کیا سائنس فکشن واقعی ’’سائنسی‘‘ ہوتا ہے چوتھا اور آخری حصہ
ممکن ہے وہ وقت جلد آجائے کہ جب ہم سائنس فکشن فلموں میں ہونے والی غلطیوں کا مذاق اڑائیں
خلا میں لیزر شعاعیں
اسٹار وارز میں بہت سے خلائی جہاز لڑائی کے دوران لیزر شعاعیں چھوڑتے یا مارتے دکھائی دیتے ہیں۔ مثلاً ایکس وِنگ، آئی ٹی ای اور ڈیتھ اسٹار وغیرہ۔ اسٹار ٹریک میں بھی اسپیس شپ اینٹرپرائز، دشمن کے خلائی جہازوں پر ''فیزر'' نامی لیزر سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ان دونوں فلموں میں کرداروں کو دستی لیزر یا فیزر ہتھیاروں سے لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ (اسٹار وارز میں رنگ برنگی لیزر تلواروں کی لڑائیاں بہت سے سامعین کو آج تک یاد ہوں گی۔) ان تمام مناظر میں لیزر شعاعیں باقاعدہ سفر کرتی نظر آئیں اور اپنے ہدف سے جا ٹکرائیں۔
لیکن مشکل پھر وہی ہے کہ لیزر شعاعیں اس طرح سے نظر نہیں آتیں۔ لیزر ایک بے حد مرکوز روشنی کی کرن یا شعاع ہوتی ہے، جس میں تمام فوٹون ایک ہی سمت میں، ایک دوسرے سے مکمل ہم آہنگ ہوکر چلتے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی فوٹون اپنی راست سمت نہیں چھوڑتا کہ آپ کی آنکھوں سے آٹکرائے اور بینائی میں نظر آجائے۔
اس بلاگ کے ابتدائی تین حصے یہاں پڑھیے:
کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟
کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟ (دوسرا حصہ)
کیا سائنس فکشن واقعی ''سائنسی'' ہوتا ہے؟ (تیسرا حصہ)
خلاء میں ہم روشنی کی اسی شعاع کو دیکھ سکتے ہیں جو ہدف سے ٹکراتی ہے۔ (دراصل جب روشنی، مادّے سے ٹکرا کر بکھرتی ہے تو ہمیں شعاع دکھائی دیتی ہے۔) اگر اس کے راستے میں ایسی کوئی شئے موجود نہ ہو کہ جس سے روشنی کی شعاع ٹکرائے، تو وہ دکھائی بھی نہیں دے گی۔ یہ بات آپ تجربہ کرکے بھی سمجھ سکتے ہیں۔
اگر کسی لیزر پوائنٹر یا فلیش لائٹ کو کسی خالی کمرے میں دیوار کی طرف کیا جائے تو دیوار پر روشنی کا ایک نقطہ دکھائی دینے لگے گا۔ لیکن روشنی کی لکیر دیکھنے کی صرف ایک ہی صورت ممکن ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ روشنی کے راستے میں ذرات بکھیر دیئے جائیں جو روشنی کو منتشر کرنے کا باعث بن سکیں۔ اس تجربے کےلیے چاک کے باریک ذرات، ٹیلکم پاؤڈر یا پھر دھوئیں کے انتہائی باریک ذرّات استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
اکثر فلموں میں خصوصی بصری اثرات (اسپیشل ایفیکٹس) پیدا کرنے کےلیے لیزر شعاعوں کو قابل مشاہدہ بنایا جاتا رہا ہے کیونکہ یہ بات عام ناظرین کےلیے قابل قبول نہ ہوگی کہ ایک کردار لیزر شعاع فائر تو کرے مگر خود ہی اسے نہ دیکھ سکے۔
خلا میں آواز
اسٹار وارز کی چوتھی اور چھٹی قسط میں جب ڈیتھ اسٹار (موت کے ستارے) کو باغی فوجیں تباہ کرتی ہیں تو ہر ستارے کے پھٹنے سے ایک زبردست دھماکا بھی سنائی دیتا ہے۔ بہت سی سائنس فکشن فلموں میں یہ دھماکے شدید آواز سے سنائے جاتے ہیں۔ ٹی وی سیریز اسٹار ٹریک میں دشمن کے خلائی جہاز کو اڑایا جاتا ہے یا پھر ایلین نامی فلم میں نوسٹرومو خود کو دھماکے سے تباہ کر دیتا ہے۔ مشکل پھر وہی ہے کہ خلا میں تو آواز سفر ہی نہیں کرسکتی!
پرندوں کی چہچہاہٹ ہو، صور اسرافیل ہو یا عاشق کے نالے، یہ خلا میں بالکل بھی سنائی نہیں دیتے۔
آواز طولی موجوں (Longitudinal waves) کی ایک قسم ہے۔ صوتی توانائی مادّے یعنی مائع، گیس یا ٹھوس سالمات کے ارتعاش سے سفر کرتی ہے۔ جب گھنٹی بجتی ہے تو گھنٹی کے ذرّات، قریبی ہوا میں موجود ذرّات میں بڑی تیزی سے تھرتھراہٹ پیدا کرتے ہیں۔ یہ عمل، ہوا کے ذرّات پر انتہائی تیزی سے دباؤ بڑھنے اور کم ہونے کے نتیجے میں واقع ہوتا ہے۔ جب گھنٹی کے قریبی ہوا کے ذرّات پر دباؤ کم ہوتا ہے تو اس کمی کو پورا کرنے کےلیے ارد گرد موجود ہوا کے دوسرے ذرّات بڑی تیزی سے وہاں آجاتے ہیں․․․ اور ان کے پیچھے پیچھے، آس پاس والی ہوا کے دوسرے ذرّات بھی اس طرف حرکت کرتے ہیں (یاد رہے کہ یہ حرکت اتنی معمولی ہوتی ہے کہ ہم اسے محسوس نہیں کرسکتے)۔ اسی طرح جب دباؤ بڑھنے کا مرحلہ آتا ہے تو گھنٹی کے قریب والی ہوا کے ذرّات، اپنے آس پاس موجود ذرّات کو بہت تیزی سے دور دھکیلتے ہیں۔ یہ عمل ایک سیکنڈ میں سینکڑوں ہزاروں مرتبہ ہوتا ہے اور اسی طرح سے آواز کی لہریں ایک سے دوسری جگہ کا سفر کرتی ہیں؛ یہاں تک کہ ہمارے کان کے پردے سے آٹکراتی ہیں اور ہمیں آواز سننے کا احساس ہوتا ہے۔
اس پورے عمل میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آواز کے مرکز سے ہمارے کان تک جو چیز آواز پہنچاتی ہے، وہ ہے ہوا کے ''سالمات۔'' یہی چیز اس وقت بھی واقع ہوتی ہے جب آپ پانی کے اندر ہوں یا دیواروں کے درمیان (گیس یا ہوا کی طرح ٹھوس اور مائع سالمات یا ذرات بھی آواز کو ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا باعث بنتے ہیں)۔ لیکن خلا میں ایسے کوئی ذرات موجود نہیں ہوتے جو صوتی لہروں کو یہاں سے وہاں منتقل کرسکیں۔ لہٰذا آپ خلا میں آواز نہیں سن سکتے۔ فلم ''ایلین'' کے پوسٹر میں ٹھیک ہی لکھا تھا کہ خلا میں کوئی آپ کی چیخیں تک نہیں سن سکتا۔
اسٹینلے کیوبرک کی مشہور کلاسیکی فلم ''2001: اے اسپیس اوڈیسی'' خلا میں آواز کی غیرموجودگی کی بہترین مثال ہے۔ اس فلم میں کسی خلائی جہاز کے اندرونی مناظر میں ہم مشینوں یا الارم وغیرہ کی آوازیں سن سکتے ہیں۔ (مثلاً ڈسکوری، پوڈز اور چاند گاڑیوں وغیرہ کے اندر۔) لیکن ان جہازوں کے باہر خلا کے مناظر میں کوئی بھی آواز سنائی نہیں دیتی۔
اسی فلم کا ایک ہوشربائی منظر وہ تھا جب خلا نورد ڈیوڈ بومین کو اپنے پوڈ سے ڈسکوری خلائی جہاز میں بغیر ہیلمٹ کے داخل ہونا پڑتا ہے۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اپنے خلائی پوڈ کو تباہ کرکے دباؤ پیدا کرے گا اور اسی کے ساتھ وہ ڈسکوری خلائی جہاز کے ایک کھلے ہوئے ایئرلاک میں سے گزر کر تیزی سے اندر جا پہنچے گا۔ لہٰذا فلم دھماکے سے لے کر بومین کے ایئرلاک کے اندر تک پہنچنے کے مختصر سے منظر میں کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔ آواز دوبارہ اسی وقت سنائی دیتی ہے جب وہ اس ایئرلاک کو اندر سے بند کرکے اس میں ہوا بھر لیتا ہے۔
امریکی دیہاتی ماحول کو پس منظر میں رکھتے ہوئے بنائی گئی سائنس فکشن فلم ''فائر فلائی'' اور بعد ازاں ''سیرینیٹی'' میں بھی خلا میں آواز کی غیر موجودگی ہی پیش کی گئی ہے۔ لیکن لیزر کی طرح یہاں بھی اکثر ٹی وی سیریز یا پھر سائنس فکشن فلموں میں خلا میں آواز کے دھماکے سنائے جاتے ہیں، جن کا مقصد ناظرین کو محظوظ کراتے ہوئے یہ باور کرانا ہے کہ کوئی زبردست دھماکہ ہوا ہے․․․ حالانکہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
سائنس فکشن کی خلائی مخلوق
فلم اسٹارٹریک کے پہلے سلسلے کی ایک قسط ''دی امیونیٹی سینڈروم'' میں خلائی جہاز اینٹرپرائز، امیبا نما یک خلوی خلائی مخلوق سے دوچار ہوجاتا ہے․․․ یعنی ایسی مخلوق جو صرف ایک ہی خلیے پر مشتمل تھی۔ یہ مخلوق، جہاز سے کئی گنا بڑی اور شاید ہزاروں کلومیٹر پر پھیلی ہوتی ہے۔ جہاز اس کی خلوی جھلی (ممبرین) سے گزر کر اس کے خلیہ مائع (سائٹوپلازم) تک پہنچ جاتا ہے تاکہ اسے تباہ کرسکے۔ لیکن کیا ایسا کوئی جاندار موجود ہوسکتا ہے؟
کوئی بھی یک خلوی جاندار یا ایک خلیہ اپنی غذا کو جذب کرنے سے لے کر غذائی ذرّات کو اپنے اندر حرکت دینے تک جس عمل پر تکیہ کرتا ہے وہ ''نفوذ پذیری'' (ڈیفیوژن) کہلاتا ہے۔ نفوذ پذیری کسی چیز کے ایک کثیف سے لطیف جگہ تک سفر کرنے کو کہتے ہیں۔ باورچی خانے میں اگر پیاز کاٹی جائے تو آپ کو دوسرے کمروں تک یہ بو پہنچ جاتی ہے؛ کیونکہ پیاز کی بو کے سالمات یا ذرات، کچن کی کثیف فضا سے کمرے کی لطیف اور صاف فضا تک سفر کرتے ہیں یا نفوذ کر جاتے ہیں۔
جہاں تک خلیات کا تعلق ہے تو اِن کے اندر بہت مختصر فاصلوں تک ہی مؤثر نفوذ پذیری ممکن ہے․․․ یعنی ایک مائیکرون سے لے کر 100 مائیکرون تک۔ (ایک مائیکرون سے مراد، ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہے۔) کم فاصلوں کے علاوہ، مؤثر نفوذ پذیری کےلیے خلیے کی بیرونی سطح (خلوی جھلی) کا رقبہ بھی بالکل موزوں ہونا چاہیے۔ اپنی خلوی جھلی کے دستیاب رقبے سے بہترین استفادہ کرنے کےلیے ہی بیشتر خلیات گول یا پھر مکعب نما ہوتے ہیں۔
یہاں ہم ایک گول خلیے کو بطور مثال لیتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک گول خلیے کی چوڑائی (اس کا قطر یعنی ڈایامیٹر) ابتداء میں صرف 2 مائیکرون ہے تو اس کی خلوی جھلی (بیرونی سطح) کا رقبہ 4 مربع مائیکرون ہوگا؛ اور اس خلیے کا حجم 1.33 مکعب مائیکرون ہوگا۔ لیکن اگر کسی طرح ہم اس کا قطر دگنا (یعنی 4 مائیکرون) کردیں تو اس کی بیرونی سطح 16 مربع مائیکرون تک پھیل جائے گی (یعنی پہلے کے مقابلے میں چار گنا زیادہ)، جبکہ اس کے حجم میں 8 گنا کا اضافہ ہوجائے گا۔ اب اگر ہم اس خلیے کو مزید پھیلاتے ہوئے اس کا قطر 8 مائیکرون تک لے جائیں تو اس کی سطح کا رقبہ غیرمعمولی طور پر بڑھ کر 64 مربع مائیکرون ہوجائے گا؛ یعنی پہلے کے مقابلے میں 16 گنا زیادہ․․․ اور اس کا حجم تو اور بھی زیادہ بڑھ چکا ہوگا: پہلے کی نسبت 64 گنا زیادہ!
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی خلیے کی جسامت میں تھوڑا سا اضافہ بھی جہاں اس کے سطحی رقبے میں بہت زیادہ اضافے کا باعث بنے گا، وہیں اس کے حجم کو بہت ہی زیادہ بڑھا دے گا۔ جیسے جیسے رقبہ بڑھتا ہے، ویسے ویسے غذائی مادے یا اشیاء کےلیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ نفوذ کے ذریعے خلیے کے بیچوں بیچ پہنچ سکیں․․․ کیونکہ فاصلہ بہت بڑھ چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ عملی طور پر کسی یک خلوی جاندار کا زیادہ سے زیادہ قطر 100 مائیکرون کی حد سے زیادہ نہیں بڑھ سکتا۔ چنانچہ اسٹار ٹریک سلسلے کی مذکورہ بالا فلم میں جتنا بڑا خلیہ دکھایا گیا ہے، ویسی حیاتیاتی اکائی اپنا وجود برقرار ہی نہیں رکھ سکتی۔ بلکہ بڑے جاندار، جن میں انسان بھی شامل ہے، خود بھی چھوٹے چھوٹے کھربوں خلیات سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ کثیر خلوی، پیچیدہ جاندار ایک باضابطہ گردشی نظام سے لیس ہوتے ہیں جو خلیوں تک آکسیجن اور غذا پہنچانے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور فضلہ وغیرہ اس سے خارج کرنے کی ذمہ داری سنبھالے ہوتا ہے۔
اسی طرح 1950ء کے عشرے کی بعض فلموں میں بہت زیادہ بڑے کیڑے مکوڑے دکھائے گئے ہیں۔ مثلاً قدِآدم یا اس سے بھی بڑی چیونٹیاں اور مکڑیاں؛ بلکہ آج کی مشہور زمانہ فلم ''ہیری پوٹر اینڈ دی چیمبر آف سیکرٹس'' میں بھی ایسی ہی دیوقامت مکڑیاں دکھائی گئی ہیں، جو کتوں جتنی بڑی تھیں۔ سائنسی نقطۂ نگاہ سے یہ بھی ناممکن ہے۔ درحقیقت کیڑے مکوڑوں میں علیحدہ سے کوئی باقاعدہ نظام تنفس (پھیپھڑوں پر مشتمل) نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، ان میں شاخ در شاخ نالیوں (ٹریکیولز) کا نظام ہوتا ہے جس کی مدد سے وہ اپنی کھال میں موجود خلیات کے ذریعے براہِ راست ہوا کی آکسیجن جذب کرتے ہیں۔ ہوا کو ان نالیوں میں نفوذ کرنے کےلیے جتنا زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑے گا، اتنی ہی کم ہوا جذب ہوسکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری زمین پر ایسی قوی الجثہ مکڑیاں اور چیونٹیاں موجود ہی نہیں۔
علاوہ ازیں، ایسی بڑی مکڑیوں اور چیونٹیوں کی غیرموجودگی کا سبب ان کی نازک پتلی ٹانگیں بھی ہیں جو موٹے بھاری اجسام کو اُٹھانے اور چلنے کی طاقت نہیں رکھتیں؛ زمینی کشش ثقل کی وجہ سے۔ لہٰذا فلم سیریز ''ایلین'' میں دکھائی گئی خلائی مخلوق، زمین کی عمومی قوتِ ثقل میں (اپنی ٹانگوں کی طاقت سے) حرکت کے قابل ہی نہیں۔ خشکی کا سب سے بڑا جانور افریقی ہاتھی ہے؛ اس کے چار بڑے پاؤں ہوتے ہیں جو اس کے بھاری جسم کو سنبھالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ بڑے بھاری جسم رکھنے والی خلائی مخلوقات گو کہ سائنس فکشن فلموں میں خوف کی فضا پیدا کرنے میں اب بھی شہرت رکھتی ہیں، مگر اب ہم مزید ایسی یک خلوی خلائی مخلوق کسی سائنس فکشن فلم میں نہیں دیکھتے۔
خلائی مخلوق کا حلیہ اور بولی
زیادہ تر فلموں میں خود انسانوں نے بھیس بدل کر یا کھال پہن کر خلائی مخلوق کا روپ دھارنے کی کوشش کی ہے، جس سے خلائی مخلوق ہمیشہ انسانی دو ٹانگوں والے اجسام پر مشتمل نظر آئی۔ لیکن کمپیوٹر اور جدید ایجادات کے ذریعے آج یہ ممکن ہے کہ انسانی شکل کے علاوہ بھی کئی روپ میں خلائی مخلوق پیش کی جاسکے۔ لیکن آپ آج بھی خلائی مخلوق، انسانوں سے ملتی جلتی شکلوں اور حلیوں میں ہی دیکھیں گے؛ کیونکہ ناظرین کےلیے ضروری ہے کہ وہ خلائی مخلوق کو کسی زندہ متحرک چیز کی طرح شناخت کرسکیں۔ نفسیاتی طور پر ہم اپنے جیسے انسانوں کو ہی مخلوق سمجھتے اور شناخت کرتے ہیں۔ لہٰذا کسی کرسی یا میز کی شکل کی خلائی مخلوق، انسانوں (ناظرین) کےلیے ناقابل قبول ہوگی۔
اسی طرح زیادہ تر فلموں میں خلائی مخلوق کو انگریزی بولتے دکھایا جاتا ہے (کیونکہ اکثر لوگ اپنی زبان میں نیچے لکھا ہوا ترجمہ یعنی سب ٹائٹل پڑھنے سے زیادہ سننا ہی پسند کرتے ہیں)۔ سائنس فکشن فلموں میں خلائی مخلوق کی زبان سمجھنے کےلیے مترجم آلات کا بھی استعمال دکھایا جاتا ہے۔ مثلاً اسٹارٹریک میں مستعمل کائناتی مترجم یا پھر بیبل فش نامی مترجم آلہ جو فلم ''ہچ ہیکرز گائیڈ ٹو گیلکسی'' میں استعمال ہوا۔ حالانکہ درحقیقت کسی بھی خلائی مخلوق کےلیے انگریزی تو کیا، دنیا میں بولی جانے والی کوئی بھی زبان جاننا یا استعمال کرنا ناممکن ہے۔ آنجہانی کارل ساگان کے مشہور ناول ''کونٹیکٹ'' پر بنائی گئی فلم میں دکھایا گیا ہے کہ خلا سے آنے والا ریڈیو پیغام، ریاضی کی زبان میں بھیجا گیا اور علامات پر مبنی ایک قاعدے (پریمر) کی بنیاد پر ترجمہ کیا گیا۔ یقینا یہ ایک قابلِ فہم نکتہ ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ ''اسٹار ٹریک دی نیکسٹ جنریشن'' کی ایک قسط ''ڈارموک'' کا بھی ہے جس میں اس حقیقت کو اچھی طرح پیش کیا گیا۔ ڈارموک میں خلائی مخلوق آپس میں باتیں کرنے کےلیے زبان کے بجائے ''خیال'' (Metaphor) کا استعمال کرتی ہے، تاکہ فلم میں دکھایا گیا کائناتی مترجم، ان کی باتوں کا ترجمہ نہ کرسکے۔
بتاتی چلوں کہ اسٹار ٹریک کی سب سے پہلی سیریز میں جو کائناتی مترجم دکھایا گیا، وہ جنریشن نیکسٹ تک پہنچتے پہنچتے اتنا زیادہ مختصر اور ترقی یافتہ بنایا جاچکا تھا کہ کمیونی کیٹر کی پنوں میں سمودیا گیا تھا۔
کیا یہ حرفِ آخر ہے؟
سائنس مسلسل ترقی کرتے رہنے والی ہے؛ جس میں ہر لمحہ نئی اور چونکا دینے والی ایجادات و انکشافات ہوتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے وہ وقت جلد آجائے کہ جب ہم ان فلموں میں ہونے والی ان غلطیوں کا مذاق اڑائیں اور یاد کریں، جیسا آج ہم ''رابنسن کروسو آن مارس'' نامی فلم دیکھ کر کرتے ہیں۔ لیکن جب تک سائنس قابلِ فہم ہے، فلموں میں ہماری بے یقینی کو یقین میں بدل ڈالنے والے مناظر موجود ہیں اور کہانی پرلطف ہے، تب تک ہم سائنس فکشن فلموں کا مزہ لیتے رہیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔