جنگ اب کھیل ہوئی خواتین کا

خاتون لڑاکا پائلٹ کے بعد صنف نازک کی چھاتا بردار فوج میں شمولیت


Rizwan Tahir Mubeen July 21, 2013
خاتون لڑاکا پائلٹ کے بعد صنف نازک کی چھاتا بردار فوج میں شمولیت۔ فوٹو: آئی ایس پی آر/فائل

ہمارے ہاں میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھانے کا شعبہ مردوں سے کچھ اس طرح منسلک ہے کہ ایک شاعر نے یہاں تک کہا کہ ''جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی'' یعنی جنگ عورتوں کے بس کا کھیل نہیں ہے، مگر زمانے کی تغیر پذیر رُتوں نے شاید اسے بھی اب بدلنا شروع کر دیا ہے اور صنف نازک مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی فتح یابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے اب محاذ جنگ میں اپنے حریف سے نبرد آزما ہونے کے لیے پوری طرح کمر کس کے سامنے آچکی ہیں۔

اگرچہ اس ضمن میں انہوں نے ارادہ تو اسی دن ہی کر لیا ہوگا، جب پہلی بار کسی عورت نے سپاہی کی وردی زیب تن کی ہوگی، البتہ اس سے آگے کی کٹھن اور پرپیچ راہیں ان کے حوصلوں کا امتحان بنی رہیں، لیکن یہ دشوار گزار منزلیں بھی ان کے آہنی عزم وحوصلے کے آگے سرنگوں ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ اس کی مثال ہمیں پاک فوج میں خواتین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شمولیت اور ترقی کی صورت میں بہ خوبی نظر آرہی ہے۔ 13 جون 2013ء کو عائشہ فاروق کی صورت میں پہلی لڑاکا خاتون سامنے آئیں اور اس کے ایک ماہ بعد ہی پاک فوج میں خواتین کے حوالے سے ایک اور تاریخ رقم ہوئی، جب 24 خواتین نے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر سے کام یابی سے چھلانگ لگا کر چھاتا بردار فوج میں شمولیت اختیار کی۔ مشکل محاذ پر جہاں پیدل فوج کی رسائی ناممکن یا مشکل ہو، وہاں فضاسے بہ ذریعہ پیراشوٹ پیادوں کو اتارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک اس شعبے میں خواتین موجود نہ تھیں، لیکن اب پاک فوج کی 24 خواتین نے اس امر محال کو ممکن کر دکھایا ہے۔

افواج پاکستان کی تاریخ میں بہت مختصر سے عرصے میں ایک خاتون، لڑاکا ہوابازی کے شعبے میں کام یابی سے ہم کنار ہوئیں تو دوسری طرف چھاتا بردار اہلکاروں کے شعبے میں بھی صنف نازک نے کامرانی کاعَلم بلند کیا۔ عائشہ فاروق پاک فضائیہ کی واحد لڑاکا خاتون پائلٹ ہیں، جو چینی ساختہ F-7PG لڑاکا جیٹ اڑانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ عائشہ فاروق کا تعلق بہاول پور سے ہے۔ وہ ان 19 پاکستانی خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے گزشتہ 10 سال میں فضائیہ سے تربیت حاصل کی۔ سات سال قبل والد کے انتقال کے بعد انہوں نے پاک فضائیہ میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معا شرے کی خواتین یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ وہ کبھی جہاز بھی اڑائیں گی۔ عائشہ فاروق اس وقت سرگودھا کے ''مصحف ایئربیس'' میں تعینات ہیں۔ ان کے ساتھ پانچ خواتین اور بھی ہیں۔



تاہم ابھی انہیں جنگ میں شریک ہونے کے لیے حتمی ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ دوسری طرف ہندوستان کی فضائیہ میں ابھی تک کوئی خاتون لڑاکا پائلٹ نہیں ہے، یوں پاک فضائیہ کی جری خواتین نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر پڑوسی ملک پر اپنی برتری قائم کر دی ہے۔ عائشہ فاروق نے لڑاکا ہوا بازی کے دوران فضائی حملوں کے لیے مہارت حاصل کی۔ اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ وہ دوران تربیت ہوائی جہاز سے بم باری کرتے ہوئے سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتی ہیں۔ جب کوئی بم زمین کی حدود کو چھوتا ہے تو یہ لمحہ ہمارے لیے بہت ولولہ انگیز ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فائٹر جیٹ طیارہ اڑاتے ہوئے ہمارے حوصلے بھی اتنی ہی بلند ہوتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں اپنی فتح یابی کا گہرا احساس ہوتا ہے۔

ایک طرف زمین سے فضا میں جا کر دفاع کرنے کا ذکر ہے، تو دوسری طرف فضا سے زمین پر اتر کر دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کا عزم۔ جس کا اظہار رواں ماہ فضا کا دائرہ چیر کر دھرتی کے سینے پر اترنے والی ان دو درجن خواتین نے کیا۔ ان خواتین نے پیراٹروپر اسکول پشاور میں تین ہفتے کا ایئر بورن کورس مکمل کیا، جس کے بعد یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ ایئر بورن کورس مکمل کرنے والی خواتین فوجی افسران کے اعزاز میں تربیلا میں خصوصی تقریب پذیرائی بھی منعقد ہوئی، جس میں اسپیشل سروسز گروپ کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل عابد رفیق نے خواتین افسران کو پیرا ونگز کے تمغوں سے نوازا۔ کیپٹن سعدیہ ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگانے والی پہلی خاتون، جب کہ کیپٹن کرن اشرف کو بہترین پیراٹروپر ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔



پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کورس کے کام یاب انعقاد پر تمام خواتین افسران اور ان کے تربیتی عملے کو مبارک باد دی اور ان کے بلند حوصلہ کی تعریف کی۔ ایک پیراٹروپر کیپٹن ثنا نصیر نے بتایا کہ یہ ہمارے لیے منفرد تجربہ تھا، ہم آگے بڑھے اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا، کیپٹن ہاجرہ کا کہنا تھا کہ پیرا ٹروپنگ کے ابتدائی کورس کا حصہ بننا ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ ایک فوجی ترجمان کے مطابق شدید گرمی میں اس کورس کو کام یابی سے مکمل کر کے خواتین افسران نے تاریخ رقم کی ہے۔ پیرا ٹروپرز کو سخت جسمانی تربیت کے علاوہ پیرا جمپنگ کورس، ایگزٹ اور لینڈنگ کی تکنیک اور پیرا شاٹر کی تربیت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہونا بھی اس تربیت کا حصہ تھا۔ مثلاً پیراشوٹ کنٹرول کرنا، کسی غیر متوقع اور ہنگامی صورت حال کا سامنا ہونا، پیرا شوٹر یا پیرا شوٹ کا آپس میں ٹکرا جانا اور پانی میں لینڈنگ کرنا وغیرہ سکھایا گیا۔

پاک فوج میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شمولیت اور کارکردگی ایک اہم کارنامہ ہے، جس کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید بہت جلد ہمیں پاک فوج کی کمان بھی کسی باصلاحیت خاتون جرنیل کے سپرد نظر آئے گی۔

پاک فوج میں 4ہزار خواتین

پاکستان کی مسلح افواج میں 4ہزار خواتین شامل ہیں، جو کہ زیادہ تر ڈیسک جاب اور طبی خدمات تک محدود ہیں، لیکن گزشتہ دہائی کے دوران پاک فضائیہ میں شامل ہونے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور کچھ خواتین ایلیٹ انسداد دہشت گردی فورس میں بھی کام کر رہی ہیں۔ اب پاکستان ایئرفورس میں 316 خواتین کام کر رہی ہیں' جب کہ پانچ سال پہلے یہ تعداد سو کے قریب تھی، لیکن دنیا کے مختلف ممالک کی خواتین سپاہیوں کی طرح پاکستانی خواتین پر بھی زمینی لڑائی میں حصہ لینے پر پابندی عاید ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں خواتین کا یہ بدلا ہوا رویہ اس بات کا عکاس ہے کہ خواتین کا افواج میں شمولیت کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ ویسے تو پاک فوج کے طبی اور دیگر شعبوں میں خواتین کام کرتی ہیں، مگر لڑاکا فورسز میں پاک فضائیہ نے بری اور بحری افواج پر سبقت حاصل کرتے ہوئے پہلی بار خواتین کو بھرتی کیا، اس وقت 316 خواتین پاک فضائیہ کا حصہ ہیں۔



خواتین کی شمولیت کا سفر

پاکستان کی مسلح افواج میں پہلے پہل خواتین کا کردار غیر جنگی کاموں (مثلاً میڈیکل وغیرہ) تک محدود تھا اور پاک فضائیہ میں بھی ایسا ہی تھا۔ تاہم 2003ء سے خواتین کو لڑاکا پائلٹ تربیتی پروگرام سمیت' ایئروسپیس انجینئرنگ اور پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور کے دوسرے پروگراموں میں داخلے کی اجازت دی گئی۔ تاہم پاکستان ایئرفورس میں خواتین کی مختلف ذمہ داریوں کے لیے مخصوص عہدوں پر تعیناتی کے لیے، اس عہدے کے طے شدہ پیشہ ورانہ معیار پر سمجھوتا نہیں کیا گیا۔ جو خواتین اپنے مرد ساتھیوں کی طرح مطلوبہ معیار پر پورا اترتے ہوئے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتیں' انہیں اس کورس سے ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ تاہم مذہبی اقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اور صنفی امتیاز کی وجہ سے ان کے معمولات اور تربیتی عمل میں فرق ضرور رکھا جاتا ہے۔ خواتین کیڈٹس کے پہلے گروپ کی آفیسر انچارج اور ماہر نفسیات اسکواڈرن لیڈر شازیہ احمد کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ اس فرق کی وجہ سے خواتین کے اعتماد میں اضافہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔

2005ء میں پاکستان ایئرفورس اکیڈمی کے فلائنگ ونگ میں' انجینئرنگ اور ایئروسپیس کے شعبوں کے علاوہ' دس خواتین بھی شامل تھیں۔ مارچ 2006ء میں' پاکستان ایئرفورس کے 34 فائٹر پائلٹس میں ادارے کی پہلی چار خواتین پائلٹ بھی شامل تھیں' جنہوں نے ایک تقریب میں اس وقت کے وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل احسن سلیم حیات سے اپنی اسناد فضیلت (Certificate of Honour) حاصل کیں۔ ستمبر 2006ء کے دوسرے بیج میں بھی تین خواتین پائلٹ شامل تھیں' جن میں سے ا یک ایوی ایشن کیڈٹ سائرہ امین کو بہترین آل راؤنڈ پرفارمنس پر شمشیر فضیلت (Sword of Honour) عطا کی گئی۔ ستمبر 2009ء میں سات خواتین نے چینی ساختہ F-7 (ChengduF-7) پر آپریشنل فائٹر پائلٹ کی حیثیت سے کام کرنے کے لیے آزمائشی مراحل کام یابی سے طے کیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں