ریلوے کیا سارے محکمے ہی…

ہم نے وعدہ کیا ہے کہ وزیر ریلوے جناب خواجہ سعد رفیق کے بیان کا وہ حصہ بعد میں زیر بحث لائیں گےجس میں انھوں نےریلوے...


Saad Ulllah Jaan Baraq July 21, 2013
[email protected]

ہم نے وعدہ کیا ہے کہ وزیر ریلوے جناب خواجہ سعد رفیق کے بیان کا وہ حصہ بعد میں زیر بحث لائیں گے جس میں انھوں نے ریلوے کو کباڑ خانہ کہا ہے۔ چونکہ کباڑ کے کاروبار سے ہمارا بھی گہرا تعلق ہے اور جانتے ہیں کہ کباڑ اور کباڑی کیا ہوتے ہیں اس لیے اس پر تفصیلی روشنی ڈالیں گے۔ کباڑیا پڑوسی ملک کی اصطلاح میں ''بنگار'' سے ہمارا تعلق یوں ہے کہ ہم نے زندگی بھر ''کباڑ'' ہی کو بھگتا ہے۔ ادبی یا غیر ادبی ہر قسم کی تقریبات میں اکثر کباڑی دانشوروں کے کوٹ کباڑ مقالے سہے ہیں، ان کے کباڑی خیالات اور کباڑی نظریات کی مار کھائی ہے اور دانش کے کباڑ خانے میں وہ جس طرح کاٹھ کباڑ جمع کر رہے ہیں، اسے بغور دیکھاہے، اس لیے پورے نہ سہی آدھے کباڑیئے یا بنگاریئے تو ہم بھی ہوئے، کیونکہ آج تک ہم نے جو بھی ادبی یا غیر ادبی سرکاری یا نیم سرکاری مشاعرانہ یا متشاعرانہ تقریب سہی ہے، بھگتی ہے، ان سب میں قدر مشترک اگر کوئی تھی تو وہ کباڑ تھا۔ سرکاری نوکریوں سے ریٹائر ہو کر دانشور، محقق اور اسکالر بن جانے والے، سرکاری نوکری پر فائز ہو کر اچانک دانشور بن جانے اور باتوں کا کباڑ بیچنے والے، ہر پیشے میں ناکام ہو کر لیڈر اور شاعر بننے والے، اقتدار کے سنگھاسن سے گر کر دانشورانہ کباڑ بیچنے والے، کہاں تک گنائیں، اپنی تو زندگی ہی کوڑے کباڑ اور کباڑی لوگوں کے درمیان گزری ہے، اسی لیے ہم سے زیادہ کباڑ شناس اور بنگار دان اور کون ہو سکتا ہے۔

سو پشت سے ہے اپنا یہ پیشہ کوڑا گری

کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے

چنانچہ جب خواجہ سعد رفیق نے ریلوے کے کباڑ خانے کی خبر سنائی تو ہماری ''رگ کباڑ'' خوب زور سے پھڑکی اور پھر پھڑک پھڑک کر ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی۔ ہم نے جب مخصوص کباڑ شناس نظروں سے دیکھا تو کراں تا کراں کباڑ ہی ہی کباڑ اور بنگار ہی بنگار دکھائی دینے لگا، خاص طور پر سرکاری محکمے اور ان کے زنگ لگے ہوئے افسر، ٹوٹے پھوٹے بار بار ویلڈ کیے ہوئے اہل کار اور کونے کھدروں میں پڑے ہوئے سرپلس ملازمین، گویا جہاں دیکھئے کباڑ ہی کباڑ۔

تیرے بھی کباڑ خانے میرے بھی کباڑ خانے

تیرا بھی کباڑ اچھا میرا بھی کباڑ اچھا

ایسا کون سا سرکاری محکمہ ہو گا جو کباڑ سے ناکوں ناک بھرا نہ ہو، ایسا کون سا دفتر ہو گا جہاں کباڑ کے لاٹ کے لاٹ نہ ہوں، ایسا کون سا ادارہ ہو گا جس میں ازکار رفتہ اور ڈیٹ ایکسپائرڈ پرزوں اور مشینری کے ڈھیر نہ لگے ہوں، مطلب یہ کہ جدھر دیکھئے ادھر تو ہی تو ہے، ہم نے آپ سے کہا نا کہ کباڑ سے ہمیں ہمیشہ دل چسپی رہی ہے چنانچہ چند روز پہلے افغانستان سے خبر آئی ہے کہ وہاں امریکی فوج کے زیر استعمال رہنے والی اشیاء کو بطور کباڑ کے نیلام کیا جائے گا، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کباڑی سامان کتنا ہے؟ ہماری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، یہ امریکی کباڑ ایک ارب ستر کروڑ ڈالر کا ہے یا شاید اس رقم میں نیلام ہوا ہے، گویا آئی ایم ایف نے ہمیں جو قرضہ سالہا سال کی منت زاریوں کے بعد دیا ہے اس کا ایک چوتھائی تو یہ امریکی کباڑ ہے چنانچہ دنیا بھر کے کباڑی آج کل افغانستان کا رخ کر رہے ہیں کہ اس میں اگر ایک چھوٹا سا حصہ بھی مل گیا یا واسطہ در واسطہ بھی کچھ پا لیا تو وارے نیارے ہو جائیں گے، اس کباڑ کا تصور کر کے جب ہم نے اپنے ہاں کے کباڑ کا موزانہ اس سے کیا تو خاصی مایوسی ہوئی مثلاً ہم اگر اپنا سارا زندہ کباڑ یعنی لیڈر لوگ فروخت کرنا چاہیں تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں ملے گا کیونکہ ہمارے لیڈر صرف ''گننے'' میں بہت ہیں، تولنے میں تو شاید کچھ وزن بھی نہ دے پائیں، اسی وجہ سے تو یہاں کی جمہوریت میں بندوں کے گننے کا رواج ہے تولنے کا نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ خود فریبی میں اپنے آپ کو وزن دار سمجھتے ہوں،

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

اور کباڑ میں تو ایک قانون یا اصول بھی چلتا ہے اور وہ اصول ''ہینڈ'' کا ہے عام طور پر نئی چیز جب ازکار رفتہ ہو کر بیچی جاتی ہے تو سیکنڈ ہینڈ کہلاتی ہے جو کباڑ ہی کا اپ ٹوڈیٹ نام ہے لیکن یہاں اپنا ''مال'' یعنی لیڈر لوگ تو نہ جانے کتنے کتنے ہینڈ میں کتنی بار کتنی پارٹیوں میں شامل ہو کر کباڑ بن چکے ہیں۔ ہمیں تو ایسا کوئی لیڈر آج تک دکھائی نہیں دیا ہے جو فرسٹ ہینڈ رہا ہو، ہم بھی کیا ادھر ادھر کی ہانکنے لگے، بات ریلوے کے کباڑ بن جانے کی چل رہی ہے، ویسے بات پہلی بار سننے میں تھوڑی سی اوکھی لگتی ہے لیکن بعد میں غور کر کے اگر اس کباڑ کا تصور کیا جائے جو محکمہ ریلوے کی ملکیت یا تصرف میں ہے تو ذہن اچھا خاصا روشن بلکہ مرغن بلکہ مالا مال ہو جاتا ہے، اتنا زیادہ اور اتنا قیمتی کباڑ۔

کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین

اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

ہمیں تو یوں لگا جیسے جنم جنم کے بھوکے کو کسی مرغن سی دعوت کی تفصیل سنائی جائے بلکہ ہمارے سامنے ایک مرتبہ ایسا ہی ایک واقعہ ہو چکا ہے۔ سارے دوست دوسرے گاؤں میں ایک شادی کی دعوت میں گئے لیکن ایک کسی وجہ سے نہ جا سکا، وہ لوگ واپس آئے تو محروم اور نہ جا سکنے والے نے وہاں کا حال پوچھا کہ کھانے میں کیا کیا تھا، اس پر ایک خوش بیان نے ایک ایک کھانے کی تفصیل بتانا شروع کی۔ بولا ،کیا بتاؤں چاول تو ایسے تھے مانو کسی نے چڑیوں کی زبانیں اکھٹی کر کے پکائی ہوں، گھی سے تربتر اور مصالحوں سے بھرپور صرف چاول ہوتے تو بھی مزے ہو جاتے لیکن اوپر سے ظالموں نے گوشت کی یہ یہ آدھی اینٹ برابر کی بوٹیاں بھی ڈالی تھیں اور پکانے والے نے بھی کمال دکھایا تھا، اتنا ملائم پکا تھا جیسے مکھن کی ڈلیاں اور مرغ مسلم اور کباب اور کوفتے اور چھوٹے گوشت کی الگ ڈش ۔۔۔ سننے والے کے منہ میں پانی بھر رہا تھا بولا ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ساتھ میں اچار چٹنیاں فرنیاں زردہ ۔۔۔ اچانک سننے والا بولا ۔۔۔ بس۔۔۔ بس کرو ظالم مار ہی ڈالنے کا ارادہ ہے کیا۔ ریلوے کے کباڑ کا تصور کر کے ذرا ملک بھر میں پھیلی ہوئی پٹڑیوں کا اندازہ لگایئے از کار رفتہ انجن ڈبے اور نہ جانے کیا کیا، ہمارا اندازہ ہے کہ اگر حکومت ابھی نیلام کا اعلان کر دے تو یہ جو آئی ایم ایف کا قرضہ ملا ہے اس سے زیادہ تو ریلوے کے کباڑ سے پیسے نکل آئیں گے، ہمارا خیال ہے بلکہ حکومت کو نہایت مخلصانہ مشورہ ہے کہ ویسے بھی ریلوے کی نہ تو کوئی ضرورت ہے اور نہ کام تو پھر خواہ مخواہ اتنا مال مٹی کرنے سے کیا فائدہ، بلکہ دیگر محکمے بھی جب سارے کے سارے خسارے میں جا رہے ہیں، واپڈا، اسٹیل مل، پی آئی اے وغیرہ تو کیا خیال ہے؟ اس آئی ایم ایف کی ایسی کی تیسی، ہمارے گھر کا کوڑا کباڑ ہی اتنا ہے کہ آٹھ دس سال کے لیے وزیر تو پالے ہی جا سکتے ہیں، آگے اللہ مالک ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں