ہمارا فلم کلچر ایک سوال
ضیا نے اپنی اکیڈمی سے بیش بہا لڑکے لڑکیوں کی تراش خراش میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے
جب '' فال آف دی رومن ایمپائر'' کی عکس بندی ہو رہی تھی تو برطانیہ کے عہد آفریں اداکار سر ایلک گینس سے کسی فلمی نامہ نگار نے پوچھا '' بتائیے سر اداکاری کیسی رہی'' گینس نے سین کے لیے جمع سیکڑوں رتھوں پر طائرانہ نظر ڈالتے اور مسکراتے ہوئے کہا کہ ''گھوڑوں کی اس یلغار میں اداکاری کیسی مائی ڈیئر؟'' یہی ایلک گینس اداکاری کے فن کو مسرت آمیز کرب happy agonyکہتے تھے۔ یہی سوال فلم ''اگنی اینڈ ایکسٹیسی'' کے سیٹ پر چارلٹن ہیسٹن سے پوچھا گیا تو ان کا جواب تھا کہ ''اداکاری میرے لیے ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔'' مائیکل کین نے اداکاری کو مکمل رد عمل سے تعبیر کیا، جب کہ میل گبسن نے نہ معلوم کس ترنگ میںکہا کہ '' اداکاری جھوٹ ہے۔ بہترین اندازکی دروغ گوئی، مجھے پیسے اسی کام کے ملتے ہیں'' اگرگبسن کی آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ''بریو ہارٹ'' دروغ گوئی کا شاہکار ہے توسوچیے اس بندے نے سچ پر مبنی فلم بنائی ہوتی تو اس کا کیا لیول ہوتا ۔
یوں بہر حال فن اداکاری کی تعریف کا ایک دلچسپ دبستان کھل گیا اور اسی آرٹ اور کرافٹ کو برصغیر میں اہل فن اور پارسی تھیٹر مالکان نے فروغ بخشا جو انڈین فلم انڈسٹری کی جدید ترین شکل میں آج موجود ہے اور اسی بمبئی فلم کلچر کے ایک منقسم حصے کے طور پر پاکستان کی فلمی صنعت نے نامساعد حالات میں اپنی ایک الگ شناخت بنائی، فلم اسٹوڈیوز قائم ہوئے، دنیا بھر میں اداکاری کا فن ان ملکوں کی سماجی زندگی، ثقافت اور ان کی تہذیب کے وسیع تر تناظر میں پھلتا پھولتا چلا گیا۔
امریکا نے ہالی ووڈ کوگلوبل ٹیلنٹ کا مرکز بنا دیا، مارلن منرو وہاں کی ملکہ بنی، صوفیہ لورین،الزبیتھ ٹیلر، ویوین لی،جولی کرسٹی اور نہ معلوم کتنی گل رخ حسینائیں اٹلی اور انگلستان ، جرمنی، فرانس وغیرہ سے وہاں پہنچیں ، ہر ملک کے معروف اداکار،اداکارائیں ، ہدایتکار، فلم ساز ، موسیقار، کیمرہ مین ، تدوین کار اور دیگر ٹیکنیشنز فن فلم سازی کو عروج پر لے گئے۔ آج بالی ووڈ ، لالی ووڈ میں مسابقت و مشترکہ فلم سازی کے معاہدے ہوتے ہیں، بھارت اور پاکستان کے مابین سیاسی، عسکری، سفارتی اور عوامی رابطہ اور میل ملاپ پر درجنوں پابندیاں ہیں مگر برصغیر کی فلمی ثقافت کی منقسم فنی اور فکری اقدار اور تخلیق کی یلغار روکے نہیں رک رہی، ہم اس مسئلے پرگفتگو تک کو سیاسی سطح پر سیکیورٹی ایشو قراردے کر دو طرفہ فلم کلچرکا سوال ہی گول کر دیتے ہیں۔
مگر اس کالم میں ہمارا موضوع فن اداکاری ہے ۔ فلم سازی اور دیگر فنون لطیفہ سے وابستہ باکمال آرٹسٹوں کے ہمہ جہتی ورثہ پر بات ہوتی رہے گی کیونکہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن بطور کیریکٹر ایکٹراور سپر اسٹار بھارت کے فلمی افق پر آب و تاب سے جگمگاتے رہے، اسی طرح پاکستان میں سدھیر، سنتوش، اعجاز، اسلم پرویز، لہری ، نذر ، رنگیلا ، صبیحہ، نیر سلطانہ، شمیم آرا، وحید مراد ، ندیم، علاؤالدین، طالش، قوی، طلعت حسین، سلطان راہی اور مصطفیٰ قریشی کے بعد کی جواں سال نسل تھیٹر ، ٹی وی ، ویڈیو اور بڑے اسکرین پر اپنی صلاحیتوں کے جلوے بکھیر رہی ہے۔ لیکن بنیادی سوال فن اداکاری کا ہے۔ جارج برنارڈ شا نے کہا تھا کہ روزگار کے استثنیٰ کی بات درست ہے مگر کیا بات ہے کہ ہر شخص اداکار بننے کے جنون میں گرفتار ہے، میں یہ بات سمجھ نہیں سکا۔ یہ کسک اور خلش فن اداکاری کے جذب وجنوں کے باب میں ایک عالمگیر موضوع ہے ۔
روسی نژاد امریکی ہدایت کار رچرڈ بولس لیوسکی نے اپنی کتاب ''ایکٹنگ '' میں چھ دلفریب اور فکر انگیز ابواب اس فن کی نزاکتوں ، جذبات و حسیات، تخلیقی انفرادیت، انسانی رویوں اورگراں قدر انسانی مشاہدہ اور جذبات کے حافظے پر رقم کیے ہیں۔ یہ کتاب اداکاری پر مختصرکتاب ہونے کے باوجود ایک سندکا درجہ رکھتی ہے، یوں تو کانسٹنٹائن سٹانسلیوسکی کی ضخیم کتاب ''مائی لائف ان آرٹ'' تھیٹر آرٹ پر مایہ ناز تصنیف ہے لیکن رچرڈ بولسلویسکی نے اداکاری کی ایک امیچر طالبہ کے ساتھ مکالمہ کی شکل میں جو فنکارانہ نکات بیان کیے ہیں وہ اداکاری کا شوق و ذوق رکھنے والوں کے لیے ایک نصاب سے کم نہیں ۔ دنیا کے ایک مشہور اداکار کا قول ہے کہ اداکاری میں اداکارکی انٹیلی جنس،انٹیلکچوئل وسعت نگاہ یا دانشورانہ مہارت و ہنرمندی سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ اداکاری کے فن میں اپنی روح ، جبلت اور محسوسات پر کس قدر گرفت رکھتا ہے۔
کتاب اس بات پر بھی بحث کرتی ہے کہ اداکارکی ڈائیلاگ ڈلیوری شاندار اور فطری ہونی چاہیے مگر بولسلیوسکی اس اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہے جہاں اداکار کسی اکیڈمی کی فرمائشی پروڈکٹ یا تراش خراش کے بعد مارکیٹ کیا جانے والا ڈائمنڈ نہیں ہوتا، طالب علم لڑکی کے اس سوال پرکہ ''سنا آپ ڈرامیٹک آرٹ سکھاتے ہیں، بولسلیوسکی بے ساختہ کہتا ہے کہ ''آرٹ سکھایا نہیں جاتا، اس کے لیے آپ میں فن کی تڑپ ہوتی ہے خون جگر سے نمود کا دھارا اور فطری صلاحیت کا ہونا شرط ہے، یہاں پاکستان کے در نایاب ضیاء محی الدین کا ادارہ '' ناپا '' قدرے مخالف مگر زرخیزانتہا پر ہے۔
ضیا نے اپنی اکیڈمی سے بیش بہا لڑکے لڑکیوں کی تراش خراش میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے ، گزشتہ دنوں اسی ادارے کے ایک فارغ التحصیل فنکار محسن علی میرے پاس آئے، بطور فلم پروڈیوسر ان کے آئیڈیاز قابل قدرتھے، اسی طرح دیگر نوجوان ہونگے جو پیدائشی اداکارکے مفروضوں پر ہنستے ہونگے، مگر ایک چیز جس کا نام ریاضت ہے وہ دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے، تقریباً تمام بڑے اداکار بغیر ریاض، محنت اور تپسیا کے اسٹیج یا فلم میں نام پیدا نہیں کرسکتے تھے، تھیٹر وہ جگہ ہے جہاں سے اداکارکندن بن کر نکلتا ہے، اس میں جذبات کی تہذیب اور فن سے کمٹمنٹ جنم لیتی ہے، تھیٹر محسوسات کی شائستگی اور نکھار کا پلیئنگ فیلڈ ہے۔ ہاں البتہ بعض استثنائی سیاق وسباق میں فنکار آغوش مادر سے شاید فن کا ڈی این اے لے کر دنیا میں آتے ہیں۔
یہ میتھڈ اور میڈنس کی جنگ ہے، بڑی بحث ہوتی رہی ہے، پیپرز آن ایکٹنگ اور فلم کریٹیسزم نامی کتابوں میں اداکاری اور دیگر پرفارمنگ آرٹ کے حوالے سے نقادوں نے بڑی عرق ریزی سے اداکاری کے تخلیقی ،جمالیاتی ، حساتی، مشاہداتی اور مکالماتی فلاطونیت پر روشنی ڈالی ہے، لہذا نئے اداکاروں کے لیے ان کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔ بولسلیوسکی کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا اداکار چاہیے جو جرمن اور فرنچ رومانویت میں فرق کرسکے، جو علم الابدان پر دسترس رکھتا ہو۔
ایک ہدایتکارکا کہنا ہے کہ ''جہاں ادیب کا قلم گنگ ہوجاتا ہے وہاں سے اداکاری شروع ہوتی ہے'' یہ ہے وہ فرق جس کی نشاندہی ہدایت کار صداکاری کی بنیاد پر اداکاری کا محل تعمیر کرنے پر والوں کو صائب مشورہ دیتے ہوئے کرتے ہیں، اداکار کے لیے وہ کردار چیلنج بن جاتے ہیں جب مکالمے سے زیادہ انسانی احساست ،آنکھ، چہرے کے ایکسپریشنز، حرکات وسکنات اور مینر ازم سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ بن حر 1956کے دور کی فلم ہے ، جب ولیم وائلر کے لیے جدید ترین کیمرے ، ٹیکنالوجی، بلند وبالا کرینیں نہیں تھیں ، ڈیجیٹلائزیشن کے وہ حیران کن بصری و صوتی آلات نہیں تھے۔
چنانچہ بن حر کا ری میک بنا تو قدیم وجدید کے تخلیقی اور فنی معیار نے قطع نظر جدید ساز و سامان اور ویژل ایفیکٹ کے تجربات کے اداکاری کے معیار اورکردار کی ادائیگی کے بے عیب ، لازوال اور پختہ ساختیات کا معاملہ اٹھایا اور اس حوالے سے پرانی بن حر کی جمالیاتی سر بلندی پر مہر تصدیق ثبت کردی اور ثابت کردیا کہ اداکار پرانی فلموں میں انسانی جذبات پر انحصار کرتا تھا، مشینوں کا مرہون منت نہیں تھا ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی نے ایکٹر سے اس کے اندرکے تخلیقی جی نئیس کو دبا کر اسکرپٹ کا غلام بنادیا اور اس میں اداکاری کے پوائنٹ آف ویو سے اظہارکی آزادی بھی تکنیکی تقاضوں سے آلودہ ہوگئی، وہ فلمیں بننا بند ہوئیں جو انسانی احساسات سے جڑی ہوئی تھیں، فیمیلی اسٹوریزکا سفر رک گیا، بھارت نے تو جو فلم کلچر دیا وہ اس کی تہذیبی وسعت اور تاریخی و سماجی بندھنوں سے ماورا تھا۔
انڈین فلمیں ماضی کی رومانی کہانیوں اور گھریلو موضوعات سے منہ موڑ کرگلیمر اور ماردھاڑ، بیہودہ ڈانس، جنسی مناظر سے آلودہ ہوئیں، مگر وہاں فلم کلچرکے پیچھے فلم انڈسٹری کی اپنی مربوط تاریخ کے عصری اور قدیم شعوری ورثہ کوکوئی نقصان نہیں پہنچا بلکہ فلم سازی نئی جدتوں سے آشنا ہوئی، مغرب میں فلموں کے عجیب الخلقت کرداروں، مونسٹرز اور مشینی بلاؤں نے ناظرین پر حملہ کردیا ہے، سیکس، بے ہنگم تشدد ، قتل عام ،کہانی میں ڈیجیٹل چمتکاری، کیمرہ ٹرکس اور تدوین کے طلسماتی ٹمپو اور ردھم نے فلم بینی کا مزاج اور ذوق تبدیل کر دیا ، تاہم جسے فلم کلچرکہتے ہیں وہ کیا شے ہے، اس کی آفرینش کیسے ہوگی؟ہمارا کوئی فلم کلچر ہے کہ نہیں؟