ڈیووس میں پاکستان بریک فاسٹ

سر پر منڈلاتا بریگزٹ اور امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن عالمی معیشت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا چکا ہے۔


اکرام سہگل January 30, 2019

رواں سال ڈیووس میں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس پر شام و افغانستان کی جنگوں، کچھ افریقی ممالک میں خراب معاشی صورتحال اور نتیجتاً مغربی دنیا میں ہزاروں مہاجرین کی آمد کے بادل چھائے رہے۔ سر پر منڈلاتا بریگزٹ اور امریکی حکومت کا شٹ ڈاؤن عالمی معیشت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا چکا ہے۔

امریکا، یورپ اور چین میں جاری تجارتی جنگ نے صورت حال کو مزید سنگین کردیا ہے۔ شرح نمو سے متعلق آئی ایم ایف کی توقعات کم ہو گئی ہیں۔ جرمن چانسلر نے بدھ کو عالمی اقتصادی فورم میں متنبہ کیا کہ عالمی اقتصادی نظام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی ایک اور خطرناک پیشرفت ہے جس سے عالمی معیشت کو خطرہ لاحق ہے۔

جیوپولیٹیکل اور علاقائی امور کے ڈپٹی ہیڈ اور ورلڈ اکنامک فورم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے منسٹر میرک ڈسک نے پاکستان بریک فاسٹ کے موقعے پر اپنے افتتاحی کلمات میں اس تقریب کی عالمی اقتصادی فورم کے لیے اہمیت پر زور دیا۔پاکستان بریک فاسٹ جو ڈیووس میں مسلسل اٹھارہویں مرتبہ ہورہا ہے اور مکمل طور پر نجی کارپوریٹ اداروں کی جانب سے فنڈ کیا جاتا ہے، ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کا ایک لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔

ابتدائی طور پر پاتھ فائنڈر گروپ کی جانب سے منعقد کی جانے والی یہ منفرد تقریب حالیہ و سابقہ پاکستانی حکمرانوں کے لیے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کا سنہراموقع رہی ہے۔ یہ تقریب گزشتہ چار سال سے مارٹن ڈاوؤ گروپ کے بانی چئیرمین جاوید اوکھائی کے تعاون سے منعقد کی جارہی ہے۔

بدقسمتی سے جاوید اوکھائی تین ماہ قبل دنیا سے رخصت ہو گئے، جس کے بعد اس ثمر آور تعاون کا تسلسل ٹوٹنے کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔ بہرحال ان کے فرزند علی اوکھائی اور صاحبزادی انعم شاجانی اپنے والد کے عزم اور ارادے سے مخلص رہے۔ جب علی اوکھائی نے اپنے والد کے انتقال کی پرملال کہانی سنائی تو کئی آنکھیں نم تھیں۔ یہ بڑی حد تک دانستہ طور پر پاکستان کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرکے اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔

یہ ہمارے سرکاری سفارتی عملے اور سرکاری میڈیا مشینری کی ذمے داری ہے کہ وہ پاکستان کی منفی تاثر کا ازالہ کرے۔ مگر ڈیووس بین الاقوامی فورمز پر پاکستان کے لیے کام کرنے کے حوالے سے مسلسل ناکامی کی ایک زندہ مثال ہے۔ 2011ء، 2012ء اور 2013ء میں ڈیووس میں پاکستان بریک فاسٹ میں بطور مہمان خصوصی شریک ہونے والے عمران خان رواں سال بوجوہ اس تقریب میں شرکت نہ کرسکے۔ کیا یہاں آنا پاکستان کے سرکاری وسائل اور وزیر خارجہ وغیرہ کے وقت کا ضیاع ہے؟ عمران خان کو وزیر اعلیٰ بلوچستان، ان کی اہلیہ اور سینٹر انوار الحق کاکڑ کی سادگی ملاحظہ کرنی چاہیے، تین رکنی وفد بغیر کسی پروٹوکول کے، حتی ٰکہ جنیوا میں آپ کے سفارت خانے سے بھی کسی کی ہمراہی کے بغیر یہاں تشریف لائے، زیورک ائیرپورٹ پر کچھ دورانیے کے لیے سفارت خانے نے انھیں کچھ وقت دینے کی زحمت گوارہ کی۔

اس برس بریک فاسٹ میں سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار شریک ہوئے۔ پاتھ فائنڈر گروپ کے شریک چئیرمین، نیز لیگل 500 اور امریکی چیمبر آف لاء ڈائیریکٹری کی جانب سے تائید شدہ دنیا کے چوٹی کے وکلاء میں سے ایک، ضرار سہگل نے پاکستان کو دستیاب مواقعے اور پاکستان کو درپیش مشکلات کا ایمان دارنہ جائزہ پیش کیا۔ضرار نے متعدد اقدامات کا ذکر کیا جو سابق چیف جسٹس اور دیگر ججز نے ان کی رہنمائی میں اٹھائے۔ ضرار کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے تعلیم پر بہ طور انسانی حق اور ریاستی ذمے داری پر زور دیا جیسا کہ ملک کے آئین میں درج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس نے بار بار پاکستان کے تعلیمی نظام کی اصلاح کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان میں حکومتیں تعلیمی شعبے کو بری طرح نظر انداز کرتی آئی ہیں۔ لہٰذا سپریم کورٹ نے تعلیم پر ایک کمیشن قائم کیا ۔حکومت اس منصوبہ پر عمل درآمد کے لیے کام کررہی ہے۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے دوسرے اقدام کی تفصیلات بھی پیش کیں، یعنی صحت کے شعبے کی اصلاح سے متعلق ایک رپورٹ۔اس پر عمل کرتے ہوئے حکومت نے پانچ لاکھ سے زائد لوگوں کو صحت کارڈ جاری کیے جو باقاعدہ صحت کی سہولت حاصل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔

سابق چیف جسٹس نے میڈیا میں ہونے والی ایک عام تنقید کا حوالہ دیا کہ سپریم کورٹ ان معاملات میں مداخلت کررہی ہے جو اس کے دائرہِ اختیار و ذمے داری میں نہیں آتے۔ میاں ثاقب نے ایسے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے اصرار کیا کہ یہ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ آئین یا دیگر قوانین کے ان حصوں پر عمل درآمد کا حکم دے جن میں عوام کو فراہم کیے گئے حقوق عوام کو مہیا نہیں کیے جارہے۔

آخری اہم مسئلہ جس کے بارے میں میاں ثاقب نے ڈیووس میں بات کی وہ آبادی پر قابو پانا ہے۔پاکستان میں ہر روز 14000بچوں کو وہ مائیں جنم دیتی ہیں جو یا تو بہت زیادہ کم عمر ہوتی ہیں یا غذائیت کی کمی کا شکار۔ اس کے نتیجے میں بچوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے اور غریب والدین کے بچے جسمانی و ذہنی کمزوری اور دیگر بیماریوں کا شکار ہیں۔

سابق چیف جسٹس کی رہنمائی میں ایک کمیٹی نے آبادی میں اضافے کی شرح پر قابو پانے کے لیے ایک منصوبہ تشکیل دیا اور وفاقی حکومت کو پیش کیا گیا جو اس نے قبول کرلیا۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات پاکستان میں بہتری لائیں گے۔ انھوں نے سرمایہ کاروں اور پاکستان کے دوستوں سے کہا کہ وہ پاکستان آئیں اور اس نئی پیشرفت کا حصہ بنیں۔مغربی عوام کے لیے یہ دلیل شاید عجیب رہی ہو، یہاں کوئی چیف جسٹس پالیسی سازی میں اس طرح مداخلت نہیں کرتا۔مگر پاکستانی ریاست جو صرف ستر سال قبل قائم ہوئی ہے ، شروع ہی سے کمزور رہی ہے اور ان کمزوریوں سے نمٹنے کے لیے کچھ انوکھے طور طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں۔

اس سال وزیر اعظم عمران خان کے بجائے وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے پاکستان کی نمایندگی کی۔ یہ صحیح معنوں میں ایک معنی خیز لمحہ تھاکہ بلوچستان کا ایک منتخب رہنما اپنے صوبے اور ملک دونوں کی عالمی سطح پر نمایندگی کررہا تھا۔ رقبے کے لحاظ سے بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور کم از کم عوامی تصور کے مطابق سب سے زیادہ مسائل کا شکار بھی۔ پاکستان کی نمایندگی بلوچستان کی طرف سے ہونا انتہائی مثبت پیشرفت ہے۔

بلوچوں سے پاکستانی حکومتوں نے اچھا سلوک نہیں کیا۔اس کا نتیجہ بھارت اور افغانستان کی حمایت یافتہ علیحدگی پسند تنظیموں کی صورت میں نکلا۔ ڈیووس جیسے عالمی اسٹیج پر بلوچستان کے ایک منتخب رہنماء کی پاکستان کی نمایندگی بدلتے ہوئے حالات کا ایک زبردست اشارہ ہے۔ گزشتہ اگست میں وزیر اعلیٰ منتخب ہونے والے جام کمال خان اس عہدے پر فائز ہونے والی اپنے خاندان کی تیسری نسل اور بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر ہیں۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان کو درپیش صورتحال کی وضاحت کی۔ بیش بہاء وسائل رکھنے والا صوبہ انفرااسٹرکچر اور باہنر افرادی قوت کی کمی کا شکار ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ گورننس جو کہ اس وقت سب سے بڑے مسائل میں سے ہے ، اقرباء پروری کے بجائے مناسب کام کے لیے مناسب شخص کو سامنے لانے والی پالیسی اختیار کر کے بتدریج بہتر بنالی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا صوبے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کردے گا۔

انھوں نے سرمایہ کاروں کو بھی تبدیلی کے عمل کی تکمیل میں مدد کی دعوت دی۔انھیں وفاقی حکومت کے تعاون اور اور سی پیک سمیت مختلف منصوبوں کی سرمایہ کاری آنے کا فائدہ حاصل ہے۔ مگر ان کا اصرار تھا کہ اب بھی بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ کی معاونت صحیح معنوں میں لائق فائق شخصیت سینٹر انوارالحق کاکڑ نے کی۔ بے شک ان کا کردار مستقبل کی پاکستانی سیاست اور حکمرانی کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ ایسے مشیر کی موجودگی جام کمال کی ذہنی پختگی اور مثبت طرز فکر کی عکاس ہے۔ شاید عمران خان بھی ان سے کچھ سیکھ کر اپنے گرد موجود چند ایسے لوگوں سے چھٹکارہ حاصل کریں جو حکمرانی کے ہراول دستوں میں ہونے کے مستحق نہیں۔

دونوں مہمانان خصوصی کے خطاب کے بعد پاکستان آرمی کی سدرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل عاصم باجوہ نے اظہار خیال کیا۔انھوں نے بیان کیا کہ موجودہ سیکیورٹی صورت حال پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص بہت بہتر ہے۔ انھوں نے وعدہ کیا کہ فوج صوبے میں مثبت پیشرفت کی حمایت کرے گی۔ انھوں نے انتہائی ذہانت سے پاکستان میں سیکیورٹی صورتحال کی مختلف جہتیں بیان کیں، خاص طور پر بلوچستان کی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی۔ جب پاکستان سے باہر موجود لوگ بلوچستان کے بارے میں سنتے ہیں تو انھیں صرف حکومتی املاک یا جاری منصوبوں پر عسکریت پسندوں کے حملوں کی خبر ملتی ہے جو کہ اب بہت کم رہ گئے ہیں۔ ایک دور میں براستہ سڑک ایران جانے والے سالانہ بیس ہزار زائرین ہمیشہ خطرے کی زد میں ہوتے تھے۔ صورتحال اس قدر بہتر ہوگئی ہے کہ اس سے دس گنا زیادہ افراد نے 2018ء میں چمن سرحد پار کی۔

میں نے ذاتی طور پر پاکستان بریک فاسٹ میں عارف نقوی کی کمی محسوس کی۔ وہ اس عالمی فورم پر پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے حوالے سے ایک ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ اتفاقاً سابق وزیراعظم شوکت عزیز بھی تقریب کے آخر میں شریک ہوگئے۔ شرمین عبید چنائے نے سابق چیف جسٹس کو قانون کی حکمرانی اور عورتوں کے مساوی حقوق کے لیے عظیم جدوجہد پر خراج تحسین پیش کیا۔ چئیرمین ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ، پیروٹ گروپ آف کمپنیزاینڈ ہل وڈ، راس پیروٹ جونئیر کا کہنا تھا کہ وہ کئی سال سے باقاعدگی کے ساتھ پاکستان بریک فاسٹ میں شریک ہورہے ہیں۔ یہ ان کے سالانہ دورہ ڈیووس کی ایک اہم سرگرمی تھی۔ انھوں نے کہا کہ وہ دونوں مرکزی مقررین بالخصوص سابق چیف جسٹس سے بہت متاثر ہوئے۔انھوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کا مستقبل روشن ہے۔

ڈیووس کی وقت کی بندشوں کی وجہ سے گفتگو کا سلسلہ تھم گیا۔پاکستان بریک فاسٹ قانون کی حکمرانی اور بلوچستان کے لیے ایک اچھا دن تھا۔ عمران خان کے بغیر بھی، جنھیں وہاں ہونا چاہیے تھا، یہ پاکستان کے لیے ایک اچھا دن تھا۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں