کالے یرقان سے کیسے محفوظ رہیں
ہیپاٹائٹس میں پاکستان کو مصر کے بعد دنیا دوسرا خطرناک ترین ملک قراردیا جا رہا ہے
سائنسی طور پر اسے ہیپاٹائٹس اے، بی، سی، ڈی اور ای کہا جاتا ہے ہیپاٹائٹس اے کو عام زبان میں پیلا یرقان اور ہیپاٹائٹس بی اور سی کو عموماً کالا یرقان کہا جاتا ہے۔
پیلا یرقان عموماً کم شدت والی بیماری ہے اور اکثر اوقات بغیر کسی پیچیدگیوں کے خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔البتہ کالا یرقان عموماً پیچیدہ صورتحال میں مبتلا کردیتا ہے اور مریض کی روزمرہ کی زندگی کو شدید متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے مریضوں کے لیے خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 257 ملین انسان ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔ چند سال پہلے ہونے والے ایک سروے کے مطابق اس مہلک بیماری نے ایک سال میں 887000 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پاکستان میں حالات کچھ زیادہ ہی بُرے ہیں۔ ہمارے تقریباً 8 ملین لوگ اس وقت اس مہلک مرض سے متاثر ہیں جوملک کی مجموعی آبادی کا 4 فیصد ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی بھی اسی طرح پوری دنیا سمیت پاکستان میں بہت سے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کی تعداد مصر کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں تقریباً سات فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں اور باقی صوبوں میں اس کا تناسب تقریباً 5 فیصد ہے۔
یہ وائرس آلودہ خون اور جسمانی مختلف قسم کی مائع کے ذریعے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند انسان میں داخل ہوتا ہے جہاں یہ جگر پر حملہ آور ہوتا ہے اور جگر کی معمولی سوزش سے زندگی کے خاتمے تک کے مراحل تک جاسکتا ہے۔ استعمال شدہ آلودہ آلات جراحی، استعمال شدہ سرنج، ناک کان چھید کروانے کے لیے استعمال ہونے والے آلات، آلودہ بلیڈ سے کٹ لگنے اور بچوں میں آلودہ بلیڈ سے جراحوں سے ختنہ کروانے سے یہ ہمارے ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور غیر فطری جنسی تعلقات سے بھی یہ مہلک مرض انسان کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے دوچار کرسکتا ہے۔ متاثرہ ماں سے حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا بعد میں بھی یہ مرض بچے میں منتقل ہوسکتا ہے۔
متاثرین مرض میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں تھکاوٹ، پیلاہٹ، خون کی کمی، الٹیاں آنا، پیٹ میں درد، بے چینی، بھوک کا نہ لگنا وغیرہ قابل ذکر ابتدائی علامات ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے جب جگر ناکارہ ہونے لگے تو خون کی الٹیاں، جسم پر سوزش، پیٹ کا پھولنا بیماری کے انتہائی خطرناک حد تک بڑھ جانے کی علامات ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس بیماری کا علاج موجود ہے اور پاکستان میں تقریباً تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں تشخیص اور علاج کی سہولیات موجود ہیں۔ ڈاکٹر مریض کے معائنے اور مختلف ٹیسٹوں کی مدد سے ہر مریض کی بیماری کی تشخیص اور بیماری کی شدت کے لحاظ سے علاج کی قسم اور مدت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ علاج جتنا جلدی شروع کیا جائے، نتائج اسی قدر بہتر ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ علاج میں دیر کی جائے تو کچھ سالوں میں جگر ناکارہ ہوجاتا ہے اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری جگر کے کینسر کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین موجود ہے جو سستی ہے اور محفوظ اور موثر ہے۔ صرف تین ٹیکے آپ کو 20 سال تک تقریباً مکمل حفاظت دیتے ہیں۔حکومت پاکستان عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ٹیکے تمام پاکستانی بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے مراکز سے سو فیصد مفت لگاتی ہے۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام بڑے اور بچے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرائیں۔ تمام خواتین و حضرات حمام، ہیر ڈریسر اور بیؤٹی پارلر میں استعمال شدہ ریزر، بلیڈ، سوئی وغیرہ کے دوبارہ استعمال سے سختی سے پرہیز کریں اور کسی بھی کلینک یا ہسپتال میں کسی بھی قسم کی جراحی سے پہلے یقین دہانی کریں کہ آلات جراحی سمیت باقی اوزار جراثیم سے پاک کرکے استعمال کیے جاتے ہوں اور کوئی مستند ڈاکٹر آپ کا معالج ہو۔ عطائی ڈاکٹر اور گاؤں کے جراح، ہڈی جوڑ اور عطائی دندان ساز سے علاج کے نام پر موت مت خریدیں۔
بیوٹی پارلر میں مینی کیور اور پیڈی کیور کے نام پر کوئی آلودہ آلات کے ذریعے خوبصورتی کا لیبل لگی بیماریوں کی خریداری سے بھی پرہیز کریں۔ اپنے صوبوں میں قائم ہیلتھ کئیر کمیشن کو ایسی کسی بھی دکان کی شکایت کریں جو آپ کے خیال میں آلودہ اوزار استعمال کرکے انسانی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ باقی صوبوں میں متعلقہ حکام اور اداروں کو آگاہ کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ اداروں کو مزید فعال بنائے اور کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر تمام موت کے سوداگروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے۔ عوام میں آگاہی کے لئے سیمینار منعقد کرے اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں شعور بیدار کرے۔ اللہ ہم سب کو دائمی صحت عطا فرمائے اور ہمارے ملک کو بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین
پیلا یرقان عموماً کم شدت والی بیماری ہے اور اکثر اوقات بغیر کسی پیچیدگیوں کے خود بخود ٹھیک ہوجاتا ہے۔البتہ کالا یرقان عموماً پیچیدہ صورتحال میں مبتلا کردیتا ہے اور مریض کی روزمرہ کی زندگی کو شدید متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سے مریضوں کے لیے خاموش قاتل ثابت ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 257 ملین انسان ہیپاٹائٹس بی کا شکار ہیں۔ چند سال پہلے ہونے والے ایک سروے کے مطابق اس مہلک بیماری نے ایک سال میں 887000 انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
پاکستان میں حالات کچھ زیادہ ہی بُرے ہیں۔ ہمارے تقریباً 8 ملین لوگ اس وقت اس مہلک مرض سے متاثر ہیں جوملک کی مجموعی آبادی کا 4 فیصد ہیں۔ ہیپاٹائٹس سی بھی اسی طرح پوری دنیا سمیت پاکستان میں بہت سے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک ہیپاٹائٹس سے متاثرہ مریضوں میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس سی سے متاثرہ افراد کی تعداد مصر کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں تقریباً سات فیصد لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں اور باقی صوبوں میں اس کا تناسب تقریباً 5 فیصد ہے۔
یہ وائرس آلودہ خون اور جسمانی مختلف قسم کی مائع کے ذریعے ایک متاثرہ شخص سے صحت مند انسان میں داخل ہوتا ہے جہاں یہ جگر پر حملہ آور ہوتا ہے اور جگر کی معمولی سوزش سے زندگی کے خاتمے تک کے مراحل تک جاسکتا ہے۔ استعمال شدہ آلودہ آلات جراحی، استعمال شدہ سرنج، ناک کان چھید کروانے کے لیے استعمال ہونے والے آلات، آلودہ بلیڈ سے کٹ لگنے اور بچوں میں آلودہ بلیڈ سے جراحوں سے ختنہ کروانے سے یہ ہمارے ملک میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ غیر محفوظ جنسی تعلقات اور غیر فطری جنسی تعلقات سے بھی یہ مہلک مرض انسان کو اپنی لپیٹ میں لے کر موت سے دوچار کرسکتا ہے۔ متاثرہ ماں سے حمل کے دوران، پیدائش کے وقت یا بعد میں بھی یہ مرض بچے میں منتقل ہوسکتا ہے۔
متاثرین مرض میں مختلف علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں تھکاوٹ، پیلاہٹ، خون کی کمی، الٹیاں آنا، پیٹ میں درد، بے چینی، بھوک کا نہ لگنا وغیرہ قابل ذکر ابتدائی علامات ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے جب جگر ناکارہ ہونے لگے تو خون کی الٹیاں، جسم پر سوزش، پیٹ کا پھولنا بیماری کے انتہائی خطرناک حد تک بڑھ جانے کی علامات ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ اس بیماری کا علاج موجود ہے اور پاکستان میں تقریباً تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں میں تشخیص اور علاج کی سہولیات موجود ہیں۔ ڈاکٹر مریض کے معائنے اور مختلف ٹیسٹوں کی مدد سے ہر مریض کی بیماری کی تشخیص اور بیماری کی شدت کے لحاظ سے علاج کی قسم اور مدت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ علاج جتنا جلدی شروع کیا جائے، نتائج اسی قدر بہتر ہوتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ علاج میں دیر کی جائے تو کچھ سالوں میں جگر ناکارہ ہوجاتا ہے اور افسوس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری جگر کے کینسر کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین موجود ہے جو سستی ہے اور محفوظ اور موثر ہے۔ صرف تین ٹیکے آپ کو 20 سال تک تقریباً مکمل حفاظت دیتے ہیں۔حکومت پاکستان عالمی ادارہ صحت کی مدد سے یہ ٹیکے تمام پاکستانی بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کے مراکز سے سو فیصد مفت لگاتی ہے۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام بڑے اور بچے حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل کرائیں۔ تمام خواتین و حضرات حمام، ہیر ڈریسر اور بیؤٹی پارلر میں استعمال شدہ ریزر، بلیڈ، سوئی وغیرہ کے دوبارہ استعمال سے سختی سے پرہیز کریں اور کسی بھی کلینک یا ہسپتال میں کسی بھی قسم کی جراحی سے پہلے یقین دہانی کریں کہ آلات جراحی سمیت باقی اوزار جراثیم سے پاک کرکے استعمال کیے جاتے ہوں اور کوئی مستند ڈاکٹر آپ کا معالج ہو۔ عطائی ڈاکٹر اور گاؤں کے جراح، ہڈی جوڑ اور عطائی دندان ساز سے علاج کے نام پر موت مت خریدیں۔
بیوٹی پارلر میں مینی کیور اور پیڈی کیور کے نام پر کوئی آلودہ آلات کے ذریعے خوبصورتی کا لیبل لگی بیماریوں کی خریداری سے بھی پرہیز کریں۔ اپنے صوبوں میں قائم ہیلتھ کئیر کمیشن کو ایسی کسی بھی دکان کی شکایت کریں جو آپ کے خیال میں آلودہ اوزار استعمال کرکے انسانی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں اور ذمہ داروں کو قانون کے شکنجے میں لائے۔ باقی صوبوں میں متعلقہ حکام اور اداروں کو آگاہ کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ اداروں کو مزید فعال بنائے اور کسی بھی قسم کے دباؤ میں آئے بغیر تمام موت کے سوداگروں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرے۔ عوام میں آگاہی کے لئے سیمینار منعقد کرے اور میڈیا کے ذریعے لوگوں میں شعور بیدار کرے۔ اللہ ہم سب کو دائمی صحت عطا فرمائے اور ہمارے ملک کو بیماریوں سے محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین