دل کو سنبھالیں بات بگڑنے سے پہلے

ہمارا دل خالق ِ کا ئنات کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے


Hakeem Niaz Ahmed Diyal January 31, 2019
ہمارا دل خالق ِ کا ئنات کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے فوٹوانٹرنیٹ

دل کے دورہ پڑنے کا خوف ہو یا ورمِ جگر کا خدشہ ہر آدمی دکھی دکھائی دیتا ہے۔ انسانی فطرت کی اس کمزوری سے معالجین خوب فائدہ اٹھاتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

حکیموں کا طریقہ علاج تو عام طور پر چند اَن پڑھ اور نیم حکیموں کی نان پروفیشنل حرکات کی وجہ سے اس قدر بدنام کردیا گیا ہے کہ عام پڑھا لکھا شخص تو لفظ ''حکیم '' سے ہی بد ظن دکھائی دیتا ہے۔ رہی بات ڈاکٹرز حضرات کی تو ان کی ادویات اور طریقہ علاج اس قدر مہنگے ہیں کہ سفید پوش طبقہ ان کے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ دل کے معمولی آپریشن پر بھی لاکھوں کے بل سامنے آتے ہیں یوں ایک عام اور درمیانے درجے کا انسان علاج کی سکت نہ رکھتے ہوئے ہزاروں خواہشیں اور امنگیں اپنے''بیمار'' دل میں لیے ہی دنیا سے سدھار جا نے پر مجبور ہوتا ہے۔ آج کے اس مضمون میں ہم کوشش کرتے ہیں کہ ''دل کی کارستانیوں'' سے بچنے اور''دل کی خرابیوں'' کو سْدھارنے کی طبی تراکیب، غذائی تدابیر اور روز مرہ کے معمولات تحریر کریں تاکہ عام آدمی اپنی خوراک میں ہی ردو بدل کر کے صحت مند اور توانا زندگی سے لطف اندوز ہو سکے۔

ہمارا دل خالق ِ کا ئنات کی قدرت کا ایک عجیب شاہکار ہے جو بظاہرگوشت کا لوتھڑا ہے مگر انسانی زندگی کے وجود کا لازمی اور پہلا ذریعہ بھی ہے۔ دل کا وزن تقریباََ 10اونس ہو تا ہے، یہ عام طور پر ایک منٹ میں70بار دھڑکتا ہے۔ جب تک اس کی یہ دھڑکن باقی رہتی ہے سانس چلتی رہتی ہے، جونہی یہ دھڑکن رکتی ہے انسانی زندگی کی ڈور کٹ جاتی ہے۔ یہ مخروطی شکل میں دونوں پھیپھڑوں کے درمیان سینے کے بائیں طرف جھکا ہوتا ہے۔اس کے دو حصے اور چار خانے ہوتے ہیں۔ خانوں کے سکڑنے اور پھیلنے سے ہی نظامِ دورانِ خون رواں رہتا ہے۔

پورے جسم میں خون پہنچانے کے اس کام میں وریدیں(جوبدن سے گندا خون دل میں لاتی ہیں)شریانیں (جو صاف خون پورے جسم میں پھیلاتی ہیں)بھی برابر کی حصہ دار ہوتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق انسانی دل50 سالوں میں قریباََ بارہ ہزار ٹن خون پمپ کرتا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیںکہ زندگی طویل،صحت مند اور بیماریوں سے محفوظ ہو تو ہمیں اپنے دل کی حفاظت کے اقدامات ہمیشہ ترجیحی بنیادوں پر کرنے چاہیے، عمدہ غذائی انتخاب اور مناسب ورزشوں کے استعمال سے دل کی صحت مندی اور زندگی میں اضافہ ہو تا ہے۔سہل پسندی،آرام طلبی،سگریٹ نوشی،غیر صحت مندانہ عادات تفکرات اور منشیات دل کے لیے زہرِ قاتل کا درجہ رکھتے ہیں۔

امراضِ قلب کی علامات

کوئی بھی مرض اچانک حملہ آور نہیں ہوا کرتا بلکہ مختلف اشاروں اور علامتوں کے ذریعے سے وہ پہلے ہمیں باخبر کرتا ہے۔ درج ذیل علامات میں سے اگر کوئی ایک یا زیادہ ظاہر ہوں تو فوراََ اپنے معالج سے رجوع کریں۔سانس پھولنا،سینے میں درد کا شدت سے احساس ہونا، بازؤں میں درد کا آنا، دل کی دھڑکن کا معمول سے تیز ہونا، سر چکرانا یا بے ہوشی طاری ہونا،سوزش بالخصوص پاؤں پر ورم کا مسلسل رہنا جیسی علامات اگر گاہے بگاہے نمودار ہونے لگیں تو اپنے معالج کے مشورے سے لیبارٹری سے درج ذیل ٹیسٹ کرانے چاہئیں تاکہ بر وقت مرض کو قابو کیا جا سکے۔ ایکس رے،ای سی جی،ایکسر سائز ای سی جی،ایکو سین،سی ٹی سکین وغیرہ لیکن یاد رہے کہ یہ ٹیسٹ آپ کومعالج کی ہدایات کے مطابق ہی کرانے ہوں گے۔ علاوہ ازیں نبض، بلڈ پریشر،سٹیتھو سکوپ اور دل کو بیرون طرف سے محسوس کر کے بھی اس سلسلے میں کافی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں، ایک ماہر اور تجربہ کار طبیب یا ڈاکٹر ہی ان علامات کی روشنی میں تشخیص کا اہل ہو تا ہے۔

دل کو لاحق ہونے والی بیماریاں اور اسباب

دل کا دورہ

دل کا دورہ پڑنے کا سب سے بڑا سبب شریانوں کی تنگی اور دورانِ خون میں رکاوٹ پیدا ہونا ہے۔دل کو اپنی سرگرمیاں اور کار کردگی جاری رکھنے کے لیے ایندھن کی مسلسل ضرورت ہوتی ہے۔دل اپنی یہ غذائی ضرورت آکسیجن اورہماری خوراک سے شریانوں کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔دل کو خون کی شکل میں غذا فراہم کرنے والی شریانیں ہماری غذائی بد احتیاطی سے فاسد اور چربیلے مادے جم جانے سے تنگ ہوجاتی ہیں۔ شریانوں میں تنگی واقع ہوجانے سے بتدریج رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے۔

جب دل کو مطلوبہ خون کی مقدار نہیں پہنچتی تو وہ کئی طریقوں سے اس کا اظہار کرتا ہے۔ یوں دل کے جس پٹھے کو خون کی رسد رک جاتی ہے وہ مردہ ہو کر دل کے دورہ پڑ نے کا سبب بن جاتا ہے۔ شریانوں کی تنگی سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ بلڈ پریشر نارمل رہے کیونکہ شریانوں کی تنگی کی سب سے بڑی وجہ ہائی بلڈ پریشر بنتاہے۔ خردنی نمک کی زیادہ مقدار، چکنائیوں کا غیر ضروری استعمال، سگریٹ، چائے اور شراب نوشی،ورزش کا نہ کرنا، گوشت کا زیادہ استعمال، میٹابولزم کی خرابی، افسردگی و غم، ذہنی تناؤ و اعصابی دباؤ، اچانک صدمہ، کولیسٹرول اور ٹرائیگلا ئسرائیڈز کی زیادتی جبکہ کاہل و تن آسان زندگی بھی دل کا دورہ پڑنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

وجع القلب یا دل کا درد

دل کا دردافعالِ قلب کی احتجاجی کیفیت کا نام ہے۔ جب دل کے پٹھوں کی کمزوری ہو،دل کو اپنی بساط سے زیادہ کام کرنا پڑے یا پھراضافی چربیوں سے شریانیں تنگ ہوچکی ہوں تو انجائنا کی علامات سر اٹھانے لگتی ہیں۔ جب ہم ورزش یا کوئی محنت طلب کام کرتے ہیں تو ایسے میں ہمارے جسم کو معمول سے زیادہ آکسیجن و غذائیت درکار ہوتی ہے۔ طلب میں اضافہ ہونے سے دل کو رسد بھی بڑھانی پڑتی ہے۔یوں دل کو اضافی کارکردگی کرنی پڑتی ہے جو شریانوں کی تنگی، پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے دل کے درد کی شکل میں سامنے آتی ہے۔

دل کا درد چھاتی کی درمیانی ہڈی کے اوپری حصے میں محسوس ہوتا ہے اور چھاتی کے اردگرد پھیل جاتا ہے۔ شدت کی صورت میں یہ گردن، جبڑوں، کندھوں اور بازؤں کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔دل کا درد ٹیس کی بجائے شدید دکھن کا احساس لیے ہوتا ہے۔مریض اسے لگاتار کچلنے والا، تکلیف دہ اور سخت کہتا ہے۔ انجائنا میں سردی کا احساس، پسینہ چھوٹنے اور دم کشی کی سی کیفیت ہوتی ہے۔ دل کے درد کی وجہ سگریٹ نوشی، بد ہضمی،دائمی قبض، شرا ب نوشی،بلند فشار الدم،جوش وغصہ،رنج و الم،مستقل بے خوابی،شوگر،پٹھوں کے اکڑاؤ اور آتشک کے اثراتِ بد بن سکتے ہیں۔

خفقانِ قلب

خون کی مقدار اور دباؤ میں عدم توازن ہونے سے دل کی دھڑکن کی معتدل رفتار میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔ طب میں اسے خفقانِ قلب یا دل کی بے قاعدہ دھڑکن کہا جاتا ہے۔دل کی دھڑکن کو باقاعدہ رکھنے کے لیے اس کی رفتار میں توازن ہونا لازمی خیال کیا جاتا ہے۔ جب دل کے خانوں میں سست روی کی وجہ سے خون صحیح طرح سے نہیں بھر پاتا اور وہ سکڑ کر خون خارج کرنے لگتے ہیں تو دل کے پھیلاؤ اور سکڑاؤ کی کیفیات میں عدم توازن دل کی دھڑکنوں میں بے تر تیبی پیدا کر کے خفقانِ قلب کا مرض ظاہر کرنے لگتا ہے۔

اس مرض میں دل اس قدر بآوازِ بلند دھڑکتا ہے کو مریض کو خود بھی ہتھوڑا نما آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں۔ اس کے ساتھ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگتا ہے۔گھبراہٹ اور بے چینی کا غلبہ ہو کر مریض پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے۔یہ عارضہ خون کی کمی،شراب،چرس،چائے اور سگریٹ نوشی وغیرہ سے لاحق ہوتا ہے۔ بعض افراد کو ذہنی دباؤ اور اعصابی تناؤ کے متواتر رہنے سے بھی خفقانِ قلب کا مرض اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔

اختلاج القلب

اس مرض میں دل کی دھڑکن طبعی حالت سے زیادہ ہو کر پھڑکن کا روپ دھار لیتی ہے۔ دل دھڑکنے کی رفتار زیادہ ہوکر دل پھڑ پھڑانے لگتا ہے۔ سر گھومتا دکھائی دیتا ہے۔دل میں درد،سانس میں تنگی اور کانوں میں بھنبھناہٹ کی سی کیفیت ہونے لگتی ہے۔ اس مرض میںموت واقع ہونے کے امکانات کافی حد تک کم ہوتے ہیں۔ اس مرض کے لاحق ہونے کی وجوہات میں اعصابی کمزوری،منشیات کا بے دریغ استعمال اچانک غم یا خوشی سے پالا پڑنا، چائے کی زیادتی اور کثرتِ محنت کے کام کرنا وغیرہ ہو سکتی ہیں۔یاد رہے کہ ایک تن درست اور صحت مند آدمی کی نبض کی رفتار 80سے120تک ہوتی ہے۔

شریانوں کی سختی

اس مرض میں نبض بھری بھری سی ہوتی ہے۔دل کے بائیں حصے میں ورم کی کیفیت پیدا ہوکر شریانوں کی دیواروں کو موٹا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس مرض میں دل فیل ہوکر موت واقع ہونے کا کافی خطرہ موجود ہوتا ہے۔شریانوں میں سختی پیدا ہونے کی وجہ سے ہائی بلڈ پریشر،گوشت کی کثرت،شراب ،چائے اور سگریٹ نوشی کی عادات اورڈھلتی عمر کے اثرات شامل ہیں۔

دل کے پھٹے کی خرابی

اس عارضے میں دل کے پھٹے میں ورم پیدا ہوجاتا ہے جو دل کی کارکردگی کو با لواسطہ متاثر کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔یہ عارضہ بھی زندگی کے لیے خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ علاج معالجے میں ہمیشہ احتیاط کرنی چاہیے اور کسی ماہر معالج ہی سے رجوع کرنا چاہیے۔ گھریلو ٹوٹکوں اور نیم حکیموں کے چکر میں پڑ کر زندگی داؤ پر نہیں لگانی چاہیے۔اس مرض میں دل کے مقام پر درد اور بھاری پن کا احساس ہوتا ہے۔طبیعت میں ایک عجیب سی بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔دل کے افعال میں ظاہری طور پر نقص واقع ہوکرعلامات نمودار ہونے لگتی ہیں۔ جب اس بیماری میں شدت پید اہوتی ہے تو مریض کی حالت میں ہذیان کی کیفیت طاری ہو کر بخار ہو جاتا ہے۔

دل کے والوز کی خرابی

دل کی جھلی میں سوزش پیدا ہونے سے دل کے چیمبرز یا والوز کی کارکردگی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتی۔ جدید طب اسے انفیکشن کے نام سے موسوم کرتی ہے۔ دل کی جھلی کی سوزش نقصان دہ بیکٹیریا ز کے اجتماع سے ہوتی ہے۔اس مرض کی تشخیص جتنی جلد ممکن ہو، کرانی چاہیے ورنہ تاخیر کی صورت میں سرجری کے علاوہ بغیرکوئی چارہ نہیں رہتا۔سرجری کے ذریعے سے دل کا متاثر حصہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔اگر بر وقت اقدام نہ کیا جائے تو مریض موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔والوز کی خرابی میں ہائی بلڈ پریشر، مستقل کھانسی، دل کی دھڑکنوں میں بے تر تیبی، تنگی سانس اوربیہوشی وغیرہ کی علامات سامنے آتی ہیں۔

ہائی بلڈ پریشر

بڑھے ہوئے خون کے دباؤ کو ہائی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔ جسمِ انسانی کا بلڈ پریشر مختلف اوقات میں مختلف ہوتا ہے۔ عام طور پر جوان افراد میں 80ملی گرام سے 120ملی گرام تک نارمل خیال کیا جاتا ہے۔جبکہ عمر رسیدہ افراد میں 90ملی گرام سے 140 ملی گرام تک بھی مناسب سمجھا جاتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کا مرض پیدا کرنے میں کولیسٹرول سب سے بڑا فیکٹر ہے۔ کولیسٹرول ایک چربیلا،نرم اور ملائم مادہ ہے۔ اس کی مخصوص مقدار انسانی صحت مندی کے لیے لازمی سمجھی جاتی ہے جبکہ اس کی غیر ضروری اضافی مقدار خون کی نالیوں (شریانوں) کی دیواروں کے ساتھ جم کر انہیں تنگ اور سخت کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کے دیگر اسباب میںتمبا کو نوشی، چائے، قہوہ اور کافی کا زیادہ استعمال، کثرتِ شراب نوشی،یورک ایسڈ کی زیادتی،موٹاپا اور سوئِ ہضم وغیرہ شامل ہیں۔

لو بلڈ پریشر

بلڈ پریشر کو عام طور پر ایک طرح کا ہی سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ دو ہوتے ہیں۔ اوپر والے کو طب میں سسٹول اور نیچے والے کو ڈائی سٹول کہا جاتا ہے۔ لو بلڈ پریشر میں خون کے دباؤ میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ زیریں فشارِ خون میں کمی بھی بعض اوقات موت کا باعث بن جاتی ہے۔ جب بلڈ پریشر ضروری سطح سے نیچے گرتا ہے تو اس کی رسد دماغ کی طرف کم ہو نے لگتی ہے۔ دماغ کی طرف خون کی رسد کم ہونے سے مطلوبہ آکسیجن کی مقدار میں تعطل پیدا ہوجاتا ہے۔ یاد رہے کہ اگر دماغ چند سیکنڈ تک آکسیجن سے محروم ہو جائے تو بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے۔ اگر یہ محرومی منٹوں میں بدل جائے تو دماغ مردہ ہو جاتا ہے۔ دماغ چونکہ پورے جسمِ انسانی کے افعال کو کنٹرول کرتا ہے۔ یوں پورا جسم ہی موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کے دباؤ میں کمی کی وجوہات میں ضعفِ قلب، قلت الدم،ٹی بی،عام کمزوری اور خون کا زیادہ بہہ جانا شامل ہیں۔

میڈیکل پامسٹری

ایسے افراد جن کے ہاتھوں پر دل کی لکیر پر جزیرہ نما علامتیں پائی جائیں،لکیر زیادہ چوڑی ہو یا خطِ قلب کے کسی حصے پر مثلث پائی جائے تو وہ لوگ دل کے امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔اگر خطِ قلب اچانک ٹوٹ جائے اور واضح دکھائی بھی دے تو جان لیوا ہارٹ اٹیک کی علامت ہوتی ہے۔ایسے لوگ جن کے نام کا عدد 1 ،4 اور 9 ہو تو انہیں بھی دل کی بیماریوں سے خطرات لاحق رہتے ہیں۔اسی طرح وہ افراد جو آتشی گروپ (مریخ،سورج،مشتری) سے تعلق رکھتے ہوں یا ان کے زائچے میں مذکوہ ستارے اثر پذیر ہوں، دل کے امراض میں گرفتار ہوسکتے ہیں

غذائی احتیاط و نیچرو پیتھی علاج

امراضِ قلب میں مبتلا افراد اگر اپنے دائیں ہاتھ کی رنگ فنگر میں سنگِ یشب کو بطورِ نگینہ پہن لیں تو مرض کی کئی ایک پیچیدگیوں سے نجات حاصل ہوگی۔ سنگِ یشب کا سب سے چھوٹا فائدہ یہ ہے کہ جب تک یہ بدن کو چھوتا رہے گا، دل کے دورے سے حفاظت رہے گی۔اسی طرح جو لوگ دائیں پاؤں میں جوتا پہلے اور بائیں پاؤں میں جوتا بعد میں پہنیں اور اتارتے وقت بایاں جوتا پہلے اتاریں ا ور دایاں جوتا بعد میں اتارتے ہیں وہ بھی امراضِ قلب سے محفوظ رہتے ہیں۔ بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والوں کا دل بھی مضبوط ہوتا ہے اور بھی امراضِ قلب سے بچے رہتے ہیں۔

ایسی تمام غذائیں جوکولیسٹرول پیدا کرنے اور خون کو گاڑھا بنانے کا سبب بنتی ہوں انہیں فوراََ ترک کر دینا چا ہیے۔ علاوہ ازیں جسم میں کولیسٹرول کی اضافی مقدار کو گھٹانے اور خون پتلا کرنے کے اسباب اختیار کرنے چاہیے۔کولیسٹرول کم کرنے میں لہسن کا کوئی ثانی نہیں۔ اب تو ایلوپیتھی طریقہ علاج والے سمجھدار پریکٹشنرز بھی مریضوں کو لہسن کے استعمال کی ترغیب دیتے ہیں۔ ارجن،کلونجی،کا لی مرچ، عناب، چھلکا اسپغول،صندل، پیاز، ٹماٹر، چقندر اور ایلو ویرا وغیرہ بھی اضافی کولیسٹرول کو متناسب کرنے اور خون کے گاڑھے پن کو درست حالت میں لانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔دھیان رہے کہ لہسن کو کچا استعمال کرنے سے باز رہیں ورنہ اس میں موجود گارلک ایسڈ معدہ اور انتڑیوں کے مسائل کا سبب بھی بن سکتا ہے لہٰذا لہسن ہمیشہ خشک کرکے کیپسولز میں بھر کر استعمال میں لائیں۔

دواساز کمپنیوں نے بھی لہسن کو ادویاتی شکل میں مارکیٹ میں متعارف کروا رکھا ہے۔بنی بنائی لہسن کی گولیوں سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ارجن کا چھلکا پکا کر بطورِ قہوہ پینے سے دل کے تقریباََ تمام عوارض سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔ کالی مرچ کو بطورِ چٹنی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔مرچ سیاہ، ادرک، پودینہ، لہسن، سبز دھنیا کی مناسب مقدار کو باہم پیسٹ بنا کر رکھیں۔بوقتِ طعام دہی ملا کر بطورِ چٹنی استعمال کریں۔غذااور شفا ایک ساتھ پائیں گے۔پیاز، چقندر اور ٹماٹر کو بطورِ سلاد دن میں ایک بار ضرور کھائیں۔ عناب کے 5 سے7 دانے رات کو بھگو کر صبح نہار منہ بغیر میٹھے کے خیساندہ بنائیں اور ایک چمچ اسپغول کاچھلکا کھا کر پی جائیں۔ گرمیوں میں صندل کا شربت پینا کافی مفید ہوتا ہے جبکہ سردیوں میں برادہ صندل کو پانی میں بھگو کر صبح نہار منہ پینے سے کثیر فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایلو ویرا کے پتوں کا رس نکال کر دن میں دو بار پینا بھی بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ کلونجی کو پیس کر شہد میں قوام بنا لیں10 گرام صبح و شام نہار منہ کھاتے رہیں،جلد افاقہ ہوگا۔

خوردنی نمک کا استعمال بھی کم سے کم کر دیا جائے۔ گوشت، انڈا، کلیجی، چکنائیاں، تلی ہوئی غذائیں، مکھن، گھی، پنیر بالائی ملا دودھ اور بیکری مصنوعات و کولا مشروبات سے مکمل اجتناب برتیں۔ نیچرو پیتھی ادویات میں عرقِ گلاب، عرقِ گاؤز بان، عرقِ بادیاں، چو عر قہ جواہر مہرہ،خمیرئہ ابریشم (حکیم ارشد والا) دواء الالمسک سادہ و جواہر والی،خمیرہ مروارید وغیرہ اورمارکیٹ میں دستیاب دیگر ادویات کسی بھی ماہرا ور مستند معالج کے مشورے سے استعمال میں لائیں۔

علاوہ ازیں درج ذیل گھریلو طبی ترکیب بھی امراضِ قلب میں شفا یابی کی اچھی شہرت رکھتی ہے۔ آبِ لہسن 200 ملی لیٹر،آبِ لیمن 200 ملی لیٹر،آبِ ادرک 200 ملی لیٹر ،خالص شہد 200 ملی لیٹر اور سیب کا سرکہ 200 ملی لیٹر کو باہم آمیزہ بنا کر پکا کر رکھ لیں۔ صبح و شام 50 ملی لیٹر نہار منہ پیتے رہیں۔5 سے 7 سات ہفتوں کے باقاعدہ استعمال سے دل کے تمام امراض سے نجات میسر آئے گی۔ سگریٹ و چائے نوشی ترک کردی جائے۔ سہل پسند زندگی کو خیر باد کہہ دیں۔ صبح کی سیر کو معمول میں شامل کریں۔ مثبت سوچ اپنائیں، حسد ،کینہ ،بغض ،بخل ،غصہ او ر نفرت و انتقام کے جذبات سے بھی دور رہیں۔عاجزی، رحمدلی، برداشت، محبت،اخوت ،حوصلہ اور معافی کے جذبات کو فروغ دیں۔ خوش رہیں اور دوسروں کو خوش رکھیں۔ انشاء اللہ تندرستی و توانائی آپ کے قدم چومے گی۔

حکیم نیاز احمد ڈیال
[email protected]

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں