صراطِ مستقیم

ضروری ہے کہ اس امرکی وضاحت کردی جائے کہ صراط مستقیم ہے کیا؟


[email protected]

توبہ اللہ تعالیٰ کی شان غفاری اور رحمت کا مظہر ہے۔کوئی شخص خواہ گناہوں اور معصیات کا کتنا ہی بڑا بوجھ لے کر اللہ کے دربار میں آئے اور اپنے غلط طرز عمل، نافرمانیوں اور بغاوتوں پر نادم اور شرمندہ ہوکر اس سے معافی مانگے اور استغفار کرے، اللہ تعالیٰ اسے معاف کردیتے ہیں۔ '' اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور (ان کے) قصور معاف کرتا ہے۔'' لیکن گناہوں سے توبہ کرنے والے شخص کو یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہیے کہ چونکہ وہ توبہ کرکے صراط مستقیم پرگامزن ہوچکا ہے، لہٰذا اب راحت و آرام اور آسائشیں ہی اس کا مقدر ہوں گی۔ اب اس پر کوئی امتحان نہیں آئے گا۔

کوئی مشکل اور سختی نہیں آئے گی۔ بلکہ اسے اس حقیقت کا ادراک کرنا اور ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ راہ حق پر چلتے ہوئے قدم قدم پر اسے آزمائشوں، ابتلاؤں اور امتحانات سے سابقہ پیش آئے گا۔ زندگی کے آخری سانس تک راہ حق کی مشکلات اور مصائب اس کا پیچھا کریں گے۔ کیونکہ یہ زندگی تو سراپا امتحان ہے۔ جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔''

قبل اس کے صراط مستقیم اور راہ حق کی آزمائشوں پر بات کی جائے، ضروری ہے کہ اس امرکی وضاحت کردی جائے کہ صراط مستقیم ہے کیا؟ یوں تو پورا قرآن مجید صراط مستقیم کی تشریح پر مشتمل ہے، اور یہ جواب ہے ہماری اس دعا کا جو ہم ہر نماز میں اللہ سے کرتے ہیں کہ ''(اے اللہ) تو ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔'' تاہم صراط مستقیم کی پہچان کے لیے انتہائی اختصار کے ساتھ سورۃ العصر میں اس کے چار سنگ ہائے میل بیان کیے گئے ہیں۔ ''یہ سنگ ہائے میل ہیں: ایمان، اعمال صالحہ، تواصی بالحق اور تواصی بالصبر۔'' ایمان شاہراہ ہدایت اور صراط مستقیم کا پہلا سنگ میل ہے۔ اس کے بغیر صراط مستقیم کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ایمان ہے تو ہدایت اور روشنی سے استفادہ ممکن ہے، اگر یہ نہیں ہے تو پھر اس راہ پر پیش قدمی نہیں کی جاسکتی ہے۔

دوسری چیز عمل صالح ہے اور اس کا دارومدار ایمان ہی پر ہے۔ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان جتنا گہرا اور راسخ ہوگا اسی قدر عمل بھی صالح ہوتا چلا جائے گا۔ بندۂ مومن میں خواہش ہوگی اور یہ عزم پختہ ہوگا کہ مجھے ہر صورت اپنے رب کو راضی کرنا ہے، مجھے ایسے کام کرنے ہیں جن سے میرا مالک راضی ہو اور ان چیزوں سے بچنا ہے جو اس کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں۔ جب بندہ مومن حق کا علمبردار بن کر کھڑا ہوگا تو اسے لازماً لوگوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس پر سختیاں آئیں گی، اسے آزمائشوں کا سامنا ہوگا، اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی جائیں گی۔

خاص طور پر جب حق کی صدا باطل نظام کے خلاف اٹھے گی تو باطل نظام کے تمام کل پرزے حق کے علمبرداروں کی سخت مخالفت اور مزاحمت کریں گے۔ ایسے میں استقامت اور صبر ضروری ہوگا۔ اگر یہاں صبر اور استقامت کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا تو سب کیے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ اس لیے اس مرحلے پر حق کے علمبرداروں کے لیے ہدایت یہ ہے کہ باہم ایک دوسرے کو صبر کی اور حق و سچائی پر قائم رہنے کی تلقین کریں۔

اللہ تعالیٰ ہی انسان کا مددگار اور حامی و ناصر ہے۔ قرآن حکیم میں نبی اکرمؐ کو براہ راست مخاطب کرکے فرمایا ''اور صبر ہی کرو اور تمہارا صبر بھی اللہ کی مدد سے ہے'' یہی بات سوالیہ انداز میں یوں کہی گئی '' کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں؟'' اسلام کے مکی دور میں جب کہ مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی انتہا کردی گئی تھی اور اس بنا پر انھیں حبشہ ہجرت کی اجازت دی گئی اس موقعے پر جو آیات نازل ہوئیں ان میں بھی فرمایا گیا کہ تلاوت قرآن اور نماز کا اہتمام کیجیے۔ اس میں گویا یہ بتا دیا گیا کہ مشکلات اور سختیوں میں یہ دونوں چیزیں قوت استحکام اور استقامت کا باعث ہوں گی۔

فرمایا: ''اے محمدؐ! یہ کتاب جو تمہاری طرف وحی کی گئی ہے اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو۔'' یعنی قرآن کی تلاوت کرو۔ اس سے تمہیں وہ قوت حاصل ہوگی جو باطل کے خلاف کارگر ثابت ہوگی۔ پھر یہ کہ نماز قائم کرو۔ فرض نماز کے ساتھ ساتھ نوافل بھی ادا کیا کرو یہ دونوں تمہاری قوت اور استحکام کا ذریعہ بنیں گی۔ سورۃ البقرہ میں بھی فرمایا گیا: ''اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ بے شک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔'' راہ حق میں پیش آنے والی مشکلات اور سختیوں میں اہل ایمان کا وجود بھی ایک دوسرے کے لیے سہارا ہے۔ انھیں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے۔

ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس طرح اسلامی تحریک قوی اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کے کارکنان کو صراط مستقیم پر گامزن رہنے اور آگے بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔ انھیں حق پر ڈٹے رہنے اور استقامت اختیار کرنے کے لیے حوصلہ ملتا ہے۔ مسلمان بھائیوں کی تکالیف کو رفع کرنا ان کے کام آنا انھیں مصائب اور مشکلات سے نکالنے کی کوشش کرنا بہت اجر و ثواب کا باعث ہے۔ جو شخص ایسا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی نصرت فرماتا ہے اور نہ صرف دنیا میں اس کی مشکلات اور مسائل میں مدد کرتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا ''اگر کوئی شخص دنیا میں اپنے بھائی کی ایک تکلیف رفع کرے گا اللہ تعالیٰ آخرت کی تکالیف کو اس سے دور فرمائیں گے۔''

ایک اور موقعے پر فرمایا کہ ''جس شخص نے کسی مشکلات میں گھرے شخص کے لیے آسانیاں کیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا و آخرت میں آسانیاں پیدا کریں گے'' سچی توبہ کے بعد اگر ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق ہو تو ہمیں یہ بات پیش نظر رکھنی ہوگی کہ اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر اس راہ کے سنگ ہائے میل ہیں، پھر یہ کہ اس راہ میں مشکلات بھی آئیں گی، جنھیں خندہ پیشانی سے ہمیں جھیلنا ہوگا اور ان میں اللہ تعالیٰ سے خصوصی نصرت طلب کرنا ہوگی۔ تلاوت قرآن اور نماز سے قوت حاصل کرنا ہوگی اور مسلمان بھائیوں کو ایک دوسرے کا سہارا بننا ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی اور اس راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں