افغانستان کے حوالے سے درست پالیسی

پاکستان، افغان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہا ہے، سرتاج عزیز

سرتاج عزیز نے افغانستان کو توڑنے سے متعلق کسی بھی سازش میں پاکستان کے ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کردیا۔ فوٹو: اے ایف پی

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے اتوار کو کابل میں افغان وزیر خارجہ زلمے رسول خلیل زاد کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، افغان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہا ہے، مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے، پاکستان کی نئی حکومت افغانستان کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینا چا ہتی ہے۔

انھوں نے واضح کیا کہ امن عمل کی سربراہی کابل حکومت کے پاس ہونی چاہیے۔ پاکستان طالبان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کے لیے کوششیں کر رہا ہے، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات بحال کرنے میں پاکستان کی مدد درکار ہوئی تو پاکستان مدد کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ امن اور تعاون کا پیغام لے کر کابل آئے ہیں تاہم طالبان سے امن مذاکرات کا آغاز افغانستان ہی کرے گا۔ سرتاج عزیز نے افغان وزیرتجارت نورالہادی اور افغان قیادت سے ملاقات میں توانائی منصوبوں اور تجارتی معاہدوں پر بھی بات کی۔

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا موجودہ دورہ کابل انتہائی اہمیت کا حامل ہے' ان کے اس دورے میں بہت سے معاملات کے بارے میں پاکستان کی ترجیحات کا واضح اشارہ ملتا ہے' اس دورے کے دوران انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے افغان صدر حامد کرزئی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی اور انھیںان کا پیغام بھی پہنچایا۔ اس وقت افغانستان کا مسئلہ ایک نیا موڑ لے رہا ہے' اگلے برس یہاں سے امریکا کی فوجوں کی واپسی ہونی ہے جس کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے' افغانستان سے امریکی سازو سامان واپس جا رہا ہے۔

آنے والے دنوں میں اس کی رفتار میں تیزی آ جائے گی۔ ادھر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات بھی ہونے جا رہے ہیں اور امریکا بھی ان مذاکرات میں شریک ہے کیونکہ وہ اس مسئلے کا ایک اہم فریق ہے۔ یوں دیکھا جائے تو موجودہ سال اور اس سے اگلا برس اس خطے میں اہم تبدیلیوں کا باعث ہو گا۔ پاکستان چونکہ افغانستان کے بحران سے براہ راست متاثر ہو رہا ہے لہٰذا اس کی حکومت کے لیے یہاں ہونے والی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ اس اہم موڑ پرموجودہ حکومت نے اپنی پالیسی اور ترجیحات بالکل واضح کر دی ہیں۔


وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ دنوں دفتر خارجہ کے دورہ کے مواقع پر واضح کر دیا تھا کہ افغانستان میں ہمارا کوئی گروپ نہیں ہے۔ اب سرتاج عزیز نے بھی کابل میں مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران وہی الفاظ دہرائے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جو مذاکرات ہو رہے ہیں' وہ اگر کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے افغانستان پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور برسوں سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور افغانستان کے عوام سکون کاسانس لیں گے۔طالبان رہنما بھی فہم و فراست کا مظاہرہ کررہے ہیں' انھیںشاید اس حقیقت کا ادراک ہو گیا ہے کہ جنگ مسائل کا حل نہیں ہے اور وہ جو جنگ لڑ رہے ہیں' اس سے افغانستان تباہ ہو گیا ہے اور لاکھوں افغان اس جنگ کا شکار ہو چکے ہیں' افغانستان 1980ء سے ہی جنگ کا شکار چلا آ رہا ہے۔

پہلے سوویت یونین کی فوجوں سے افغان گروپ لڑائی لڑتے رہے 'سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد یہی گروپ باہم دست و گریباں ہو گئے۔ پھر طالبان کا ظہور ہوا۔ اس کے بعد نائن الیون کا حادثہ ہوا اور امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان حکومت ختم کر دی۔ یوں دیکھا جائے تو افغانستان میں تقریباً 33 برس سے جنگ و جدل جاری ہے۔ اب اگر طالبان افغان حکومت یا امریکا سے مذاکرات کے لیے تیار ہوئے ہیں تو یہ ان کی ایک بہتر حکمت عملی ہے۔ پاکستان کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ افغانستان کے بحران نے پاکستان کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دہشت گردی کا عذاب ملکی معیشت کو نگل رہا ہے۔

ماضی میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے افغانستان کے حوالے سے جو پالیسی اپنائی' اس نے پاکستان کے لیے بے پناہ مسائل پیدا کیے۔پاکستان کے قبائلی علاقے اب میدان جنگ بنے ہوئے ہیں۔ اب اس پالیسی میں معنی خیز تبدیلی آنی چاہیے۔ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی جھگڑوں' نسلی و لسانی تقسیم سے الگ رہتے ہوئے اس ملک سے تعلقات استوار کرنے چاہئیں' اسی طرح افغانستان کے اندرونی جھگڑوں' نسلی و لسانی تقسیم کو پاکستان میں بھی داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اس حوالے سے بالکل کلیئر ہیں اور وہ پاکستان کو افغانستان کے اندرونی جھگڑوں سے الگ کرنا چاہتے ہیں' یہی طریقہ اس خطے میں قیام امن کا باعث بن سکتا ہے۔
Load Next Story