مجبور عوام اور بیوروکریسی

سول سروس اور سول سرونٹ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر خاص وعام کی زبان پر رہتے ہیں

ملک کی انتظامی مشینری کی باگ ڈور کے حامل وہ افراد ہیں جن کی ملازمتیں ہمیشہ ایسی رہیں جو جوائننگ سے پنشن تک اقتدار میں رہتے چلے آرہے ہیں اور بسا اوقات انھی افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد کانٹریکٹ پر بھی لیا جاتا رہا ہے جب کہ سیاسی لوگ ایک محدود مدت کے لیے آتے اور چلے جاتے ہیں۔

سول سروس اور سول سرونٹ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہر خاص وعام کی زبان پر رہتے ہیں۔ حقیقت میں ان الفاظ کے اصل معنی نہ سمجھنے کی کوشش کی گئی اور نہ عوام کو سمجھانے کی۔ ان تمام کے لغوی معنی سروس یعنی خدمت، سرونٹ کے معنی خادم کے ہوتے ہیں۔ عوام کی خدمت کے لیے جو ادارے قائم کیے گئے ان کی افادیت کا عوام کو صحیح طور پر علم ہی نہیں کیونکہ عوامی خدمات کی ذمے داری جن سرکاری عہدیداروں کے سپرد کی جاتی رہی وہ خادم کے بجائے آقاؤں کا رول ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ آگہی سے بے بہرہ عوام ان آقاؤں کے آگے پیچھے دوڑتے پھر رہے ہیں۔

اس کے لیے آپ ان متعلقہ مقامات کا نظارہ کرکے دیکھ لیجیے جہاں عام آدمی کا براہ راست رابطہ ان اداروں سے پڑتا ہے تو ان کے اعلیٰ افسران سے ملاقات بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں مثلاً پولیس اسٹیشن جہاں کسی مقدمے میں ایک عام آدمی ایف آئی آر درج نہیں کروا سکتا، عدالتوں کے فیصلوں میں طوالت، سرکاری اسپتال جہاں غریب آدمی علاج کا منتظر لیکن بڑے ڈاکٹر سے ملاقات ناپید، ریلوے اسٹیشن جہاں آسانی سے صرف قلی سے ملاقات ہوسکتی ہے کیونکہ ٹکٹ کی کھڑکیوں کے پیچھے کام کرنیوالے عوام کو سہولت دینے کے بجائے ٹکٹ بلیک کرنیوالوں کی معاونت کر رہے ہوتے ہیں اور اعلیٰ افسران کے بند کمروں میں رہنے کے سبب ان کی معاملات سے صرف نظر رہتی ہے۔

نادرا دفاتر میں اپنی شناخت کے لیے رات 2 بجے سے لگنے والی لمبی لمبی قطاریں اپنا احوال خود بتا رہی ہوتی ہیں، ڈومیسائل رجسٹری آفس، سوئی گیس و الیکٹرک، بجلی کا حصول کتنا ہے سب جانتے ہیں۔ پانی کی سپلائی صرف ٹینکر مافیا کے لیے اور عوام کی خدمت مہنگے ترین داموں میں واٹر بورڈ کے بجائے یہی مافیا کر رہی ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ عوام کو سہولت پہنچانے والے دیگر محکموں کی بھی کم و بیش ایسی ہی صورتحال ہے ملک کے اس نظام کو بگاڑنے میں کوئی ایک حکومت ذمے دار نہیں کیونکہ حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں لیکن اول تا آخر بے ہنگم نظام جوں کا توں۔کچھ نہیں 50/60 سال سے متواتر یہی منظرنامہ چل رہا ہے۔ اب کیونکہ تبدیلی کی بات ہو رہی ہے تو میرے خیال میں ارباب اختیارکی پہلی ذمے داری یہ بنتی ہے کہ اپنی نگرانی میں سپریم کورٹ کے ماضی میں کیے گئے فیصلے جس پر آج تک عمل نہ ہوسکا۔


اس کے مطابق سارے دفتری اموروقانون سازی اردو زبان میں کی جائے سو اب اس عمل کے ذریعے پورے عوام جن میں اعلیٰ اور ادنیٰ سرکاری عہدیداران بھی شامل ہیں انھیں آسان قومی زبان میں بات سمجھ میں آجانی چاہیے کہ حقدار اپنے حق کو سمجھ لے اور ذمے دار اپنے فرائض کی انجام دہی کو۔ نظام درست نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 1973ء کے آئین کو بنے تقریباً 45 برس گزرچکے ہیں جب کہ ہمارے آئین اور تعزیرات پاکستان میں بھی اچھی چیزیں برطانوی عہد سے مستعار لی گئی تھیں لیکن اس طویل عرصے میں بہت ساری تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جن میں اول تو یہ کہ برق رفتاری سے آبادی میں اضافہ ہوا لیکن اسی رفتار سے وسائل نہ بن سکے نہ بڑھ سکے۔ دوم حالات کے پیش نظر آئین میں ضرورت کے مطابق وہ ترمیمات نہیں لائی گئیں۔

جس سے ایک عام آدمی کو سہولتیں میسر آسکتیں اور یوں طلب اور رسد کا توازن بگڑتا چلا گیا۔ یہاں ایک اہم ترین نکتے کے پس منظر میں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جس نے اس نظام کے ڈھانچے کو بالکل ہی ہلا کے رکھ دیا اور وہ یہ ہے کہ پاکستان بننے کی ایک سے ڈیڑھ دہائی کے بعد ہر نئی آنیوالی حکومت نے اپنی کرسی مضبوط کرنے کے لیے بیورو کریسی کو قوم پرستی کے تحت تشکیل دینا شروع کردیا یہی وہ غلطی تھی جس سے عوام کے خادم آقا بننا شروع ہوگئے کیونکہ انھیں حاکموں کی سرپرستی حاصل ہوگئی تھی۔

یاد رہے کہ (وڈیروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور انتہائی طاقتور بیورو کریسی کے خاندان کے افراد نے اپنے کسی نہ کسی گھر کے فرد کو بیوروکریٹ بنانے کی سعی آج تک جاری ہے) یہی نہیں بلکہ حاکم اور ان کی بیوروکریسی ایک دوسرے کے باہمی تعاون سے ایک طاقتور طبقہ بن گئے جب کہ حاکم کا اختیار اپنی آنی جانی کے سبب نسبتاً کبھی بلندی توکبھی نشیب کا شکار رہا۔وزیر کی وزارت سیکریٹری کے اختیار میں، قانون ساز پارلیمنٹیرین سیکریٹری سے نچلی سطح کے افسران کے بس میں۔ باقی رہے عوام تو کمزور طبقے کے طور پر آگے پیچھے دوڑتے رہے اور آج تک دوڑ رہے ہیں۔ انھی طبقاتی بنیاد کے سبب قوموں میں درجہ بندیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں کچھ ایسی بھی ہیں جسکے نتائج بہت واضح نظر آئے جیسے کہ: 1۔ایک پارٹی کے دور حکومت میں لاہور اور اس کے گردونواح میں بسنے والے تخت شاہی پر بیٹھے رہے اور اپنی حکومت کے جھنڈے گاڑے جب کہ جنوبی پنجاب جس میں چاہے سرائیکی پٹی والے ہوں یا دیگر اپنی ایڑیاں رگڑتے ہی نظر آرہے ہیں۔ 2۔ دوسری پارٹی کے دور حکومت میں حکمرانوں کو نہ صرف خود سب کچھ میسر رہا بلکہ اپنی بنائی ہوئی بیوروکریسی میں اوپر سے لے کر نچلی سطح تک تمام سرکاری دفاتر میں نہ صرف اپنوں سے آباد کیے جسکے نتیجے میں اسی صوبے میں بسنے والی دوسری قومیتوں کوکوٹہ سسٹم کے ذریعے دوسرے اور تیسرے درجے کا ایسا شہری بنا دیا۔

جن کے لیے ملازمتوں کے اشتہارات میں باقاعدہ طور پر تحریرکیا جاتا ہے کہ شہری ڈومیسائل رکھنے والے درخواست دینے کی زحمت نہ کریں اور یوں نہ صرف لوگوں کو بیروزگارکیا گیا بلکہ تعلیمی اور تدریسی درسگاہیں بھی حاکموں اور بیوروکریسی میں بیٹھے آقاؤں اور ان کے خاندانوں کے لیے وقف کردیں۔ یہی طبقاتی جنگ ہے جس نے وفاقی سوچ کو کمزور کیا اور میرٹ کو دھچکا پہنچایا۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال دوسرے دو صوبوں میں بھی نظر آتی ہے کہ جب کے پی کے اور بلوچستان میں ہزارہ کے لوگوں کو نظراندازکیا گیا تو دراڑیں پڑنا شروع ہوگئیں۔ ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر محض نوکر شاہی کی تیار رپورٹس پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرنے کے بجائے خود اپنی جماعتوں میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹیاں بنائیں جو ملک میں کسی بڑے فیصلے کو کرنے سے پہلے غوروخوض کریں۔ محض وفاق کا چند مخصوص بیوروکریٹ کی محدود سوچ کے آگے ہتھیار ڈال دینا ملک کے کروڑوں عوام کے ساتھ زیادتی کے برابر ہوتا ہے۔ وفاق چاروں صوبوں بشمول کشمیر،گلگت بلتستان و دیگر سرحدی رقبے کا اجتماعی کسٹوڈین ہے لہٰذا ایسی صورت میں وفاقی کسٹوڈین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ان علاقوں میں اپنی سرکاری رٹ صوبوں کی رضامندی کے ساتھ قائم رکھے جیسا کہ آئین میں بتایا گیا ہے۔

کسی بھی صوبے میں قائم سرکاری اثاثہ جات ریاست کی مشترکہ ملکیت ہوتے ہیں۔ محض سرکاری افسران کی رپورٹس پر فیصلے کرنے کے بجائے حکومتی ارباب و اختیار زمینی حقائق کا جائزہ لیں،کراچی جسے بین الاقوامی سطح پر پہچانا جاتا ہے ،اس شہر سے سرکاری کارپوریشنز، مالیاتی ادارے، مختلف اتھارٹیز و دیگر اداروں کو یہاں سے منتقل کرنا صوبے اور شہروں کے حقوق کو چھیننے کے مترادف ہو گا ایسے فیصلے قوم میں مایوسی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر آتی ہوئی بریکنگ نیوزکی ہیڈلائنز میں کوئی مثبت خبر آ بھی جائے تو بے یقینی کا یہ عالم ہے کہ عوام ایک دوسرے کو خالی نظروں سے بے آسرا ہوکر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
Load Next Story