تحریک انصاف کی گالم گلوچ کمپنی اور قومی اسمبلی کی کمیٹی
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے لیے ایک ہائی پروفائل کمیٹی بنا دی ہے۔
تحریک انصاف جب سے حکومت میں آئی ہے، ہر معاملے پر یوٹرن لے رہی ہے۔ کل تک اپوزیشن میں اسے جو کچھ اچھا لگتا تھا، آج حکومت میں آکر برا لگ رہا ہے۔ ہر معاملے پر یوٹرن نے اس حکومت کو یوٹرن حکومت بنا دیا ہے۔ اب مجھے اس حکومت کی کسی بات پر اعتبار ہی نہیں رہا ،کیا پتہ کل کس بات پر یہ کہہ کر مکر جائیں کہ ہم نے یوٹرن لے لیا ہے اور یوٹرن لینا بڑے کامیاب لیڈروں کی شان ہے۔ میرا اپوزیشن کو مشورہ ہے کہ وہ حکومت سے کوئی بھی معاملہ طے کرنے سے پہلے یو ٹرن پر کوئی گارنٹی لے لے۔
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے لیے ایک ہائی پروفائل کمیٹی بنا دی ہے۔ جس میں قائد ایوان قائد حزب اختلاف سمیت سارے ہیوی ویٹ شامل ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کی کیوں ضرورت ہے؟ آج جو ماحول ہے اس کی روایت خود تحریک انصاف نے اپوزیشن میں قائم کی ہے۔ اس وقت کی حکومت نے نہایت خندہ پیشانی سے اس گالی گلوچ کی روایت کو نہ صرف برداشت کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی قومی اسمبلی چلائی۔ کل جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو اسے بدتمیزی اورگالم گلوچ پسند تھی۔ وہ اسے جمہوریت کی شان سمجھتی تھی۔ وزیر اعظم کی بے عزتی کرنا ہی جمہوریت تھا۔گو نواز گو کے نعرے ہی جمہوریت تھی۔ وزیر اعظم کے اہل خانہ کو گالیاں دینا ہی جمہوریت تھی۔ ن لیگ نے ایسے ہی ماحول میں ایک سال نہیں پانچ سال اسمبلی چلائی ہے۔
دھرنے کے دوران کنٹینر پر بیٹھ کر تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نے پارلیمنٹ کو ہی گالیاں دیں۔ جعلی استعفیٰ دیے گئے۔ ایوان کا جعلی بائیکاٹ کیا گیا۔ بدتمیزی کی انتہا کر دی گئی۔ بعد میں جعلی استعفیٰ بھی واپس لے لیے گئے۔ دھرنے کے دنوں کی تنخواہیں بھی لے لی گئیں۔ خواجہ آصف نے ایک فقرہ کہہ دیا کچھ شرم ہوتی کچھ حیا ہوتی ہے تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا۔ مریم نواز کے خلاف نعرہ بازی کی جاتی رہی لیکن سب نے برداشت کیا۔ آج علیمہ خان کے خلاف نعرے بازی پر تحریک انصاف کی برداشت ختم ہو گئی ہے۔ کل وزیر اعظم کے سامنے ان کی بے عزتی کرنا جمہوری عمل تھا، آج وزیر اعظم کی عزت کرنے کے درس دیے جا رہے ہیں۔کل تک وزیر اعظم کی نیب میں تفتیش جمہوریت کی معراج تھی، آج نیب کی وزیر اعظم سے تفتیش جمہوریت کا مذاق ہے۔
عمران خان اپنی گالم گلوچ ٹیم کی مدد سے پانچ سال ملک میں مخالفین کی پگڑیاں اور عزتیں اچھالتے رہے۔ اب دو دفعہ خود قومی اسمبلی میں بطور وزیر اعظم آئے ہیں۔ اپوزیشن نے انھی کی زبان میں جواب دیا ہے تو بادشاہ سلامت مائنڈ کر گئے ہیں۔ کل تک مریم نواز پر فقرے کسنے والے آج علیمہ خان پر ایک فقرہ برداشت نہیں کر سکے ہیں۔ آج قومی اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے لیے پروڈکشن آرڈر منسوخ کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور منتیں بھی کی جا رہی ہیں۔ آج اپنی عزت اتنی پیار ی ہو گئی ہے کہ عمران خان شہباز شریف اور زرداری کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں،کل تک جن کے ساتھ بیٹھنا جرم تھا۔ آج اپنی عزت کرانے کے لیے کمیٹی بھی بنا دی گئی ہے ،کل تک ایسی کمیٹیوں کا بائیکاٹ ہی جمہوریت کی شان تھی۔
سوال یہ بھی ہے کہ حکومت کے قیام کے بعد بدتمیزی سب سے پہلے کس نے شروع کی تھی۔ تب خیال تھا کہ یہ اپوزیشن تو مقدمات میں ایسی پھنس چکی ہے کہ اس میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس بیان سے تحریک انصاف کی سیاسی سوچ واضح ہے کہ ملک میں فیصلہ کرنے والی قوتوں کو (ن اور پی پی پی) کی موجودہ قیادت قبول نہیں۔ اسی فلسفے کے تحت گالم گلوچ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ایک خیال تھا کہ یہ اپوزیشن بہت کمزور ہو چکی ہے۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ، انھیں تو گالیاں دے دیکر بھگا دیں گے، یہ تو اپنی عزت بچانے کے لیے ہماری منتیں کریںگے، ان کی پارلیمنٹ میں آنے کی جرات ہی نہیں ہو گی۔ اگر غلطی سے آجائیں گے تو ہماری گالیاں سن کر منہ چھپاتے پھریں گے۔ عمران خان نے اپنے تمام اٹیک بولر اکٹھے ہی لگا دیے۔ پہلے دس اوورز میں ہی ساری اپوزیشن کو آؤٹ کرنے کا منصوبہ تھا۔
دوسری طرف یہ بھی علم تھا کہ ہماری کارکردگی بہت بری ہوگی۔ یہ بھی پتہ تھا کہ ہمارے پاس ملک کو چلانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ مہنگائی ہوگی، ٹیکس بڑھانے ہوں گے۔ بجلی گیس مہنگی کرنی ہوگی۔ قرضے لینے ہوںگے۔ اس لیے بھی گالم گلوچ تھیٹر شروع کیا گیا تا کہ عوام کی توجہ چور چور کی طرف ہی رہے، کوئی ہماری کارکردگی کا سوال ہی نہ کر سکے۔پھر فیصلہ کرنے والی قوتوں نے پہلے مرحلہ میں اپوزیشن کو تقسیم بھی کر دیا تھا۔ اس کا بھی تحریک انصاف کو بہت فائدہ ہو رہا تھا۔ اس تقسیم کی وجہ سے چاندی ہی چاندی تھی۔ تحریک انصاف کا خیال تھا کہ یہ تقسیم ہمیشہ قائم رہے گی اور ان کی چاندی برقرار رہے گی لیکن ایسا نہیں ہوتا، سیاست بدلتی رہتی ہے۔آپ اب سندھ کے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔تحریک انصاف کی مرکزی گالم گلوچ کمپنی نے سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے خلاف ایک محاذ جنگ کھولا ہوا ہے۔ آپ دیکھیں اب اسد عمر جیسے سنجیدہ لوگ بھی اس مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ بادل نخواستہ مراد علی شاہ بھی گالی کا جواب گالی سے دے رہے ہیں۔ اب دونوں طرف سے تقریبا برابر گالی دی جا رہی ہے۔
تحریک انصاف کی گا لم گلوچ کمپنی کا موقف ہے کہ چونکہ مراد علی شاہ کا نام جے آئی ٹی میں آگیا ہے، اس لیے وہ چور ثابت ہو گئے ہیں۔ انھیں اب وزارت اعلیٰ چھوڑ دینی چاہیے۔ تحریک انصاف نے مراد علی شاہ سے وزارت اعلیٰ چھڑانے کے لیے کسی قانونی راستے کا انتخاب کرنے کے بجائے گالم گلوچ کا راستہ اپنایا ہے۔ شاید ان کا خیال ہے کہ بیچارے مراد علی شاہ خود ہی شرم سے عہدہ چھوڑ دیں گے۔ لیکن کوئی تحریک انصاف سے سوال تو نہیں کر سکتا کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بھی تو نیب نے باقاعدہ بیان جاری کر دیا ہوا ہے کہ وہ مالم جبہ انکوائری میں نیب کو مطمئن نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن ان سے تو نہ استعفیٰ مانگا جا رہا ہے اور نہ ہی کوئی ان کو گالی دے رہا ہے بلکہ نیب کے بیان کے بعد ان کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گیا ہے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ سوچتے کچھ ہیں ہوتا کچھ ہے۔ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا۔ اگر سب کچھ آپ کی سوچ کے مطابق ہی ہونے لگے توآپ رب کو بھو ل جائیں۔اسی طرح تحریک انصاف کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ علیمہ خان کی بیرون ملک جائیدادیں نکل آئیں گی۔ علیمہ خان کا نام بھی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی لسٹ سے باہر آجائے گا۔ علیمہ خان کی جائیداد بھی پاناما فلیٹس کے مقابلے میں آ جائے گی۔ کس کو علم تھا تحریک انصاف کی حکومت اپنے ہی وزیر کو ڈیم کی تعمیر کا ٹھیکہ دیدے گی اور یہ لولی لنگڑی اپوزیشن اس پر شور مچانے کی بھی جرات کر لے گی۔ جیلوںمیں قید اور پروڈکشن آرڈر کی محتاج یہ اپوزیشن اس پر بولنے کی جرأت کر لے گی۔ پانچ ماہ میں ہی دو بڑے اسکینڈلز نے اس حکومت کے ہوش گم کر د یے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم کی شان میں گستاخی روکنے اور اسمبلی کا ماحول بہتر بنانے کے لیے اپوزیشن کو تعاون کرنا چاہیے؟ کیا حکومت کی اس خواہش کا احترام کرناچاہیے؟ کیا یہ حکومت کو سبق سکھانے کا بہترین موقع نہیں ہے؟ کیا اب وقت نہیں ہے کہ تحریک انصاف کو سبق سکھایا جائے؟ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپوزیشن اس مرتبہ پھر تحریک انصاف کے ٹریپ کا شکار ہو جائے گی۔