تماشا میرے آگے
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ملالہ کے ایشو کو لے کر جو بحث چھڑی ہوئی ہے ، بنیادی طور پر وہ...
KARACHI:
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ملالہ کے ایشو کو لے کر جو بحث چھڑی ہوئی ہے ، بنیادی طور پر وہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں ایک وہ ہیں جو ملالہ اور اس کے باپ کو سی آئی اے کا ایجنٹ اور غدارِ وطن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ طالبان بھی امریکا ہی کی پیداوار ہیں ،یہ سارا کیا دھرا امریکا کا ہے ، اس لیے اصل میں مخالفت اسی کی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف وہ احباب ہیں جو عالمی میڈیا کی کوریج کا حوالہ دیتے ہوئے ملالہ کو ایک جینیس ثابت کرتے ہوئے اسے نیلسن مینڈیلا کا ہم پلہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ ذرا تحمل سے غور فرمائیے تو یہ دونوں انتہائیں ہیں، اور انتہا جہاں سے شروع ہوتی ہے، منطق کا دامن وہیں سے چھوٹ جاتا ہے۔
ملالہ کو سی آئی اے کا ایجنٹ ثابت کرنے والے دلیل کے طور پر نیویارک ٹائمز کی اس ڈاکیومینٹری کا حوالہ دیتے ہیں، جو 2011ء میں بنائی گئی، جس صحافی نے یہ ڈاکیومینٹری بنائی تھی ،اسے مبینہ طور پر سی آئی اے کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اسی ڈاکیومینٹری میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ دو ہزار نو میں بی بی سی اردو پر گل مکئی کے نام سے شایع ہونے والی ڈائری کی مصنفہ یہی لڑکی ہے۔ جس سے متعلق دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ ڈائری درحقیقت اُس کے باپ نے لکھی تھی۔ ماضی کے متحرک ترقی پسند سیاسی کارکن ضیاالدین یوسف زئی کے لیے کہنے والوں نے کہا کہ جوانی کے جو خواب وہ خود پورے نہ کر سکے، ان کی تعبیر کا بوجھ اپنی معصوم بچی کے کندھوں پہ ڈال دیا ہے۔
وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا بلکہ یہ امریکا کی سازش ہے، طوفان کو دیکھ کر ریت میں منہ چھپانے والے ہیں۔ آپ انھیں طالبان کی جانب سے اس حملے کی قبولیت اور پھر حال ہی میں ایک بار پھر اس کا دفاع کرنے کے دلائل دے ڈالیں ،تو وہ اصل معاملے سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیں گے مثلاََ گولی سر میں لگی ہی نہیں تھی، سر میں لگنے والی گولی کا علاج ممکن ہی نہیں، وغیرہ۔ اب دوسری طرف وہ لوگ جو اس بچی کو عقلِ کل ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، وہ بھی دلچسپ ہیں کہ ان میں سے ہر ایک ملالہ کی تقریر(جو مبینہ طورپر اس کے والد نے ہی لکھی) کی تو خوب تعریفیں کر رہے ہیں ،جس میں اس نے طالبان سے متعلق بات کی۔ لیکن ان میں سے کسی نے اس نقطے پر بات نہیں کی اس جینئس بچی نے کہیں اس بات کا حوالہ نہیں دیا کہ طالبان پیدا کیسے ہوئے؟ یہ آسمان سے ٹپکے یا زمین سے اگ آئے؟ یہ اگر برے ہیں تو انھیں جنم دینے والوں کو کیا کہا جانا چاہیے؟
اِس وقت اس معاملے پر پاکستان میں جو جذباتی فضا بنی ہوئی ہے ، اُس میں ایسے سوالات اٹھانا بھی آپ کو طالبان حامی خانے میں ڈال سکتا ہے، لیکن اس ڈر سے نہ تو سوال ترک کیا جا سکتا ہے ،نہ اس بحث کو شتر مہار کی طرح چھوڑا جا سکتا ہے۔اس بحث کے غیر منطقی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر ملالہ پر حملے کا تقابل ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں سے کیاجاتا ہے۔ ملالہ کا ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں سے تقابل کسی صورت جائزقرار نہیں پا سکتا۔ ڈرون، دو متحارب فریقین کے مابین ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور یہ اصل معاملے کا ایک جزو ہے، اس قضیے کے کل اور اس کی اصل جڑ پہ بات کیے بنا ،اس کے محض ایک حصے کو کہیں بطور حوالہ استعمال کر کے دراصل ہم اصل معاملے سے اپنی توجہ ہٹا رہے ہوتے ہیں۔ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ اصل فریقین کی جنگ کس بات پر ہے؟ اُس سے بھی اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ دونوں فریقین ہیں کون؟ طالبان آج امریکا کی مخالفت کر رہے ہیں، اور امریکا انھیں تلاش کر کے مار رہا ہے...حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ کل تک یہ دونوں ایک ساتھ تھے۔ امریکی حمایت اور مدد سے ہی طالبان کا جنم ہوا اور اسی کی حمایت و مدد سے یہ ایک ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوئے۔آگے معاملات کب ،کہاں سے اور کیوں بگڑے...یہ سب ابھی کل کی تاریخ کا حصہ ہے، نہ کہ اتنا قدیم کہ اسے دہرایا جائے۔
اب دو متحارب فریقین کو جب جہاں موقع ملے گا ایک دوسرے کو نشانہ بنائیں گے۔ اس میں اگر بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں تو اس کا انتقام اپنے ہی بچوں سے لینا کیونکر جائزقرار پا سکتا ہے؟ امریکا آپ پر ڈرون حملہ کرے اور آپ اپنے ہی ملک کے کسی کونے میں خود کش حملہ کر ڈالیں، یا ایک بچی کو اس الزام کے تحت نشانہ بنائیں کہ وہ امریکا کی جاسوس ہے...تو اسے ڈرون حملوں سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ بالفرض اگر ڈرون حملے غلط ہو بھی رہے ہیں، تو اس پہ احتجاج کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کا تقابل ایک بے گناہ بچی کے قتل سے کیونکر کیا جا سکتا ہے!... جب کہ ڈرون سے متعلق یہ حقائق بھی سامنے آ چکے ہوں کہ یہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کی باہمی رضامندی اور اجازت سے ہو رہے ہیں۔ بالخصوص طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ایک حملے کا دفاع کرنے کے بعد اس سے متعلق یہ دُھند اب چھٹ جانی چاہئیں۔
ملالہ ،مذہبی بنیاد پرستی کی حقیقی متاثرہ ہے،اُس کے ساتھ محض ہمدردی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اُس کے قدم سے قدم اور اُس کی آواز سے آواز ملائی جانی چاہیے...لیکن دوسری طرف جس طرح عالمی میڈیا کی غیر معمولی کوریج اورتیزی سے اسے ایک بین الاقوامی شخصیت بنانے کی مہم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانا کچھ ایسا بے جا بھی نہیں ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کے ہاتھوں کنٹرولڈ میڈیا کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ محض حبِ علی میں اتنا کچھ نہیں کرتا، جب تک کہ اس میں بغض کا تڑکہ شامل نہ ہو۔ اقوام متحدہ نامی ادارے کے عالمی کرتوتوں سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ اقوام کے نام پر قائم یہ ادارہ کس قوم کے مفادات کا تحفظ کرتا آیا ہے،یہ ہم سب پہ عیاں ہے۔ اس لیے ملالہ اور اُس کی کہانی کے اسکرپٹ رائٹر سے یہ شکایت بجا ہے کہ انھیں دنیا کے اس عالمی غنڈے ، بدمعاش اور استحصالی کے خلاف بھی دو لفظ ضرور بولنے چاہئیں، اور جب تک وہ یہ نہیں بولیں گے، تب تک ان پر مغرب کی ایجنٹی کا لیبل چسپاں رہے گا۔
طالبان تو ابھی کل کی بات ہیں ، ورنہ یہ مغرب ہی ہے جو پچھلی ایک صدی سے جنگوں کا اہتمام کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ مہذب یورپ ہی ہے جس نے نوآبادیاتی استحصال کی بنیاد رکھی، اور دنیا بھر میں کہیں بھی اپنے جنگی جرائم پہ نہ تو افسوس کا اظہار کیا اور ہی شرمندہ ہوا۔ ملالہ نے اپنی تقریر میں جن جن شخصیات کے حوالے دیے، وہ سب مغرب کے استحصال کا شکار رہی ہیں، ان کی عظمت مغرب کی جمہوری اقدار میں نہیں، بلکہ ان کے خلاف عوام کی طویل جدوجہد میں مضمر ہے۔ ان کا حقیقی چہرہ یہ ہے کہ ایک عوامی رہنما کو عوامی حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں تیس برس تک کال کوٹھڑی میں قید رکھتے ہیں، یہ عوامی جدوجہد ہے جو اسے نوبل پرائز کا حقدار قرار ٹھہراتی ہے۔
ملالہ اور اس کے تربیت کاروں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ محض ظلم کے سامنے ڈٹ جانا اصل بہادری نہیں بلکہ قیادت کا اصل کام ظلم کے اسباب تک رسائی اور انھیں بے نقاب کرنا ہے۔ دنیا بھر کے بھوکوں کو روٹی دینا بڑی بات نہیں، اصل کام انھیں بھوکا رکھنے والی قوتوں کی نشاندہی اور ان کے خلاف لڑنا ہے۔ ایسا کیے بنا یہ تمام ترتماشا محض بازیچہ اطفال ہی رہے گا۔
اور اپنی اس اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر رہا ہے جو متحرک ہوجائے تو اس طبقاتی استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتی ہے۔ کیا دنیا نے کوئی ایسا فلسفی، کوئی ایسا دانشور، کوئی ایسا سیاستدان پیدا کیا ہے جو ان بٹے ہوئے مظلوموں کو ایک مرکز پر کھڑا کردے؟
پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک ملالہ کے ایشو کو لے کر جو بحث چھڑی ہوئی ہے ، بنیادی طور پر وہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ان میں ایک وہ ہیں جو ملالہ اور اس کے باپ کو سی آئی اے کا ایجنٹ اور غدارِ وطن ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں، ان کا خیال ہے کہ طالبان بھی امریکا ہی کی پیداوار ہیں ،یہ سارا کیا دھرا امریکا کا ہے ، اس لیے اصل میں مخالفت اسی کی ہونی چاہیے۔ دوسری طرف وہ احباب ہیں جو عالمی میڈیا کی کوریج کا حوالہ دیتے ہوئے ملالہ کو ایک جینیس ثابت کرتے ہوئے اسے نیلسن مینڈیلا کا ہم پلہ قرار دینا چاہتے ہیں۔ ذرا تحمل سے غور فرمائیے تو یہ دونوں انتہائیں ہیں، اور انتہا جہاں سے شروع ہوتی ہے، منطق کا دامن وہیں سے چھوٹ جاتا ہے۔
ملالہ کو سی آئی اے کا ایجنٹ ثابت کرنے والے دلیل کے طور پر نیویارک ٹائمز کی اس ڈاکیومینٹری کا حوالہ دیتے ہیں، جو 2011ء میں بنائی گئی، جس صحافی نے یہ ڈاکیومینٹری بنائی تھی ،اسے مبینہ طور پر سی آئی اے کا ایجنٹ کہا جاتا ہے۔ اسی ڈاکیومینٹری میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ دو ہزار نو میں بی بی سی اردو پر گل مکئی کے نام سے شایع ہونے والی ڈائری کی مصنفہ یہی لڑکی ہے۔ جس سے متعلق دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ ڈائری درحقیقت اُس کے باپ نے لکھی تھی۔ ماضی کے متحرک ترقی پسند سیاسی کارکن ضیاالدین یوسف زئی کے لیے کہنے والوں نے کہا کہ جوانی کے جو خواب وہ خود پورے نہ کر سکے، ان کی تعبیر کا بوجھ اپنی معصوم بچی کے کندھوں پہ ڈال دیا ہے۔
وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ ملالہ پر حملہ طالبان نے نہیں کیا بلکہ یہ امریکا کی سازش ہے، طوفان کو دیکھ کر ریت میں منہ چھپانے والے ہیں۔ آپ انھیں طالبان کی جانب سے اس حملے کی قبولیت اور پھر حال ہی میں ایک بار پھر اس کا دفاع کرنے کے دلائل دے ڈالیں ،تو وہ اصل معاملے سے توجہ ہٹاتے ہوئے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیں گے مثلاََ گولی سر میں لگی ہی نہیں تھی، سر میں لگنے والی گولی کا علاج ممکن ہی نہیں، وغیرہ۔ اب دوسری طرف وہ لوگ جو اس بچی کو عقلِ کل ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، وہ بھی دلچسپ ہیں کہ ان میں سے ہر ایک ملالہ کی تقریر(جو مبینہ طورپر اس کے والد نے ہی لکھی) کی تو خوب تعریفیں کر رہے ہیں ،جس میں اس نے طالبان سے متعلق بات کی۔ لیکن ان میں سے کسی نے اس نقطے پر بات نہیں کی اس جینئس بچی نے کہیں اس بات کا حوالہ نہیں دیا کہ طالبان پیدا کیسے ہوئے؟ یہ آسمان سے ٹپکے یا زمین سے اگ آئے؟ یہ اگر برے ہیں تو انھیں جنم دینے والوں کو کیا کہا جانا چاہیے؟
اِس وقت اس معاملے پر پاکستان میں جو جذباتی فضا بنی ہوئی ہے ، اُس میں ایسے سوالات اٹھانا بھی آپ کو طالبان حامی خانے میں ڈال سکتا ہے، لیکن اس ڈر سے نہ تو سوال ترک کیا جا سکتا ہے ،نہ اس بحث کو شتر مہار کی طرح چھوڑا جا سکتا ہے۔اس بحث کے غیر منطقی ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکثر ملالہ پر حملے کا تقابل ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے بچوں سے کیاجاتا ہے۔ ملالہ کا ڈرون حملوں میں ہلاک ہونے والوں سے تقابل کسی صورت جائزقرار نہیں پا سکتا۔ ڈرون، دو متحارب فریقین کے مابین ایک مؤثر ہتھیار ہے۔ اور یہ اصل معاملے کا ایک جزو ہے، اس قضیے کے کل اور اس کی اصل جڑ پہ بات کیے بنا ،اس کے محض ایک حصے کو کہیں بطور حوالہ استعمال کر کے دراصل ہم اصل معاملے سے اپنی توجہ ہٹا رہے ہوتے ہیں۔ بنیادی معاملہ یہ ہے کہ اصل فریقین کی جنگ کس بات پر ہے؟ اُس سے بھی اصل معاملہ یہ ہے کہ یہ دونوں فریقین ہیں کون؟ طالبان آج امریکا کی مخالفت کر رہے ہیں، اور امریکا انھیں تلاش کر کے مار رہا ہے...حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ کل تک یہ دونوں ایک ساتھ تھے۔ امریکی حمایت اور مدد سے ہی طالبان کا جنم ہوا اور اسی کی حمایت و مدد سے یہ ایک ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کے قابل ہوئے۔آگے معاملات کب ،کہاں سے اور کیوں بگڑے...یہ سب ابھی کل کی تاریخ کا حصہ ہے، نہ کہ اتنا قدیم کہ اسے دہرایا جائے۔
اب دو متحارب فریقین کو جب جہاں موقع ملے گا ایک دوسرے کو نشانہ بنائیں گے۔ اس میں اگر بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں تو اس کا انتقام اپنے ہی بچوں سے لینا کیونکر جائزقرار پا سکتا ہے؟ امریکا آپ پر ڈرون حملہ کرے اور آپ اپنے ہی ملک کے کسی کونے میں خود کش حملہ کر ڈالیں، یا ایک بچی کو اس الزام کے تحت نشانہ بنائیں کہ وہ امریکا کی جاسوس ہے...تو اسے ڈرون حملوں سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ بالفرض اگر ڈرون حملے غلط ہو بھی رہے ہیں، تو اس پہ احتجاج کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کا تقابل ایک بے گناہ بچی کے قتل سے کیونکر کیا جا سکتا ہے!... جب کہ ڈرون سے متعلق یہ حقائق بھی سامنے آ چکے ہوں کہ یہ پاکستان کی مقتدر قوتوں کی باہمی رضامندی اور اجازت سے ہو رہے ہیں۔ بالخصوص طالبان کی جانب سے حالیہ دنوں میں ایک بار پھر ایک حملے کا دفاع کرنے کے بعد اس سے متعلق یہ دُھند اب چھٹ جانی چاہئیں۔
ملالہ ،مذہبی بنیاد پرستی کی حقیقی متاثرہ ہے،اُس کے ساتھ محض ہمدردی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ اُس کے قدم سے قدم اور اُس کی آواز سے آواز ملائی جانی چاہیے...لیکن دوسری طرف جس طرح عالمی میڈیا کی غیر معمولی کوریج اورتیزی سے اسے ایک بین الاقوامی شخصیت بنانے کی مہم کو شک کی نگاہ سے دیکھا جانا کچھ ایسا بے جا بھی نہیں ہے۔ عالمی سامراجی قوتوں کے ہاتھوں کنٹرولڈ میڈیا کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ محض حبِ علی میں اتنا کچھ نہیں کرتا، جب تک کہ اس میں بغض کا تڑکہ شامل نہ ہو۔ اقوام متحدہ نامی ادارے کے عالمی کرتوتوں سے بھی ہم سب واقف ہیں۔ اقوام کے نام پر قائم یہ ادارہ کس قوم کے مفادات کا تحفظ کرتا آیا ہے،یہ ہم سب پہ عیاں ہے۔ اس لیے ملالہ اور اُس کی کہانی کے اسکرپٹ رائٹر سے یہ شکایت بجا ہے کہ انھیں دنیا کے اس عالمی غنڈے ، بدمعاش اور استحصالی کے خلاف بھی دو لفظ ضرور بولنے چاہئیں، اور جب تک وہ یہ نہیں بولیں گے، تب تک ان پر مغرب کی ایجنٹی کا لیبل چسپاں رہے گا۔
طالبان تو ابھی کل کی بات ہیں ، ورنہ یہ مغرب ہی ہے جو پچھلی ایک صدی سے جنگوں کا اہتمام کرتا چلا آ رہا ہے۔ یہ مہذب یورپ ہی ہے جس نے نوآبادیاتی استحصال کی بنیاد رکھی، اور دنیا بھر میں کہیں بھی اپنے جنگی جرائم پہ نہ تو افسوس کا اظہار کیا اور ہی شرمندہ ہوا۔ ملالہ نے اپنی تقریر میں جن جن شخصیات کے حوالے دیے، وہ سب مغرب کے استحصال کا شکار رہی ہیں، ان کی عظمت مغرب کی جمہوری اقدار میں نہیں، بلکہ ان کے خلاف عوام کی طویل جدوجہد میں مضمر ہے۔ ان کا حقیقی چہرہ یہ ہے کہ ایک عوامی رہنما کو عوامی حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں تیس برس تک کال کوٹھڑی میں قید رکھتے ہیں، یہ عوامی جدوجہد ہے جو اسے نوبل پرائز کا حقدار قرار ٹھہراتی ہے۔
ملالہ اور اس کے تربیت کاروں کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ محض ظلم کے سامنے ڈٹ جانا اصل بہادری نہیں بلکہ قیادت کا اصل کام ظلم کے اسباب تک رسائی اور انھیں بے نقاب کرنا ہے۔ دنیا بھر کے بھوکوں کو روٹی دینا بڑی بات نہیں، اصل کام انھیں بھوکا رکھنے والی قوتوں کی نشاندہی اور ان کے خلاف لڑنا ہے۔ ایسا کیے بنا یہ تمام ترتماشا محض بازیچہ اطفال ہی رہے گا۔
اور اپنی اس اجتماعی طاقت کو پارہ پارہ کر رہا ہے جو متحرک ہوجائے تو اس طبقاتی استحصالی نظام کی اینٹ سے اینٹ بجاسکتی ہے۔ کیا دنیا نے کوئی ایسا فلسفی، کوئی ایسا دانشور، کوئی ایسا سیاستدان پیدا کیا ہے جو ان بٹے ہوئے مظلوموں کو ایک مرکز پر کھڑا کردے؟