سانحہ ساہیوال سے سبق
دنیا کے جدید ممالک کی پولیس کی طرح پاکستانی پولیس فورس کی بھی تربیت ہونی چاہیے۔
سانحہ ساہیوال سے ماورائے عدالت قتل کے نقصانات اجاگر ہوگئے۔ اس ملک میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کے لواحقین کو انصاف نہیں ملتا ۔تحریک انصاف کی حکومت نے انسداد دہشتگردی کے شعبہ (Counter Terrorism Department)کے ہاتھوں ایک خاندان کی ہلاکت پر جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی اور وزیر اعظم عمران خان نے اس سانحے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کے قیام کا عندیہ دیا۔ پولیس اہلکاروں کوگرفتار کرلیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی، ایس ایس پی سمیت اعلیٰ افسروں کو اختیارات سے محروم کرنے کی خبریں بھی آئیں ، مگر پنجاب حکومت کے حکام سانحے میں قتل ہونے والے ذیشان کے پس منظر کے حوالے سے معاملے کو لپیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایک سانحے کے ذمے دار اہلکاروں کو اگر سزا مل گئی تو کیا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہل کار مستقبل میں قانون کی پاسداری کریں گی؟ ساہیوال سانحے کے تناظر میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر ریاستی ادارہ انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے 2018ء کے دوران 3 ہزار 345 افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ ان مرنے والے افراد میں 12 بچے بھی شامل ہیں۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی اس طرح کی کارروائیوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار خطرے کی گھنٹی ہیں۔
گزشتہ سال کراچی میں ایک نوجوان نقیب اﷲ قانون نافذ کرنے والی ایک ایجنسی کی غیر قانونی کارروائی کا شکار ہوا تھا۔ نقیب اﷲ کسی جرم میں ملوث نہیں تھا مگر انسداد دہشتگردی کے یونٹ کے اہلکار نقیب اﷲ کو اغواء کر کے لے گئے، پھر نقیب اﷲ کی لاش برآمد ہوئی۔ پولیس حکام نے نقیب اﷲ کو دہشتگرد قرار دیا تھا مگر اس کے لواحقین کے احتجاج پر حقائق سامنے آئے اور نقیب اﷲ بے گناہ نکلا۔ محسود قبیلے کے ہزاروں افراد نے سپر ہائی وے پر ہفتوں دھرنا دیا، قبائلی علاقے میں احتجاج شروع ہوا۔ نقیب اﷲ کے قتل کی بازگشت سپریم کورٹ تک پہنچی، یوں ایک معروف پولیس افسر راؤ انوار کوکئی روز روپوش رہنے کے بعد خود کو قانون کے حوالے کرنا پڑا، مگر دوسرا کوئی افسر گرفتار نہیں ہوا۔ معاملہ عدالت میں گیا۔
کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جمع کیے گئے چالان میں نقیب اﷲ کو بے گناہ اور راؤ انوار کو ملزم قرار دیا گیا۔ نقیب اﷲ کا کیس پہلا کیس نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات میں بنیادی طور پر ماورا عدالتی قتل پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ڈھانچہ، اختیارات اور کام کے طریقہ کار سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں پولیس والے کسی جرم کی تفتیش کے دوران ملزموں پر اتنا تشدد کرتے تھے کہ وہ مرجاتے تھے۔ پولیس حکام اس موقعے پر مرنے والے شخص کی موت کو خودکشی قرار دیتے تھے یا مرنے والے کی موت دل کا دورہ پڑنا قرار دی جاتی تھی۔ یہ معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں ، پولیس حکام عمومی طور پر کچھ عرصہ معطل رہنے کے بعد بری ہوجاتے تھے اور دوبارہ اپنے عہدے پر واپس آجاتے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے۔
نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد جب یہ لڑائی کابل سے پشاور اورکوئٹہ کے راستہ کراچی تک پہنچ گئی تو پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان دہشتگردوں کو سزا دینے کے لیے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اقدام پولیس اور ایجنسی کے مقابل اہلکاروں کی مرضی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ القاعدہ اور طالبان کے بہت سے کارکن ملک کے مختلف علاقوں میں ہلاک ہوئے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن میں یہ ہتھیار مؤثر طور پر استعمال ہوا۔ پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کو یقین دلایا گیا کہ انھیں ان دہشتگردوں کے قتل میں کسی قسم کی عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔
یوں ہر اہلکار نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا ۔یہی وجہ ہے کہ ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی، ان اہلکاروں کو ترقی اور انعامات سے نواز اگیا۔ کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں اہلکاروں نے دہشتگردوں کو ہلاک کرنے میں جلدی کا مظاہرہ کیا ۔ کراچی شہر میں 2008ء سے پولیس والوں کے علاوہ رینجرز اور فوج کے جوانوں اور خفیہ اہلکاروں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشتگردوں کے بعض گروہوں نے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو بھی قتل کرنا شروع کیا۔
ملک میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن میں کئی ہزار اہلکار جاں بحق ہوئے جن میں ڈی آئی جی رینک کے افسران تک شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کو فوری طور پر فائر کرنے کے اختیارات حاصل ہوئے۔ اس اختیار سے دہشتگردوں کا قلع قمع نہیں ہوا بلکہ بے گناہ افراد کے مرنے کی شرح بڑھ گئی۔ ماورائے عدالت قتل ہونے والا ہر فرد مظلوم بن کر سامنے آنے لگا۔ ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر احتجاج کیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی سالانہ رپورٹوں میں پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کا ذکر ہونے لگا۔
میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے دفتر کو مسمارکرنے کی کارروائی میں مزاحمت پر ایک درجن کے قریب بے گناہ افراد مارے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ پنجاب پولیس کا ایک ایسا آپریشن تھا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس آپریشن کا حکم وزیر اعلیٰ یا وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے دیا تھایا نہیں دیا تھا، پولیس حکام کو بے دردی سے اتنے افراد کو قتل کرنے کا جواز نہیں تھا، مگر اس وقت اعلیٰ عدالتوں نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا اور اب سانحہ ماڈل ٹاؤن کو سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، یوں بنیادی معاملہ کہ پولیس اہلکاروں کو کس وقت اور کس طرح گولی چلانی چاہیے کہیں دبا ہوا ہے۔
جدید ریاستوں میں انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف اعلیٰ عدالتوں کو ہے،کسی شخص نے کتنا ہی بھیانک جرم نہ کیا ہوکسی بھی ایجنسی کو اس کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پولیس یا دیگر سرکاری ایجنسیاں کسی ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں شہادتیں پیش کرنے کی پابند ہیں، یوں سرعام سزا دینے کے تصورکو مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج کل اس طرح کے آپریشن میں پولیس کی مختلف برانچوں کے علاوہ خفیہ سول و خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہوتے ہیں، یوں نام نہاد نیشنل سیکیورٹی انصاف کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔
دنیا کے جدید ممالک کی پولیس کی طرح پاکستانی پولیس فورس کی بھی تربیت ہونی چاہیے کہ پولیس اگر گولی چلائے گی تو ملزم کو گرفتار کرنے یا اپنی جان بچانے کے لیے چلائی جائے گی۔ پولیس کسی ملزم کو سزا دینے کے لیے گولی نہیں چلائے گی۔ ملزموں کو گرفتار کرکے 24 گھنٹوں میں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پولیس ایکٹ میں اس طرح کا طریقہ کار رائج ہونا چاہیے کہ ماورائے عدالت قتل کی ہائی کورٹ کا جج تحقیقات کرے۔
پولیس والوں کو مقدمہ دیا جائے کہ وہ ثابت کریں کہ مذکورہ ملزم کو ہلاک کرنا ضروری تھا۔ ملزموں کو پولیس اسٹیشن سے نکال کر مزید ملزمان کی گرفتاری کے نام پر لے جانے اور راستے میں قتل کرنے کا سلسلہ پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے۔ ہر پولیس مقابلے کی ذمے داری متعلقہ پولیس افسروں کے ساتھ وزارت داخلہ کے سیکریٹری اور وزیر داخلہ کو قبول کرنی چاہیے۔ امریکا میں ہر پولیس افسرکی وردی میں ایک کیمرہ نصب ہوتا ہے جو پولیس کی کارروائی کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ اس کیمرے کی مدد سے ایک پولیس افسر کو ایک نوجوان کو گولی چلا کر ہلاک کرنے کے جرم میں 90 سال سزا دی گئی تھی۔
بھارت میں ماورائے عدالت قتل پولیس کا مؤثر ہتھیار ہے مگر بھارت کے میڈیا نے اس قسم کے مقابلوں کے خلاف مہم چلائی ہے۔ گزشتہ سال اکشے کمار کی فلم جانی ایل ایل ایل بی ایک مسلمان کی ہلاکت کے بارے میں تھی ۔ بھارت کی طرح سول سوسائٹی اور میڈیا کو آگاہی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ موجودہ حکومت واقعی چاہتی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد کوئی اور شہری اس طرح کے سانحے کا شکار نہ ہو تو پھر جامع قانون سازی ضروری ہے۔
ڈی آئی جی، ایس ایس پی سمیت اعلیٰ افسروں کو اختیارات سے محروم کرنے کی خبریں بھی آئیں ، مگر پنجاب حکومت کے حکام سانحے میں قتل ہونے والے ذیشان کے پس منظر کے حوالے سے معاملے کو لپیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایک سانحے کے ذمے دار اہلکاروں کو اگر سزا مل گئی تو کیا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے اہل کار مستقبل میں قانون کی پاسداری کریں گی؟ ساہیوال سانحے کے تناظر میں سب سے اہم نکتہ یہی ہے۔ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے جدوجہد کرنے والے غیر ریاستی ادارہ انسانی حقوق کمیشن (H.R.C.P) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2014ء سے 2018ء کے دوران 3 ہزار 345 افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے۔ ان مرنے والے افراد میں 12 بچے بھی شامل ہیں۔ قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی اس طرح کی کارروائیوں میں اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار خطرے کی گھنٹی ہیں۔
گزشتہ سال کراچی میں ایک نوجوان نقیب اﷲ قانون نافذ کرنے والی ایک ایجنسی کی غیر قانونی کارروائی کا شکار ہوا تھا۔ نقیب اﷲ کسی جرم میں ملوث نہیں تھا مگر انسداد دہشتگردی کے یونٹ کے اہلکار نقیب اﷲ کو اغواء کر کے لے گئے، پھر نقیب اﷲ کی لاش برآمد ہوئی۔ پولیس حکام نے نقیب اﷲ کو دہشتگرد قرار دیا تھا مگر اس کے لواحقین کے احتجاج پر حقائق سامنے آئے اور نقیب اﷲ بے گناہ نکلا۔ محسود قبیلے کے ہزاروں افراد نے سپر ہائی وے پر ہفتوں دھرنا دیا، قبائلی علاقے میں احتجاج شروع ہوا۔ نقیب اﷲ کے قتل کی بازگشت سپریم کورٹ تک پہنچی، یوں ایک معروف پولیس افسر راؤ انوار کوکئی روز روپوش رہنے کے بعد خود کو قانون کے حوالے کرنا پڑا، مگر دوسرا کوئی افسر گرفتار نہیں ہوا۔ معاملہ عدالت میں گیا۔
کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جمع کیے گئے چالان میں نقیب اﷲ کو بے گناہ اور راؤ انوار کو ملزم قرار دیا گیا۔ نقیب اﷲ کا کیس پہلا کیس نہیں، ایسے سیکڑوں واقعات میں بنیادی طور پر ماورا عدالتی قتل پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ڈھانچہ، اختیارات اور کام کے طریقہ کار سے منسلک ہیں۔ پاکستان میں پولیس والے کسی جرم کی تفتیش کے دوران ملزموں پر اتنا تشدد کرتے تھے کہ وہ مرجاتے تھے۔ پولیس حکام اس موقعے پر مرنے والے شخص کی موت کو خودکشی قرار دیتے تھے یا مرنے والے کی موت دل کا دورہ پڑنا قرار دی جاتی تھی۔ یہ معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں ، پولیس حکام عمومی طور پر کچھ عرصہ معطل رہنے کے بعد بری ہوجاتے تھے اور دوبارہ اپنے عہدے پر واپس آجاتے تھے اور یہ سلسلہ اب تک جاری وساری ہے۔
نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد جب یہ لڑائی کابل سے پشاور اورکوئٹہ کے راستہ کراچی تک پہنچ گئی تو پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں نے ان دہشتگردوں کو سزا دینے کے لیے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ اقدام پولیس اور ایجنسی کے مقابل اہلکاروں کی مرضی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ القاعدہ اور طالبان کے بہت سے کارکن ملک کے مختلف علاقوں میں ہلاک ہوئے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف ہونے والے آپریشن میں یہ ہتھیار مؤثر طور پر استعمال ہوا۔ پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کو یقین دلایا گیا کہ انھیں ان دہشتگردوں کے قتل میں کسی قسم کی عدالتی کارروائی کا سامنا کرنا نہیں پڑے گا۔
یوں ہر اہلکار نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایا ۔یہی وجہ ہے کہ ماورائے عدالت قتل ہونے والے افراد کی تعداد بڑھ گئی، ان اہلکاروں کو ترقی اور انعامات سے نواز اگیا۔ کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں اہلکاروں نے دہشتگردوں کو ہلاک کرنے میں جلدی کا مظاہرہ کیا ۔ کراچی شہر میں 2008ء سے پولیس والوں کے علاوہ رینجرز اور فوج کے جوانوں اور خفیہ اہلکاروں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہشتگردوں کے بعض گروہوں نے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو بھی قتل کرنا شروع کیا۔
ملک میں دہشتگردی کے خلاف آپریشن میں کئی ہزار اہلکار جاں بحق ہوئے جن میں ڈی آئی جی رینک کے افسران تک شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال کے تدارک کے لیے پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں کو فوری طور پر فائر کرنے کے اختیارات حاصل ہوئے۔ اس اختیار سے دہشتگردوں کا قلع قمع نہیں ہوا بلکہ بے گناہ افراد کے مرنے کی شرح بڑھ گئی۔ ماورائے عدالت قتل ہونے والا ہر فرد مظلوم بن کر سامنے آنے لگا۔ ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی خبروں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس صورتحال پر احتجاج کیا۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کی سالانہ رپورٹوں میں پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں کا ذکر ہونے لگا۔
میاں شہباز شریف کے دور حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے دفتر کو مسمارکرنے کی کارروائی میں مزاحمت پر ایک درجن کے قریب بے گناہ افراد مارے گئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ پنجاب پولیس کا ایک ایسا آپریشن تھا جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس آپریشن کا حکم وزیر اعلیٰ یا وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے دیا تھایا نہیں دیا تھا، پولیس حکام کو بے دردی سے اتنے افراد کو قتل کرنے کا جواز نہیں تھا، مگر اس وقت اعلیٰ عدالتوں نے اس مسئلے کو نظر انداز کیا اور اب سانحہ ماڈل ٹاؤن کو سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، یوں بنیادی معاملہ کہ پولیس اہلکاروں کو کس وقت اور کس طرح گولی چلانی چاہیے کہیں دبا ہوا ہے۔
جدید ریاستوں میں انصاف کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف اعلیٰ عدالتوں کو ہے،کسی شخص نے کتنا ہی بھیانک جرم نہ کیا ہوکسی بھی ایجنسی کو اس کو سزا دینے کا اختیار نہیں ہے۔ پولیس یا دیگر سرکاری ایجنسیاں کسی ملزم کو گرفتار کرکے عدالت میں شہادتیں پیش کرنے کی پابند ہیں، یوں سرعام سزا دینے کے تصورکو مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔کچھ صحافیوں کا کہنا ہے کہ آج کل اس طرح کے آپریشن میں پولیس کی مختلف برانچوں کے علاوہ خفیہ سول و خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار شامل ہوتے ہیں، یوں نام نہاد نیشنل سیکیورٹی انصاف کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔
دنیا کے جدید ممالک کی پولیس کی طرح پاکستانی پولیس فورس کی بھی تربیت ہونی چاہیے کہ پولیس اگر گولی چلائے گی تو ملزم کو گرفتار کرنے یا اپنی جان بچانے کے لیے چلائی جائے گی۔ پولیس کسی ملزم کو سزا دینے کے لیے گولی نہیں چلائے گی۔ ملزموں کو گرفتار کرکے 24 گھنٹوں میں عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پولیس ایکٹ میں اس طرح کا طریقہ کار رائج ہونا چاہیے کہ ماورائے عدالت قتل کی ہائی کورٹ کا جج تحقیقات کرے۔
پولیس والوں کو مقدمہ دیا جائے کہ وہ ثابت کریں کہ مذکورہ ملزم کو ہلاک کرنا ضروری تھا۔ ملزموں کو پولیس اسٹیشن سے نکال کر مزید ملزمان کی گرفتاری کے نام پر لے جانے اور راستے میں قتل کرنے کا سلسلہ پر مکمل طور پر پابندی ہونی چاہیے۔ ہر پولیس مقابلے کی ذمے داری متعلقہ پولیس افسروں کے ساتھ وزارت داخلہ کے سیکریٹری اور وزیر داخلہ کو قبول کرنی چاہیے۔ امریکا میں ہر پولیس افسرکی وردی میں ایک کیمرہ نصب ہوتا ہے جو پولیس کی کارروائی کی ریکارڈنگ کرتا ہے۔ اس کیمرے کی مدد سے ایک پولیس افسر کو ایک نوجوان کو گولی چلا کر ہلاک کرنے کے جرم میں 90 سال سزا دی گئی تھی۔
بھارت میں ماورائے عدالت قتل پولیس کا مؤثر ہتھیار ہے مگر بھارت کے میڈیا نے اس قسم کے مقابلوں کے خلاف مہم چلائی ہے۔ گزشتہ سال اکشے کمار کی فلم جانی ایل ایل ایل بی ایک مسلمان کی ہلاکت کے بارے میں تھی ۔ بھارت کی طرح سول سوسائٹی اور میڈیا کو آگاہی کا فریضہ انجام دینا چاہیے۔ موجودہ حکومت واقعی چاہتی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے بعد کوئی اور شہری اس طرح کے سانحے کا شکار نہ ہو تو پھر جامع قانون سازی ضروری ہے۔