سید عبداللہ شاہ مرحوم

شاہ صاحب اپنے سیاسی کیریئر کے دوران ڈپٹی اسپیکر اور وزیر بھی رہ چکے ہیں

ایک ایسا انسان جو صبح سویرے اذان کے وقت اٹھ کر پہلے نماز پڑھتا، پھر قرآن پاک کی تلاوت کے بعد ناشتہ کرکے اپنے کام میں لگ جاتا، وزیر اعلیٰ کی حیثیت میں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے بتاتے تھے کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ شاہ صاحب کس وقت آرام کرتے ہیں۔ یہ ان کا معمول تھا کہ رات دیر تک فائلیں دیکھتے رہتے پھر سوجاتے۔ فجرکی نماز پڑھنے کے بعد بہت ہی مختصر وقت آرام کرکے تیار ہوجاتے اور میٹنگزکا ایک تانتا بندھا رہتا اور وہ ہر مسئلے کو خود دیکھتے اور سوالات اور جوابات سے مطمئن ہوکر خود فیصلہ کرتے۔ عام لوگوں سے ملنے کا بھی ان کا وہ طریقہ تھا جو ان کے لیڈر بھٹو کا تھا اور وہ عوام کے گھروں تک پہنچ کر مسائل حل کرتے، یہ میں ذکر کررہا ہوں ، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سندھ سید عبداللہ شاہ مرحوم کا۔

پیپلز پارٹی کی حکومت جب تک بھٹوکے زیر سایہ رہی،کھلی کچہریوں کا سلسلہ جاری رہا جس پرعمل وزیر اعلیٰ اور باقی وزرا بھی کرتے تھے، ایک تو عوام کے مسائل جلدی حل ہوجاتے تھے اور رشوت کو بھی پنپنے کا موقعہ نہیں ملتا تھا۔ اس ضمن میں سید عبداللہ شاہ نے کھلی کچہری کا سلسلہ بینظیرکے دور بھی جاری رکھا اور انھوں نے عوام کے لیے اپنے دروازہ کھلے رکھے مگر مجبوراً انھیں ملک چھوڑکر جانا پڑا، جس کی وجہ سے صوبہ سندھ ایک اچھے، قابل اور مخلص سیاسی شخصیت سے محروم ہوگیا ۔

انھوں نے اپنے سیاسی کیریئرکا آغاز 1961ء سے بلدیاتی انتخاب میں حصہ لے کرکیا اور جب ذوالفقارعلی بھٹو نے 1967ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد ڈالی تو وہ اس میں شامل ہوگئے اور 1970ء کے عام انتخابات میں ایم پی اے منتخب ہوگئے اور 1977ء والے الیکشن میں بھی وہ پی پی پی کی ٹکٹ پر دادو سے ہی ایم این اے منتخب ہوئے۔ پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد سید عبداللہ شاہ نے بھی مارشل لا کے دور میں بڑی تکالیف برداشت کیں ، مگر پارٹی کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔انھوں نے 1985ء میں ہونے والے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا مگر انھیں کوڑل شاہ جو ان کا کلاس میٹ بھی تھا اور پڑوسی بھی اس کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

یہ الیکشن تھا ہی ایسا کہ جس میں پی پی پی کے لوگوں کو جان بوجھ کر ہرایا گیا۔جب 1988ء کے انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تو عبداللہ شاہ نے اپنی شکست کا بدلہ لے لیا اور وہ ایم پی اے منتخب ہوگئے۔ بھاری اکثریت سے وہ سندھ اسمبلی کے اسپیکر بن گئے۔اس کے بعد 1990ء کے عام انتخابات کے بعد انھیں سینیٹر بنایا گیا اور انھیں کئی کمیٹیوں کا چیئرمین بنایا گیا۔ جیساکہ پارٹی نے محسوس کیا کہ سید عبد اللہ شاہ کی سب سے زیادہ ضرورت سندھ میں ہے، اس لیے انھیں ایم پی اے کی سیٹ دے دی گئی اور یہ زمانہ تھا 1993ء کا۔ بینظیر بھٹو نے انھیں صوبہ سندھ کا وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ اس وقت صوبے کی مالی پوزیشن کچھ اچھی نہیں تھی مگر دن رات محنت کرکے صوبے کو اس صورتحال سے باہر نکال لائے۔

یہ منصب سنبھالنے کے بعد انھوں نے سندھ کی ترقی اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے پر زیادہ توجہ دی اور لوگ ان کے کام سے مطمئن ہوئے جس کی وجہ سے پارٹی کے اندر ان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوئی۔ جامشورو سے سیہون جاتے ہوئے سفر میں بڑی دشواری سامنا کرنا پڑتا تھا، جسے حل کرنے کے لیے انھوں نے ایک بہترین سڑک بنوائی، اس کے علاوہ دریائے سندھ پر جامشورو اورکوٹری کو اور حیدرآباد کو ملانے کے لیے ایک پل بنوایا جس سے کراچی سے آنے اور جانے والے مسافروں کو سہولت میسر آگئی۔


شاہ صاحب اپنے سیاسی کیریئر کے دوران ڈپٹی اسپیکر اور وزیر بھی رہ چکے ہیں اورانھیں وزیر خوراک کا قلمدان دیا گیا تھا۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک وزیر اعلیٰ کے منصب پر کام کرتے رہے۔ ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران شاہ صاحب نے بہت کام کیا اور لوگوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا جس کی وجہ سے ضلع دادو کو '' ویتنام'' کا خطاب ملا۔ انھوں نے ضلع دادوکی بنجر زمین کو سرسبز بنانے کے لیے ایک آبپاشی کا منصوبہ مکمل کیا اور علاقے میں خوشحالی لائے۔

دنیا کی بہترین جھیل منچھرکو اور وہاں پر رہنے والے لوگوں کے لیے کئی اسکیمیں شروع کیں جس میں وہاں پر رہنے والے مچھیروں کو رہنے کے لیے گھر، اسکول، صحت کے مرکزکی سہولیات ملیں۔ سندھ کے اندرونی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے کراچی میں روزگارکے مواقعے پیدا کیے اور بھٹائی آباد، سچل اور شانتی نگر جیسے علاقے آباد کرنے میں ان کی کوششیں شامل ہیں۔کراچی میں عرصے سے کوشش ہو رہی تھی کہ اخبار مارکیٹ بنائی جائے اور اس خواب کو پورا کرنے میں عبداللہ شاہ کا ہاتھ ہے۔ انھوں نے بڈوجیل پر لوگوں کو صحت، تعلیم، پینے کا پانی اور امن قائم کرنے اور ڈاکوؤں کو بھگانے کے لیے منصوبے شروع کیے جو ان کے جانے کے بعد ابھی تک نامکمل پڑے ہیں جس پر اربوں روپے خرچ ہوئے، اب ان کے بیٹے سید مراد علی شاہ کو چاہیے کہ اسے پورا کریں جیسا وہ جامشورو اور سیہون روڈ کو ڈبل کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ عبداللہ شاہ چاہتے تھے کہ گورکھ ہل اسٹیشن اور رنی کوٹ کو بین الاقوامی معیار پر لائیں مگر زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور سیاسی حالات ان کے خلاف چلے گئے مگر اب قدرت نے ان کے بیٹے کو یہ سارے کام پورے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے، انھیں یہ نامکمل منصوبے جنگی بنیادوں پر دوبارہ شروع کرنے چاہئیں۔ شاہ صاحب نے چاہا تھا کہ پوری دنیا سے آنے والے قلندر شہباز پر حاضری دینے میں سفری سہولتیں پاسکیں جس کے لیے انھوں نے ایک جدید طرز پر سہولتوں سے آراستہ ایک ایئرپورٹ قائم کروایا تاکہ نہ صرف ایک مالی فائدہ ہو بلکہ آنے والے زائرین کو آنے اور جانے کی سہولت مل سکے، مگر یہ بڑا منصوبہ پتہ نہیں کیوں کامیاب نہیں ہوا جسے دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے۔

شاہ صاحب بڑے سادہ، ملنسار اوراپنے کلچر سے پیارکرنے والے انسان تھے، جنھیں اوطاق میں بیٹھ کر سندھی کلام اور موسیقی چنگ، بانسری اور مٹکے پر دھنیں سننے کا بڑا شوق تھا۔اوطاق میں کچہری کے دوران شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سکھڑوں کی زبان سے سن کر مزہ آتا تھا۔ سندھ کے فنکاروں کی بڑی قدرکرتے تھے اور ان کی کسمپرسی والی حالت میں مالی اور اخلاقی مدد بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب وہ چائنا گئے اور وہاں پر سندھی موسیقی سنی تو بہت خوش ہوئے جس کے لیے انھیں بتایا گیا کہ یہ موسیقی چائنا میں سندھ سے آئی ہے جس پر انھوں نے ان فنکاروں کو سندھ آنے کی دعوت دی۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے پرانے دوستوں کو نہ بھولتے اور انھیں ملاقات کے لیے سی ایم ہاؤس بھی بلواتے تھے۔

شاہ صاحب کی انگریزی بڑی زبردست تھی، وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ جب اپنے شہر یا گاؤں جاتے تو غریب لوگوں سے ضرور ملتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر چاول کی روٹی، لسی اور ساگ پلی ضرور کھاتے۔ وہ چارپائی پر بیٹھ کر اچھا محسوس کرتے تھے۔ انھیں غریبوں پر رحم کھانا پسند تھا اور وہ کامیڈی کرنے والے فنکاروں سے ملاقاتیں کرتے اپنی طبیعت کو مزاح میں ڈھال کر بڑے خوش ہوتے تھے۔ وہ نہ صرف بہادر تھے بلکہ فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کرتے اور اس میں وہ بڑی محنت اور ذہن سے کام لیتے تھے۔ شاہ صاحب نے پی پی کے لیے بڑی مشکلات سے مقابلہ کیا۔ سید مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ کا جنم 1925ء ضلع دادوکے گاؤں وہاڑ میں ہوا، انھوں نے پرائمری تعلیم اپنے گاؤں سے اور میٹرک پر ماندھر داس پائلٹ اسکول دادو سے پاس کیا، ایل ایل بی، ایس ایم لا کالج کراچی سے پاس کرکے لا کی پریکٹس شروع کر دی۔ وہ 1997ء سے 2007ء تک Exile میں رہے اورکینسر کے مرض کی وجہ سے وہ 4 اپریل 2007ء کو انتقال کرگئے۔ ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
Load Next Story