بازار حسن سے پان کھانے کی عادت پران کو پردۂ سیمیں تک لے آئی
47ء میں فسادات کے باعث انھیں مجبوراً لاہور چھوڑنا پڑا.
KARACHI:
لاہور کے بازارحسن میں پان کھانے کے لیے جانا پران کے اداکاربننے کی بنیاد بنا۔ فلم میں کام کرنے کا خیال کبھی ان کے گمان میں بھی نہیں آیاتھا۔ ان کے دماغ میں صرف اورصرف فوٹوگرافربننے کا سودا سمایا تھا۔
اس شوق کی خاطرہی وہ اپنا گھربارچھوڑکر اٹھارہ برس کی عمرمیں لاہور آگئے تھے۔دہلی میں جس فوٹوگرافرز کمپنی سے وہ وابستہ تھے اس نے لاہور میں برانچ کھولی تو پران کو یہاں بھیج دیا گیا۔شوق جس قدرفراواں ہو،آدمی رموز اتنی ہی سرعت سے سیکھ لیتا ہے،اس لیے پران فن فوٹوگرافی سے متعلق بہت کچھ بہت جلد جان گئے۔وہ اپنے کام کی رفتار سے مطمئن اور شاد کام تھے لیکن بیچ میں ایسا پیچ پڑا کہ انہیں اپنے اُس شوق سے ناتا توڑنا پڑا جس سے وہ میٹر ک کے بعد جڑ گئے تھے۔ اس کے بجائے انھیں وہ پیشہ اپنانا پڑا، جس میںتصویریں اتارنے کے بجائے تصویر اترنے کا سامان پیدا ہونا تھا۔ قسمت کس طرح پران کو گھیرگھار کر فلم انڈسٹری میں لے گئی،اس کا احوال کچھ یوں ہے کہ پران کام سے فراغت کے بعد دوستوں کے ہمراہ سیرسپاٹے کے لیے نکلتے تو کھانے کے بعد بازارحسن کا رخ بھی کرتے جہاں مقیم حسینائوں کا رخ روشن بھی وہ ضروردیکھتے ہوں گے اور ان کی آواز سے جی بھی بہلاتے ہوں گے لیکن بازار میں جانے کی ایک وجہ پان کھانا بھی تھا۔
1939ء میں سردیوں کی ایک رات وہ حسب معمول پان کھانے ادھر آئے تو دیکھا کہ ایک شخص بڑے غور سے ان کو سرتا پا دیکھ رہا ہے۔ پہلے پہل تو پران نے اسے نظرانداز کیا لیکن جب ان صاحب نے بڑھ کر ان کا نام پوچھ لیا تو پران نے انھیں ٹکا سا جواب دیا۔ان سے مخاطب شخص فلمی دنیا کی معروف شخصیت ولی محمد ولی تھے، جو ولی صاحب کے نام سے معروف تھے۔انھوں نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم رائٹر ہیں اور مشہور پروڈیوسردل سکھ پنچولی کے لیے فلم لکھ رہے ہیں۔ پران نے ولی صاحب کی تمام معروضات سن تو لیں لیکن روکھائی سے کہا: توپھر؟ولی صاحب نے اس ترش روئی پربھی پران کا پیچھا نہ چھوڑا کہ انھیں پران کے پان چبانے کی لُک میں اپنے اسکرپٹ میں موجود کردار کا پرتونظرآگیاتھا ۔اب ان کا سوال تھا ''کیا آپ فلم میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟''اس سوال پر پران کا جواب نفی میں تھا۔
بہرکیف ولی صاحب کو اس جواب نے بھی مایوس نہ کیااور انھوں نے اپنا کارڈ پران کو دے کر اگلے روز صبح دس بجے فلم اسٹوڈیوآنے کی دعوت دی،جس کو پران نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے قبول کرلیا۔ پران کو فلم اسٹوڈیو جانا تھا نہ وہ گئے۔چند دن بعد وہ پلازہ سینما میں فلم دیکھنے گئے تو ادھر ولی صاحب سے ملاقات ہوگئی، جنھوں نے اس نوجوان کو وعدے کے مطابق فلم اسٹوڈیو نہ آنے پرکھری کھری سنائیں۔ اس گوشمالی کا پران پرخاطر خواہ اثر ہوا۔ انھوں نے اسٹوڈیو آنے کا وعدہ کیا اور پھر اسے وفا کرنے ادھر پہنچ بھی گئے۔ اسکرین ٹیسٹ کے ساتھ پران کی تصویریں بھی بنائی گئیں، جو کچھ دیر میں دھل کر آگئیں۔ پران کے بقول،جیسا خوبصورت وہ ان تصاویر میں دکھائی دیا، آنے والے برسوںمیں ہرچند کہ اس کی ہزاروں تصاویر بنیں لیکن ویسی خوبصورتی پھر دکھائی نہیں دی۔ پران کے بقول،'' ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ میرا میک اپ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا تھا یا پھر فوٹوگرافرکوئی ماہر تھا یا پھرمیں کوئی بڑا خوبصورت آدمی تھا۔
اصل بات یہ تھی کہ میں اس وقت اداکارنہیں بنا تھا اورحقیقی زندگی گزار رہا تھا،ایک عام زندگی جو دوسرے لاکھوں لوگوں جیسی تھی۔'' قصہ مختصریہ کہ پران کا پنجابی فلم ''یملا جٹ'' کے لیے انتخاب ہوگیا۔ پران ذہنی اعتبار سے فلم میں کام کے لیے تیار تھا لیکن فوٹوگرافر سے فلمی اداکار بننے کے فیصلے سے باپ کو آگاہ کرنا چاہتا تھا۔اس زمانے میں فلم والا ہونا عزت کی بات نہ تھا۔پران کا شش وپنج میں پڑنا سیٹھ دل سکھ پنچولی کو ناگوارگزرا تو اس نے بغیر لگی لپٹی کے اس باور کرا دیا کہ وہ خوش قسمت ہے جو اسے یہ چانس مل رہا ہے وگرنہ تو فلم میں کام کے خواہش مندوں کی لائنیں لگی ہیں۔ پران پر واضح کردیا گیا کہ اسے فلم اسٹوڈیو کا فارم فوراً بھرنا ہوگا۔پران کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ فوٹو گرافرز کمپنی سے فوٹوگرافر اسسٹنٹ کے طور پر اسے دو سو ماہانہ ملتے تھے جبکہ ادھراسے ماہانہ پچاس روپے کی پیشکش کی جارہی تھی۔ پنچولی نے اب انھیں کہاکہ وہ بدستور دکان پر جاتے رہیں ، جب شوٹنگ ہوگی، یا ان کی ضرورت پڑے گی تو انھیں بلا لیا جائے گا۔
یوں پران نے فارم پر دستخط کردیے اور یوں وہ پنچولی آرٹ پکچرز اسٹوڈیوز میں ملازم ہوگئے۔ پران کے بقول، ''یملاجٹ '' ریلیز ہونے کے بعد انہیں لوفرکے بجائے اداکار سمجھا جانے لگا تھا۔ پنچولی اسٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے پنجابی فلم ''چودھری'' میں بھی انھیں کاسٹ کیا گیا ۔یہ فلم بھی ہٹ ہوئی۔اس کے بعد فلم ''خزانچی'' میں جلوہ گر ہوئے۔لیکن صحیح معنوں میں پران کو جس فلم سے بریک ملا وہ1942 میں بننے والی فلم ''خاندان''تھی۔ پران کو اس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر تو پہنچا دیالیکن فلم میں گانوں کی بھرمار اور ہیروین کے پیچھے درختوں کے گرد بھاگنا انہیں زیادہ اچھا نہیں لگا۔ اس سوچ کے زیراثر پران نے آئندہ برسوں میں خود کو ولن کے کرداروں کے لیے مخصوص کرلیا تھاکیوں کہ ان کے خیال میں ایسے کردار میں آپ زیادہ بہترطور پر فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہارکرسکتے ہیں۔
لاہور میں قیام کے دوران پران کی فلمی صحافی وی این نیرسے بھی دوستی ہوئی۔نیر نے1940ء میں لاہور سے انگریزی ماہنامہ فلم کرٹک جاری کیا۔ نیرکی سفارش پر پران کو پنجابی فلم ''پردیسی بلم'' میں چانس ملا۔یہ فلم بھی کامیاب رہی۔اس فلم کی پران کی زندگی میں اہمیت یہ تھی کہ اس سے حاصل ہونے والے معاوضے سے انھوں نے کار خریدی۔ 1945 ء میں پران کی شادی جان پہچان کے لوگوں کی لڑکی شکلا سے ہوئی، معاملہ تھوڑا لٹکاجس کی وجہ لڑکے کا فلم میں کام کرنا تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس لیے کام بن گیا۔ پران اس شادی کو محبت اور ارینج دونوں ہی قراردیتے ہیں۔ دونوں خاندانوں کے تعلقات قریبی رہے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ شکلا نے ایک جگہ بتایا ہے کہ جب پران کی پہلی فلم یملا جٹ ریلیز ہوئی تواس کا تمام خاندان اسے دیکھنے کے لیے راولپنڈی سے لاہور گیا۔ لاہور میں اپنے آٹھ برس کے فلمی کیرئیر میں پران نے 22فلموں میں کام کیا۔ سب سے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم ''بیرہاں'' تھی، جو 1948 ء میں ریلیز ہوئی۔
ان کی فلم ''بت تراش'' فسادات کے زمانے میں ریلیز ہوئی۔ فلم ''شاہی لٹیرا'' تو تقسیم کے بعد بھی لاہور میں فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ پران کو لاہور شہرنے اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تھا۔یہاں انھوں نے بڑے مزے سے زندگی گزاری۔ گلے میں کیمرہ ڈالے وہ سائیکل پرگھومتے پھرتے۔موٹرسائیکل پر شہرنوردی بھی کی اور ایک بار تو ایکسیڈنٹ کرا بیٹھے جس پر انہیں مجسٹریٹ کے حضورپیش ہوکر صفائی دینا پڑی۔ ان کا اپنا ذاتی ٹانگہ تھا۔ اس شہر ہی میں انہوں نے پہلی گاڑی خریدی۔ 11اگست1946ء کو پران کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاسی فضا کی گرما گرمی سے ماحول میں تنائو تھا اور جوں جوں آزادی کا وقت قریب آرہا تھا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کمزور پڑتی جارہی تھی۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بیوی اور نوزائیدہ بچے کو پران نے اندور بجھوادیا۔ کشیدگی عروج پر پُہنچی تو انھیں خود بھی لاہور چھوڑنا پڑا۔ پران کے سوانح نگار بنی روبن کے مطابق، اگر تقسیم نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ پران لاہور میں رہنے کو ترجیح دیتے کیوں کہ وہ یہاں اپنی ازدواجی زندگی شروع کرچکے تھے۔
معروف براڈ کاسٹر عارف وقارکے بقول''اداکار پران جو لاہور کو دل وجان سے چاہتے تھے، آخری وقت تک حالات بہتر ہونے کاانتظارکرتے رہے انھوں نے اپنی بیوی اور ایک سالہ بچے کو اندوربھیج دیا تھا لیکن خود لاہور چھوڑنے کو ان کا دل نہ چاہتا تھا۔گیارہ اگست1947ء کو خیر خواہوں کے اصرارپر انھوں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور بھاری قدموں سے لاہور کوخیرباد کہا اور اگلے ہی روز ان کے محلے پر فرقہ پرستوں نے حملہ کردیا۔ بہت سے ہندومارے گئے، جو بچ رہے انھوں نے فوراً رخت سفر باندھا اور محفوظ علاقوں کی راہ لی۔ ''
نورجہاں اور پران
پران کی پہلی فلم''یملاجٹ''میں نورجہاں نے بھی کام کیا۔ وہ اس زمانے میں چائیلڈ اسٹارتھیں اور بے بی نورجہاں کے نام سے جانی جاتیں۔''یملا جٹ'' میں پران ولن بنے۔نورجہاں نے ہیروین کی سہیلی کا کردار کیا۔ فلم ''خاندان'' میں وہ پران کی ہیروین بنیں۔ 12 مارچ 1942ء کو لاہور کے ریگل سینما میں پران اورنورجہاں کی ریلیز ہونے والی ''خاندان''کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی امتیازعلی تاج نے لکھی ۔گانے ڈی این مدھوک اور شوکت تھانوی کے قلم سے تھے۔موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی ۔ فلم کے گانوں نے بہت مقبولیت حاصل کی ، نامورموسیقارآرسی بورال خاص طور سے فلم دیکھنے پہنچے اور بیحد متاثر ہوئے۔فلم کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی سے نورجہا ں کا عشق اسی فلم کے دوران ہی پروان چڑھا ۔''خاندان ''تکمیل کے مراحل میں تھی تو نورجہاں کے گھر والے جو فلم میں ان کے کام کرنے سے ناخوش تھے، انھیں قصورلے گئے ، اور فلم کی شوٹنگ کھٹائی میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جو راہ نکالی گئی، اس کے بارے میں خالد حسن نے لکھا ''ایک دن اسٹوڈیو کی کار اسے شوٹنگ کے لیے ہیرامنڈی لاہور سے لانے کے لیے گئی تو معلوم ہواکہ نورجہاں اپنے خاندان سمیت وہاں سے کوچ کرگئی ہے۔سیٹھ دل سکھ پنچولی بڑا بااثر آدمی تھاچنانچہ اس نے نورجہاں کے نام وارنٹ نکلوا دیے۔جلد ہی نورجہاں سمیت اس کے خاندان کے40افراد قصور سے گرفتارکرکے لاہور لائے گئے۔اس دن فلم کے جس منظر کو فلمایاجانا تھا،اس میں فلم کے ہیرو پران، ہیروین نورجہاں اورکیریکٹر ایکٹرغلام محمد کے کچھ سین شامل تھے۔ نورجہاں کی بطور ہیروین اور پران کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ '' برسوں بعد پران نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ لاہور میں تھے تو نورجہاں نے انکے مدمقابل ہیروین کا کردار نبھایاتھا، اور وہ اس زمانے میںمشہورہیروین اورمغنیہ تھی۔اس حد تک تو پران کا کہنا ٹھیک تھا مگر اس انٹرویو میں چلتے چلتے انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب تو وہ خاصی بوڑھی ہوگئی ہوں گی۔انٹرویوچلا۔نورجہاں نے خود دیکھا یا پھر کسی نے انھیں بتایا۔
نورجہاں کوپرانے رفیق کار کا اپنے بارے میں یہ کمنٹ اچھا نہ لگا، جس کا ردعمل پران کو ان کے ناراضی بھری فون کال کی صورت میں ملا۔اس فون کے بارے میں پران بتاتے ہیں:نورجہاں کال ملتے ہی سیدھا اصل بات پر آگئیں۔چھوٹتے ہی بولیں ''میں نورجہاں بول رہی ہوں۔اچھا تو میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔تم اپنی سنائو؟تم بھی اب کون سے جوان نظرآتے ہو۔'' خیر،یہ بات رفت گزشت ہوگئی۔1982ء میں نورجہاں انڈین ٹاکی کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان گئیں تو پران سے35 برس بعد ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے یہ تقریب بارہ فروری کو پران کی سالگرہ کے دن ہونا تھی ۔نورجہاں نے یہاں اپنا مشہور گانا'آواز دے کہاں ہے، گایا۔ ہندوستان روانہ ہونے سے قبل نورجہاں کی کیفیت کے بارے میں پران نے بتایا تھا''نورجہاں اس دورے کے حوالے سے اس قدر نروس تھی کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل کوئی آٹھ دس بار مجھے صرف اس بات کا اطمینان کرنے کے لیے فون کیا کہ میں ائیرپورٹ پر اسپیشل بس کے ساتھ اس کے انتظار کے لیے موجود ہوں گا۔'' نورجہاں!ہندوستان پہنچیں توپران نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی ، جس میں فلم انڈسٹری کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے مل کر وہ بہت خوش ہوئیں۔n
منٹو اور پران
سعادت حسن منٹو اپنی کتاب ''لائوڈ اسپیکر'' میں لکھتے ہیں: ''پران سے جب میری ملاقات شیام کے توسط سے ہوئی تو میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی۔بڑا بے ریا آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پران اچھاخاصہ خوش شکل مرد ہے۔لاہورمیں اس کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ بڑا ہی خوش پوش تھا۔بہت ٹھاٹ سے رہتاتھا۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا لاہور کے ریئسی ٹانگوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ ''
پران کا منٹوکو''ماموں'' بنانا
منٹو کے بقول'' کلدیپ اور پران ایک ساتھ تھے۔پران ہی پتے بانٹتا تھا وہی اٹھاتا تھا اور کلدیپ اس کے کاندھے کے ساتھ اپنی نوکیلی ٹھوڑی ٹکائے بیٹھی تھی۔البتہ جتنے روپے پران جیتتا تھا، اٹھاکر اپنے پاس رکھ لیتی۔اس کھیل میں ہم صرف ہاراکئے۔میں نے کئی بار فلش کھیلی ہے لیکن وہ فلش عجیب وغریب قسم کی تھی۔میرے پچھترروپے پندرہ منٹ کے اندر اندرکلدیپ کور کے پاس تھے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آج پتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹھکانے کے آتے ہی نہیں۔شیام نے جب یہ رنگ دیکھاتو مجھے کہا۔ منٹو اب بند کردو۔میں نے کھیلنا بند کردیا۔پران مسکرایا اور کلدیپ سے کہا''کے کے!پیسے واپس کردو منٹو صاحب کے۔'' میں نے کہا یہ غلط ہے۔تم لوگوں نے جیتے ہیں،واپسی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
اس پر پران نے مجھے بتایا کہ وہ اول درجے کا نوسر باز ہے۔اس نے جو کچھ مجھ سے جیتا ہے اپنی چابکدستی کی بدولت جیتا ہے۔چونکہ میں اس کا دوست ہوں،اس لیے وہ مجھ سے دھوکا کرنا نہیں چاہتا۔میں پہلے سمجھاکہ وہ اس حیلے سے میرے روپے واپس کرنا چاہتاہے، لیکن جب اس نے تاش کی گڈی اٹھاکرتین چار بار پتے تقسیم کئے اور ہر بار بڑے دائو جیتنے والے پتے اپنے پاس گرائے تو میں اس کے ہتھکنڈے کا قائل ہوگیا۔یہ کام واقعی بڑی چابکدستی کا ہے۔پران نے پھر کلدیپ کور سے کہا کہ وہ پیسے واپس کردے مگراس نے انکار کردیا۔'' تقسیم کے فوراً بعد جب پران لاہور سے بمبئی پہنچے تومنٹو اس وقت ادھر ہی تھے۔ منٹو نے حقیقی دوست کی طرح انھیں اس نئی جگہ چانس دلانے کی کوشش کی۔ پران کے بقول''میرے عزیز دوست عظیم اردو لکھاری سعادت حسن منٹوجو ملک کی نمایاں فلم کمپنیوں میں سے ایک بمبئے ٹاکیزسے وابستہ تھے، وہ مجھے کام دلانے کے لیے اپنے ساتھ ملاد لے گئے ، تاہم اس وقت کچھ بھی نہ بن پڑا۔''
لاہور کے بازارحسن میں پان کھانے کے لیے جانا پران کے اداکاربننے کی بنیاد بنا۔ فلم میں کام کرنے کا خیال کبھی ان کے گمان میں بھی نہیں آیاتھا۔ ان کے دماغ میں صرف اورصرف فوٹوگرافربننے کا سودا سمایا تھا۔
اس شوق کی خاطرہی وہ اپنا گھربارچھوڑکر اٹھارہ برس کی عمرمیں لاہور آگئے تھے۔دہلی میں جس فوٹوگرافرز کمپنی سے وہ وابستہ تھے اس نے لاہور میں برانچ کھولی تو پران کو یہاں بھیج دیا گیا۔شوق جس قدرفراواں ہو،آدمی رموز اتنی ہی سرعت سے سیکھ لیتا ہے،اس لیے پران فن فوٹوگرافی سے متعلق بہت کچھ بہت جلد جان گئے۔وہ اپنے کام کی رفتار سے مطمئن اور شاد کام تھے لیکن بیچ میں ایسا پیچ پڑا کہ انہیں اپنے اُس شوق سے ناتا توڑنا پڑا جس سے وہ میٹر ک کے بعد جڑ گئے تھے۔ اس کے بجائے انھیں وہ پیشہ اپنانا پڑا، جس میںتصویریں اتارنے کے بجائے تصویر اترنے کا سامان پیدا ہونا تھا۔ قسمت کس طرح پران کو گھیرگھار کر فلم انڈسٹری میں لے گئی،اس کا احوال کچھ یوں ہے کہ پران کام سے فراغت کے بعد دوستوں کے ہمراہ سیرسپاٹے کے لیے نکلتے تو کھانے کے بعد بازارحسن کا رخ بھی کرتے جہاں مقیم حسینائوں کا رخ روشن بھی وہ ضروردیکھتے ہوں گے اور ان کی آواز سے جی بھی بہلاتے ہوں گے لیکن بازار میں جانے کی ایک وجہ پان کھانا بھی تھا۔
1939ء میں سردیوں کی ایک رات وہ حسب معمول پان کھانے ادھر آئے تو دیکھا کہ ایک شخص بڑے غور سے ان کو سرتا پا دیکھ رہا ہے۔ پہلے پہل تو پران نے اسے نظرانداز کیا لیکن جب ان صاحب نے بڑھ کر ان کا نام پوچھ لیا تو پران نے انھیں ٹکا سا جواب دیا۔ان سے مخاطب شخص فلمی دنیا کی معروف شخصیت ولی محمد ولی تھے، جو ولی صاحب کے نام سے معروف تھے۔انھوں نے پران سے اپنا تعارف کرایا اور بتایا کہ وہ فلم رائٹر ہیں اور مشہور پروڈیوسردل سکھ پنچولی کے لیے فلم لکھ رہے ہیں۔ پران نے ولی صاحب کی تمام معروضات سن تو لیں لیکن روکھائی سے کہا: توپھر؟ولی صاحب نے اس ترش روئی پربھی پران کا پیچھا نہ چھوڑا کہ انھیں پران کے پان چبانے کی لُک میں اپنے اسکرپٹ میں موجود کردار کا پرتونظرآگیاتھا ۔اب ان کا سوال تھا ''کیا آپ فلم میں کام کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟''اس سوال پر پران کا جواب نفی میں تھا۔
بہرکیف ولی صاحب کو اس جواب نے بھی مایوس نہ کیااور انھوں نے اپنا کارڈ پران کو دے کر اگلے روز صبح دس بجے فلم اسٹوڈیوآنے کی دعوت دی،جس کو پران نے ان سے پیچھا چھڑانے کے لیے قبول کرلیا۔ پران کو فلم اسٹوڈیو جانا تھا نہ وہ گئے۔چند دن بعد وہ پلازہ سینما میں فلم دیکھنے گئے تو ادھر ولی صاحب سے ملاقات ہوگئی، جنھوں نے اس نوجوان کو وعدے کے مطابق فلم اسٹوڈیو نہ آنے پرکھری کھری سنائیں۔ اس گوشمالی کا پران پرخاطر خواہ اثر ہوا۔ انھوں نے اسٹوڈیو آنے کا وعدہ کیا اور پھر اسے وفا کرنے ادھر پہنچ بھی گئے۔ اسکرین ٹیسٹ کے ساتھ پران کی تصویریں بھی بنائی گئیں، جو کچھ دیر میں دھل کر آگئیں۔ پران کے بقول،جیسا خوبصورت وہ ان تصاویر میں دکھائی دیا، آنے والے برسوںمیں ہرچند کہ اس کی ہزاروں تصاویر بنیں لیکن ویسی خوبصورتی پھر دکھائی نہیں دی۔ پران کے بقول،'' ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ میرا میک اپ بہت اچھے طریقے سے کیا گیا تھا یا پھر فوٹوگرافرکوئی ماہر تھا یا پھرمیں کوئی بڑا خوبصورت آدمی تھا۔
اصل بات یہ تھی کہ میں اس وقت اداکارنہیں بنا تھا اورحقیقی زندگی گزار رہا تھا،ایک عام زندگی جو دوسرے لاکھوں لوگوں جیسی تھی۔'' قصہ مختصریہ کہ پران کا پنجابی فلم ''یملا جٹ'' کے لیے انتخاب ہوگیا۔ پران ذہنی اعتبار سے فلم میں کام کے لیے تیار تھا لیکن فوٹوگرافر سے فلمی اداکار بننے کے فیصلے سے باپ کو آگاہ کرنا چاہتا تھا۔اس زمانے میں فلم والا ہونا عزت کی بات نہ تھا۔پران کا شش وپنج میں پڑنا سیٹھ دل سکھ پنچولی کو ناگوارگزرا تو اس نے بغیر لگی لپٹی کے اس باور کرا دیا کہ وہ خوش قسمت ہے جو اسے یہ چانس مل رہا ہے وگرنہ تو فلم میں کام کے خواہش مندوں کی لائنیں لگی ہیں۔ پران پر واضح کردیا گیا کہ اسے فلم اسٹوڈیو کا فارم فوراً بھرنا ہوگا۔پران کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ فوٹو گرافرز کمپنی سے فوٹوگرافر اسسٹنٹ کے طور پر اسے دو سو ماہانہ ملتے تھے جبکہ ادھراسے ماہانہ پچاس روپے کی پیشکش کی جارہی تھی۔ پنچولی نے اب انھیں کہاکہ وہ بدستور دکان پر جاتے رہیں ، جب شوٹنگ ہوگی، یا ان کی ضرورت پڑے گی تو انھیں بلا لیا جائے گا۔
یوں پران نے فارم پر دستخط کردیے اور یوں وہ پنچولی آرٹ پکچرز اسٹوڈیوز میں ملازم ہوگئے۔ پران کے بقول، ''یملاجٹ '' ریلیز ہونے کے بعد انہیں لوفرکے بجائے اداکار سمجھا جانے لگا تھا۔ پنچولی اسٹوڈیو کے پلیٹ فارم سے پنجابی فلم ''چودھری'' میں بھی انھیں کاسٹ کیا گیا ۔یہ فلم بھی ہٹ ہوئی۔اس کے بعد فلم ''خزانچی'' میں جلوہ گر ہوئے۔لیکن صحیح معنوں میں پران کو جس فلم سے بریک ملا وہ1942 میں بننے والی فلم ''خاندان''تھی۔ پران کو اس فلم نے شہرت کی بلندیوں پر تو پہنچا دیالیکن فلم میں گانوں کی بھرمار اور ہیروین کے پیچھے درختوں کے گرد بھاگنا انہیں زیادہ اچھا نہیں لگا۔ اس سوچ کے زیراثر پران نے آئندہ برسوں میں خود کو ولن کے کرداروں کے لیے مخصوص کرلیا تھاکیوں کہ ان کے خیال میں ایسے کردار میں آپ زیادہ بہترطور پر فنکارانہ صلاحیتوں کا اظہارکرسکتے ہیں۔
لاہور میں قیام کے دوران پران کی فلمی صحافی وی این نیرسے بھی دوستی ہوئی۔نیر نے1940ء میں لاہور سے انگریزی ماہنامہ فلم کرٹک جاری کیا۔ نیرکی سفارش پر پران کو پنجابی فلم ''پردیسی بلم'' میں چانس ملا۔یہ فلم بھی کامیاب رہی۔اس فلم کی پران کی زندگی میں اہمیت یہ تھی کہ اس سے حاصل ہونے والے معاوضے سے انھوں نے کار خریدی۔ 1945 ء میں پران کی شادی جان پہچان کے لوگوں کی لڑکی شکلا سے ہوئی، معاملہ تھوڑا لٹکاجس کی وجہ لڑکے کا فلم میں کام کرنا تھا لیکن دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس لیے کام بن گیا۔ پران اس شادی کو محبت اور ارینج دونوں ہی قراردیتے ہیں۔ دونوں خاندانوں کے تعلقات قریبی رہے ہوں گے یہی وجہ ہے کہ شکلا نے ایک جگہ بتایا ہے کہ جب پران کی پہلی فلم یملا جٹ ریلیز ہوئی تواس کا تمام خاندان اسے دیکھنے کے لیے راولپنڈی سے لاہور گیا۔ لاہور میں اپنے آٹھ برس کے فلمی کیرئیر میں پران نے 22فلموں میں کام کیا۔ سب سے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم ''بیرہاں'' تھی، جو 1948 ء میں ریلیز ہوئی۔
ان کی فلم ''بت تراش'' فسادات کے زمانے میں ریلیز ہوئی۔ فلم ''شاہی لٹیرا'' تو تقسیم کے بعد بھی لاہور میں فلم بینوں کی توجہ کا مرکز رہی۔ پران کو لاہور شہرنے اپنے سحر میں گرفتار کرلیا تھا۔یہاں انھوں نے بڑے مزے سے زندگی گزاری۔ گلے میں کیمرہ ڈالے وہ سائیکل پرگھومتے پھرتے۔موٹرسائیکل پر شہرنوردی بھی کی اور ایک بار تو ایکسیڈنٹ کرا بیٹھے جس پر انہیں مجسٹریٹ کے حضورپیش ہوکر صفائی دینا پڑی۔ ان کا اپنا ذاتی ٹانگہ تھا۔ اس شہر ہی میں انہوں نے پہلی گاڑی خریدی۔ 11اگست1946ء کو پران کے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب سیاسی فضا کی گرما گرمی سے ماحول میں تنائو تھا اور جوں جوں آزادی کا وقت قریب آرہا تھا ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کمزور پڑتی جارہی تھی۔ حالات کی سنگینی کے پیش نظر بیوی اور نوزائیدہ بچے کو پران نے اندور بجھوادیا۔ کشیدگی عروج پر پُہنچی تو انھیں خود بھی لاہور چھوڑنا پڑا۔ پران کے سوانح نگار بنی روبن کے مطابق، اگر تقسیم نہ ہوتی تو ممکن ہے کہ پران لاہور میں رہنے کو ترجیح دیتے کیوں کہ وہ یہاں اپنی ازدواجی زندگی شروع کرچکے تھے۔
معروف براڈ کاسٹر عارف وقارکے بقول''اداکار پران جو لاہور کو دل وجان سے چاہتے تھے، آخری وقت تک حالات بہتر ہونے کاانتظارکرتے رہے انھوں نے اپنی بیوی اور ایک سالہ بچے کو اندوربھیج دیا تھا لیکن خود لاہور چھوڑنے کو ان کا دل نہ چاہتا تھا۔گیارہ اگست1947ء کو خیر خواہوں کے اصرارپر انھوں نے ڈبڈبائی آنکھوں اور بھاری قدموں سے لاہور کوخیرباد کہا اور اگلے ہی روز ان کے محلے پر فرقہ پرستوں نے حملہ کردیا۔ بہت سے ہندومارے گئے، جو بچ رہے انھوں نے فوراً رخت سفر باندھا اور محفوظ علاقوں کی راہ لی۔ ''
نورجہاں اور پران
پران کی پہلی فلم''یملاجٹ''میں نورجہاں نے بھی کام کیا۔ وہ اس زمانے میں چائیلڈ اسٹارتھیں اور بے بی نورجہاں کے نام سے جانی جاتیں۔''یملا جٹ'' میں پران ولن بنے۔نورجہاں نے ہیروین کی سہیلی کا کردار کیا۔ فلم ''خاندان'' میں وہ پران کی ہیروین بنیں۔ 12 مارچ 1942ء کو لاہور کے ریگل سینما میں پران اورنورجہاں کی ریلیز ہونے والی ''خاندان''کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی امتیازعلی تاج نے لکھی ۔گانے ڈی این مدھوک اور شوکت تھانوی کے قلم سے تھے۔موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے ترتیب دی ۔ فلم کے گانوں نے بہت مقبولیت حاصل کی ، نامورموسیقارآرسی بورال خاص طور سے فلم دیکھنے پہنچے اور بیحد متاثر ہوئے۔فلم کے ڈائریکٹر شوکت حسین رضوی سے نورجہا ں کا عشق اسی فلم کے دوران ہی پروان چڑھا ۔''خاندان ''تکمیل کے مراحل میں تھی تو نورجہاں کے گھر والے جو فلم میں ان کے کام کرنے سے ناخوش تھے، انھیں قصورلے گئے ، اور فلم کی شوٹنگ کھٹائی میں پڑتی دکھائی دینے لگی۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے جو راہ نکالی گئی، اس کے بارے میں خالد حسن نے لکھا ''ایک دن اسٹوڈیو کی کار اسے شوٹنگ کے لیے ہیرامنڈی لاہور سے لانے کے لیے گئی تو معلوم ہواکہ نورجہاں اپنے خاندان سمیت وہاں سے کوچ کرگئی ہے۔سیٹھ دل سکھ پنچولی بڑا بااثر آدمی تھاچنانچہ اس نے نورجہاں کے نام وارنٹ نکلوا دیے۔جلد ہی نورجہاں سمیت اس کے خاندان کے40افراد قصور سے گرفتارکرکے لاہور لائے گئے۔اس دن فلم کے جس منظر کو فلمایاجانا تھا،اس میں فلم کے ہیرو پران، ہیروین نورجہاں اورکیریکٹر ایکٹرغلام محمد کے کچھ سین شامل تھے۔ نورجہاں کی بطور ہیروین اور پران کی بطور ہیرو یہ پہلی فلم تھی۔ '' برسوں بعد پران نے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ جب وہ لاہور میں تھے تو نورجہاں نے انکے مدمقابل ہیروین کا کردار نبھایاتھا، اور وہ اس زمانے میںمشہورہیروین اورمغنیہ تھی۔اس حد تک تو پران کا کہنا ٹھیک تھا مگر اس انٹرویو میں چلتے چلتے انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ اب تو وہ خاصی بوڑھی ہوگئی ہوں گی۔انٹرویوچلا۔نورجہاں نے خود دیکھا یا پھر کسی نے انھیں بتایا۔
نورجہاں کوپرانے رفیق کار کا اپنے بارے میں یہ کمنٹ اچھا نہ لگا، جس کا ردعمل پران کو ان کے ناراضی بھری فون کال کی صورت میں ملا۔اس فون کے بارے میں پران بتاتے ہیں:نورجہاں کال ملتے ہی سیدھا اصل بات پر آگئیں۔چھوٹتے ہی بولیں ''میں نورجہاں بول رہی ہوں۔اچھا تو میں بوڑھی ہوگئی ہوں۔تم اپنی سنائو؟تم بھی اب کون سے جوان نظرآتے ہو۔'' خیر،یہ بات رفت گزشت ہوگئی۔1982ء میں نورجہاں انڈین ٹاکی کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان گئیں تو پران سے35 برس بعد ملاقات ہوئی۔ اتفاق سے یہ تقریب بارہ فروری کو پران کی سالگرہ کے دن ہونا تھی ۔نورجہاں نے یہاں اپنا مشہور گانا'آواز دے کہاں ہے، گایا۔ ہندوستان روانہ ہونے سے قبل نورجہاں کی کیفیت کے بارے میں پران نے بتایا تھا''نورجہاں اس دورے کے حوالے سے اس قدر نروس تھی کہ جہاز میں سوار ہونے سے قبل کوئی آٹھ دس بار مجھے صرف اس بات کا اطمینان کرنے کے لیے فون کیا کہ میں ائیرپورٹ پر اسپیشل بس کے ساتھ اس کے انتظار کے لیے موجود ہوں گا۔'' نورجہاں!ہندوستان پہنچیں توپران نے ان کے اعزاز میں پارٹی دی ، جس میں فلم انڈسٹری کے پرانے دوستوں اور ساتھیوں سے مل کر وہ بہت خوش ہوئیں۔n
منٹو اور پران
سعادت حسن منٹو اپنی کتاب ''لائوڈ اسپیکر'' میں لکھتے ہیں: ''پران سے جب میری ملاقات شیام کے توسط سے ہوئی تو میری اس کی فوراً دوستی ہوگئی۔بڑا بے ریا آدمی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پران اچھاخاصہ خوش شکل مرد ہے۔لاہورمیں اس کی شہرت اس وجہ سے تھی کہ وہ بڑا ہی خوش پوش تھا۔بہت ٹھاٹ سے رہتاتھا۔ اس کا ٹانگہ گھوڑا لاہور کے ریئسی ٹانگوں میں سے زیادہ خوبصورت اور دلکش تھا۔ ''
پران کا منٹوکو''ماموں'' بنانا
منٹو کے بقول'' کلدیپ اور پران ایک ساتھ تھے۔پران ہی پتے بانٹتا تھا وہی اٹھاتا تھا اور کلدیپ اس کے کاندھے کے ساتھ اپنی نوکیلی ٹھوڑی ٹکائے بیٹھی تھی۔البتہ جتنے روپے پران جیتتا تھا، اٹھاکر اپنے پاس رکھ لیتی۔اس کھیل میں ہم صرف ہاراکئے۔میں نے کئی بار فلش کھیلی ہے لیکن وہ فلش عجیب وغریب قسم کی تھی۔میرے پچھترروپے پندرہ منٹ کے اندر اندرکلدیپ کور کے پاس تھے۔میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آج پتوں کو کیا ہوگیا ہے کہ ٹھکانے کے آتے ہی نہیں۔شیام نے جب یہ رنگ دیکھاتو مجھے کہا۔ منٹو اب بند کردو۔میں نے کھیلنا بند کردیا۔پران مسکرایا اور کلدیپ سے کہا''کے کے!پیسے واپس کردو منٹو صاحب کے۔'' میں نے کہا یہ غلط ہے۔تم لوگوں نے جیتے ہیں،واپسی کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
اس پر پران نے مجھے بتایا کہ وہ اول درجے کا نوسر باز ہے۔اس نے جو کچھ مجھ سے جیتا ہے اپنی چابکدستی کی بدولت جیتا ہے۔چونکہ میں اس کا دوست ہوں،اس لیے وہ مجھ سے دھوکا کرنا نہیں چاہتا۔میں پہلے سمجھاکہ وہ اس حیلے سے میرے روپے واپس کرنا چاہتاہے، لیکن جب اس نے تاش کی گڈی اٹھاکرتین چار بار پتے تقسیم کئے اور ہر بار بڑے دائو جیتنے والے پتے اپنے پاس گرائے تو میں اس کے ہتھکنڈے کا قائل ہوگیا۔یہ کام واقعی بڑی چابکدستی کا ہے۔پران نے پھر کلدیپ کور سے کہا کہ وہ پیسے واپس کردے مگراس نے انکار کردیا۔'' تقسیم کے فوراً بعد جب پران لاہور سے بمبئی پہنچے تومنٹو اس وقت ادھر ہی تھے۔ منٹو نے حقیقی دوست کی طرح انھیں اس نئی جگہ چانس دلانے کی کوشش کی۔ پران کے بقول''میرے عزیز دوست عظیم اردو لکھاری سعادت حسن منٹوجو ملک کی نمایاں فلم کمپنیوں میں سے ایک بمبئے ٹاکیزسے وابستہ تھے، وہ مجھے کام دلانے کے لیے اپنے ساتھ ملاد لے گئے ، تاہم اس وقت کچھ بھی نہ بن پڑا۔''