ہمیں ہمارے بجٹ میں رکھا جائے
ہمیں ادھار اُٹھا کر فیشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
قارئین کی یاد دہانی کے لیے ایک واقعہ دہراتا چلوں کہ چند سال پہلے پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہالی ووڈ کی نامور اداکارہ اور اقوام متحدہ کی سفیر انجلینا جولی نے جب پاکستان میں سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا تو امریکا واپسی پر اقوام متحدہ کے لیے ایک خصوصی رپورٹ لکھی جس میں انھوں نے ایک طرف متاثرین کی صورتحال کو انتہائی دردناک انداز میں پیش کیا اور دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کے طرز عمل کو دیکھ کر صدمے میں آ گئیں۔
انجلینا جولی جنہوں نے پاکستان میں فوٹو سیشن اور میڈیا میں آنے سے انتہائی گریز کیا، اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ انھیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اعلیٰ حکام اور بااثر شخصیات ان سے ملنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر متاثرین کو پیچھے دھکیلتی رہے۔ ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملے۔ انھیں اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک طرف ملک میں بھوک اور افلاس ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم ہاؤس اور کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور سج دھج مغرب کو بھی حیران کر دینے کے لیے کافی ہے۔ انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ اقوام عالم سے امداد مانگنے سے پہلے اخراجات کم کرے۔
یہ رپورٹ شایع ہوئے آج 10سال ہونے کو ہیں مگر نہ تو ہماری عیاشیاں کم ہوئیں، نہ ہمارے حکمرانوں کے رہن سہن میں کوئی فرق نظر آیا اور نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اخراجات کم کیے گئے۔ البتہ موجودہ حکومت نے اس پر کنٹرول کرنے کی دکھاؤے کے لیے کوشش ضرور کی مگر ان کی کاوشوں پر اُس وقت پانی پھیر دیا گیا جب پنجاب کابینہ کا لاہور سے دور جنوبی پنجاب میں پہلا اجلاس ہوااور اسی پہلے اجلاس کے دوران صوبائی کابینہ کے اراکین کے لیے نئی کاروں کی منظوری دی گئی۔خیر یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ سنا جا رہا ہے کہ حکومت عوام میں پذیرائی حاصل کرنے اور سابقہ حکومتوں کی طرح کاسمیٹکس پراجیکٹس لگانے کی غرض سے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے جا رہی ہے۔
اس سے پہلے ہم نے حکومتی وزراء ہی سے سنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ میں 75فیصد تک کٹوتی لگا دی گئی ہے۔ اگر ترقیاتی بجٹ میں 75فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے تو کوئی بات نہیں، کوئی قرض نہ لیں، ہمیں قرض لے کر اورنج ٹرین نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر سڑکیں نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر کوئی میٹرو نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر کوئی اسکول نہیں بنانا، نہ اسپتال بنانا ہے اور نہ ہی قرض لے کر ہم ترقی کرنے کا سوچنا ہے لہٰذااس ملک کے عوام کا یہ سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ ہمارا جتنا بجٹ ہے ، اُس میں رکھا جائے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں شیخیاں بھگارنے کی۔ہمیں جو موجودہ انفرااسٹرکچر ہے اُسی میں رکھا جائے۔
میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں کہ اگر عوام کو سسٹم دے دیا جائے، انتظامی معاملات ٹھیک کر دیے جائیں اور جہاں اشد ضرورت ہو وہیں ترقیاتی کام کیے جائیں۔ قومی شاہرائیں،ریلوے نظام یعنی ذرایع نقل و حمل و آمدورفت، تعلیمی ادارے ، اسپتال، آب رسانی، گیس و بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا نظام، ایندھن کی ضروریات، اور شہری سہولتوں کے کام جہاں ترقیاتی کام ناگزیر ہو جائیں وہیں خرچ کیے جائیں تو یقینا ہمیں ملک کے لیے اضافی قرض لے کر ''ترقی'' نہیں کرناپڑے گی۔
حیرانی ہوتی ہے جب ہم باہر سے آئے وفد پر لاکھوں روپے خرچ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ مہمان ہماری مہمان نوازی سے متاثر ہوگا۔ وہ متاثر تو نہیں ہوتا مگر ہمارے حکمرانوں کی شان و شوکت دیکھ کر ہمارا مذاق اُڑائے بغیر نہیں رہتا کہ کیا یہ ایک غریب ملک ہے؟پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں غریبوں کے نام پر قرضے لیے جاتے ہیں اور حکمران ان پیسوں کو اپنی عیاشیوں میں اُڑاتے رہے ہیں۔
جب ہم اپنے بجٹ میں رہیں گے تو یقینا کرپشن بھی کم ہو گی، بڑے پراجیکٹس کم لگیں گے، سابق حکمرانوں پر بڑے پراجیکٹس ہی کے ذریعے بڑی بڑی کمیشنز وصول کرنے اور آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزامات ہیں ۔ نواز شریف فیملی کی لندن میں جائیدادوں کے چرچے ہیں۔ ادھر مقامی اخبارات کی خبروں کے مطابق حال ہی میں ایک پاکستانی نے سینٹرل لندن میں ایجور روڈ کے قریب ماربل آرچ کے علاقے میں4.3 ملین پاؤنڈ یعنی 60 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا گھر خریدا ہے ۔
ایک اور صاحب لندن میں جائیدادیں خریدنے کی دوڑ میں سب پر سبقت لے گئے ہیں، موصوف کی اربوں کی جائیدادیں لندن کے پوش علاقوں میں ہیں اور ان کے صرف ایک گھر کی قیمت جو لندن کے مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے 50 ملین پاؤنڈ (تقریباً 700 کروڑ روپے)ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زیادہ تر عرب ممالک کے بادشاہوں اور شہزادوں کے گھر ہے۔یہ جائیدادیں نقد قیمت پر عموماً آف شور کمپنیوں کے نام پر خریدی جاتی ہیں اور اس وجہ سے ان جائیدادوں کے اصل مالکان تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ لندن میں جائیدادوں کے مالکان پاکستانی سیاستدانوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ میرا کالم اس طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
جب مجھ جیسا ایک عام پاکستانی یہ عیاشیاں اور عوام کے پیسے کی بربادی دیکھتا ہے تو یقینا خون کے آنسو روتا ہے۔ یقین مانیں چند سال پہلے جب میں لندن گیا تو اس علاقے کا خاص طور پر دورہ کیا تو ایک اسٹیٹ ایجنسی کے مالک سے گپ شپ ہوئی، اُس سے جب دریافت کیا کہ کیا کسی بھارتی سیاستدان کی جائیداد یا گھر بھی یہاں موجود ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ اس علاقے سے بخوبی واقف ہے اور کسی بھارتی سیاستدان کا یہاں کوئی گھر نہیں، بھارتی سیاستدان غریب ہیں اور وہ اس علاقے میں گھر خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
برطانوی حکومت ترقیاتی کاموں کے لیے جو امداد پاکستان کو دیتی ہے، وہ کرپشن کی نذر ہوکر دوبارہ انھی کے ملک میں انویسٹ ہوجاتی ہے۔ برطانیہ کی حکومت بھی ان پاکستانیوں سے یہ سوال نہیں کرتی کہ ایک غریب ملک کے شہری ہوتے ہوئے انھوں نے یہ دولت کن ذرایع سے حاصل کی۔واضح رہے کہ انڈیا میں آج کل یہ بحث جاری ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ اگر کسی بھارتی شہری کے بیرون ملک بینکوں میں پیسے ہیں تو انھیں واپس لایا جائے۔وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی جائے جس کی رو سے کوئی سیاستدان یا حکومت کا اعلیٰ عہدیدار بیرون ملک اکاؤنٹس اور گھر نہ خرید سکے۔
بہرکیف ملک میں انقلاب لانے کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں ادھار اُٹھا کر فیشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے بہت مختلف ہے جو عوامی اُمنگوں کے مطابق کام کرے گی اور ملک کو کم سے کم قرضوں کی دلدل میں دھکیلے گی !!!
انجلینا جولی جنہوں نے پاکستان میں فوٹو سیشن اور میڈیا میں آنے سے انتہائی گریز کیا، اپنی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ انھیں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ اعلیٰ حکام اور بااثر شخصیات ان سے ملنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر متاثرین کو پیچھے دھکیلتی رہے۔ ہر کسی کی یہی خواہش تھی کہ وہ مجھ سے ملے۔ انھیں اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ ایک طرف ملک میں بھوک اور افلاس ہے اور دوسری طرف وزیر اعظم ہاؤس اور کئی دیگر سرکاری عمارتوں کی شان و شوکت اور سج دھج مغرب کو بھی حیران کر دینے کے لیے کافی ہے۔ انجلینا جولی نے اپنی رپورٹ میں اقوام متحدہ کو مشورہ دیا کہ پاکستان پر زور دیا جائے کہ اقوام عالم سے امداد مانگنے سے پہلے اخراجات کم کرے۔
یہ رپورٹ شایع ہوئے آج 10سال ہونے کو ہیں مگر نہ تو ہماری عیاشیاں کم ہوئیں، نہ ہمارے حکمرانوں کے رہن سہن میں کوئی فرق نظر آیا اور نہ ہی وزیر اعظم ہاؤس یا وزیر اعلیٰ ہاؤس کے اخراجات کم کیے گئے۔ البتہ موجودہ حکومت نے اس پر کنٹرول کرنے کی دکھاؤے کے لیے کوشش ضرور کی مگر ان کی کاوشوں پر اُس وقت پانی پھیر دیا گیا جب پنجاب کابینہ کا لاہور سے دور جنوبی پنجاب میں پہلا اجلاس ہوااور اسی پہلے اجلاس کے دوران صوبائی کابینہ کے اراکین کے لیے نئی کاروں کی منظوری دی گئی۔خیر یہ کالم لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ سنا جا رہا ہے کہ حکومت عوام میں پذیرائی حاصل کرنے اور سابقہ حکومتوں کی طرح کاسمیٹکس پراجیکٹس لگانے کی غرض سے آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے جا رہی ہے۔
اس سے پہلے ہم نے حکومتی وزراء ہی سے سنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ میں 75فیصد تک کٹوتی لگا دی گئی ہے۔ اگر ترقیاتی بجٹ میں 75فیصد کٹوتی کر دی گئی ہے تو کوئی بات نہیں، کوئی قرض نہ لیں، ہمیں قرض لے کر اورنج ٹرین نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر سڑکیں نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر کوئی میٹرو نہیں بنانی، ہمیں قرض لے کر کوئی اسکول نہیں بنانا، نہ اسپتال بنانا ہے اور نہ ہی قرض لے کر ہم ترقی کرنے کا سوچنا ہے لہٰذااس ملک کے عوام کا یہ سب سے بڑا مطالبہ ہے کہ ہمارا جتنا بجٹ ہے ، اُس میں رکھا جائے۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں شیخیاں بھگارنے کی۔ہمیں جو موجودہ انفرااسٹرکچر ہے اُسی میں رکھا جائے۔
میں سو فیصد یقین سے کہتا ہوں کہ اگر عوام کو سسٹم دے دیا جائے، انتظامی معاملات ٹھیک کر دیے جائیں اور جہاں اشد ضرورت ہو وہیں ترقیاتی کام کیے جائیں۔ قومی شاہرائیں،ریلوے نظام یعنی ذرایع نقل و حمل و آمدورفت، تعلیمی ادارے ، اسپتال، آب رسانی، گیس و بجلی کی پیداوار اور ترسیل کا نظام، ایندھن کی ضروریات، اور شہری سہولتوں کے کام جہاں ترقیاتی کام ناگزیر ہو جائیں وہیں خرچ کیے جائیں تو یقینا ہمیں ملک کے لیے اضافی قرض لے کر ''ترقی'' نہیں کرناپڑے گی۔
حیرانی ہوتی ہے جب ہم باہر سے آئے وفد پر لاکھوں روپے خرچ کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ مہمان ہماری مہمان نوازی سے متاثر ہوگا۔ وہ متاثر تو نہیں ہوتا مگر ہمارے حکمرانوں کی شان و شوکت دیکھ کر ہمارا مذاق اُڑائے بغیر نہیں رہتا کہ کیا یہ ایک غریب ملک ہے؟پاکستان شاید واحد ملک ہے جہاں غریبوں کے نام پر قرضے لیے جاتے ہیں اور حکمران ان پیسوں کو اپنی عیاشیوں میں اُڑاتے رہے ہیں۔
جب ہم اپنے بجٹ میں رہیں گے تو یقینا کرپشن بھی کم ہو گی، بڑے پراجیکٹس کم لگیں گے، سابق حکمرانوں پر بڑے پراجیکٹس ہی کے ذریعے بڑی بڑی کمیشنز وصول کرنے اور آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے کے الزامات ہیں ۔ نواز شریف فیملی کی لندن میں جائیدادوں کے چرچے ہیں۔ ادھر مقامی اخبارات کی خبروں کے مطابق حال ہی میں ایک پاکستانی نے سینٹرل لندن میں ایجور روڈ کے قریب ماربل آرچ کے علاقے میں4.3 ملین پاؤنڈ یعنی 60 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا گھر خریدا ہے ۔
ایک اور صاحب لندن میں جائیدادیں خریدنے کی دوڑ میں سب پر سبقت لے گئے ہیں، موصوف کی اربوں کی جائیدادیں لندن کے پوش علاقوں میں ہیں اور ان کے صرف ایک گھر کی قیمت جو لندن کے مہنگے ترین علاقے میں واقع ہے 50 ملین پاؤنڈ (تقریباً 700 کروڑ روپے)ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں زیادہ تر عرب ممالک کے بادشاہوں اور شہزادوں کے گھر ہے۔یہ جائیدادیں نقد قیمت پر عموماً آف شور کمپنیوں کے نام پر خریدی جاتی ہیں اور اس وجہ سے ان جائیدادوں کے اصل مالکان تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ لندن میں جائیدادوں کے مالکان پاکستانی سیاستدانوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ میرا کالم اس طوالت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
جب مجھ جیسا ایک عام پاکستانی یہ عیاشیاں اور عوام کے پیسے کی بربادی دیکھتا ہے تو یقینا خون کے آنسو روتا ہے۔ یقین مانیں چند سال پہلے جب میں لندن گیا تو اس علاقے کا خاص طور پر دورہ کیا تو ایک اسٹیٹ ایجنسی کے مالک سے گپ شپ ہوئی، اُس سے جب دریافت کیا کہ کیا کسی بھارتی سیاستدان کی جائیداد یا گھر بھی یہاں موجود ہے تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ اس علاقے سے بخوبی واقف ہے اور کسی بھارتی سیاستدان کا یہاں کوئی گھر نہیں، بھارتی سیاستدان غریب ہیں اور وہ اس علاقے میں گھر خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
برطانوی حکومت ترقیاتی کاموں کے لیے جو امداد پاکستان کو دیتی ہے، وہ کرپشن کی نذر ہوکر دوبارہ انھی کے ملک میں انویسٹ ہوجاتی ہے۔ برطانیہ کی حکومت بھی ان پاکستانیوں سے یہ سوال نہیں کرتی کہ ایک غریب ملک کے شہری ہوتے ہوئے انھوں نے یہ دولت کن ذرایع سے حاصل کی۔واضح رہے کہ انڈیا میں آج کل یہ بحث جاری ہے کہ ایسا قانون بنایا جائے کہ اگر کسی بھارتی شہری کے بیرون ملک بینکوں میں پیسے ہیں تو انھیں واپس لایا جائے۔وقت آگیا ہے کہ پاکستان میں بھی اس طرح کی قانون سازی کی جائے جس کی رو سے کوئی سیاستدان یا حکومت کا اعلیٰ عہدیدار بیرون ملک اکاؤنٹس اور گھر نہ خرید سکے۔
بہرکیف ملک میں انقلاب لانے کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ہمیں ادھار اُٹھا کر فیشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے بہت مختلف ہے جو عوامی اُمنگوں کے مطابق کام کرے گی اور ملک کو کم سے کم قرضوں کی دلدل میں دھکیلے گی !!!