منی بجٹ خوش آئند۔۔۔ عام آدمی اورسرمایہ دار طبقے کو ریلیف ملے گا

ماہرین معاشیات ، بزنس کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


ماہرین معاشیات ، بزنس کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

وفاقی حکومت نے حال ہی میں منی بجٹ پیش کیا جس میں بینک ٹرانزیکشنز پر فائلرز کیلئے 0.3 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے اور سستے گھر بنانے کیلئے قرض حسنہ فراہم کرنے کے لئے پانچ ارب روپے مختص کرنے کی تجاویز دی ہیں، نان فائلرز زیادہ ٹیکس دیکر 1300 سی سی تک گاڑی خرید سکیں گے۔

سستے موبائل فونز پر ٹیکس میں کمی، چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کر کے 5 ہزار کرنے کی تجویز ہے۔ قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے وضاحت کی کہ یہ منی بجٹ نہیں معاشی اصلاحات کا پیکیج ہے۔ہم امیر اور غریب کے درمیان فرق ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ایس ایم ای سیکٹر کے بغیر روزگار کے مواقع پیدا نہیں ہوسکتے، ایس ایم ای سیکٹر کے بینک قرضوں پر آمدن کا ٹیکس39فیصد سے کم کر کے20 فیصد کررہے ہیں۔ چھوٹے کاروباری اداروں پر ٹیکس آدھا کیا جارہا ہے۔ فائلر کی بینکنگ ٹرانزیکشن پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔

وزیراعظم کا وعدہ ہے پچاس لاکھ گھر بنانے کی کوشش کریں گے، اس کے لئے بنک چھوٹے گھروں کے لئے جو قرض دیں گے اس پر ٹیکس 39 سے کم کرکے 20 فیصد کررہے ہیں، 5 ارب روپے کی قرضِ حسنہ کی سکیم لارہے ہیں، نان فائلر پر1300 سی سی تک گاڑیاں خریدنے کی بندش ختم کررہے ہیں، نان فائلر چھوٹی اور درمیانے سائز کی گاڑی لے سکتا ہے، چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کرکے 5 ہزار کردیا گیا ہے۔ حقیقی جمہوریت کیلئے آزاد صحافت چاہئے، اس لئے نیوز پرنٹ پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے۔ اس منی بجٹ کے اثرات اور مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات، بزنس کمیونٹی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات )

معیشت آسان مضمون نہیں ہے۔ اس کے دو اہم رخ ہوتے ہیں جنہیں ڈیمانڈ اور سپلائی کہتے ہیں۔ڈیمانڈ سائڈ ، عوام ہیں اور سپلائی سائڈ، سرمایہ دار۔ عوام کو مراعات دیں تو سرمایہ دار کو مشکلات اور اگر سرمایہ دار کو مراعات دیں تو عوام کو مشکلات ہوتی ہیں لہٰذا اسے بیلنس کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے ملک کی معیشت میں تین پلیئرز ہیں جن میں حکومت، پرائیویٹ سیکٹر اور مزدور شامل ہیں۔ کپیٹل نظام میں حکومت کا کام ایسی پالیسی دینا ہوتاہے جس سے سرمایہ کاری آئے۔ اسے پسے ہوئے طبقات کیلئے بھی لیول پلئینگ فیلڈ بنا کر انہیں تحفظ دینا پڑتا ہے۔

ہمارے ملک میں تین سطحی نظام حکومت ہے جس میں وفاق نے پالیسی دینا ہوتی ہے۔ 18 ویں ترمیم کے بعد ہم نے صنعت، زراعت، تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر ودیگر شعبوں کے اختیارات صوبوں کو دے دیے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منی بجٹ میں یہ چیزیں نظر نہیں آئیں۔ ہمارے نظام حکومت میں تیسری سطح کی حکومت بلدیاتی نظام ہے جس میں عام آدمی کے مسائل حل ہوتے ہیں مگر ابھی تک حکومتوں نے ان کا نظام وضع ہی نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے آخری ایام میں بجٹ دے کر اگلی حکومت کے ہاتھ باندھ دیے۔ میرے نزدیک یہ اقدام اچھا نہیں تھا۔

اگر اگلی حکومت مسلم لیگ (ن) کی بھی آتی تب بھی یہ درست نہیں تھا بلکہ نئی حکومت کو حالات کے مطابق فیصلوں کا حق دینا چاہیے تھا جو نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نو منتخب حکومت کی جانب سے بار بار منی بجٹ لائے جارہے ہیں تاکہ معاملات کو بہتر کیا جاسکے۔حکومت وہ اقدامات کر رہی ہے جو ان کے نزدیک بجٹ میں ہونے چاہیے تھے۔ اس منی بجٹ میں عوام اور سرمایہ دار دونوں کو ہی ریلیف ملا ہے تاہم اصل بجٹ مئی ،جون میں آنا ہے جس میں حکومت کی سمت اور قابلیت کا پتہ چلے گا کہ انہوں نے کیا سیکھا ہے اور کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔

حکومت کی جانب سے سرمایہ کاری دوست منی بجٹ لانے کی کوشش کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ مشینری کی درآمد پر مراعات دی گئی ہیں لیکن جب تک سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول نہیں بنایا جائے گا تب تک معاملات بہتر نہیں ہوں گے۔ منی بجٹ میں نان فائلر کو 1300 سی سی کار خریدنے کی اجازت دے دی گئی جبکہ دوسری طرف یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریگولیٹڈاکانومی ہونی چاہیے۔ میرے نزدیک یہ تضاد ہے۔ اس کا فائدہ نان فائلر کو ہو یا نہ ہو لیکن موٹر انڈسٹری کو ہوگا۔ حکومت چاہتی ہے کہ انٹرنل بیلنس ٹھیک ہوجائے۔

ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے خوشی منائی جارہی ہے کہ ختم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ٹیکس سب کیلئے ختم نہیں ہورہا بلکہ صرف بیرون ملک سے بینکنگ کے ذریعے منتقل رقم نکلوالنے پر فائلر کو اس میں چھوٹ ہوگی جبکہ نان فائلر کو اس پر بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔ اس کے علاوہ مقامی ٹرانزیکشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس سب کو ہی ادا کرنا پڑے گا لہٰذا اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ بینکنگ سیکٹر کا دم گھٹ رہا ہے، حکومت کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی حکومت نے 12 لاکھ روپے آمدن تک ٹیکس چھوٹ دی تھی جسے موجودہ حکومت نے کم کر کے پہلے 8لاکھ اور اب 4 لاکھ روپے کر دیا ہے۔ مڈل کلاس اور ٹیکس ادا کرنے والوں پر بوجھ ڈالنا زیادتی ہے۔

اس کے بجائے حکومت کو نان فائلرز کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے۔ یہ بات قابل ذکر ہے ہے کہ ایف بی آر وہی ہے جو اپنی نااہلی چھپانے کیلئے حکومت کے ذریعے عوام پر بوجھ ڈالتا رہتا ہے۔ ہم شروع دن سے ہی کہتے آئے ہیں کہ ان پٹس پر ٹیکس ختم کردیں جو شاید موجودہ حکومت نے کر دیا ہے۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں لگژری اشیاء پر ڈیوٹی نہ لگائیں بلکہ سیلز ٹیکس بڑھایا جائے۔

میرے نزدیک موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر منی بجٹ میں حکومت کو اپنے اخراجات کم کرنے چاہیے تھے۔ ترقی کیلئے ڈویلپمنٹ بجٹ بڑھانا چاہیے تھا کیونکہ اس سے نہ صرف لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ڈائریکٹ ٹیکس لگانا اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کرکے 15 فیصد کرنا چاہیے تھا مگر یہ سب نہیں ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے ایک ہاتھ سے ریلیف دیا اور دوسرے ہاتھ سے لے لیا ہے لہٰذا ہمیشہ کی طرح بوجھ مڈل کلاس پر پڑے گا۔حکومت ملک میں سرمایہ کاری لانا چاہتی ہے۔ اس کے لیے کارپوریٹ ٹیکس میں کمی کر دی گئی مگر ایف بی آر کا 4.4 ٹریلین کا ہدف کم نہیں کیا گیا بلکہ مراعات سے 6.6 بلین کا خلاء بھی پیدا ہوا ہے۔

اگر ایف بی آر کا ہدف کم کردیا جاتا تو یہ خلاء ختم ہوجاتا لیکن ہدف وہی رکھا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکس، نئی کرنسی چھاپ کر یا کسی اور طریقے سے یہ ہدف پورا کرے گی جس سے بوجھ بڑھے گا۔ بزنس کمیونٹی کو جو پیسے دینے تھے وہ اب حکومتی سکیورٹی کی طرح دیے جائیں گے،وہ بینکوں سے قرض لیں گے جس سے افراط زر پیدا ہوگا اور اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ میرے نزدیک اگر حکومت سسٹم کے اندر رہتی تو بہتر تھا۔معاشی استحکام کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں۔

اگر ہم نے معیشت مستحکم کرنی ہے تو حکومت کو ایکسپورٹ پر مبنی صنعتی پالیسی بناناہوگی جس میں بتایا جائے کن ممالک کو کیا ایکسپورٹ کرنا چاہتے ہیں اور ان پر مراعات بھی دی جائیں۔ ایکسپورٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی سکل بیسڈایجوکیشنل پالیسی بنائی جائے اور لیبر کو سکل بیسڈ بنایا جائے۔ جب تک یہ دو کام نہیں ہوگے معیشت رینگتی رہے گی۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ صرف زراعت سے معاملات بہتر نہیں ہوسکتے۔ اب دنیا میں صنعتکاری کا رجحان ہے لہٰذا ہمیں بھی صنعت کو فروغ دینا ہوگا۔میرے نزدیک حکومت کو اب کرپشن پر بات چھوڑ دینی چاہیے بلکہ یہ کام نیب اور عدالتوں کو کرنے دینا چاہیے، ان کی توجہ اب عوامی مسائل حل کرنے کی طرف ہونی چاہیے۔

عبدالرؤف مختار
( نائب صدر و ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)

منی بجٹ خوش آئند اور عوام دوست ہے جس میں نئے ٹیکس لگانے کے بجائے عوام کو ریلیف دیا گیا ہے۔ چھوٹے کاروباری حضرات ٹیکس دیتے تھے مگر انہیں ود ہولڈنگ ٹیکس بھی دینا پڑتا تھا جس کا انہیں کوئی ریبیٹ بھی نہیں ملتا تھا۔ پاکستان کی ٹریڈر کمیونٹی کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جائے جو موجودہ حکومت نے پورا کردیا ہے۔

وزیر خزانہ نے سپیشل اکنامک زونز کی بہترین بات کی۔ ہم اسے ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے آگے لے کر جائیں گے ۔ اس حوالے سے ہم ریسرچ کر رہے ہیں اور پروپوزل بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ ہم نے دنیا کی بہترین اکنامک زورنز کو سٹڈی کیا ہے۔ میں نے یکم جنوری سے عہدہ سنبھالا ہے اور اس حوالے سے چند میٹنگز بھی کرچکا ہوں۔ SME بینک کے سربراہ ہمارے پاس تشریف لائے اور انہیں بھی ہم نے سپیشل اکنامک زونز پر زور دیا ہے۔ میرا تعلق رحیم یار خان سے ہے جہاں انڈسٹریل زون موجود ہے جسے سپیشل اکنامک زون بنانے کیلئے درخواست دے دی گئی ہے جو انشاء اللہ دو ماہ تک منظور ہوجائے گی۔گزشتہ ہفتے ہم نے ''پائی '' کے چیئرمین کو اپنے دفتر دعوت دی کہ ہم سپیشل اکنامک زون اور نئی صنعتکاری پر کام کریں۔

ایف پی سی سی آئی پہلے سے موجود انڈسٹریل سٹیٹس اور نئی بننے والی انڈسٹریل سٹیٹس میں کاٹیج انڈسٹری کا یونٹ بنانے جارہے ہیں جس میں درآمد کی جانے والی اشیاء کی تیاری کے لیے انڈسٹری لگائی جائے گی۔ سپیشل اکنامک زون ہونے کی وجہ سے درآمدی مشینری پر ڈیوٹی نہیں ہوگی لہٰذا بہتر ٹیکنالوجی پاکستان آئے گی جس سے معیاری اشیاء تیار ہوں گی۔پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے مگر جب ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے تو ٹیکنالوجی کا راستہ رک جاتا ہے۔

پھر مقامی سستی مشینری لگائی جاتی ہے جس کی وجہ سے معیاری اشیاء تیار نہیں ہوتی۔ جو ٹیکنالوجی ایک مرتبہ پاکستان آتی ہے، اسے دوبارہ باہر سے لانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہاں ہی تیار کرلیا جاتا ہے لہٰذا حکومت کا ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان خوش آئند ہے، مستقبل میں بھی اسے برقرار رکھا جائے۔ ہم کاٹیج انڈسٹری اور نئی انڈسٹری کی سٹیٹس لگانے کا پیپر تیار کر رہے ہیں جس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ وزیرآباد، گوجرانولہ، لاہور اور فیصل آباد میں کاٹیج انڈسٹری موجود ہے، انہیں ہم سٹریم لائن کریں گے اور انڈسٹریل زونز میں لائیں گے۔

کاٹیج انڈسٹری کے کاروبار کیلئے ہم SME بینک سے 6فیصد پر قرض لے کر دیں گے۔ وزیر خزانہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ نئی صنعت کے لیے کم ریٹ پر قرض دیے جائیں گے۔ ہم اس طرح کا پیکیج بنا رہے ہیں کہ کاٹیج انڈسٹری میں موٹر سائیکل وغیرہ کے پارٹس بنیں گے، اسیمبلنگ پلانٹ ہوگا اور پھر یہ مارکیٹ میں آئے گی۔ اس ماڈل پر دیگر فیکٹریاں بھی لگائی جائیں گی۔ نان فائلر کو 1300 سی سی کار کی خریداری کی چھوٹ دینا اچھا اقدام نہیں ہے۔ جو شخص 1300 سی سی گاڑی خریدتا ہے اس کی ماہانہ تنخواہ کم از کم 2 لاکھ روپے ہوگی لہٰذا اسے ٹیکس دینا چاہیے۔ ہمارا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ ٹیکس دہندگان اور بزنس کمیونٹی پر بوجھ ڈالنے کے بجائے ٹیکس نیٹ بڑھایا جائے۔گزشتہ حکومت بھی ٹیکس نیٹ بڑھانے میں ناکام رہی اور بوجھ ٹیکس دینے والوں پر ہی ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم ٹیکس دینے کے خلاف نہیں لیکن صرف بزنس کمیونٹی کو ہی تنگ کرنا درست نہیں، اس حوالے سے اصلاحات ضروری ہیں۔ہمیں اپنی سفرکی تفصیلات بھی حکومت کو دینا پڑتی ہے مگر جو ٹیکس نہیں دیتاوہ آزاد ہے۔ اس وقت بزنس کمیونٹی اور تنخواہ دار طبقہ ہی ٹیکس دے رہا ہے اور ان پر ہی زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ اب تنخواہ دار طبقے کی ٹیکس سلیب کو بھی کم کر دیا گیا ہے ، حکومت کو دیگر شعبوں میں ٹیکس نیٹ بڑھانا چاہیے۔ ایف پی سی سی آئی ایک مکمل ادارہ ہے۔ ہمارے نیچے 83 چیمبرز اور 132 ایسوسی ایشن ہیں۔ سینئر افراد ہمارے پاس کام کر رہے ہیں۔

ہماری توجہ معیشت پر ہے اور ہر مسئلے پر ریسرچ کرکے پیپر لکھتے ہیں جس کے بعد حکومت کو تجاویز بھی دی جاتی ہیں۔ ہماری بزنس کمیونٹی کے لوگ حکومتی پالیسیوں میں شامل رہتے ہیں۔ اس منی بجٹ میں بھی فیڈریشن نے تجاویز دیں۔ نئے بجٹ کیلئے بھی ہم چیمبرز سے تجاویز لے رہے ہیں جوبعد ازاں حکومت کو پیش کی جائیں گی۔حکومت نے خام مال پر ڈیوٹی ختم کی ہے جو بہترین ہے، اس سے صنعت کا پہیہ دوبارہ چلے گا۔

تیار مال کی درآمدات کم ہونی چاہئیں جبکہ خام مال کی درآمد ہونی چاہیے اور یہاں اشیاء تیار کی جائیں۔ حکومت کو خام مال پر مزید مراعات دینی چاہئیں۔سولر انرجی کیلئے حکومت نے اچھا کام کیا ہے۔ اس کا قرض بھی 6 فیصد کر رہے ہیں اور اس پر ڈیوٹی نہیں ہونی چاہیے۔ جب ڈیوٹی لگتی ہے تو غیر معیاری چیزیں مارکیٹ میں آتی ہیں۔ حکومت کو اس میں مزید آسانی دینی چاہیے، اس طرح لوگ سولر انرجی پر منتقل ہو جائیں گے۔ ہمارا سولر انرجی کا سسٹم اس لیے کامیاب نہیں ہوا کہ معیاری سسٹم نہیں لگا۔ دنیا میں اس پر بہتر کام ہورہا ہے۔ سڈنی اولمپکس پارک مکمل سولر انرجی پر ہے اور ابھی تک وہ کئی مرتبہ اس کی لاگت وصول کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک ملک کو منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ آج جو ممالک ترقی یافتہ ہیں وہ بہتر منصوبہ بندی کے تحت اس مقام پر پہنچے ہیں۔ ہم نے گوادر کو نظر انداز کیا ہوا ہے اور ٹارگٹ ہی معلوم نہیں کہ اسے کیا بنانا ہے۔ حکومت کو کم از کم 10 سالہ پائیدار منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ مطالبہ ہے کہ ماسٹر پلان بنا کر ملک کو بہتر بنایا جائے۔

فائزہ امجد
( صدر وویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری لاہور)

منی بجٹ میں ریلیف کے نام پر لالی پاپ دے کر عوام کو خاموش کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بجٹ میں ابہام موجود ہے جبکہ حکومت کی پالیسی بھی واضح نہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ودہولڈنگ ٹیکس میں چھوٹ کے حوالے سے بھی ابہام موجود ہے۔ ماہرین کہہ رہے ہیں کہ اس میں صرف بیرون ملک سے منتقل رقم نکلوانے والے فائلر کو چھوٹ ہوگی جبکہ باقی معاملات ویسے ہی رہیں گے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ سب کو ہی ود ہولڈنگ ٹیکس پر چھوٹ ہوگی لہٰذا اب بینکوں کو عوامی ردعمل پر مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا اور کئی ماہ تک انہیں عوام کو وضاحتیں دینا پڑیں گی۔

اس بجٹ میں زراعت کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے مگر یہ نہیں بتایا گیاکن فارمز کو 39 فیصد سے 20 فیصد پر لایا گیا ہے۔ چھوٹے کاروبار کیلئے قرضوں کی بات کی گئی ہے مگر یہ معلوم نہیں کہ کس سیکٹر کو چھوٹے کاروبار میں قرضے دیے جائیں گے۔ چھوٹے گھروں کی تعمیر کیلئے قرض حسنہ دینے کا اعلان خوش آئند ہے مگر اس بجٹ کے بعد ایک رات میں ہی فی اینٹ 2 روپے ریٹ بڑھ گیا ، ایسا لگتا ہے کہ اب کنسٹرکشن مزید مہنگی ہوجائے گی۔حکومت جو بھی کام کر رہی ہے اسے چاہیے کہ مکمل ریسرچ کرنے اور اس کے اثرات دیکھنے کے بعد اس پر کام کیا جائے۔ حکومت کسی ایک کو خوش کرنے کیلئے کافی لوگوں کو ناخوش کر دیتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ چیزیں واضح کرے۔

اس منی بجٹ میں خواتین کے لیے کوئی بات نہیں کی گئی جو افسوسناک ہے۔ یہ محض ایک لالی پوپ ہے جس سے لوگ خوش نہیں ہوں گے۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوگا کہ ان باتوں کے پیچھے کہانی کچھ اور ہے۔ بہت کم لوگ زراعت سے منسلک ہیں جبکہ صنعتکار دیوالیہ ہورہے ہیں۔ حکومت کو ان کیلئے پالیسی لانی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ موبائل فون پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے جو عام آدمی کا مسئلہ نہیں ہے۔ امیر اگر مہنگا موبائل خرید سکتا ہے تو ٹیکس بھی دے سکتا ہے۔ میرے نزدیک اس سے موبائل انڈسٹری متاثر ہوگی اورکسٹمر کم ہوجائیں گے۔

شاہنواز خان
(نمائندہ سول سوسائٹی )

یہ منی بجٹ نہیں معاشی پیکیج ہے جو مایوس کن حالات میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔اگر یہ منی بجٹ ہوتا تو اس میں ٹیکس زیادہ ہوتے تاہم حکومت نے ملکی معیشت کی بہتری کیلئے پیکیج دینے کی کوشش کی ہے جو خوش آئند ہے اور میرے نزدیک گزشتہ 5 ماہ میں حکومت کی طرف سے یہ پہلی اچھی خبر ہے ۔حکومت نے کافی محنت سے جو تھوڑے بہت وسائل اکٹھے کیے ان کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی گئی۔ ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کی مجموعی رائے یہی ہے کہ اس بجٹ سے سب کو خصوصاََ عام آدمی کو ریلیف ملے گا۔

زرعی ٹیکس ، کھاد اور مشینری کی قیمتوں میں کمی سے چھوٹے کاشتکار کو فائدہ ہوگا۔ ود ہولڈنگ ٹیکس سے ہر شخص متاثر تھا کیونکہ ہر ٹرانزیکشن پر یہ ٹیکس دینا پڑتا تھا مگر اب اس کے خاتمے سے لوگوں کو ریلیف ملے گا۔ چھوٹے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض حسنہ کا اعلان اچھاا قدام ہے، اگر اس پر عمل ہوگیا توبہتری آئے گی۔ درآمدی مشینری پر ڈیوٹی کا خاتمہ خوش آئند ہے۔ میرے نزدیک اس سے چھوٹی صنعت کو فروغ ملے گا جس سے لوگوں کو روزگار کے نئے مواقع بھی ملیں گے۔ منی بجٹ سے معاشی تناؤکم ہوگا اور اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے آئندہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کیلئے فی الحال عوام کو کچھ ریلیف دیا ہے۔آئندہ بجٹ میں حکومت کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا ہوں گی جس کے پیش نظر منی بجٹ میں عوام کو خوش کیا گیا، آئندہ بجٹ میں حالات مشکل نظر آرہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں