اسٹیٹ بینک کی معیشت کے حوالے سے رپورٹ
جی ڈی پی کی نمو میں زرعی شعبے کی نمو کا انحصار لائیو اسٹاک پر منحصر ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کہا ہے کہ گیس کی قیمت میں اضافے اور روپے کی بے قدری کی وجہ سے مہنگائی بے قابو رہے گی اور معاشی ترقی کی شرح نموکا ہدف بھی حاصل نہ ہو سکے گا، مالی سال 2018-19کے دوران مالیاتی خسارہ اور جاری کھاتے کا خسارہ بھی ہدف سے زائد رہے گا۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو مرکزی بینک کی رپورٹ معاشی، اقتصادی اور سماجی صورتحال کی نہ صرف آئینہ دار ہوتی ہے بلکہ حکومت کے لیے درست راستے کا تعین کرنے میں بھی مدد دیتی ہے۔
نوخیز حکومت کو قائم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں، بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ وجود میں آنے والی حکومت معاشی استحکام کے لیے کوشاں ضرور ہے لیکن اس کو دو بجٹ پیش کرنے کے باوجود معاشی محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے چند اہم نکات یہ ہیں۔ غیر توانائی درآمدات سے متعلق معاشی سرگرمیوں میں سست روی، شرح مبادلہ میں کمی اور درآمدی ڈیوٹیوں میں اضافے کے باعث موجودہ سست رفتاری کا تسلسل آگے بھی برقرار رہے گا، ملک بھر میں پانی کی مسلسل قلت کی وجہ سے باقی ماندہ سال میں فصلوں کے شعبے میں مجموعی طور پر نمو کا امکان نہیں ہے۔
اس لیے جی ڈی پی کی نمو میں زرعی شعبے کی نمو کا انحصار لائیو اسٹاک پر منحصر ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے ضمن میں تعمیرات سے منسلک صنعتوں کی کارکردگی بھی پست رہے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات کو محدود رکھے جانے کا امکان ہے۔ عوامی سطح پر دیکھا جائے توکنزیومر مصنوعات بنانے والی صنعت کومشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مہنگائی، شرح سود میں اضافہ اورکرنسی کی قدر میں گراوٹ سے قوت خرید بہت کم ہوئی ہے۔ دوسری جانب زری و مالیاتی پالیسی رابطہ بورڈ نے ملک میں مالیاتی خسارے میں کمی اور مالی بحران پر قابو پانے کے لیے مالیاتی نظم و نسق کو مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں بہتری آئی ہے۔ جمہوری حکومتوں کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتی ہے۔
اسی پس منظر اور پیش منظر میں ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جن سے معاشی واقتصادی ترقی کا سفر بتدریج طے ہوتا ہے اور شرح نمو میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو حقائق نامہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آیا ہے وہ قطعاً حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ حکومت کو حقیقی معنوں میں ملکی معیشت کے استحکام اورعوام کی فلاح کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ۔
نوخیز حکومت کو قائم ہوئے پانچ ماہ گزر چکے ہیں، بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ وجود میں آنے والی حکومت معاشی استحکام کے لیے کوشاں ضرور ہے لیکن اس کو دو بجٹ پیش کرنے کے باوجود معاشی محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے۔ رپورٹ کے چند اہم نکات یہ ہیں۔ غیر توانائی درآمدات سے متعلق معاشی سرگرمیوں میں سست روی، شرح مبادلہ میں کمی اور درآمدی ڈیوٹیوں میں اضافے کے باعث موجودہ سست رفتاری کا تسلسل آگے بھی برقرار رہے گا، ملک بھر میں پانی کی مسلسل قلت کی وجہ سے باقی ماندہ سال میں فصلوں کے شعبے میں مجموعی طور پر نمو کا امکان نہیں ہے۔
اس لیے جی ڈی پی کی نمو میں زرعی شعبے کی نمو کا انحصار لائیو اسٹاک پر منحصر ہے۔ اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر اشیا سازی کے ضمن میں تعمیرات سے منسلک صنعتوں کی کارکردگی بھی پست رہے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے ترقیاتی اخراجات کو محدود رکھے جانے کا امکان ہے۔ عوامی سطح پر دیکھا جائے توکنزیومر مصنوعات بنانے والی صنعت کومشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، مہنگائی، شرح سود میں اضافہ اورکرنسی کی قدر میں گراوٹ سے قوت خرید بہت کم ہوئی ہے۔ دوسری جانب زری و مالیاتی پالیسی رابطہ بورڈ نے ملک میں مالیاتی خسارے میں کمی اور مالی بحران پر قابو پانے کے لیے مالیاتی نظم و نسق کو مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں بہتری آئی ہے۔ جمہوری حکومتوں کی پہلی ترجیح عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہوتی ہے۔
اسی پس منظر اور پیش منظر میں ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں جن سے معاشی واقتصادی ترقی کا سفر بتدریج طے ہوتا ہے اور شرح نمو میں بھی اضافہ ہوتا ہے جو حقائق نامہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے نتیجے میں سامنے آیا ہے وہ قطعاً حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ حکومت کو حقیقی معنوں میں ملکی معیشت کے استحکام اورعوام کی فلاح کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے ۔