قومی کرکٹ کے معمار عبدالحفیظ کاردار
عبدالحفیظ کاردار کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اولین کپتان اور معمار قرار پائے۔
گزشتہ 17 جنوری کا انتہائی اہم اور یادگار دن خاموشی سے گزرگیا۔ اس دن پاکستانی کرکٹ کے معمار عبدالحفیظ کاردار کا 94 واں یوم پیدائش تھا۔ البتہ گوگل (Google) نے اس عظیم کرکٹر کے اعزاز میں اس موقعے پر ایک ڈوڈل (Doodle) ریلیزکرکے شایان شان خراج تحسین پیش کیا۔
عبدالحفیظ کاردار لاہور کے ایک آرائیں گھرانے میں 1925 میں پیدا ہوئے تھے۔ انھیں بابائے پاکستان کرکٹ کہا جاتا ہے جو حرف بہ حرف بالکل بجا ہے۔ ان کا شمار ان تین نامور کھلاڑیوں میں ہوتا ہے جنھوں نے غیر منقسم ہندوستان اور اس کے بعد پاکستان میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر دکھائے ۔ ان مایہ ناز کھلاڑیوں میں امیر الٰہی اورگل محمد کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ ان تینوں کھلاڑیوں نے تقسیم سے پہلے ہندوستان میں ٹیسٹ کرکٹ کھیلی ہوئی تھی۔
عبدالحفیظ کاردار کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے اولین کپتان اور معمار قرار پائے۔ پاکستان کرکٹ کے ساتھ کاردار صاحب کا دلی لگاؤ تھا۔ انھوں نے ناصرف پاکستانی کرکٹ کی بنیاد رکھی بلکہ انتہائی قلیل مدت میں اسے پروان بھی چڑھایا اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کرایا ۔
انھوں نے 1952-53 میں بھارت کے دورے میں قومی ٹیم کی قیادت کی۔ دوسری جانب ان کے مدمقابل بھارت کے مشہورومعروف کرکٹ کھلاڑی لالہ امر ناتھ کے زیر قیادت کھیلنے والی ٹیم تھی۔ اگرچہ دہلی اور بمبئی کے ٹیسٹ میچوں میں بھارتی ٹیم کو فتح حاصل ہوئی لیکن لکھنو ٹیسٹ میں شاندار کامیابی حاصل کرکے کاردار کی ٹیم نے لوگوں کے دل جیت لیے۔ لکھنو میں کھیلا جانے والا یہ دوسرا ٹیسٹ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار کو یہ منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے غیر منقسم ہندوستان میں انگلینڈ کے دورے پر ہندوستانی ٹیم کی قیادت کی۔ اس کے علاوہ انھیں آکسفورڈ بلیو اور واروِک شائر کا نمایاں کھلاڑی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ کاردار نے واروِک شائر میں دو سیزن گزارے۔ انھوں نے کلب کے چیئرمینCyril Hastilow کی صاحبزادی سے پہلی شادی کی۔
انھوں نے 1951 میں MCC کی ٹیم کے خلاف پاکستان کی قیادت کی۔ یہ انھی کی کاوشوں کا ثمر تھا کہ پاکستان کو جولائی 1952 میں مکمل ٹیسٹ Status حاصل ہوا۔ انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف ان کی زیر قیادت کھیلنے والی پاکستانی ٹیم کو سب سے پہلی زبردست کامیابی 1954 میں Oval میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں حاصل ہوئی۔ سچ پوچھیے تو اس میچ نے پاکستان کی نوخیز کرکٹ ٹیم کو عالمی نقشے پر متعارف کرایا۔ اس میچ میں پاکستان کی ٹیم نے اپنی پہلی اننگز میں 133 رن اسکور کیے جب کہ کاردار 36 رن بناکر سرفہرست رہے۔ اسی میچ میں فضل محمود نے اپنی گیند بازی کے خوب جوہر دکھائے اور 99 رن دے کر 12 کھلاڑی آؤٹ کیے۔ بلاشبہ یہ ایک تاریخی موقع تھا جب کسی ملک نے انگلینڈ کو اپنے پہلے دورے میں اس کی سرزمین پر شکست دی تھی۔
عبدالحفیظ کاردار نے 23 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی مسلسل قیادت کی جوکہ ایک ریکارڈ ہے۔ انھوں نے بہت کم عرصے میں پاکستانی قوم کا نام کرکٹ کی دنیا میں روشن کیا۔ قائد اعظم سے انھیں بڑی گہری عقیدت تھی اور اسی لیے ان کی تاعمر یہ کوشش رہی کہ پاکستان کا نام دنیا بھر میں عزت و احترام سے لیا جائے۔ پاکستانی کرکٹ کی تعمیر کے پس پشت ان کا یہی جذبہ ہمیشہ کارفرما رہا۔ انھوں نے اپنی صلاحیت کے جوہر کا سب سے پہلا مظاہرہ 1946 میں انگلینڈ میں کیا۔ وہ آکسفورڈ گئے جہاں انھوں نے بلیو کا اعزاز حاصل کیا۔ کاردار کا آخری دورہ ویسٹ انڈیز کا تھا جہاں وہ اپنی ٹیم لے کر 1957 میں گئے۔ اس دورے میں انھیں انگلی پر شدید چوٹ آئی لیکن ڈاکٹروں کی ہدایت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کی عزت و وقار کو مدنظر رکھ کر انھوں نے 37 اوورز (overs) کیے اور 57 رنز بنائے۔
عبدالحفیظ کاردار کو اللہ تعالیٰ نے مردانہ حسن سے نوازا تھا۔ وہ ایک دراز قد، خوش شکل اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ ان میں بلا کی قائدانہ صلاحیت موجود تھی۔ قائد اعظم کی طرح وہ نظم و ضبط کو اولیت دیتے تھے چنانچہ اس وقت کی پاکستانی کرکٹ ٹیم میں مثالی نظم و ضبط قائم تھا۔ کاردار بہترین قائد ہونے کے علاوہ بذات خود بھی بڑے زبردست آل راؤنڈر تھے۔ وہ بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے نہایت کامیاب بلے باز تھے۔ انھیں بائیں ہاتھ سے اسپن اور سلو میڈیم باؤلنگ کرنے پر بھی عبور حاصل تھا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ٹیم کے مشکل مرحلوں میں وہ اپنی ٹیم کے لیے ہمیشہ ڈھال بن جاتے تھے۔ مشکل وقت میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ان کا جوہر خاص تھا۔ ان کی قیادت کے دور میں پاکستان نے 23 ٹیسٹ میچوں میں6 میچ جیتے، 6 ہارے اور 6 میچ برابر رہے۔
انھوں نے دست آہن کے ساتھ پاکستانی ٹیم کی قیادت کی۔ اپنی ٹیم پر ان کا رعب اور دبدبہ مثالی تھا۔ The Skipper کا ٹائٹل ان کے نام ساتھ خوب سجتا تھا۔ گویا یہ ان کے نام کا ہی ایک حصہ تھا۔ یعنی عبدالحفیظ کاردار دی اسکپر۔ کاردار صاحب کے بعد اگر کسی اور پاکستانی کرکٹ کپتان کو اس اعزاز کا حقدار قرار دیا جاسکتا ہے تو وہ صرف عمران خان ہیں جو اب پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔ پاکستان کے ان دونوں مایہ ناز کرکٹ کھلاڑیوں کے درمیان اور بھی کئی قدریں مشترک ہیں۔ بلاشبہ دونوں ہی بہترین آل راؤنڈرز اور مثالی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ دونوں ہی کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔ کرکٹ کے علاوہ ان دونوں نے سیاست کے میدان میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کے جوہر خوب دکھائے۔
عبدالحفیظ کاردار نے1970 کی دہائی میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر بنائے گئے۔ اپنے اس عہدے کے دوران انھوں نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں ایشیائی اور افریقی ممالک کی کرکٹ ٹیموں کو زیادہ سے زیادہ نمایندگی دلانے کے لیے بہترین کاوشیں کیں۔ بدقسمتی سے وہ 1976-77 میں کھلاڑیوں کے معاوضے سے متعلق ایک تنازع کا شکار ہوئے جس کے نتیجے میں انھیں عہدہ صدارت سے محروم ہونا پڑا۔
1970 میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے جس کے بعد وہ صوبائی کابینہ کے وزیر بھی بنا دیے گئے۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب انھیں کرکٹ اور سیاست دونوں ہی کو خیرباد کہنا پڑا۔ لیکن قسمت نے انھیں سفارت کے میدان میں بھی ایک اعلیٰ مقام دلادیا جس کے نتیجے میں وہ سوئٹزر لینڈ میں پاکستان کے سفیر بنا دیے گئے۔ علمی اور سماجی بھلائی کے کاموں میں بھی کاردار صاحب کو بڑی گہری دلچسپی تھی۔ چنانچہ ان دونوں شعبوں میں بھی انھوں نے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔
1958 میں کاردار، انٹرنیشنل ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائر ہوگئے جب کہ 21 اپریل 1996کو وہ اس فانی دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر ملک عدم روانہ ہوگئے۔ غیر جانبدار کرکٹ امپائر کا تصور پیش کرنے والوں میں بھی کاردار کا شمار صف اول کے لوگوں میں ہوگا۔ وہ کرکٹ کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کے بھی سخت ترین مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس کے نتیجے میں قومی کرکٹ کو تباہی کے سوائے اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا۔ وقت اور حالات نے ان کی اس پیش گوئی کو درست ثابت کردیا ہے۔
پاکستانی کرکٹ کی موجودہ زبوں حالی اس حقیقت کی غمازی کر رہی ہے۔ ان کی خدمات کے اعتراف میں 1958 میں حکومت پاکستان کی جانب سے انھیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا جس کے وہ بجا طور پر صد فیصد مستحق تھے۔ انھوں نے 71 سال کی عمر میں وفات پائی۔ عبدالحفیظ کاردار جیسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ بقول اقبال:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا