھا : گلّاں کرنیاں سوکھیاں تے قول نبھانے اوکھ یعنی باتیں کرنا تو آسان ہوتا ہے لیکن اپنے قول اور کیے گئے وعدے نبھانے مشکل۔ نواز شریف پر کڑی تنقیدیں کرنا تو نہائت آسان تھا لیکن اب خان صاحب کو خود بھی حکمران بن کر حالات کی سختیوں اور سنگینیوں کا یقینی احساس ہو رہا ہوگا۔عمران خان صاحب کو آج ویسے ہی حالات اور تنقیدات کا سامنا ہے جیسے حالات پر خان صاحب اپنے سیاسی حریف، نواز شریف ، کو ہدفِ تنقید بنایا کرتے تھے ۔
وہ نواز شریف کو امریکی صدر ( بارک اوباما) سے ملاقات کے دوران پرچی کے ذریعے بات چیت کرتے ہُوئے طنز و تعریض کرتے تھے لیکن پچھلے ہفتے جب وہ قطرکے حاکم،شیخ تمیم بن حماد الثانی، سے ملاقات کرنے اُن کے محل (دیوانِ امیری) پہنچے تو ویسی ہی پرچی ہمارے وزیر اعظم صاحب کے ہاتھ میں بھی تھی ۔ ماڈل ٹاؤن کے خونی سانحہ کی اساس پرعمران خان شدت سے نواز شریف اور شہباز شریف پر یلغار کرتے رہے ہیں اور اب ویسا ہی حادثہ پنجاب کے علاقے ساہیوال میں ہُوا ہے تو قومی اسمبلی کے فلور پر شہباز شریف اُن سے ویسے ہی مطالبے کرتے سنائی دے رہے ہیں جیسے مطالبات وہ شریف برادران سے کیا کرتے تھے۔
نواز شریف بطورِ وزیر اعظم بھارت سے دوستی چاہتے تھے تو عمران خان اور پی ٹی آئی اُن پر پِل پڑتے تھے اور آج عمران خان بھی بھارت سے دوستی کی خاطر ویسے ہی اقدامات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کبھی اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتیوں کو مدعو کرتے ہیں اور کبھی بھارت سے دوستی کے لیے کرتار پور کوریڈور کھولتے دیکھے جا رہے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے اسلام آباد کی ایک ہائی پروفائل تقریب میں بھی بھارتی جج مدعو تھے ۔ یہ مناسب اور مستحسن مظاہر ہیں۔ بھارت ایسے بڑے اور طاقتور ہمسائے کو نظر انداز کرنا اور اُس سے دُوری رکھنا اچھا عمل نہیں کہا جا سکتا ۔
سوال مگر یہ ہے کہ جب نواز شریف اس دُوری کو قربت اور نزدیکی میں بدلنے کے لیے کوشاں تھے تو خان صاحب اور اُن کے سنگی ساتھی کیوںانھیں ہدفِ طعن بناتے تھے؟ اب منظر کھلا ہے تو خان صاحب اور اُن کے ساتھیوں کو بھارتی ہمسائیگی کی اہمیت کا احساس بھی ہونے لگا ہے ۔ یہ احساس پہلے ہوجاتا تو پاکستانی عوام کا وقت اور پیسہ، دونوں بچ سکتے تھے۔ اب خان صاحب یہ اقدامات کررہے ہیں تو اُن کے نام اور کام کی وقعت اور اہمیت میں اضافہ ہورہا ہے ۔ مثلاً:وطنِ عزیز میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے معروف ادارے '' گیلپ اینڈ گیلانی'' نے 26جنوری 2019ء کے تازہ ترین جائزے میں کہا ہے کہ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی (51فیصد) وزیر اعظم عمران خان سے خوش ہے۔ اِس خوشی میں شاید ہم بھی شامل ہیں۔ ہماری طرف سے خان صاحب کو مبارکباد ۔