کے پی کے حکومت کا پشاور تا لنڈی کوتل سفاری ٹرین بحال کرنے کا منصوبہ

1990میں دورہ انگلستان کے دوران خیبرسفاری چلانے کا خیال آیا، پاکستان ریلوے سے رابطہ کیا، ظہور درانی


عمر فاروق January 30, 2019
اس خوبصورت پراجیکٹ کو 2007 میں مجبوراً بند کرنا پڑا، پٹڑی کی دوبارہ تعمیر میں وقت لگے گاپھر بھی پرامید ہوں، بانی سفاری ٹرین۔

کے پی کے حکومت نے پشاور تا لنڈی کوتل ''خیبر سفاری ٹرین'' کی بحالی کا منصوبہ شروع کیا ہے۔

ٹرین کے بانی ظہور احمد درانی نے بتایا کہ سفاری ٹرین کو وہ اپنا بچہ مانتے ہیں۔ میں 1990 میں انگلستان گیا جہاں پر میں نے دیکھا کہ لوگ سفاری ٹرین میں شادی اور دوسرے تقریبات سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس سے مجھے پشاور سے لے کر لنڈی کوتل تک خیبر کے پہاڑوں میں سفاری ٹرین چلانے کا خیال آیا۔ میں پاکستان ریلوے سے رابطہ کیا، انہوں نے ٹریک پرکام شروع کر دیا اور انجن لیز پر لے لئے۔ 1995 میں وہ دن بھی آگیا جب سفاری ٹرین پشاور سے لنڈی کوتل کے لئے روانہ ہوئی۔13 سال تک سیاح پرانے سٹیم انجن کے ذریعے ان چٹیل پہاڑوں پر سفر کرتے رہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ دو آسٹریلوی شہریوں نے سفاری ٹرین کے تصاویر دیکھیں اور انہوں نے ساری ٹرین ریزرو کرا لی۔ اس سفاری ٹرین میں اہم شخصیات بشمول برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کے نواسے سپنسر چرچل بھی سفر کرچکے ہیں۔ اس خوبصورت پراجیکٹ کو 2007 میں مجبوراً بند کرنا پڑا۔ خیبرپختونخواہ کی موجودہ حکومت سفاری ٹرین کی بحالی کے لئے کام کررہی ہے جو میرا خواب پورا ہونے کے مترادف ہے۔ میں اسے اپنے زندگی کا ایک خوشگوار لمحہ سمجھ رہاہوں اور امید کرتا ہوں کہ ایک دن یہ ٹرین دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہوگی۔

ظہور درانی نے کہا اگر چہ حکومت کو دوبارہ پٹری کی تعمیر میں ٹائم لگے گا لیکن یہ ایک بہت ہی اچھا اقدام ہے۔ پشاور سے لنڈی کوتل تک سفر کریں تو پٹڑی سڑک کے ساتھ نیچے گری ہوئی نظر آتی ہے، پٹڑی کا پانچ کلومیٹر تک حصہ تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے، یہ پٹڑی سیلاب، نئی سڑک کی تعمیر اور تجاوزات کی نذر ہو گئی ہے۔ اگر چہ ٹرین کی بحالی میں بہت وقت لگے گا لیکن پھر بھی میں پرامید ہوں۔ٹرین کی بحالی اس بات کی علامت ہوگی کی دہشتگردی سے متاثرہ خیبرپختونخوا میں امن پھر لوٹ آیا ہے۔

ظہور درانی کے مطابق یہ ٹریک 1880 میں برطانیہ نے اسلحہ اور جنگی سازوسامان افغان سرحد تک لے جانے کے لئے بچھایا تھا۔ یہ ٹریک شنواری، ملاگوری سے ہوتے ہوئے گزرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں