راجا پرویزاشرف کے25 ترقیاتی منصوبے چیک کرائے ایک بھی شفاف نہیںسپریم کورٹ
سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے من مانے انداز میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیا،چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز سے متعلق کیس نمٹاتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں میں بے قاعدگیوں کے ذمہ داروں کے خلاف مقدمات درج کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت کی نظرمیں سابق وزیراعظم راجا پرویز اشرف نے من مانے انداز میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز سے متعلق کیس نمٹاتے ہوئے حکم دیا ہے کہ متعلقہ ادارے ملک میں شروع کی جانے والیں 17 ہزار سے زائد ترقیاتی اسکیموں کی شفافیت کا جائزہ لیں، غیر شفاف ترقیاتی اسکیموں کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف دیوانی اور فوجداری مقدمات درج کرائے جائیں، تاہم جن منصوبوں کو شفاف انداز میں پیپرز قواعد کے مطابق شروع کیا گیا ان کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے، عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ جو منصوبے زیر تکمیل ہیں لیکن وہ قومی مفاد میں نہیں انہیں فوری طور پر بند کرکے اس کے مختص رقم قومی خزانے میں جمع کرائیں۔
اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ 5 ہزار ترقیاتی منصوبوں پر پیپرا قواعد نہیں اپنائے گئے، عدالت نے 25 ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال کرائی جن میں سے ایک بھی شفاف نہیں تھا۔ وزیراعظم بادشاہ نہیں عوام کا ایک منتخب نمائندہ ہوتا ہے، ترقیاتی فنڈ صرف اپنوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جاتے، آئین کی رو سے وزیراعظم کو اضافی اخراجات کے لئے پارلیمنٹ سے ضمنی بجٹ منظور کرانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عدالت کی نظر میں راجا پرویز اشرف نے من مانے انداز میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ بیورو کریسی آئین کے مطابق کام کرے تو ملک میں بہتر نظام حکمرانی رائج ہوسکتی ہے، سابق حکومت آئینی مدت پوری کررہی تھی اس لئے وزارت خزانہ کو بھی محتاط رہنا چاہئے تھا۔
اس موقع پرجسٹس جواد ایس خواجہ کہا کہ کہ ایمرجنسی یا قدرتی آفات کی صورت میں فنڈز کے استعمال سے متعلق قواعد میں ردوبدل ہوسکتا ہے تاہم عام حالات میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے قواعد سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ ملک میں یہ روایت ہوچکی ہے کہ پیسے والا قابل احترام اور مفلس کو کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ، قانون اور ریاست کی نظر میں ہر شخص برابر ہے، ملک کا ہر شہری قابل احترام ہے، بلوچستان حکومت کےوکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، اگر عدالت نے اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ دیا تو اس کا اطلاق آئندہ مالی سال سے ہوگا۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے وزیر اعظم کے صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز سے متعلق کیس نمٹاتے ہوئے حکم دیا ہے کہ متعلقہ ادارے ملک میں شروع کی جانے والیں 17 ہزار سے زائد ترقیاتی اسکیموں کی شفافیت کا جائزہ لیں، غیر شفاف ترقیاتی اسکیموں کے ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف دیوانی اور فوجداری مقدمات درج کرائے جائیں، تاہم جن منصوبوں کو شفاف انداز میں پیپرز قواعد کے مطابق شروع کیا گیا ان کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے، عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ جو منصوبے زیر تکمیل ہیں لیکن وہ قومی مفاد میں نہیں انہیں فوری طور پر بند کرکے اس کے مختص رقم قومی خزانے میں جمع کرائیں۔
اس سے قبل دوران سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ 5 ہزار ترقیاتی منصوبوں پر پیپرا قواعد نہیں اپنائے گئے، عدالت نے 25 ترقیاتی منصوبوں کی جانچ پڑتال کرائی جن میں سے ایک بھی شفاف نہیں تھا۔ وزیراعظم بادشاہ نہیں عوام کا ایک منتخب نمائندہ ہوتا ہے، ترقیاتی فنڈ صرف اپنوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال نہیں کیے جاتے، آئین کی رو سے وزیراعظم کو اضافی اخراجات کے لئے پارلیمنٹ سے ضمنی بجٹ منظور کرانا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ عدالت کی نظر میں راجا پرویز اشرف نے من مانے انداز میں ترقیاتی فنڈز کا استعمال کیا،چیف جسٹس نے کہا کہ بیورو کریسی آئین کے مطابق کام کرے تو ملک میں بہتر نظام حکمرانی رائج ہوسکتی ہے، سابق حکومت آئینی مدت پوری کررہی تھی اس لئے وزارت خزانہ کو بھی محتاط رہنا چاہئے تھا۔
اس موقع پرجسٹس جواد ایس خواجہ کہا کہ کہ ایمرجنسی یا قدرتی آفات کی صورت میں فنڈز کے استعمال سے متعلق قواعد میں ردوبدل ہوسکتا ہے تاہم عام حالات میں ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے قواعد سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔ ملک میں یہ روایت ہوچکی ہے کہ پیسے والا قابل احترام اور مفلس کو کوئی پوچھنے والا نہیں لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہئے ، قانون اور ریاست کی نظر میں ہر شخص برابر ہے، ملک کا ہر شہری قابل احترام ہے، بلوچستان حکومت کےوکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا، اگر عدالت نے اس سلسلے میں کوئی بھی فیصلہ دیا تو اس کا اطلاق آئندہ مالی سال سے ہوگا۔