پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں تعینات افسران معاوضہ خزانے میں جمع نہیں کراتے ٹرانسپیرنسی

ڈائریکٹرزخلاف قانون فی بورڈ اجلاس 85 ہزار، کمیٹی اجلاسوں کیلیے ماہانہ 4 سے 5 لاکھ وصول کرتے ہیں

وزرات نے 50 ہزار ٹن یوریا کیلیے ٹینڈز جاری کیے، اشتہار میں 75 ہزار ٹن کا ذکر، معاملہ شفاف بنایا جائے۔ فوٹو: فائل

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو شکایت موصول ہوئی ہے کہ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز (کارپوریشنز، کمپنیز، اتھارٹیز) میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی نمائندگی کرنے والے سرکاری افسران معاوضہ حاصل کرتے ہیں مگراسے قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔

شیئر ہولڈرز ہونے کی وجہ سے حبیب بینک، فوجی فرٹیلائزر، یو بی ایل، حبکو ودیگر سیکڑوں پرائیویٹ سیکٹر لسٹڈکمپنیز میں سرکاری افسران کو تعینات کیاگیا ہے۔ قوانین کے مطابق سرکاری ملازمین کوحکومت فرائض کی انجام دہی کیلیے بھیجتی ہے تو وہ صرف ٹی اے، ڈی اے کے مستحق ہوتے ہیں۔ کچھ کمپنیز میں نامزد ڈائریکٹرز فی بورڈ اجلاس85 ہزار، کمیٹی اجلاسوں کی مد میں ماہانہ4 سے5 لاکھ روپے وصول کررہے ہیں۔




ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومتی نمائندگی کرنیوالے سرکاری افسران گزشتہ5سال کے دوران اس مد میں حاصل ہونیوالی آمدنی ظاہر کریں اور اسے قومی خزانے میں جمع کرائیں، ٹی آئی نے وزیرسے بھی درخواست کی ہے کہ اس قانون پر سختی سے عملدرآمدکرایا جائے اور ایس ای سی پی کارپوریٹ گورننس رول میں بھی ترمیم کرے تاکہ حکومتی نامزد ڈائریکٹرزکوصرف ان کے استحقاق کے مطابق ٹی اے؍ ڈی اے دیا جائے۔

علاوہ ازیں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے ایک اخباری خبرکا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزرات انڈسٹریز نے50ہزارٹن یوریاکیلیے ٹینڈز جاری کیے تھے۔ ٹینڈرکھلنے کیلیے دعوتی خط میں3 لاکھ ٹن یوریا درآمد کرنے کا ذکر ہے جبکہ بولی کیلیے جو اشتہار دیا گیا اس میں3 لاکھ میں سے75ہزار ٹن کا ذکر ہے۔ اعدادوشمار میں تضادکی وجہ سے اس عمل میں غیرشفافیت کا تاثرملتا ہے۔ جلدی خریداری کیلیے وقت میں کمی کی اجازت کیلیے پیپرا مجاز اتھارٹی ہے مگر ابھی تک ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان نے منظوری نہیں لی۔ ٹرانسپیرنسی اس غیرشفاف عمل کی مبصر نہیں ہے۔

Recommended Stories

Load Next Story