قرض کی مے اور فاقہ مستی
خان صاحب کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے بلاشبہ کرکٹ کے بعد ایک طویل عرصے تک سیاسی میدان میں قسمت آزمائی کی ہے لیکن کرکٹ کے مقابلے میں انھیں میدان سیاست میں کم کم ہی کامیابیاں ملی ہیں ۔ وہ بیس بائیس سال تک صرف اپنی ایڑھیاں ہی رگڑتے رہے اور جب کامیابی ملی تو بھی اپنی صلاحیتوں کی بجائے پس پردہ کسی غیبی امداد کے سبب۔ کرکٹ میں تو انھیں شومئی قسمت سے دنیا کے چند بہترین اور نامور کھلاڑیوں یعنی وقار یونس ، وسیم اکرم ، انضمام الحق اور جاوید میاں داد جیسے لوگوں کی مکمل سپورٹ حاصل تھی لیکن میدان سیاست میں وہ کوئی قابل اور عمدہ ٹیم ابھی تک نہیں بنا پائے ہیں۔
کسی سیانے نے درست ہی کہا ہے کہ آدمی کی قابلیت اور اہلیت کا پتہ تب ہی چلتا ہے جب اُسے کسی ادارے ، محکمہ یا ریاست کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ خان صاحب کی مجبوری ہے کہ انھیں عمومی طور پر شوریدہ صفت لوگ ہی پسند ہیں ۔ ایسے لوگ جو صبح و شام اپوزیشن کو لعن و طعن کانشانہ بناتے رہیں اور اُن سے بلاوجہ الجھتے رہیں ۔ سنجیدہ اور شائستہ مزاج لوگ خان صاحب کی سوچ کے مخصوص فریم ورک میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ یہی وجہ ہے کہ فواد حسین چوہدری، فیاض الحسن چوہان ، مراد سعید، فیصل واوا ڈا ،علی زیدی اور شیخ رشید جیسے غیر سنجیدہ لوگ اُن کی موجودہ ٹیم کا ہراول دستہ ہیں ۔
جس شخص کو وہ وسیم اکرم پلس سمجھتے ہوئے اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی ذمے داری سونپ دیتے ہیںاُسکے انداز حکمرانی نے تو اسلم رئیسانی اور قائم علی شاہ کو بھی مات دیدی ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعلیٰ آج تک گزرا ہوگا جو کسی کی ناگہانی موت پر تعزیت کے لیے جاتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ لے جائے۔ ہمیں تو حیرانی اِس بات پر ہے کہ ایسا کرنے سے نہ اُس کی عقل وفہم نے اُسے روکا اور نہ اُس کی خدمت پر مامورکسی درباری اہلکار نے۔
خان صاحب کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ وہ اِسے بھی ڈی چوک پر سجایا جانے والا دو ڈھائی گھنٹے کا کوئی میوزیکل ایونٹ سمجھ بیٹھے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ مینار پاکستان پر منعقدکردہ چند گھنٹوں کا عوامی پاور شو ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم بن جانے کے باوجود ابتدائی دنوںمیں اُن کی باڈی لینگویج سیاسی جلسے کے کسی پرجوش مقرر سے قطعی مختلف نہ تھی ۔ پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میںاُن کا یہی اسٹائل اور طرز تخاطب نمایاں ہو رہا تھا ۔
یہ تو میڈیا والوں کی مہربانی ہے کہ انھوں نے تنقید کرکے انھیں اپنے وزیراعظم بن جانے کا احساس اور یقین دلایا اورشائستہ اسلوب اپنانے پر مجبور کیا ۔کابینہ کے چناؤ میں بھی انھوں نے ایسے ہی لوگوں کو ترجیح دی جو 126دنوں کے دھرنے والے دنوں میں اُن کے لیے جھوٹ پرمبنی تقریری مواد جمع کرنے میں بھر پور معاون اور مددگار ثابت ہوتے تھے۔ ایسے لوگوں کو حکومتی مسائل سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہ تھا، وہ محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے ہی خانصاحب کی نظروں میں مخلص اور معتبر بنانے کی کوششیں کیاکرتے تھے، مگر اب جب کارکردگی دکھانے کاوقت آیا ہے تو وہ اپنے نامہ اعمال میں کوئی کارنامہ درج نہیں کر پارہے۔خود خان صاحب کو بھی چونکہ ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھاشاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر پا رہے۔
ملکی معیشت کی خستہ حالی کو وہ صرف قرضوں اور امداد کے ذریعے درست کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے وسائل اورذرایع سے کسی منصوبے پرعمل پیرا ہونے کی کوئی تجویز کابینہ کے سامنے ہنوز زیر غور نہیں ہے ۔ ملکی خزانے میں اتنے چھید ہوچکے ہیں کہ قرضوں سے ملنے والی ساری امداد کسی اطمینان بخش سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی فوراً اِن چھیدوں سے باہر نکل جاتی ہے۔ ایک جانب افراط زر بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب جی ڈی پی کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ تجارتی خسارہ اور گردشی قرضے ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ ایک سال میں تین تین بجٹ پیش کرنے کے باوجود ریونیو میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔کوئی تدبیر یاکوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو پا رہی۔نواز دورکے بیشتر ترقیاتی کام روک دیے گئے ہیں مگر خسارہ ہے کہ قابو میں نہیں آرہا۔ تمام دوست ممالک سے جتنی امداد مل سکتی تھی وہ ہم نے صرف چھ ماہ میں ہی حاصل کر لی ہے اب باقی ساڑھے چار سال نجانے کیسے گزریں گے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف ملک کو درپیش سنگین مالی بحران کا سامنا ہے تودوسری جانب اداروں اور محکموں کے ناقص کارکردگی۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملزاورکئی سرکاری ادارے مسلسل بوجھ بنتے جا رہے ہیں ۔ انھیں ٹھیک کرنے یا بہتر بنانے کی کوئی تدبیر ہماری کابینہ کے زیر غور نہیں ہے۔ بجلی اورگیس کا بحران جوکسی حد تک نواز دور میں حل ہوگیا تھا حکومتی نا اہلی کی وجہ سے ایک بار پھرسر اٹھانے لگا ہے۔ روپے کی قدرکم ہونے کی سبب مہنگائی اورگرانی کا طوفان ہمارے سروں پرآکھڑا ہے۔ ملک بھر میں بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔
ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول ابھی تک سازگار نہیں ہو پایا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے سبب مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے سائے منڈلانے لگے ہیں ۔سو دنوں میں کارکردگی دکھانے کا دعویٰ کرنے والے چھ ماہ میں بھی کچھ نہ کرسکے۔اپنے حالیہ اصلاحتی پیکیج میں بھی وہ کوئی انقلابی منصوبہ پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی کوئی معقول تجویز سامنے لاسکے ۔ وہ اگر بہتری نہیں لاسکتے تھے توکم از کم سابقہ دور کی حاصل کردہ کامیابیوں ہی کو برقرار رکھتے۔
قرضوں اور امداد پرکوئی رفاہی ادارہ یا اسپتال تو یقینا چلایا جاسکتا ہے لیکن بائیس کروڑ نفوس پر مشتمل کوئی ملک نہیں چلایاجاسکتا ۔اِس کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرور ت ہوا کرتی ہے۔ملک چلانا اور 11باصلاحیت کھلاڑیوں پر مبنی کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہونا دو بالکل مختلف باتیں ہیں ۔ پاکستان کے نئے کپتان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسائل میں گھرے کسی ملک کو کرکٹ ٹیم کی طرح نہیں چلایا جاسکتا ۔ یہاں قدم قدم پر بڑی بڑی مشکلیں درپیش ہوتی ہیں ۔آئین و دستور کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ داخلی اور بیرونی دباؤ کاسامنا بھی ہوتا ہے۔ مالی اور معاشی مسائل سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
یہ کوئی ایک روزہ یا پانچ روزہ کرکٹ میچ نہیں ہوا کرتاجہاں محض چند گھنٹوں میں ہار یا جیت کا فیصلہ ہوجائے۔یہاں تو پورے پانچ سال تک کے لیے سارے ملک کی ذمے داری اکیلے ایک شخص پر ہوتی ہے اور اُسے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوانا ہوتا ہے ،بصورت دیگر عوام کے ردعمل یا غیظ وغضب کے لیے اُسے تیار رہنا ہوتا ہے۔
کسی سیانے نے درست ہی کہا ہے کہ آدمی کی قابلیت اور اہلیت کا پتہ تب ہی چلتا ہے جب اُسے کسی ادارے ، محکمہ یا ریاست کا مکمل اختیار دے دیا جائے۔ خان صاحب کی مجبوری ہے کہ انھیں عمومی طور پر شوریدہ صفت لوگ ہی پسند ہیں ۔ ایسے لوگ جو صبح و شام اپوزیشن کو لعن و طعن کانشانہ بناتے رہیں اور اُن سے بلاوجہ الجھتے رہیں ۔ سنجیدہ اور شائستہ مزاج لوگ خان صاحب کی سوچ کے مخصوص فریم ورک میں فٹ نہیں بیٹھتے۔ یہی وجہ ہے کہ فواد حسین چوہدری، فیاض الحسن چوہان ، مراد سعید، فیصل واوا ڈا ،علی زیدی اور شیخ رشید جیسے غیر سنجیدہ لوگ اُن کی موجودہ ٹیم کا ہراول دستہ ہیں ۔
جس شخص کو وہ وسیم اکرم پلس سمجھتے ہوئے اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے کی ذمے داری سونپ دیتے ہیںاُسکے انداز حکمرانی نے تو اسلم رئیسانی اور قائم علی شاہ کو بھی مات دیدی ہے۔ پاکستان میں شاید ہی کوئی ایسا وزیراعلیٰ آج تک گزرا ہوگا جو کسی کی ناگہانی موت پر تعزیت کے لیے جاتے ہوئے پھولوں کا گلدستہ لے جائے۔ ہمیں تو حیرانی اِس بات پر ہے کہ ایسا کرنے سے نہ اُس کی عقل وفہم نے اُسے روکا اور نہ اُس کی خدمت پر مامورکسی درباری اہلکار نے۔
خان صاحب کو قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ ملک کی حکمرانی کیسے کی جاتی ہے۔ وہ اِسے بھی ڈی چوک پر سجایا جانے والا دو ڈھائی گھنٹے کا کوئی میوزیکل ایونٹ سمجھ بیٹھے تھے یا پھر زیادہ سے زیادہ مینار پاکستان پر منعقدکردہ چند گھنٹوں کا عوامی پاور شو ۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم بن جانے کے باوجود ابتدائی دنوںمیں اُن کی باڈی لینگویج سیاسی جلسے کے کسی پرجوش مقرر سے قطعی مختلف نہ تھی ۔ پارلیمنٹ میں اپنے پہلے خطاب میںاُن کا یہی اسٹائل اور طرز تخاطب نمایاں ہو رہا تھا ۔
یہ تو میڈیا والوں کی مہربانی ہے کہ انھوں نے تنقید کرکے انھیں اپنے وزیراعظم بن جانے کا احساس اور یقین دلایا اورشائستہ اسلوب اپنانے پر مجبور کیا ۔کابینہ کے چناؤ میں بھی انھوں نے ایسے ہی لوگوں کو ترجیح دی جو 126دنوں کے دھرنے والے دنوں میں اُن کے لیے جھوٹ پرمبنی تقریری مواد جمع کرنے میں بھر پور معاون اور مددگار ثابت ہوتے تھے۔ ایسے لوگوں کو حکومتی مسائل سے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہ تھا، وہ محض الزام تراشیوں اور دشنام طرازیوں سے ہی خانصاحب کی نظروں میں مخلص اور معتبر بنانے کی کوششیں کیاکرتے تھے، مگر اب جب کارکردگی دکھانے کاوقت آیا ہے تو وہ اپنے نامہ اعمال میں کوئی کارنامہ درج نہیں کر پارہے۔خود خان صاحب کو بھی چونکہ ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہ تھاشاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر پا رہے۔
ملکی معیشت کی خستہ حالی کو وہ صرف قرضوں اور امداد کے ذریعے درست کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنے وسائل اورذرایع سے کسی منصوبے پرعمل پیرا ہونے کی کوئی تجویز کابینہ کے سامنے ہنوز زیر غور نہیں ہے ۔ ملکی خزانے میں اتنے چھید ہوچکے ہیں کہ قرضوں سے ملنے والی ساری امداد کسی اطمینان بخش سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی فوراً اِن چھیدوں سے باہر نکل جاتی ہے۔ ایک جانب افراط زر بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب جی ڈی پی کی شرح مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔ تجارتی خسارہ اور گردشی قرضے ہیں کہ بڑھتے چلے جا رہے ہیں ۔ ایک سال میں تین تین بجٹ پیش کرنے کے باوجود ریونیو میں اضافے کی بجائے مسلسل کمی ہوتی جا رہی ہے۔کوئی تدبیر یاکوئی حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو پا رہی۔نواز دورکے بیشتر ترقیاتی کام روک دیے گئے ہیں مگر خسارہ ہے کہ قابو میں نہیں آرہا۔ تمام دوست ممالک سے جتنی امداد مل سکتی تھی وہ ہم نے صرف چھ ماہ میں ہی حاصل کر لی ہے اب باقی ساڑھے چار سال نجانے کیسے گزریں گے۔
قرض کی پیتے تھے مے اور سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
ایک طرف ملک کو درپیش سنگین مالی بحران کا سامنا ہے تودوسری جانب اداروں اور محکموں کے ناقص کارکردگی۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملزاورکئی سرکاری ادارے مسلسل بوجھ بنتے جا رہے ہیں ۔ انھیں ٹھیک کرنے یا بہتر بنانے کی کوئی تدبیر ہماری کابینہ کے زیر غور نہیں ہے۔ بجلی اورگیس کا بحران جوکسی حد تک نواز دور میں حل ہوگیا تھا حکومتی نا اہلی کی وجہ سے ایک بار پھرسر اٹھانے لگا ہے۔ روپے کی قدرکم ہونے کی سبب مہنگائی اورگرانی کا طوفان ہمارے سروں پرآکھڑا ہے۔ ملک بھر میں بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے۔
ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ماحول ابھی تک سازگار نہیں ہو پایا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے سبب مایوسیوں اور نااُمیدیوں کے سائے منڈلانے لگے ہیں ۔سو دنوں میں کارکردگی دکھانے کا دعویٰ کرنے والے چھ ماہ میں بھی کچھ نہ کرسکے۔اپنے حالیہ اصلاحتی پیکیج میں بھی وہ کوئی انقلابی منصوبہ پیش نہیں کرسکے اور نہ ہی مالیاتی خسارے کو کم کرنے کی کوئی معقول تجویز سامنے لاسکے ۔ وہ اگر بہتری نہیں لاسکتے تھے توکم از کم سابقہ دور کی حاصل کردہ کامیابیوں ہی کو برقرار رکھتے۔
قرضوں اور امداد پرکوئی رفاہی ادارہ یا اسپتال تو یقینا چلایا جاسکتا ہے لیکن بائیس کروڑ نفوس پر مشتمل کوئی ملک نہیں چلایاجاسکتا ۔اِس کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرور ت ہوا کرتی ہے۔ملک چلانا اور 11باصلاحیت کھلاڑیوں پر مبنی کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان ہونا دو بالکل مختلف باتیں ہیں ۔ پاکستان کے نئے کپتان کو معلوم ہونا چاہیے کہ مسائل میں گھرے کسی ملک کو کرکٹ ٹیم کی طرح نہیں چلایا جاسکتا ۔ یہاں قدم قدم پر بڑی بڑی مشکلیں درپیش ہوتی ہیں ۔آئین و دستور کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ داخلی اور بیرونی دباؤ کاسامنا بھی ہوتا ہے۔ مالی اور معاشی مسائل سے بھی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے۔
یہ کوئی ایک روزہ یا پانچ روزہ کرکٹ میچ نہیں ہوا کرتاجہاں محض چند گھنٹوں میں ہار یا جیت کا فیصلہ ہوجائے۔یہاں تو پورے پانچ سال تک کے لیے سارے ملک کی ذمے داری اکیلے ایک شخص پر ہوتی ہے اور اُسے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا بھی منوانا ہوتا ہے ،بصورت دیگر عوام کے ردعمل یا غیظ وغضب کے لیے اُسے تیار رہنا ہوتا ہے۔